گرین لینڈ برف سے ڈھکا جزیرہ ’ پگھل ‘رہا ہے

2003 ء کے بعد سے گلیشیئروں سے ڈھکا ہوا گرین لینڈ سالانہ200ملین ٹن برف سے محروم ہورہا ہے۔

گوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں گلیشیئرز کے پگھلنے میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوٹو : فائل

گرین لینڈ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔اس کا رقبہ 2166086 مربع کلومیٹر ہے۔ یعنی یہ جزیرہ جو کہ ایک خودمختار ریاست بھی ہے، پاکستان سے تقریباً تین گنا بڑا ہے۔

گرین لینڈ کی آبادی صرف 57000 ہے، اس طرح یہ دنیا کا سب سے کم گنجان آباد ملک ہے۔ یہ جزیرہ بحراوقیانوس اور بحر منجمد شمالی کے درمیان ڈنمارک کے ساتھ واقع ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پورا کا پورا گرین لینڈ گلیشیئروں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اور جیسے جیسے گلوبل وارمنگ شدت اختیار کررہی ہے ویسے ویسے ان گلیشیئروں کے پگھلنے کے رفتار بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

گلوبل وارمنگ سے مراد ہے دنیا کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آب و ہوا میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس کے اثرات کہیں شدید بارش اور سیلاب اور کہیں قحط سالی کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف خطوں میں موسم بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین برسوں سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے باعث برف کے قدرتی ذخائر کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگا جس کے مستقبل میں ہولناک نتائج برآمد ہوں گے۔ گلیشیئروں کے پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہوگی اور متعدد ساحلی شہر غرقاب ہوجائیں گے۔

سائنس داں گلوبل وارمنگ اور اس کے اثرات پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں اسٹڈیز بھی کی جارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک اسٹڈی حال ہی میں سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2003 ء کے بعد سے ، گلیشیئروں سے ڈھکا ہوا گرین لینڈ سالانہ200ملین ٹن برف سے محروم ہورہا ہے۔ یہ کتنی بڑی مقدار اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ تمام برف مال گاڑی ( ٹرین) کے ڈبوں میں لدی ہوئی ہو تو وہ ٹرین اتنی لمبی ہوگی کہ پوری زمین کا احاطہ کرسکے گی۔


یہ اسٹڈی یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا ( یو سی آئی ) کے محققین نے جاری کی ہے جو پچھلے دس برسوں سے گرین لینڈ کے گلیشیئرز پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یو سی آئی کے علاوہ کئی دیگر یونیورسٹیوں کے محققین بھی اس جزیرے پر برف کے پگھلاؤ پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کی محقق ایزابیلا ویلیکوگنا کہتی ہیں'' گرین لینڈ کے بارے میں تمام لوگوں کے درمیان یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس جزیرے پر برف کے پگھلنے کی شرح بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے سطح سمندر کی بلندی میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔'' ویلیکوگنا حال ہی میں جاری کی گئی اسٹڈی '' گریٹ ریکوری اینڈ کلائمیٹ ایکسپیریمینٹ '' ( GRACE) میں استعمال کیے گئے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی ماہر ہیں جو سطح ارض پر ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی نشان دہی کرسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ نظام کشش ثقل میں اچانک ہونے والی کمی بیشی سے مدد لیتا ہے۔ اس کمی بیشی کا براہ راست تعلق زمین کے مدار میں گردش کرنے والے GRACE مصنوعی سیاروں سے ہے۔

امریکی ریاست نیوجرسی میں قائم پرنسٹن یونی ورسٹی کے محققین نے '' گریس ڈیٹا '' کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا جس کی بنیاد پر انھیں معلوم ہوا کہ2003ء اور 2004ء کے دوران گرین لینڈ کے مشرقی حصے کی برف پگھل رہی تھی۔2005ء سے 2006ء سے شمالی مشرقی حصے میں برف کے پگھلاؤ میں کمی آئی لیکن جنوب مشرقی حصے میں پگھلاؤ کی شرح بڑھ گئی، جب کہ 2007ء سے 2010ء کے دوران شمالی مشرقی حصہ برف کی زیادہ مقدار سے محروم ہوا۔

یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا میں ارضیاتی نظاموں کی سائنس کے پروفیسر اور ناسا کی Jet Propulsion Lab کے سائنس داں ایرک رناٹ کہتے ہیں،'' اس اسٹڈی نے اس بات کی تصدیق کردی ہے جو کہ ہم پہلے ہی جانتے تھے۔'' نئی اسٹڈی اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ وسطی گرین لینڈ کی کمیت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ ممکنہ طور پر وہاں برف باری میں ہونے والا اضافہ ہے۔ تاہم ویلیکوگنا اور رناٹ کا کہنا ہے کہ کمیت میں اضافے کی وجہ رسوب سازی کا عمل ہے۔ بہرحال وجہ جو کچھ بھی ہو، وسطی گرین لینڈ میں برف کی کمیت میں اضافہ اس کے ساحلی علاقوں میں تیزی سے غائب ہوتی برف کے منفی اثرات کو زائل نہیں کرسکتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے دنیا بالخصوص ترقی یافتہ صنعتی ممالک کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے، جو اب تک صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہے ہیں۔ امریکا، روس، چین، جرمنی، بھارت سمیت تمام بڑے ممالک پر گلوبل وارمنگ میں اضافے کے ضمن میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوں کہ ان ممالک کی صنعتوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے جو عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
Load Next Story