مچھ جیل بے مہار قیدیوں کا ٹھکانہ
پورے ملک کے بے مہار قیدیوں کو مچھ جیل میں لایا جاتا ہے، جہاں یہ قیدی شیر سے بلی بن جاتے ہیں۔
MARDAN:
مچھ بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک تحصیل ہے، یہ تحصیل سطحِ سمندر سے ایک ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ مچھ کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ کوئٹہ شہر سے یہ تحصیل 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اِس تحصیل میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی آباد ہیں۔ مچھ کو چاروں اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے اور درمیان میں مچھ شہر آباد ہے۔ مچھ شہر کو خزانوں کی سرزمین اور کاروباری حوالے سے چھوٹا دبئی بھی کہا جاتا ہے، اِس کی وجہ مچھ سے نکلنے والی کوئلے کی کان ہے۔ مچھ شہر جیل و ریل کے حوالے سے پورے ملک میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔
1929ء میں انگریز حکومت نے مچھ جیل قائم کی جو اُس زمانے سے کالا پانی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اِس جیل میں ملک کے معروف سیاست دان، دانشور اور صحافی پابندِ سلاسل رہے ہیں۔ پورے ملک کے بے مہار قیدیوں کو مچھ جیل میں لایا جاتا ہے، جہاں یہ قیدی شیر سے بلی بن جاتے ہیں۔ مچھ جیل صوبے کی واحد جیل ہے، جہاں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
فوٹو: گوگل
مچھ جیل میں ہائی پروفائل قیدیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ میں سیکیورٹی کے انتظامات بھی سخت کردئیے جاتے ہیں۔ یہ جیل ایسی بنی ہوئی ہے جس میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا ہے لیکن پھر بھی قیدیوں کے پاس قیمتی سامان ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ مچھ جیل کے اِردگرد ایسی حفاطتی دیوار تعمیر کی گئی ہے جس میں جدید کلوز سرکٹ کیمرہ بھی نصب کئے گئے ہیں۔
فوٹو: گوگل
مچھ جیل کے بارے میں مشہور ہے کہ جو سیاسی شخصیت اور صحافی زیادہ تنگ کرے اُس کو مچھ جیل بھیج دو جہاں وہ بغیر عدالتی ٹرائل کے پڑا رہے گا۔ آج بھی مچھ جیل میں انگریزوں کے زمانے کا ایک عدد تحریری ضابطہِ کار موجود ہے۔ اِس ضابطہِ کار کی نہ تو عملہ خلاف ورزی کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی قیدی۔ مچھ جیل میں مختلف سزائیں دی جاتی ہے جن میں جیل، قیدِ تنہائی، ہتھکڑی، بیڑی، ناقص خوراک، تشدد، بیماری، نشے اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی عقوبت ناک سزائیں بہت مشہور ہے۔
فوٹو: گوگل
پولیس یہاں بھی اپنی جیب بھرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
مچھ جیل کے اندر قیدیوں کی لڑائی کا رجحان بھی عام ہے، حتیٰ کہ اِس دوران پولیس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فوٹو: گوگل
مچھ جیل میں آج تک لاتعداد قیدیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ جن کو جلاد اسلام آباد سے آکر پھانسی دیتے ہیں۔ وہ کیسے آتے ہیں؟ اور کب آتے ہیں؟ یہ جلاد یا پھر اُن کو لانے والے ہی جانتے ہیں۔ 2015ء میں اِسی جیل میں پھانسی پانے والے صولت مرزا کی ویڈیو نے مچھ جیل میں سیکیورٹی کے حوالے سے خامیوں کا پردہ چاک کیا تھا جس کے بعد جیل میں موبائل فونز لانے پر مزید سختی کی گئی لیکن پھر بھی موبائل فون قیدیوں کے ہاتھ لگ جاتے تھے۔ گزشتہ دنوں بھی یہاں سرچ آپریشن کیا گیا تھا اور دورانِ آپریشن قیدیوں سے موبائل فون سمیت دیگر سامان حاصل ہوا جو سامان انتظامیہ کی نگرانی میں فورسسز نے چھین لئے تھے اور قامی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اِس جیل کی صورتحال یہ ہے کہ اگر بلوچستان کے لوگوں کو کسی کو بددعا دینی ہو تو وہ صرف یہی کہہ دیتے ہیں کہ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
مچھ بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک تحصیل ہے، یہ تحصیل سطحِ سمندر سے ایک ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ مچھ کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ کوئٹہ شہر سے یہ تحصیل 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اِس تحصیل میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی آباد ہیں۔ مچھ کو چاروں اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے اور درمیان میں مچھ شہر آباد ہے۔ مچھ شہر کو خزانوں کی سرزمین اور کاروباری حوالے سے چھوٹا دبئی بھی کہا جاتا ہے، اِس کی وجہ مچھ سے نکلنے والی کوئلے کی کان ہے۔ مچھ شہر جیل و ریل کے حوالے سے پورے ملک میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔
1929ء میں انگریز حکومت نے مچھ جیل قائم کی جو اُس زمانے سے کالا پانی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اِس جیل میں ملک کے معروف سیاست دان، دانشور اور صحافی پابندِ سلاسل رہے ہیں۔ پورے ملک کے بے مہار قیدیوں کو مچھ جیل میں لایا جاتا ہے، جہاں یہ قیدی شیر سے بلی بن جاتے ہیں۔ مچھ جیل صوبے کی واحد جیل ہے، جہاں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
فوٹو: گوگل
مچھ جیل میں ہائی پروفائل قیدیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ میں سیکیورٹی کے انتظامات بھی سخت کردئیے جاتے ہیں۔ یہ جیل ایسی بنی ہوئی ہے جس میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا ہے لیکن پھر بھی قیدیوں کے پاس قیمتی سامان ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ مچھ جیل کے اِردگرد ایسی حفاطتی دیوار تعمیر کی گئی ہے جس میں جدید کلوز سرکٹ کیمرہ بھی نصب کئے گئے ہیں۔
فوٹو: گوگل
مچھ جیل کے بارے میں مشہور ہے کہ جو سیاسی شخصیت اور صحافی زیادہ تنگ کرے اُس کو مچھ جیل بھیج دو جہاں وہ بغیر عدالتی ٹرائل کے پڑا رہے گا۔ آج بھی مچھ جیل میں انگریزوں کے زمانے کا ایک عدد تحریری ضابطہِ کار موجود ہے۔ اِس ضابطہِ کار کی نہ تو عملہ خلاف ورزی کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی قیدی۔ مچھ جیل میں مختلف سزائیں دی جاتی ہے جن میں جیل، قیدِ تنہائی، ہتھکڑی، بیڑی، ناقص خوراک، تشدد، بیماری، نشے اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی عقوبت ناک سزائیں بہت مشہور ہے۔
فوٹو: گوگل
پولیس یہاں بھی اپنی جیب بھرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
- قیدیوں سے ملاقات کے لئے پیسے،
- گھر سے آنے والے کپڑوں اور کھانے کو قیدیوں تک پہنچانے کے پیسے،
- مار پیٹ سے بچنے کے پیسے،
- سخت مشقت پر نہ لگائے جانے سے بچنے کے پیسے،
- پیشی اور پھر عدالت پہنچانے کے پیسے،
- اسپتال میں چیک اپ کے لیے لے جانے کے پیسے اور
- جیل میں بنائے جانے والے سامان کے بیچنے کے پیسے وصول کرنا تک نہیں بھولتی۔
مچھ جیل کے اندر قیدیوں کی لڑائی کا رجحان بھی عام ہے، حتیٰ کہ اِس دوران پولیس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فوٹو: گوگل
مچھ جیل میں آج تک لاتعداد قیدیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ جن کو جلاد اسلام آباد سے آکر پھانسی دیتے ہیں۔ وہ کیسے آتے ہیں؟ اور کب آتے ہیں؟ یہ جلاد یا پھر اُن کو لانے والے ہی جانتے ہیں۔ 2015ء میں اِسی جیل میں پھانسی پانے والے صولت مرزا کی ویڈیو نے مچھ جیل میں سیکیورٹی کے حوالے سے خامیوں کا پردہ چاک کیا تھا جس کے بعد جیل میں موبائل فونز لانے پر مزید سختی کی گئی لیکن پھر بھی موبائل فون قیدیوں کے ہاتھ لگ جاتے تھے۔ گزشتہ دنوں بھی یہاں سرچ آپریشن کیا گیا تھا اور دورانِ آپریشن قیدیوں سے موبائل فون سمیت دیگر سامان حاصل ہوا جو سامان انتظامیہ کی نگرانی میں فورسسز نے چھین لئے تھے اور قامی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اِس جیل کی صورتحال یہ ہے کہ اگر بلوچستان کے لوگوں کو کسی کو بددعا دینی ہو تو وہ صرف یہی کہہ دیتے ہیں کہ
''خدا کرے تم مچھ جیل کا پانی پیو''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔