ایچ ای سی بھی کسی سے کم نہیں
ایچ ای سی کے کراچی فون نمبرز پہ مجال ہے جو کوئی کال وصول کرلے۔
یہ اس رمضان کے آخری دنوں کی بات ہے، میں کوئی ساڑھے دس گیارہ بجے کے بیچ ایچ ای سی کے کراچی آفس پہنچا۔ آفس کے دونوں گیٹ سختی سے بند تھے اور ان بند گیٹوں کے آگے پریشان حال لڑکے لڑکیاں، خواتین اور حضرات بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ میں گیٹ کی جانب جو بڑھا تو سینہ تانے گارڈ راستہ روک کے کھڑا ہوگیا، ''اندر جانا منع ہے'' گارڈ نے بتایا، میں نے گارڈ سے کہا کہ مجھے ایچ ای سی سے چند نجی یونیورسٹیوں کی ماسٹرز کی اسناد کی تصدیق کے طریقہ کار کے بارے میں پتا کرنا ہے اس لیے اندر جانا چاہتا ہوں۔ گارڈ نے ٹس سے مس ہوئے بغیر ایک شان بے نیازی سے کہا کہ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھیں چنانچہ پھر کچھ اس طرح کے سوال جواب ہوئے:
''نجی یونیورسٹیوں کی ماسٹرز ڈگریوں کی ایچ ای سی سے کیسے تصدیق کی جائے؟''
''آپ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پہ جائیں، وہاں اپنا اکاؤنٹ بنائیں پھر اس اکاؤنٹ میں میٹرک سے لے کر ماسٹرز تک کی تمام تعلیمی اسناد اسکین کر کے اپ لوڈ کریں پھر آپ ویب سائٹ کے متعلقہ لنک پہ جاکے آن لائن فارم بھریں اور طریقہ کار اپناتے ہوئے سبمٹ کریں، کچھ عرصے میں آپ کو متعلقہ یعنی اس ایچ ای سی کے آفس میں متعلقہ فرد سے ملاقات کا اپائنمنٹ دیا جائے گا تو آپ مقررہ دن اور وقت پہ اپنے تمام اوریجنل ڈاکومنٹس اور فوٹو اسٹیٹ کاپیاں لے کر پہنچ جائیں، متعلقہ فرد ان ڈاکومنٹس کی چیکنگ کے بعد آپ کے کاغذات لے لے گا جس کے بعد ان کی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تصدیق کردی جائے گی۔''
گارڈ کی اس طولانی تقریر پہ میں بھونچکا رہ گیا اور بول اٹھا ''سارا مسئلہ ہی تو یہ ہے کہ ویب سائٹ کام نہیں کرتی، متعلقہ لنک کھلتے نہیں، جو کھل جائیں تو چلتے نہیں اور جو چل جائیں تو متعلقہ معلومات ملتی نہیں۔'' گارڈ کے چہرے پہ ایک مدبرانہ مسکراہٹ دوڑ گئی ''ان بے چاروں کے بھی کچھ ایسے ہی مسئلے ہیں'' اس نے بند گیٹوں کے آگے کھڑے لاچار لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے ان لوگوں سے جو پوچھا تو کم و بیش تقریباً سب ہی کے کچھ اسی طرح کے مسئلے تھے، کوئی ویب سائٹ پہ کسی مرحلے میں پھنس کر رہ گیا تھا، کوئی متعلقہ لنک کھولنے میں مسلسل ناکام تھا تاہم ان ناکام و نامراد انسانوں کے ہجوم میں ایک خوش قسمت جوان ایسا بھی تھا جس نے کسی نہ کسی طرح لشٹم پشٹم ایچ ای سی کی ویب سائٹ پہ معجزانہ طور پہ تمام مراحل طے کرلیے تھے اور آج اس کا ایچ ای سی کے متعلقہ اہلکار سے ''اپائنمنٹ'' تھا۔
اس خوش قسمت جوان کی خوش قسمتی البتہ یہاں پہنچ کے رک گئی تھی کیونکہ مقررہ وقت گزرنے کے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے بعد بھی متعلقہ صاحب بہادر تشریف نہیں لائے تھے چنانچہ بالآخر یہ خوش قسمت جوان اپنی قسمت کو کوستا موٹرسائیکل چلاتا اپنے گھر کو ہو لیا۔ بند گیٹوں کے باہر کھڑے لوگوں میں سے بھی زیادہ تر روانہ ہوگئے۔ میں نے گارڈ بہادر سے پوچھا کہ پہلے تو کافی آسان طریقہ تھا، آدمی اپنی اصل اسناد اور فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ایچ ای سی آفس میں جمع کروائے اور مقررہ وقت میں تصدیق کے ساتھ واپس لے لے، یہ انسان دوست طریقہ کب ختم ہوا؟
گارڈ نے بند گیٹ کے ایک طرف لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا، اس بورڈ کے آدھے حصے کو پلاسٹک کی ایک شیٹ سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور باقی پہ لکھا ہوا نظر آرہا تھا کہ یہ سہولت 31 مئی کو ختم کردی گئی ہے اور اب یہ کام آن لائن طریقہ کار کے مطابق کرانا ہوگا۔ میں نے گارڈ کو بتایا کہ مجھے مزید معلومات درکار ہیں، گارڈ نے بالآخر تھوڑا سا گیٹ کھولا اور میں اندر داخل ہوگیا، عمارت میں پبلک ڈیلنگ کے لیے بنائی گئیں کھڑکیاں سنسان پڑی تھیں۔
ایچ ای سی کے ایک اہلکار سے بہرحال میری بات ہوگئی، میں نے اہلکار کو بتایا کہ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پہ ماسٹرز ڈگری کی تصدیق کے لیے پراسیس کے لیے متعلقہ نجی یونیورسٹیوں کے لنکس پہ جائیں تو وہ کھلتے ہی نہیں، اہلکار کے چہرے پہ ایک اسرار بھری مسکراہٹ دوڑ گئی ''دراصل بہت سی یونیورسٹیوں نے ابھی تک اپنا ڈیٹا فراہم نہیں کیا اس لیے یہ مسئلہ ہے''، ''تو جب ایچ ای سی کے پاس یہ ڈیٹا مکمل نہیں تھا تو یہ آن لائن طریقہ کیوں شروع کردیا گیا؟'' ''آپ متعلقہ فرد کو ای میل کرکے مسئلہ بتا دیں وہ آپ کی رہنمائی کریں، یہ ای میل ایڈریس موجود ہیں''، ''جی ہاں ان کو کئی بار ای میل کی مگر کوئی جواب نہیں آیا'' یہاں پہنچ کر ایچ ای سی کے اہلکار کے پاس جواب ختم ہوگئے۔ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح گھر کو ہولیا۔
یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ ایچ ای سی نے مکمل تیاری کے بغیر آن لائن طریقہ کارکیوں شروع کیا؟ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ایچ ای سی عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں دوسرے سرکاری محکموں وغیرہ سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ دوسرا سوال یہ کہ ایچ ای سی کے آفس میں لوگوں کو کیوں داخل نہیں ہونے دیا جاتا اور یہ کہ گیٹ کے باہر کھڑے ہوئے نیم خواندہ سے گارڈز دنیا میں کہاں پبلک ڈیلنگ کا کام کرتے ہیں؟ جواب ہوسکتا ہے کہ یہ پابندی صرف کراچی کے لاوارث باسیوں کے لیے ہو کہ جیسے ان لوگوں پہ صوبے میں سرکاری ملازمتوں کے دروازے مکمل بند ہیں تو اس جمہوری روایت کی پاسداری میں ان لوگوں پہ اب سرکاری اداروں کے دروازے بھی مکمل بند کیے جانے شروع کردیے گئے ہوں۔
ایچ ای سی کے کراچی فون نمبرز پہ مجال ہے جو کوئی کال وصول کرلے۔ اسلام آباد آفس کے نمبر یا تو انگیج رہتے ہیں یا کوئی فون اٹھاتا ہی نہیں۔ ویب سائٹ انتہائی نچلے درجے کے ''ماہرین'' کا کام لگتی ہے، ہیلپ اور FAQ کے پیج پہ نہ ہیلپ ہے نہ FAQ۔ About Us میں ایچ ای سی آرڈیننس اٹھا کر لگا دیا گیا ہے۔ انگریزی کے ساتھ اردو کا سا سلوک ہے یعنی گرائمر تک کی غلطیاں ملتی ہیں۔ ایچ ای سی کی یہ ''کارکردگی'' جمہوریت کا وہ حسن اور سسٹم کی وہ مضبوطی ہے جس کی حفاظت کی دہائی بہت سے ''کامیاب'' کالم نگار اور اینکر دیتے نظر آتے ہیں۔
'بائی دا وے' ایچ ای سی کے ساتھ مزید وقت ضایع کرنے کے بجائے میں متعلقہ سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ گیا جہاں دو اور ایک دن میں تمام متعلقہ اسناد کی تصدیق ہوگئی۔ ان اداروں میں دیکھا کہ ہر انسان سے عزت سے پیش آیا جاتا ہے اور انتہائی پروفیشنل اور خوش اخلاق لوگ ہیں جو کسی بھی طرح سے تنگ کیے بغیر کام کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ کراچی کے نجی ادارے ابھی ''کوٹہ سسٹم میرٹ'' سے کسی حد تک بچے ہوئے ہیں۔ ایچ ای سی سے ایک آخری سوال ''کیا پاکستان کے تمام سابق اور موجودہ طالب علموں کے پاس اپنے کمپیوٹر اور اسکینر موجود ہیں؟''
''نجی یونیورسٹیوں کی ماسٹرز ڈگریوں کی ایچ ای سی سے کیسے تصدیق کی جائے؟''
''آپ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پہ جائیں، وہاں اپنا اکاؤنٹ بنائیں پھر اس اکاؤنٹ میں میٹرک سے لے کر ماسٹرز تک کی تمام تعلیمی اسناد اسکین کر کے اپ لوڈ کریں پھر آپ ویب سائٹ کے متعلقہ لنک پہ جاکے آن لائن فارم بھریں اور طریقہ کار اپناتے ہوئے سبمٹ کریں، کچھ عرصے میں آپ کو متعلقہ یعنی اس ایچ ای سی کے آفس میں متعلقہ فرد سے ملاقات کا اپائنمنٹ دیا جائے گا تو آپ مقررہ دن اور وقت پہ اپنے تمام اوریجنل ڈاکومنٹس اور فوٹو اسٹیٹ کاپیاں لے کر پہنچ جائیں، متعلقہ فرد ان ڈاکومنٹس کی چیکنگ کے بعد آپ کے کاغذات لے لے گا جس کے بعد ان کی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تصدیق کردی جائے گی۔''
گارڈ کی اس طولانی تقریر پہ میں بھونچکا رہ گیا اور بول اٹھا ''سارا مسئلہ ہی تو یہ ہے کہ ویب سائٹ کام نہیں کرتی، متعلقہ لنک کھلتے نہیں، جو کھل جائیں تو چلتے نہیں اور جو چل جائیں تو متعلقہ معلومات ملتی نہیں۔'' گارڈ کے چہرے پہ ایک مدبرانہ مسکراہٹ دوڑ گئی ''ان بے چاروں کے بھی کچھ ایسے ہی مسئلے ہیں'' اس نے بند گیٹوں کے آگے کھڑے لاچار لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے ان لوگوں سے جو پوچھا تو کم و بیش تقریباً سب ہی کے کچھ اسی طرح کے مسئلے تھے، کوئی ویب سائٹ پہ کسی مرحلے میں پھنس کر رہ گیا تھا، کوئی متعلقہ لنک کھولنے میں مسلسل ناکام تھا تاہم ان ناکام و نامراد انسانوں کے ہجوم میں ایک خوش قسمت جوان ایسا بھی تھا جس نے کسی نہ کسی طرح لشٹم پشٹم ایچ ای سی کی ویب سائٹ پہ معجزانہ طور پہ تمام مراحل طے کرلیے تھے اور آج اس کا ایچ ای سی کے متعلقہ اہلکار سے ''اپائنمنٹ'' تھا۔
اس خوش قسمت جوان کی خوش قسمتی البتہ یہاں پہنچ کے رک گئی تھی کیونکہ مقررہ وقت گزرنے کے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے بعد بھی متعلقہ صاحب بہادر تشریف نہیں لائے تھے چنانچہ بالآخر یہ خوش قسمت جوان اپنی قسمت کو کوستا موٹرسائیکل چلاتا اپنے گھر کو ہو لیا۔ بند گیٹوں کے باہر کھڑے لوگوں میں سے بھی زیادہ تر روانہ ہوگئے۔ میں نے گارڈ بہادر سے پوچھا کہ پہلے تو کافی آسان طریقہ تھا، آدمی اپنی اصل اسناد اور فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ایچ ای سی آفس میں جمع کروائے اور مقررہ وقت میں تصدیق کے ساتھ واپس لے لے، یہ انسان دوست طریقہ کب ختم ہوا؟
گارڈ نے بند گیٹ کے ایک طرف لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا، اس بورڈ کے آدھے حصے کو پلاسٹک کی ایک شیٹ سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور باقی پہ لکھا ہوا نظر آرہا تھا کہ یہ سہولت 31 مئی کو ختم کردی گئی ہے اور اب یہ کام آن لائن طریقہ کار کے مطابق کرانا ہوگا۔ میں نے گارڈ کو بتایا کہ مجھے مزید معلومات درکار ہیں، گارڈ نے بالآخر تھوڑا سا گیٹ کھولا اور میں اندر داخل ہوگیا، عمارت میں پبلک ڈیلنگ کے لیے بنائی گئیں کھڑکیاں سنسان پڑی تھیں۔
ایچ ای سی کے ایک اہلکار سے بہرحال میری بات ہوگئی، میں نے اہلکار کو بتایا کہ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پہ ماسٹرز ڈگری کی تصدیق کے لیے پراسیس کے لیے متعلقہ نجی یونیورسٹیوں کے لنکس پہ جائیں تو وہ کھلتے ہی نہیں، اہلکار کے چہرے پہ ایک اسرار بھری مسکراہٹ دوڑ گئی ''دراصل بہت سی یونیورسٹیوں نے ابھی تک اپنا ڈیٹا فراہم نہیں کیا اس لیے یہ مسئلہ ہے''، ''تو جب ایچ ای سی کے پاس یہ ڈیٹا مکمل نہیں تھا تو یہ آن لائن طریقہ کیوں شروع کردیا گیا؟'' ''آپ متعلقہ فرد کو ای میل کرکے مسئلہ بتا دیں وہ آپ کی رہنمائی کریں، یہ ای میل ایڈریس موجود ہیں''، ''جی ہاں ان کو کئی بار ای میل کی مگر کوئی جواب نہیں آیا'' یہاں پہنچ کر ایچ ای سی کے اہلکار کے پاس جواب ختم ہوگئے۔ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح گھر کو ہولیا۔
یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ ایچ ای سی نے مکمل تیاری کے بغیر آن لائن طریقہ کارکیوں شروع کیا؟ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ایچ ای سی عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں دوسرے سرکاری محکموں وغیرہ سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ دوسرا سوال یہ کہ ایچ ای سی کے آفس میں لوگوں کو کیوں داخل نہیں ہونے دیا جاتا اور یہ کہ گیٹ کے باہر کھڑے ہوئے نیم خواندہ سے گارڈز دنیا میں کہاں پبلک ڈیلنگ کا کام کرتے ہیں؟ جواب ہوسکتا ہے کہ یہ پابندی صرف کراچی کے لاوارث باسیوں کے لیے ہو کہ جیسے ان لوگوں پہ صوبے میں سرکاری ملازمتوں کے دروازے مکمل بند ہیں تو اس جمہوری روایت کی پاسداری میں ان لوگوں پہ اب سرکاری اداروں کے دروازے بھی مکمل بند کیے جانے شروع کردیے گئے ہوں۔
ایچ ای سی کے کراچی فون نمبرز پہ مجال ہے جو کوئی کال وصول کرلے۔ اسلام آباد آفس کے نمبر یا تو انگیج رہتے ہیں یا کوئی فون اٹھاتا ہی نہیں۔ ویب سائٹ انتہائی نچلے درجے کے ''ماہرین'' کا کام لگتی ہے، ہیلپ اور FAQ کے پیج پہ نہ ہیلپ ہے نہ FAQ۔ About Us میں ایچ ای سی آرڈیننس اٹھا کر لگا دیا گیا ہے۔ انگریزی کے ساتھ اردو کا سا سلوک ہے یعنی گرائمر تک کی غلطیاں ملتی ہیں۔ ایچ ای سی کی یہ ''کارکردگی'' جمہوریت کا وہ حسن اور سسٹم کی وہ مضبوطی ہے جس کی حفاظت کی دہائی بہت سے ''کامیاب'' کالم نگار اور اینکر دیتے نظر آتے ہیں۔
'بائی دا وے' ایچ ای سی کے ساتھ مزید وقت ضایع کرنے کے بجائے میں متعلقہ سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ گیا جہاں دو اور ایک دن میں تمام متعلقہ اسناد کی تصدیق ہوگئی۔ ان اداروں میں دیکھا کہ ہر انسان سے عزت سے پیش آیا جاتا ہے اور انتہائی پروفیشنل اور خوش اخلاق لوگ ہیں جو کسی بھی طرح سے تنگ کیے بغیر کام کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ کراچی کے نجی ادارے ابھی ''کوٹہ سسٹم میرٹ'' سے کسی حد تک بچے ہوئے ہیں۔ ایچ ای سی سے ایک آخری سوال ''کیا پاکستان کے تمام سابق اور موجودہ طالب علموں کے پاس اپنے کمپیوٹر اور اسکینر موجود ہیں؟''