بے رحم احتساب
تحقیقی عمل کے آغاز میں جس طرح مٹھائیاں بانٹ کر اس کا استقبال کیا گیا اب اتنا ہی اس عمل کو ملعون کیا جا رہا ہے
MUZAFFARABAD:
ملک میں حالات ہر روز گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں اور حالات کی یہ تیزی کسی اور کے نہیں ہمارے محبوب سیاستدانوں کی مرہون منت ہی ہے جن کو ہم عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار دیتے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم پر حکومت کریں اور عوام کی فلاح و ترقی کے لیے منصوبے تیار کریں لیکن ہوا کیا اور ہم سب نے دیکھا کہ عوامی فلاح کے بجائے انھوں نے اپنی فلاح کو ترجیح دی اور اس کا نکشاف بیرون ملک کی جانے والی تحقیقات میں ہوا جس میں دنیا بھر کے تحقیقی صحافت کرنے والے اخبار نویس شامل تھے جنہوں نے دنیا بھر میں بااثر لوگوں کی جائیدادوں کا سراغ لگایا اور اس کو عوام کے لیے جاری کر دیا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ جن سیاستدانوں کو وہ اپنا حکمران منتخب کرتے ہیں وہ اپنے اقتدار کو اپنی ترقی کے لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
اس عالمی بھونچال نے ہم جیسے تیسری دنیا کے ملک کے عوام کو بھی یہ اطلاع دے دی کہ ہمارا حکمران طبقہ بھی ملک کی غربت کا رونا رونے کے ساتھ اس غریب ملک کے وسائل کو اپنی ذاتی ترقی کے لیے استعمال کررہا ہے۔حکمران خاندان کی ان جائیدادوں کے متعلق عدلیہ کی جانب سے تشکیل دی گئی خصوصی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے اور اب جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں اس اہم ترین کیس کی سماعت بھی شروع ہو چکی ہے اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ حالات گرگٹ کی طرح رنگ تبدیل کر رہے ہیں تو کچھ پتا نہیں کہ ان سطور کی اشاعت تک حالات کیا کروٹ لے چکے ہوں گے۔
تحقیقی عمل کے آغاز میں جس طرح مٹھائیاں بانٹ کر اس کا استقبال کیا گیا اب اتنا ہی اس عمل کو ملعون کیا جا رہا ہے اور اس پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور اس سارے عمل کومشکوک قرار دے کر ایک بین الاقوامی سازش سے تعبیر کیا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ بیرون ملک سے یہ سازش کون کر رہا ہے کہ پہلے تو جب بھی ملک کے خلاف کوئی بات ہو ئی تو ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ امریکا یا بھارت کرا رہا ہے لیکن ان تحقیقات کو بین الاقوامی سازش قرار دینے کی منطق سمجھ نہیں آرہی ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے پارلیمانی رہنماؤں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے آخری دم تک لڑیں گے ۔ وزیر اعظم کا کہنا اور اس طرح کی سوچ رکھنا بالکل بجا ہے کہ ان کو یہ تیسرا اقتدار جلا وطنی کے بعد ملا ہے اور ان کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتدار کے دن پورے کیے جائیں اور جو وعدے انھوں نے کیے تھے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے تا کہ آیندہ الیکشن میں اپنی پارٹی کے دوبارہ اقتدار کے لیے ان کی راہ ہموار ہو جائے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کو نواز لیگ نے ضیا الحق کے ریفرنڈم سے تشبیہ دی ہے کہ اس ریفرنڈم میں ایک ہی سوال تھا کہ آپ ملک میں اسلام چاہتے ہیں تو اس ریفرنڈم کے ذریعے ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کریں اور اب جے آئی ٹی کی تحقیقات کو بھی اس ریفرنڈم کے ساتھ ملا کر یکطرفہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ تحقیقات یکطرفہ لگ ہی رہی ہیں تو ان کو ضیا الحق کے ریفرنڈم کے ساتھ تو نہ ملائیں کہ ان کے لیے جس جوش و جذبے سے آپ خود نعرے لگاتے رہے ہیں ان کو تو بخش دیں اور اس طرح کے بیانات سے اپنی مزید سبکی نہ کرائیں ۔
پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد عمومی رائے یہ بن رہی ہے یا بن چکی ہے کہ ان تحقیقات میں چونکہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو مورد الزام ٹھہرادیا گیا ہے اس لیے ان کی نااہلی تو لازمی ہے اور اب بحث نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد کی چل رہی ہے کہ کیا وزیر اعظم اسمبلیاں ختم کر کے الیکشن میں چلے جائیں گے یا پھر اقتدار کا ہما اپنی پارٹی میں سے ہی کسی کے سر پر بٹھا دیں گے جو کہ بظاہر مشکل بلکہ انتہائی ناممکن لگتا ہے کہ اقتدار میں شراکت مشکل سے ہی برداشت ہوتی ہے۔
مجھے لگ رہا ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور اپنی بھر پور کوشش کریں گے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان پر لگائے گئے الزمات کے دفاع میں کامیاب ہو سکیں کہ اس سے عہدہ برآء ہو کر ہی وہ اور ان کا خاندان اس ملک میںمزیدسیاست کر سکتا ہے کیونکہ اب پاکستانی عوام اس قدر باشعور ہو چکے ہیں کہ ان کو ہمارے سیاستدان مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے ہاں عوام کے لیے فلاحی کام کر کے عوام کو اپنا بنایا جا سکتا ہے ۔
نوازلیگ نے پاناما کے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستانی عوام ایک بڑی جلدی بھولنے والی قوم ہے اور یہ اس پاناما کو بھی بھول جائے گی، اس بات کا اظہار ہمارے وزیر اعظم کے انتہائی قریبی معتمد اور وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران بھی کیا تھا لیکن پاناما تحقیقات کے بعد اس کیس کا پیچھاعمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید نے کیا اور انھوں نے بطور مدعی ایک سال تک سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگتیں لیکن وہ ڈٹے رہے۔
تینوں صاحبان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور اس دوران انھوں نے اپنے اوپر تنقید و طنز کے نشتر بھی برداشت کیے لیکن کیس کی پیروی دلجمعی سے کی اور اب اس امید پر ہیںکہ وہ اس ملک میں احتساب کا عمل نواز شریف اور ان کے خاندان کی ناا ہلی سے شروع کرائیں گے بلکہ عمران خان نے تو اس حد تک بھی کہہ دیا ہے کہ اگر نواز شریف کے ساتھ مجھے بھی نا اہل کیا گیا تو میں اس قربانی کے لیے بھی تیار ہوں ۔
بہرحال چومکھی لڑائی جارہی ہے، حا لات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا یا کسی بھی قسم کا دعویٰ کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کی نااہلی سے اس ملک میں سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گااور یہ نااہلی ملک میں احتساب کے عمل کا نقطہ آغاز ہو گی کیونکہ اس کے بعد بے لاگ احتساب کا نعرہ لگے گا جس کی زد میں کوئی اور نہیں ہماری اشرافیہ آئے گی اور کوئی اس سے بچ نہیں پائے گا جو اس ملک کی تقدیر بدلنے کی جانب عملی قدم کا آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ آج تک احتساب کے نام پر انتقام ہی لیا گیا ہے اور اب تو یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ بے رحم احتساب ہی اس ملک کو بچا سکتا ہے اور یہ احتساب بلا تفریق سب کا ہونا چاہیے جو سب کو نظر بھی آنا چاہیے نا کہ صرف مخصوص لوگوں کو سیاسی احتساب کا نشانہ بنایا جائے۔
ملک میں حالات ہر روز گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں اور حالات کی یہ تیزی کسی اور کے نہیں ہمارے محبوب سیاستدانوں کی مرہون منت ہی ہے جن کو ہم عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار دیتے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم پر حکومت کریں اور عوام کی فلاح و ترقی کے لیے منصوبے تیار کریں لیکن ہوا کیا اور ہم سب نے دیکھا کہ عوامی فلاح کے بجائے انھوں نے اپنی فلاح کو ترجیح دی اور اس کا نکشاف بیرون ملک کی جانے والی تحقیقات میں ہوا جس میں دنیا بھر کے تحقیقی صحافت کرنے والے اخبار نویس شامل تھے جنہوں نے دنیا بھر میں بااثر لوگوں کی جائیدادوں کا سراغ لگایا اور اس کو عوام کے لیے جاری کر دیا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ جن سیاستدانوں کو وہ اپنا حکمران منتخب کرتے ہیں وہ اپنے اقتدار کو اپنی ترقی کے لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
اس عالمی بھونچال نے ہم جیسے تیسری دنیا کے ملک کے عوام کو بھی یہ اطلاع دے دی کہ ہمارا حکمران طبقہ بھی ملک کی غربت کا رونا رونے کے ساتھ اس غریب ملک کے وسائل کو اپنی ذاتی ترقی کے لیے استعمال کررہا ہے۔حکمران خاندان کی ان جائیدادوں کے متعلق عدلیہ کی جانب سے تشکیل دی گئی خصوصی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے اور اب جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں اس اہم ترین کیس کی سماعت بھی شروع ہو چکی ہے اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ حالات گرگٹ کی طرح رنگ تبدیل کر رہے ہیں تو کچھ پتا نہیں کہ ان سطور کی اشاعت تک حالات کیا کروٹ لے چکے ہوں گے۔
تحقیقی عمل کے آغاز میں جس طرح مٹھائیاں بانٹ کر اس کا استقبال کیا گیا اب اتنا ہی اس عمل کو ملعون کیا جا رہا ہے اور اس پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور اس سارے عمل کومشکوک قرار دے کر ایک بین الاقوامی سازش سے تعبیر کیا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ بیرون ملک سے یہ سازش کون کر رہا ہے کہ پہلے تو جب بھی ملک کے خلاف کوئی بات ہو ئی تو ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ امریکا یا بھارت کرا رہا ہے لیکن ان تحقیقات کو بین الاقوامی سازش قرار دینے کی منطق سمجھ نہیں آرہی ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے پارلیمانی رہنماؤں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے آخری دم تک لڑیں گے ۔ وزیر اعظم کا کہنا اور اس طرح کی سوچ رکھنا بالکل بجا ہے کہ ان کو یہ تیسرا اقتدار جلا وطنی کے بعد ملا ہے اور ان کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتدار کے دن پورے کیے جائیں اور جو وعدے انھوں نے کیے تھے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے تا کہ آیندہ الیکشن میں اپنی پارٹی کے دوبارہ اقتدار کے لیے ان کی راہ ہموار ہو جائے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کو نواز لیگ نے ضیا الحق کے ریفرنڈم سے تشبیہ دی ہے کہ اس ریفرنڈم میں ایک ہی سوال تھا کہ آپ ملک میں اسلام چاہتے ہیں تو اس ریفرنڈم کے ذریعے ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کریں اور اب جے آئی ٹی کی تحقیقات کو بھی اس ریفرنڈم کے ساتھ ملا کر یکطرفہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ تحقیقات یکطرفہ لگ ہی رہی ہیں تو ان کو ضیا الحق کے ریفرنڈم کے ساتھ تو نہ ملائیں کہ ان کے لیے جس جوش و جذبے سے آپ خود نعرے لگاتے رہے ہیں ان کو تو بخش دیں اور اس طرح کے بیانات سے اپنی مزید سبکی نہ کرائیں ۔
پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد عمومی رائے یہ بن رہی ہے یا بن چکی ہے کہ ان تحقیقات میں چونکہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو مورد الزام ٹھہرادیا گیا ہے اس لیے ان کی نااہلی تو لازمی ہے اور اب بحث نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد کی چل رہی ہے کہ کیا وزیر اعظم اسمبلیاں ختم کر کے الیکشن میں چلے جائیں گے یا پھر اقتدار کا ہما اپنی پارٹی میں سے ہی کسی کے سر پر بٹھا دیں گے جو کہ بظاہر مشکل بلکہ انتہائی ناممکن لگتا ہے کہ اقتدار میں شراکت مشکل سے ہی برداشت ہوتی ہے۔
مجھے لگ رہا ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور اپنی بھر پور کوشش کریں گے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان پر لگائے گئے الزمات کے دفاع میں کامیاب ہو سکیں کہ اس سے عہدہ برآء ہو کر ہی وہ اور ان کا خاندان اس ملک میںمزیدسیاست کر سکتا ہے کیونکہ اب پاکستانی عوام اس قدر باشعور ہو چکے ہیں کہ ان کو ہمارے سیاستدان مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے ہاں عوام کے لیے فلاحی کام کر کے عوام کو اپنا بنایا جا سکتا ہے ۔
نوازلیگ نے پاناما کے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستانی عوام ایک بڑی جلدی بھولنے والی قوم ہے اور یہ اس پاناما کو بھی بھول جائے گی، اس بات کا اظہار ہمارے وزیر اعظم کے انتہائی قریبی معتمد اور وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران بھی کیا تھا لیکن پاناما تحقیقات کے بعد اس کیس کا پیچھاعمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید نے کیا اور انھوں نے بطور مدعی ایک سال تک سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگتیں لیکن وہ ڈٹے رہے۔
تینوں صاحبان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور اس دوران انھوں نے اپنے اوپر تنقید و طنز کے نشتر بھی برداشت کیے لیکن کیس کی پیروی دلجمعی سے کی اور اب اس امید پر ہیںکہ وہ اس ملک میں احتساب کا عمل نواز شریف اور ان کے خاندان کی ناا ہلی سے شروع کرائیں گے بلکہ عمران خان نے تو اس حد تک بھی کہہ دیا ہے کہ اگر نواز شریف کے ساتھ مجھے بھی نا اہل کیا گیا تو میں اس قربانی کے لیے بھی تیار ہوں ۔
بہرحال چومکھی لڑائی جارہی ہے، حا لات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا یا کسی بھی قسم کا دعویٰ کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کی نااہلی سے اس ملک میں سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گااور یہ نااہلی ملک میں احتساب کے عمل کا نقطہ آغاز ہو گی کیونکہ اس کے بعد بے لاگ احتساب کا نعرہ لگے گا جس کی زد میں کوئی اور نہیں ہماری اشرافیہ آئے گی اور کوئی اس سے بچ نہیں پائے گا جو اس ملک کی تقدیر بدلنے کی جانب عملی قدم کا آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ آج تک احتساب کے نام پر انتقام ہی لیا گیا ہے اور اب تو یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ بے رحم احتساب ہی اس ملک کو بچا سکتا ہے اور یہ احتساب بلا تفریق سب کا ہونا چاہیے جو سب کو نظر بھی آنا چاہیے نا کہ صرف مخصوص لوگوں کو سیاسی احتساب کا نشانہ بنایا جائے۔