لبرل ازم کی معاشی اور فلسفیانہ اساس
لبرل آئیڈیالوجی کو مسیحیت کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ سرمایہ داری ایک حتمی نظام ہے۔
TEHRAN:
مغربی جامعات سے منسلک پروفیسروں کی اکثریت ہمہ وقت یہ درس دینے میں مصروف ہے کہ مغربی لبرل ازم انسانی شعور کی معراج ہے اور اس کے بعد کوئی نیا نظریہ جنم لینے والا نہیں ہے۔ فرانسس فوکویاما نے مختلف آئیڈیالوجیز کے مابین جنگ کو لبرل جمہوریت کی فتح سے تعبیر کیا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کردیا کہ آقا اور غلام کے مابین ہونے والی لڑائی میں آقا یعنی امریکی سامراجی جمہوریت کو فتح نصیب ہوئی ہے، یعنی'' شناختوں'' یا بقا کی اس جنگ میں جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفے کی شعوری جہت مسیحی تصور ''تثلیث ''کا خود میں انجذاب کرتے ہوئے فاتح قرار پائی ہے۔
اس مفہوم میں لبرل آئیڈیالوجی کو مسیحیت سے متصادم نہیں بلکہ اس کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ سرمایہ داری ایک حتمی نظام ہے، اور ساتھ ہی یہ باطل دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کی سماجی، سیاسی اور معاشی تشکیلات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لبرل ازم ہی انسان کا مستقبل ہے، دیگر آئیڈیالوجیز کا انہدام عمل میں آچکا ہے۔ لبرل ازم کے حامیوں کا بنیادی نقص یہ ہے کہ وہ تمام سماجی تشکیلات اور سرمایہ داری نظام کی حاصلات کو تو لبرل آئیڈیالوجی کا کارنامہ قرار دیتے ہیں، لیکن پہلی اور تیسری دنیا میں پائے جانے والے ظلم و بربریت، جنگوں، دہشت گردی اور متشدد رویوں کو کسی نہ کسی دیگر آئیڈیالوجی سے نتھی کرکے روشن خیالی پروجیکٹ کو مبرا قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغربی ممالک کے سماجی سائنسدانوں کا بھی المیہ یہی ہے کہ وہ لبرل ازم کے متشددانہ اور دہشت گردانہ رجحانات کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے کبھی تو افغانستان میں بیٹھے ہوئے تمام موثر ذرایع سے محروم لوگوں کو اپنی خامیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، اور کبھی پاکستان کے مدرسہ کلچر کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی نظام یا آئیڈیالوجی سماج کی دیگر قباحتوں کی بھی ذمے دار ہوتی ہے، جس کا کردار اغلب ہو اور جس کے اصولوں کے تحت سیاست اور سماج کو چلایا جارہا ہو۔ لبرل ازم اس لیے بھی ذمے دار ہے کہ اس کی فکری و نظری اساس روشن خیالی کے آفاقیت کے تصور پر استوار ہے، اس لیے اگر ارتقا کے تصور کو آفاقیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر زوال و انحطاط کے آفاقی کردار کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔
اگر ارتقا سرمایہ داری نظام اور اس کی لبرل آئیڈیالوجی کی خصوصیت ہے تو انحطاط بھی اسی کے بطن سے جنم لیتا ہے، یہی وہ متضاد رجحان ہے، جو کشمکش کو پروان چڑھاتا ہے اور نتیجہ جنگوں، وحشت و بربریت کی صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ یہ کہنا کسی بھی طور جائز نہیں ہے کہ کارنامے تو سارے لبرل آئیڈیالوجی کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں اور خرابیوں کا ذمے دار طالبان یا دیگر ''مذہبی انتہا پسندوں'' کو قرار دے دیا جائے۔ گزشتہ دو سو برس پر محیط لبرل ازم کے حقیقی کردار کو جانچنا ہے تو اسے جدلیاتی نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ شعوری و سماجی ارتقا کے اس سفر میں لبرل آئیڈیالوجی نے ارتقا کے ساتھ ساتھ کس حد تک نوع انسانی کا قتل عام کیا ہے، اسی صورت میں ہی سرمایہ داری نظام میں ارتقا کی حقیقی قیمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
لبرل آئیڈیالوجی انسانی شعور میں ازل سے موجود نہیں تھی، اور نہ ہی ابد تک باقی رہے گی۔ تاریخی اعتبار سے اور ایک سیاسی آئیڈیالوجی کے طور پر لبرل ازم کا باقاعدہ آغاز اسپین میں 1812 میں ہوتا ہے، جب کہ انیسویں صدی کے وسط تک لبرل ازم صنعتی پیداواری قوتوں سے ہم آہنگ ہوکر بطور ایک آئیڈیالوجی تقریباً تمام یورپ میں عام ہوچکا تھا۔ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں پہلی لبرل حکومت کا قیام 1868 میں عمل میں آیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لبرل خیالات اٹھارویں صدی سے پہلے موجود نہیں تھے۔ لبرل خیالات تو سترھویں صدی کے تجربیت پسند فلسفیوں جان لاک اور لارڈ ہوبز کے فلسفوں میں موجود تھے۔ چونکہ معاشی ساخت اور سماجی حالات اس قسم کے نہیں تھے کہ ان لبرل خیالات سے ہم آہنگ ہوپاتے جو صنعتی سماج کے ظہور سے پہلے ہی معرض وجود میں آچکے تھے، لہٰذا خیالات کو حقیقی بنیاد صنعتی سماج بالخصوص صنعتی انقلاب نے عطا کی۔ صنعتی انقلاب ہی برطانیہ کے سترھویں صدی کے انقلاب اور فرانس کے اٹھارویں صدی کے انقلاب کی بنیاد بنا۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کے بعد صنعتی ارتقا کے ساتھ ساتھ نئی سماجی ہیئتوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے نئے خیالات کا ظہور میں آنا لازمی امر تھا۔
جاگیرداری اور ملوکیت کے رجعت پسندانہ تصورات سماجی ہیئتوں سے متصادم ہوچکے تھے۔ جاگیر داری نظام سماج کو آگے لے جانے سے قاصر ہوچکا تھا۔ صنعتی ارتقا کا تقاضا تھا کہ ان خیالات سے ہم آہنگ ہوا جاتا جو اس منڈی کی معیشت کا ساتھ دے پاتے جو لبرل آئیڈیالوجی کا جزوِ لاینفک تھی۔ انسان کے فکری و نظری ارتقا میں لبرل ازم کا کردار انقلابی نوعیت کا رہا ہے، جس میں جاگیرداری کا انہدام عمل میں آیا اور نئے خیالات کو مرکزیت عطا کی گئی۔ پاکستانی لبرل ازم کے حامیوں کو یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ لبرل آئیڈیالوجی نے کہیں بھی مسیحیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ اس کی ہیئت میں تبدیلی برپا کرتے ہوئے اسے وسعت دی۔ اس طرح مسیحیت صنعتی سماج سے ظہور کرتے ہوئے شعور کا حصہ بن گئی۔ رسومات سے تو نجات پا لی گئی، محض اس لیے کہ ان کی بنیاد میں صنعت سے قبل کی معاشی حرکت کارفرما تھی، مگر مسیحیت بطور شناخت کبھی بھی فلسفیانہ شعور سے حذف نہ ہوسکی۔ بیسویں صدی کے یہودی مفکروں تھیوڈور اڈورنو اور ژاک دریدا وغیرہ نے درست طور پر لبرل آئیڈیالوجی کو قدیم مسیحیت ہی کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لبرل آئیڈیالوجی میں موجود خیالات صرف مسیحیت کا مجہول عکس ہیں۔ روشن خیال لبرل عقلیت نے مسیحیت کو اپنی امیج پر تشکیل دیا ہے، اور بنیادی تصورات میں انقلابی تبدیلی برپا کی ہے۔
لبرل ازم کی تین مختلف اشکال ہمارے سامنے موجود ہیں: پہلی اس کی کلاسیکی شکل، دوسری اس کی جدید شکل جس کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا تھا اور تیسری اس کا نیو لبرل مرحلہ، جو تقریباً 1970 میں سامنے آتا ہے۔ ان تینوں اشکال میں لبرل ازم کے بنیادی اور مثالی آدرش بھی تبدیلی سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ لبرل ازم میں پانچ بنیادی تصورات مثالی آدرش کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میںعقلیت، انفرادیت، آزادی، انصاف اور تنوع کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لبرل آئیڈیالوجی منڈی کی معیشت کو حتمی تصور کرتے ہوئے اسی کی بالائی ساخت کے طور پر انھی مذکورہ بالا تصورات کو عقلیت کی بنیاد پر حاصل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، جنھیں وہ مقامی کے برعکس آفاقی گردانتی ہے۔ لہٰذا لبرل ازم کا مثالی ہدف عقلیت کی مرکزیت کی بنیاد پر ایک آفاقی نظریے کی وکالت کرنا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اس دعوے کو محض آئیڈیالوجی تو کہا جاسکتا ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ معاشی، سماجی اور سیاسی حقائق بڑے تلخ ہیں، جن کا سماج میں کردار متضاد نوعیت کا ہوتا ہے، جس پر سرمایہ دارانہ یا مثالی عقلیت گرفت نہیں کرسکتی، اور یہی لبرل ازم کا تضاد اور اس کی حد ہے۔
لبرل ازم میں آزادی، انفرادیت، انصاف، عقل اور تنوع جیسے تصورات کی آفاقی حیثیت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تصورات کی الٰہیاتی، عقلی اور مادی اساس کے درمیان فرق قائم کیا جائے تاکہ قدیم الٰہیاتی، روشن خیال عقلیت اور عہد حاضر کی غیر عقلیت یا عقلیت کی توسیع کے تصور پر مبنی ان تصورات کی حقیقی ماہیت کو سمجھا جاسکے۔ مثال کے طور پر انفرادیت اور آزادی جیسے تصورات سترھویں صدی میں مختلف مفاہیم رکھتے تھے جو حقیقت میں برطانوی تجربیت کے زیادہ قریب تھے اور قدیم الٰہیاتی اقدار سے بنیادی طور پر مختلف تھے، جب کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں انفرادیت اور آزادی کے تصورات عقلیت کی جرمن روایت سے متاثر ہوکر اپنے مفاہیم کو مزید تبدیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آزادی اور انفرادیت کا پرانا تصور سماج اور گروہ سے ربط رکھتا ہے، اور انفرادی سے زیادہ گروہی شناخت پر قائم ہوتا ہے۔ اگر فرد کسی مذہب کا پیروکار ہوتا ہے تو انفرادیت اور آزادی کا کوئی بھی مفہوم مذہبی احکامات سے الگ قائم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ''ہستی مطلق'' کی منشا و مرضی کے بغیر نہ ہی آزادی کا کوئی مفہوم قائم ہوتا ہے اور نہ ہی انفرادیت کا کوئی یگانہ تصور ہی تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں انسان کی مرکزیت کو قائم کیا گیا ہو۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو لبرل آئیڈیالوجی اور الٰہیاتی مابعد الطبیعات کے مابین حتمی اور فیصلہ کن طور پر موجود ہے۔
(جاری ہے)
مغربی جامعات سے منسلک پروفیسروں کی اکثریت ہمہ وقت یہ درس دینے میں مصروف ہے کہ مغربی لبرل ازم انسانی شعور کی معراج ہے اور اس کے بعد کوئی نیا نظریہ جنم لینے والا نہیں ہے۔ فرانسس فوکویاما نے مختلف آئیڈیالوجیز کے مابین جنگ کو لبرل جمہوریت کی فتح سے تعبیر کیا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کردیا کہ آقا اور غلام کے مابین ہونے والی لڑائی میں آقا یعنی امریکی سامراجی جمہوریت کو فتح نصیب ہوئی ہے، یعنی'' شناختوں'' یا بقا کی اس جنگ میں جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفے کی شعوری جہت مسیحی تصور ''تثلیث ''کا خود میں انجذاب کرتے ہوئے فاتح قرار پائی ہے۔
اس مفہوم میں لبرل آئیڈیالوجی کو مسیحیت سے متصادم نہیں بلکہ اس کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ سرمایہ داری ایک حتمی نظام ہے، اور ساتھ ہی یہ باطل دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کی سماجی، سیاسی اور معاشی تشکیلات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لبرل ازم ہی انسان کا مستقبل ہے، دیگر آئیڈیالوجیز کا انہدام عمل میں آچکا ہے۔ لبرل ازم کے حامیوں کا بنیادی نقص یہ ہے کہ وہ تمام سماجی تشکیلات اور سرمایہ داری نظام کی حاصلات کو تو لبرل آئیڈیالوجی کا کارنامہ قرار دیتے ہیں، لیکن پہلی اور تیسری دنیا میں پائے جانے والے ظلم و بربریت، جنگوں، دہشت گردی اور متشدد رویوں کو کسی نہ کسی دیگر آئیڈیالوجی سے نتھی کرکے روشن خیالی پروجیکٹ کو مبرا قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغربی ممالک کے سماجی سائنسدانوں کا بھی المیہ یہی ہے کہ وہ لبرل ازم کے متشددانہ اور دہشت گردانہ رجحانات کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے کبھی تو افغانستان میں بیٹھے ہوئے تمام موثر ذرایع سے محروم لوگوں کو اپنی خامیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، اور کبھی پاکستان کے مدرسہ کلچر کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی نظام یا آئیڈیالوجی سماج کی دیگر قباحتوں کی بھی ذمے دار ہوتی ہے، جس کا کردار اغلب ہو اور جس کے اصولوں کے تحت سیاست اور سماج کو چلایا جارہا ہو۔ لبرل ازم اس لیے بھی ذمے دار ہے کہ اس کی فکری و نظری اساس روشن خیالی کے آفاقیت کے تصور پر استوار ہے، اس لیے اگر ارتقا کے تصور کو آفاقیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر زوال و انحطاط کے آفاقی کردار کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔
اگر ارتقا سرمایہ داری نظام اور اس کی لبرل آئیڈیالوجی کی خصوصیت ہے تو انحطاط بھی اسی کے بطن سے جنم لیتا ہے، یہی وہ متضاد رجحان ہے، جو کشمکش کو پروان چڑھاتا ہے اور نتیجہ جنگوں، وحشت و بربریت کی صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ یہ کہنا کسی بھی طور جائز نہیں ہے کہ کارنامے تو سارے لبرل آئیڈیالوجی کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں اور خرابیوں کا ذمے دار طالبان یا دیگر ''مذہبی انتہا پسندوں'' کو قرار دے دیا جائے۔ گزشتہ دو سو برس پر محیط لبرل ازم کے حقیقی کردار کو جانچنا ہے تو اسے جدلیاتی نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ شعوری و سماجی ارتقا کے اس سفر میں لبرل آئیڈیالوجی نے ارتقا کے ساتھ ساتھ کس حد تک نوع انسانی کا قتل عام کیا ہے، اسی صورت میں ہی سرمایہ داری نظام میں ارتقا کی حقیقی قیمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
لبرل آئیڈیالوجی انسانی شعور میں ازل سے موجود نہیں تھی، اور نہ ہی ابد تک باقی رہے گی۔ تاریخی اعتبار سے اور ایک سیاسی آئیڈیالوجی کے طور پر لبرل ازم کا باقاعدہ آغاز اسپین میں 1812 میں ہوتا ہے، جب کہ انیسویں صدی کے وسط تک لبرل ازم صنعتی پیداواری قوتوں سے ہم آہنگ ہوکر بطور ایک آئیڈیالوجی تقریباً تمام یورپ میں عام ہوچکا تھا۔ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں پہلی لبرل حکومت کا قیام 1868 میں عمل میں آیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لبرل خیالات اٹھارویں صدی سے پہلے موجود نہیں تھے۔ لبرل خیالات تو سترھویں صدی کے تجربیت پسند فلسفیوں جان لاک اور لارڈ ہوبز کے فلسفوں میں موجود تھے۔ چونکہ معاشی ساخت اور سماجی حالات اس قسم کے نہیں تھے کہ ان لبرل خیالات سے ہم آہنگ ہوپاتے جو صنعتی سماج کے ظہور سے پہلے ہی معرض وجود میں آچکے تھے، لہٰذا خیالات کو حقیقی بنیاد صنعتی سماج بالخصوص صنعتی انقلاب نے عطا کی۔ صنعتی انقلاب ہی برطانیہ کے سترھویں صدی کے انقلاب اور فرانس کے اٹھارویں صدی کے انقلاب کی بنیاد بنا۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کے بعد صنعتی ارتقا کے ساتھ ساتھ نئی سماجی ہیئتوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے نئے خیالات کا ظہور میں آنا لازمی امر تھا۔
جاگیرداری اور ملوکیت کے رجعت پسندانہ تصورات سماجی ہیئتوں سے متصادم ہوچکے تھے۔ جاگیر داری نظام سماج کو آگے لے جانے سے قاصر ہوچکا تھا۔ صنعتی ارتقا کا تقاضا تھا کہ ان خیالات سے ہم آہنگ ہوا جاتا جو اس منڈی کی معیشت کا ساتھ دے پاتے جو لبرل آئیڈیالوجی کا جزوِ لاینفک تھی۔ انسان کے فکری و نظری ارتقا میں لبرل ازم کا کردار انقلابی نوعیت کا رہا ہے، جس میں جاگیرداری کا انہدام عمل میں آیا اور نئے خیالات کو مرکزیت عطا کی گئی۔ پاکستانی لبرل ازم کے حامیوں کو یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ لبرل آئیڈیالوجی نے کہیں بھی مسیحیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ اس کی ہیئت میں تبدیلی برپا کرتے ہوئے اسے وسعت دی۔ اس طرح مسیحیت صنعتی سماج سے ظہور کرتے ہوئے شعور کا حصہ بن گئی۔ رسومات سے تو نجات پا لی گئی، محض اس لیے کہ ان کی بنیاد میں صنعت سے قبل کی معاشی حرکت کارفرما تھی، مگر مسیحیت بطور شناخت کبھی بھی فلسفیانہ شعور سے حذف نہ ہوسکی۔ بیسویں صدی کے یہودی مفکروں تھیوڈور اڈورنو اور ژاک دریدا وغیرہ نے درست طور پر لبرل آئیڈیالوجی کو قدیم مسیحیت ہی کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لبرل آئیڈیالوجی میں موجود خیالات صرف مسیحیت کا مجہول عکس ہیں۔ روشن خیال لبرل عقلیت نے مسیحیت کو اپنی امیج پر تشکیل دیا ہے، اور بنیادی تصورات میں انقلابی تبدیلی برپا کی ہے۔
لبرل ازم کی تین مختلف اشکال ہمارے سامنے موجود ہیں: پہلی اس کی کلاسیکی شکل، دوسری اس کی جدید شکل جس کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا تھا اور تیسری اس کا نیو لبرل مرحلہ، جو تقریباً 1970 میں سامنے آتا ہے۔ ان تینوں اشکال میں لبرل ازم کے بنیادی اور مثالی آدرش بھی تبدیلی سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ لبرل ازم میں پانچ بنیادی تصورات مثالی آدرش کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میںعقلیت، انفرادیت، آزادی، انصاف اور تنوع کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لبرل آئیڈیالوجی منڈی کی معیشت کو حتمی تصور کرتے ہوئے اسی کی بالائی ساخت کے طور پر انھی مذکورہ بالا تصورات کو عقلیت کی بنیاد پر حاصل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، جنھیں وہ مقامی کے برعکس آفاقی گردانتی ہے۔ لہٰذا لبرل ازم کا مثالی ہدف عقلیت کی مرکزیت کی بنیاد پر ایک آفاقی نظریے کی وکالت کرنا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اس دعوے کو محض آئیڈیالوجی تو کہا جاسکتا ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ معاشی، سماجی اور سیاسی حقائق بڑے تلخ ہیں، جن کا سماج میں کردار متضاد نوعیت کا ہوتا ہے، جس پر سرمایہ دارانہ یا مثالی عقلیت گرفت نہیں کرسکتی، اور یہی لبرل ازم کا تضاد اور اس کی حد ہے۔
لبرل ازم میں آزادی، انفرادیت، انصاف، عقل اور تنوع جیسے تصورات کی آفاقی حیثیت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تصورات کی الٰہیاتی، عقلی اور مادی اساس کے درمیان فرق قائم کیا جائے تاکہ قدیم الٰہیاتی، روشن خیال عقلیت اور عہد حاضر کی غیر عقلیت یا عقلیت کی توسیع کے تصور پر مبنی ان تصورات کی حقیقی ماہیت کو سمجھا جاسکے۔ مثال کے طور پر انفرادیت اور آزادی جیسے تصورات سترھویں صدی میں مختلف مفاہیم رکھتے تھے جو حقیقت میں برطانوی تجربیت کے زیادہ قریب تھے اور قدیم الٰہیاتی اقدار سے بنیادی طور پر مختلف تھے، جب کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں انفرادیت اور آزادی کے تصورات عقلیت کی جرمن روایت سے متاثر ہوکر اپنے مفاہیم کو مزید تبدیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آزادی اور انفرادیت کا پرانا تصور سماج اور گروہ سے ربط رکھتا ہے، اور انفرادی سے زیادہ گروہی شناخت پر قائم ہوتا ہے۔ اگر فرد کسی مذہب کا پیروکار ہوتا ہے تو انفرادیت اور آزادی کا کوئی بھی مفہوم مذہبی احکامات سے الگ قائم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ''ہستی مطلق'' کی منشا و مرضی کے بغیر نہ ہی آزادی کا کوئی مفہوم قائم ہوتا ہے اور نہ ہی انفرادیت کا کوئی یگانہ تصور ہی تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں انسان کی مرکزیت کو قائم کیا گیا ہو۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو لبرل آئیڈیالوجی اور الٰہیاتی مابعد الطبیعات کے مابین حتمی اور فیصلہ کن طور پر موجود ہے۔
(جاری ہے)