ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

عمران خان کی باتوں پر برا ماننا چھوڑ دیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر آج بھی کھلاڑی ہیں

انسان سچ سننا چاہتا ہے ، لیکن کسی اور کے لیے، اپنے لیے سچ سننا اتنا آسان نہیں ، مثلا چند روز قبل جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں میرے نقطہ نظر سے انھوں نے صرف سچ بولا ،کھرا سچ،جس پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا، میڈیا گونج اٹھا ،ادارے کھڑک گئے۔کیونکہ انھوں نے جوکچھ کہا 70سالوں پر محیط ایسے حقائق ہیں جنھیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ، ہماری طرزِ معاشرت کا ایسا جسم جس پر اس مدت کے دوران کوئی لباس نہیں رہا ۔ دنیا نے اندرکی بد صورتی کو دیکھا ، مذاق اڑایا ، لہٰذا جے آئی ٹی کی رپورٹ جسے آپ نے سچ قرار دیا ہے پر اس طرح کے تحفظات ہیں کہ یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جائے گا ۔

لہٰذا کرپشن سمیت ہر برائی جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ، قوم کے لیے ناقابلِ علاج مرض کی صورت اختیارکرگئی مرض کو آیندہ روکنے کے اقدامات کیے جائیں ، اسے مزید نا بڑھنے دیا جائے اور اگر ہم 70 سالوں کا حساب لے کر بیٹھ جائیں ، پکڑ دھکڑ شروع کردیں تو پھر جاوید ہاشمی کے بقول کوئی ایک فرد بھی گرفت سے بچ نہیں پائے گا ، فی الحال جو پکڑے گئے وہ آج کمزور تھے کل جب وہ طاقتور ہوں گے تو دوسروں پر ہاتھ ڈالیں گے اور اس طرح ملک ترقی سے محروم ہوتا چلا جائے گا۔ انارکی معاشرے میں سرایت کر جائے گی، عجیب افراتفری کا سماں ہوگا ۔کسی کام کا انجام دینا ممکن نہ رہے گا ، صرف عدالتیں آباد رہیں گی باقی سب اُجڑ جائے گا ۔پارلیمنٹ قانون ساز ادارے کی بجائے اکھاڑا بن جائے گا جہاں پہلوان طاقت آزمائی کیا کریں گے۔

سسٹم کو ڈی ریل کرنا تو شاید اب آپ کے بس کی بات نہیں لیکن اسے کمزورکرنا بھی میرے نزدیک گناہ کبیرہ ہے ، اب آتے ہیں موجودہ حکومت کی حکمتِ عملی کی طرف تو میں انھیں aggressive ہونے سے باز رہنے کا مشورہ دوں گا اورکہوں گا کہ ازراہ کرم غصہ تھوک دیں ، جو جوکچھ کہہ رہا ہے سن لیں ، اگر جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں تو عمران خان کی باتوں پر برا ماننا چھوڑ دیں کیونکہ وہ بنیادی طور پر آج بھی کھلاڑی ہیں لہٰذا سیاسی رہنماء نہ بن پائے۔

سیاست میں بھی کرکٹ میچ کی زبان استعمال کرتے ہیں اسی طرح دیگر سیاسی اکابرین و رہنماء جو آج وزیراعظم سے استعفٰی کا مطالبہ کر رہے ہیں،ان کے مطالبے پر غورکرنے کے بجائے اپنا قانونی دفاع کیجیے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا دامن صاف نہیں تو اس قوم پر رحم فرماتے ہوئے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں اور جان لیںکہ قوم کو کسی کرپٹ حکمراں سے کوئی ہمدردی نہیں ، ہم نظام کا تسلسل ضرور چاہتے ہیں کرپشن کا نہیں لیکن اس امر میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ایک ادارے کے کچھ مخصوص افراد ایک مائنڈ سیٹ پرکام کر رہے ہیں ۔

عمران خان صرف مہرہ ہیں ، پس پردہ ملک پر اپنی عملداری قائم کرنے کے عزائم ہیں چنانچہ اس ارادے میں مہرہ کوئی بھی ہو ،انھیں عمران خان سے اس کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں انھیں بہ خوشی کرنے دیا جائے اور اس میں کوئی مزاحم نہ ہو اور اس بار ان کا ایجنڈا بڑا مضبوط اور مکمل دکھائی دیتا ہے طریقہ بھی نیا ،ایک پوری مہم چلائی گئی،کئی اداروں سے کام لیا گیا ، باقاعدہ فرد ِ جرم عائد ہوگی اور پھر سزا ! لو جی کام ہوگیا اب نہ انڈیا دشمن رہا ، نہ ملک کی اکانومی مسئلہ رہی نہ دہشتگردی تمام ٹارگٹس مکمل ، صرف ایک کام رہ گیا کسی جمہوری حکومت کو نہیں چلنے دینا ، تو بھائی میں تو صاف دیکھ رہا ہوں کہ آنیوالے دنوں میں جمہوریت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی اور آپ کمزور سے کمزور تر ،کیونکہ آپ exposeہوتے جارہے ہیں۔ میرا آپ کو فوری مشورہ ہے کہ پہلی فرصت میں پیچھے ہٹ جائیںاپنے عزائم سے ، اجارہ داری کی اپنی خواہش سے ۔


میں عرض کرچکا ہوں ایک مرتبہ پھر دہرا دیتا ہوں کہ یہ نا 1977ہے،نا 1999یہ2017 ہے۔دنیا اب ایک گلوبل ولیج ہے چھُپ کچھ بھی نہیں ہو سکتا ، لیکن چھپ سکتا ہے میڈیا موجود ہے اور جو پوزیشن جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد حکومت کی تھی آج وہ بالکل تبدیل ہے، جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس ہو یا میڈیا پر روزمرہ پیش ہونے والے حقائق ، معاملہ رفتہ رفتہ کھلتا جا رہا ہے۔

وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین بھی کچھ چھپاتے چھپاتے بہت کچھ کہہ چکے ہیں ، بلکہ ترکی کے آرمی کُوکی مثالیں تک دی جاچکیں ، باقی کہنے کوکیا رہ گیا ؟ ۔ پھر کیا ہوگا یہ بھی سوچا آپ نے، ملک بدترین انارکی کا شکار ہوجائے گا ،افراتفری پھیل جائے گی ، ٹکراؤ ہمیں کہاں لے جائے گا؟ایک نئے سرے سے تعمیر ہوتی ہوئی قوم کے ساتھ پھر یہ مذاق کیسا ہے ؟

نواز شریف کا احتساب اپنی کیا قیمت وصول کر رہا ہے اس پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لیں۔ ممکن ہے کہ آج آپ اس ساری صورتحال سے بہت خوش ہوں لیکن کل کا سورج زیادہ روشن نہیں ہوگا ۔ یہ کمزور وزرائے اعظم حکومت میں لانا بھی آپ کی کوئی نئی پریکٹس نہیں ، بارہا پہلے بھی آپ کی طرف سے لائے جاتے رہے ہیں لیکن انھیں آج کن ناموں سے پکارا جاتا ہے آپ کے علم میں ہوں گے ، معین قریشی ، شوکت عزیز وغیرہ وغیرہ ۔ میرا خیال ہے معاملات کو حل کیا جاسکتا تھا دونوں اطراف سے لیکن نہیں کیا گیا اور اب جن کا یہ خیال ہے وہ اس مکروہ کھیل میں باآسانی جیت جائیں گے ،مجھے ان کی خام خیالی پر ہنسی بھی آتی ہے ، رونا بھی... او بھائی ایسا ہونا ناممکن ہے ۔آنے والے دن آپ کو بتائیں گے یہ پہلے والا زمانہ نہیں ہے ۔ورنہ معاملات ایک وقت میں ناقابل ِ حل ہوجائیں گے۔کچھ ادارے اس قدر حساس ہوتے ہیں جن کے کمزور ہونے پر ملک ٹوٹ جاتے ہیں، قومیں بکھر جاتی ہیں ۔

ہمارے تمام پڑوسیوں کی تمامتر ترقی صرف اور صرف جمہوریت کی مرہون ِ منت ہے ،انڈیا کی مثال لے لیجیے کتنی قومیں ، قبیلے لیے بیٹھا ہے ، لیکن یکجا ہے تو جمہوریت کی وجہ سے ہم چار صوبوں پر اکٹھے نہیں ! اکبر بگٹی کے قتل کو آپ کیا کہیں گے ؟ اگر ان سے مذاکرات ناممکن تھے تو وہی مذاکرات اب ناراض بلوچوں سے کیوں ہورہے ہیں؟ آج وہاں جو دہشت گردی ہورہی ہے یا جس دہشت گردی میں اب تک سیکڑوں لوگ مارے جاچکے اسے کیا نام دیں گے ؟ آخر میں حل وہی مذاکرات ، لیکن ذمے دارکون ؟ کب تک ملک آپ کی مہم جوئی کا شکار رہے ،آخرکب تک ؟جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں بم کس نے رکھے تھے ۔اس کا مطلب صاف ہے کہ امریکا بہادر کی اپروچ کہاں تک ہے ، ذرا سوچیے کچھ لوگ ضرور ہیں جو آج بھی انھی کے ہیں اور کون نہیں جانتا امریکا ہمیں ہر حال میں سبق دینا چاہتا ہے بلکہ صاف بات ہے ہمارے ٹکرے ٹکرے چاہتا ہے ۔

مجھے اس سازش کے تانے بانے ملک سے باہر زیادہ دکھائی دے رہے ہیں ، لیکن ملوث اپنے ہی لوگ ہیں اس میں کوئی شک نہیں ۔ میرے محترم لیڈر عمران خان فرماتے ہیں آنے والے ہفتے میں نیا پاکستان بننے جارہا ہے ، میں ان سے جاننا چاہتا ہوں کہ اس نئے پاکستان میں پی پی پی کی بہت پرانی اور بوسیدہ اینٹیں کیوں لگائی جارہی ہیں؟کس کو دھوکا دیا جارہا ہے؟

قوم کو ،ارے بھائی میرے یہ قوم دھوکے کھا کھا کے اب منجھ گئی ہے ،آپ کی باتوں میں قطعًا نہیں آنے والی ۔گویا قانون جنگل کا ہے ، شیر صاحب بادشاہ کی کرسی پر براجمان ہیں ، حکم جاری ہوا جنگل کی سب سے موٹی بکری کو لے آؤ ، سب نے دوڑ لگادی ، لیکن افسوس ہوا یہ دیکھ کرکہ سزا یافتہ بکری کو پکڑ کر لانے کے لیے سب سے آگے بکریاں ہی دوڑ رہی تھیں ۔
Load Next Story