حلال و حرام کے انسانی زندگی پر اثرات
وہ گوشت جو مالِ حرام سے پروان چڑھے، وہ جنت میں نہیں جائے گا بلکہ وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔ الحدیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ جس میں آدمی اِس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اُس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔''
اپنے معنیٰ اور مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث مبارکہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ اِس میں ایک ایسے زمانے کی پیش گوئی کی جارہی ہے جسے آج دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اِس سے احادیثِ کریمہ کی صداقت و حقانیت کا بھی پتا چلتا ہے کہ جن معاملات کے ہونے کی پیش گوئی صدیوں پہلے کردی گئی، وہ معاملات صبحِ روشن کی طرح عیاں ہورہے ہیں۔
موجودہ دور میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس میں مبتلا ہے۔ جو جتنی جلدی اور جس قدر زیادہ مال حاصل کرلے، وہ دنیا والوں کے نظر میں اُتنا عقل مند اور فہم و فراست والا کہلاتا ہے۔ اِس سے کو ئی غرض نہیں کہ جو مال وہ حاصل کررہا ہے،وہ حلال ہے یا حرام۔ اُسے تو صرف اپنی خواہش کی تکمیل کرنی ہے، اپنے مال میں اضافہ کرنا ہے اور اپنی جھوٹی اَنا کی تسکین کرنی ہے۔ قرآنِ مجید نے انسان کی اِس سوچ کو '' ھَل مِنْ مَّزِیْدٍ'' سے تعبیر کیا اور اِس حقیقت کو سورۂ تکاثر کی ابتدائی آیاتِ کریمہ میں یوں میں بیان فرمایا کہ '' تم کو زیادہ مال جمع کرنے کی حرص نے غافل کردیا، حتیٰ کہ تم (مر کر) قبروں میں پہنچ گئے۔''
ذہن میں رہے کہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ '' ابنِ آدم کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، اِسے اگر ایک وادی سونے کی دے دی جائے تو وہ ایک اور وادی کی خواہش کرے گا۔'' لہٰذا اِس بُری خصلت سے چھٹکارے کی ایک ہی صورت ہے، جسے نبی اکرمؐؐ نے بیان فرمایا ہے کہ '' اُن لوگوں کو دیکھو جو تم سے کم تر ہیں اور اُن لوگوں کو مت دیکھو، جو (مال و دولت ) میں تم سے اعلیٰ ہیں۔ اِس طرح کرنے سے تم میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا جذبہ بڑھے گا۔'' (بلوغ المر آم: ص 313)
نبی اکرم ؐ کا زمانہ مبارک ایسا تھا کہ اُس میں مسلمان انتہائی محتاط انداز میں مال لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی چیز کے بارے میں شک ہوجاتا کہ یہ اُن کے لیے حلال نہیں تو اُس سے بچتے اور حلال کے لیے تگ و دو کیا کرتے تھے۔ ایسی کئی روایات ملتی ہیں کہ رسول اکرمؐؐ نے مشکوک ہونے کی وجہ سے کسی چیز کو تناول نہیں فرمایا۔ آپؐ نے اُمت کو بھی یہی تعلیم دی کہ نہ صرف حرام سے بچو بلکہ اُن اشیاء سے بھی بچو کہ جن کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ حلال ہیں یا حرام؟ حدیث مبارک میں ہے کہ ''کوئی بندہ اُس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک وہ ناپسندیدہ اور قبیح چیزوں کو نہ چھوڑ دے۔'' یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور اُس زمانے کے مسلمان اِس سوچ کے ساتھ زندگی گزارتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے، کس کام میں اُن کے لیے دنیاوی اور اُخروی فوائد ہیں اور کس میں نہیں ؟ لیکن وقت گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ لوگوں میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہو تی گئی اور اب حدیثِ مبارکہ میں کی گئی پیش گوئی کے مطابق معاملات نظر آرہے ہیں۔
اِسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے لہٰذا اِس کے دیے ہوئے تمام اُصول اِنسان کی ضرورت اور فطرت کے عین مطابق ہیں اور اِسی میں انسانیت کی بقا و کام یابی کا راز مضمر ہے۔ لہٰذا جب اِس نے کسی شے کو حلال قرار دیا تو اُس میں یقینی طور پر انسانوں کے لیے فوائد ہیں اور جن اشیاء کو حرام قرار دیا تو اُس میں یقینًا نقصان موجود ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء کو حرام قرار دیا ہے، اُن کی تعداد حلال کے مقابلے میں بہت کم ہے ،یعنی زیادہ تر اشیاء حلال ہیں۔ اِسی طرح جن اشیاء کو حرام قرار دیا اُن کے بہتر متبادل بھی دیے۔ مثلًا سود کو حرام قرار دیا تو اِس کے بدلے میں تجارت، صنعت و حرفت، کاشت کاری اور شراکت و مضاربت جائز قرار دیا اور شراب کو حرام قرار دے کر انواع و اقسام کے مشروبات پینے کی اِجازت مرحمت فرما دی۔ لہٰذا جب تک انسان اِس فرق کو سمجھتے ہوئے مال و دولت حاصل کرتا رہتا ہے تو اِس سے نہ صرف دنیاوی اعتبار سے اُسے فائدہ پہنچتا ہے بلکہ اُخروی کام یابی بھی اُس کے لیے مقدر کردی جاتی ہے۔
حرام مال سے بچنا اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوکہ کون کون سی اشیاء حرام ہیں اور کن ذرائع سے روزی حاصل کرنا حلال اور کن سے حرام ہے؟ یہ ذمہ داری نہ صرف تاجر حضرات پر ہے بلکہ زراعت، صنعت و حرفت، وکالت اور محنت مزدوری کرنے والے تمام افراد پر ہے۔ تاجروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ دورانِ تجارت جھوٹ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، سود، رشوت اور دیگر غیر شرعی اُمور سے اجتناب کریں تاکہ اُن کے منافع میں حرام مال شامل نہ ہو۔ کسان، ماہرینِ صنعت، وکلاء اور مزدوروں پر لازم ہے کہ وہ اپنے کام کو بہتر انداز میں امانت و صداقت کے معیار کے مطابق انجام دیں۔
حرام سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں ،کیوں کہ حرام کی نحوست اِس قدر تباہ کن اور اثر انگیز ہے کہ اِس سے حلال مال بھی تباہ و برباد ہوجاتاہے، یعنی اُس حلال مال سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو دنیاوی نقصان ہے، آخرت کا نقصان حدیث مبارکہ کی رو سے یہ ہے کہ '' وہ گوشت جو مالِ حرام سے پروان چڑھے، وہ جنت میں نہیں جائے گا بلکہ وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔'' اِسی طرح جو لوگ حرام سے بچتے ہیں، تو اُن کے لیے حدیثِ مبارکہ میں خوش خبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنے عبادت گزار بندوں میں شمار فرما لے گا۔ لہٰذا حرام اشیاء سے بچو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے عبادت گزار شمار ہوگے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے رزق کا جو حصہ مقرر فرمایا دیا ہے اِس پر خوش رہو، تو لوگوں میں غنی بن جاؤ گے۔
اپنے معنیٰ اور مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث مبارکہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ اِس میں ایک ایسے زمانے کی پیش گوئی کی جارہی ہے جسے آج دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اِس سے احادیثِ کریمہ کی صداقت و حقانیت کا بھی پتا چلتا ہے کہ جن معاملات کے ہونے کی پیش گوئی صدیوں پہلے کردی گئی، وہ معاملات صبحِ روشن کی طرح عیاں ہورہے ہیں۔
موجودہ دور میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس میں مبتلا ہے۔ جو جتنی جلدی اور جس قدر زیادہ مال حاصل کرلے، وہ دنیا والوں کے نظر میں اُتنا عقل مند اور فہم و فراست والا کہلاتا ہے۔ اِس سے کو ئی غرض نہیں کہ جو مال وہ حاصل کررہا ہے،وہ حلال ہے یا حرام۔ اُسے تو صرف اپنی خواہش کی تکمیل کرنی ہے، اپنے مال میں اضافہ کرنا ہے اور اپنی جھوٹی اَنا کی تسکین کرنی ہے۔ قرآنِ مجید نے انسان کی اِس سوچ کو '' ھَل مِنْ مَّزِیْدٍ'' سے تعبیر کیا اور اِس حقیقت کو سورۂ تکاثر کی ابتدائی آیاتِ کریمہ میں یوں میں بیان فرمایا کہ '' تم کو زیادہ مال جمع کرنے کی حرص نے غافل کردیا، حتیٰ کہ تم (مر کر) قبروں میں پہنچ گئے۔''
ذہن میں رہے کہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ '' ابنِ آدم کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، اِسے اگر ایک وادی سونے کی دے دی جائے تو وہ ایک اور وادی کی خواہش کرے گا۔'' لہٰذا اِس بُری خصلت سے چھٹکارے کی ایک ہی صورت ہے، جسے نبی اکرمؐؐ نے بیان فرمایا ہے کہ '' اُن لوگوں کو دیکھو جو تم سے کم تر ہیں اور اُن لوگوں کو مت دیکھو، جو (مال و دولت ) میں تم سے اعلیٰ ہیں۔ اِس طرح کرنے سے تم میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا جذبہ بڑھے گا۔'' (بلوغ المر آم: ص 313)
نبی اکرم ؐ کا زمانہ مبارک ایسا تھا کہ اُس میں مسلمان انتہائی محتاط انداز میں مال لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی چیز کے بارے میں شک ہوجاتا کہ یہ اُن کے لیے حلال نہیں تو اُس سے بچتے اور حلال کے لیے تگ و دو کیا کرتے تھے۔ ایسی کئی روایات ملتی ہیں کہ رسول اکرمؐؐ نے مشکوک ہونے کی وجہ سے کسی چیز کو تناول نہیں فرمایا۔ آپؐ نے اُمت کو بھی یہی تعلیم دی کہ نہ صرف حرام سے بچو بلکہ اُن اشیاء سے بھی بچو کہ جن کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ حلال ہیں یا حرام؟ حدیث مبارک میں ہے کہ ''کوئی بندہ اُس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک وہ ناپسندیدہ اور قبیح چیزوں کو نہ چھوڑ دے۔'' یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور اُس زمانے کے مسلمان اِس سوچ کے ساتھ زندگی گزارتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے، کس کام میں اُن کے لیے دنیاوی اور اُخروی فوائد ہیں اور کس میں نہیں ؟ لیکن وقت گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ لوگوں میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہو تی گئی اور اب حدیثِ مبارکہ میں کی گئی پیش گوئی کے مطابق معاملات نظر آرہے ہیں۔
اِسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے لہٰذا اِس کے دیے ہوئے تمام اُصول اِنسان کی ضرورت اور فطرت کے عین مطابق ہیں اور اِسی میں انسانیت کی بقا و کام یابی کا راز مضمر ہے۔ لہٰذا جب اِس نے کسی شے کو حلال قرار دیا تو اُس میں یقینی طور پر انسانوں کے لیے فوائد ہیں اور جن اشیاء کو حرام قرار دیا تو اُس میں یقینًا نقصان موجود ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء کو حرام قرار دیا ہے، اُن کی تعداد حلال کے مقابلے میں بہت کم ہے ،یعنی زیادہ تر اشیاء حلال ہیں۔ اِسی طرح جن اشیاء کو حرام قرار دیا اُن کے بہتر متبادل بھی دیے۔ مثلًا سود کو حرام قرار دیا تو اِس کے بدلے میں تجارت، صنعت و حرفت، کاشت کاری اور شراکت و مضاربت جائز قرار دیا اور شراب کو حرام قرار دے کر انواع و اقسام کے مشروبات پینے کی اِجازت مرحمت فرما دی۔ لہٰذا جب تک انسان اِس فرق کو سمجھتے ہوئے مال و دولت حاصل کرتا رہتا ہے تو اِس سے نہ صرف دنیاوی اعتبار سے اُسے فائدہ پہنچتا ہے بلکہ اُخروی کام یابی بھی اُس کے لیے مقدر کردی جاتی ہے۔
حرام مال سے بچنا اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوکہ کون کون سی اشیاء حرام ہیں اور کن ذرائع سے روزی حاصل کرنا حلال اور کن سے حرام ہے؟ یہ ذمہ داری نہ صرف تاجر حضرات پر ہے بلکہ زراعت، صنعت و حرفت، وکالت اور محنت مزدوری کرنے والے تمام افراد پر ہے۔ تاجروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ دورانِ تجارت جھوٹ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، سود، رشوت اور دیگر غیر شرعی اُمور سے اجتناب کریں تاکہ اُن کے منافع میں حرام مال شامل نہ ہو۔ کسان، ماہرینِ صنعت، وکلاء اور مزدوروں پر لازم ہے کہ وہ اپنے کام کو بہتر انداز میں امانت و صداقت کے معیار کے مطابق انجام دیں۔
حرام سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں ،کیوں کہ حرام کی نحوست اِس قدر تباہ کن اور اثر انگیز ہے کہ اِس سے حلال مال بھی تباہ و برباد ہوجاتاہے، یعنی اُس حلال مال سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو دنیاوی نقصان ہے، آخرت کا نقصان حدیث مبارکہ کی رو سے یہ ہے کہ '' وہ گوشت جو مالِ حرام سے پروان چڑھے، وہ جنت میں نہیں جائے گا بلکہ وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔'' اِسی طرح جو لوگ حرام سے بچتے ہیں، تو اُن کے لیے حدیثِ مبارکہ میں خوش خبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنے عبادت گزار بندوں میں شمار فرما لے گا۔ لہٰذا حرام اشیاء سے بچو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے عبادت گزار شمار ہوگے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے رزق کا جو حصہ مقرر فرمایا دیا ہے اِس پر خوش رہو، تو لوگوں میں غنی بن جاؤ گے۔