اداروں کی جمہوریت
ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ حقائق و قانون کو سول جج یا مجسٹریٹ کی آنکھ سے دیکھے اور دیکھنا بھی نہیں چاہیے
کبھی کبھی قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے بھی موڑ آتے ہیں۔ جہاںسے ایک بار پھرسمتوںکا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیںجہاں سے قومیں بنتی بھی ہیں اور بکھرتی بھی ہیں۔ متحدہ ہندوستان کی سطح سے اگر دیکھا جائے تو1947میں ہندوستان ٹوٹ گیا تھا ،لیکن ہمیں آزادی ملی اور1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا لیکن بنگلہ دیش کو آزادی مِلی۔ پھر یوں بھی ہوا جس طرح فیض کہتے ہیں۔
''یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیںجس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل''
ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ حقائق و قانون کو سول جج یا مجسٹریٹ کی آنکھ سے دیکھے اور دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ سول کورٹ ایک محدود کورٹ ہے، اس کی سوچ اور حد بھی محدود ہے۔ وہ بہت سارے Percedences کی تابع ہوتی ہے۔اْس کو تشریح بھی Literal کرنی ہوتی ہے۔ اس کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ اْس کے بالکل اْلٹ سپریم کورٹ ہے۔ اختیارات بھی لامحدود حد بھی لا محدود، تشریح کرنے کا اختیار بھی لا محدودPercedences بھی خود بناتا ہے۔
سچ کو دیکھنے کا زاویہ کچھ اس طرح بھی ہوتا ہے۔امریکا کوامریکا کس نے بنایا، امریکا کی سپریم کورٹ نے، ہندوستان کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بنایا اور چلے جائیں اگر یورپین کورٹ آف جسٹس، تو اسٹالز برگز میں انسانی حقوق کی کورٹ ہو، یا میگنا کارٹا ہو ، توایسے کئی جج صاحبان جو جسٹس دراب پٹیل کی طرح قوموں کی تاریخ میںگہرے نقوش چھوڑ گئے ہونگے۔ اْن کی سمت کا پھر اس طرح سے کچھ تعین ہوا کہ آیندہ کی نسلیں تابناک مستقبل کی امین بنیں۔
ہماری سیاست اقرباء پروری کا مجموعہ ہے۔چوروں کے کنبے ہیں اور اِن کنبوں کے ڈیرے ہیں، اِن ڈیروں کے کوئی وڈیرے ہیں۔ کوئی خان ، چوہدری ، کوئی سردار ، کوئی گماشتہ سرمایہ دار، کوئی کمیشن پر کام کرتا ہے تو کوئی قبضہ کرتا ہے، کوئی ذخیرہ اندوزی ، کوئی منی لانڈرنگ تو کوئی قرضے کھاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟کل پرسوں کی رپورٹ ہے سندھ میں75% فیصد لوگوں کو پینے کے لیے آلودہ پانی ملتا ہے، بلکہ 80%۔ اور ایسے کئی حقائق یہاں سامنے لائے جا سکتے ہیں جو اِس اقرباء پروری کا نتیجہ ہیں۔ ہم اتنے مقروض ہو چکے ہیں کہ پاکستان ایک بہت بڑے بحران کی دہلیز پر کھڑا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ اِس وجہ سے ہے کہ اس کی طلب بڑھ گئی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنی بجلی کی طلب بڑھی ہے اتنی ہی اْس کی رسد۔ مگر بجلی پیدا کرنے کے پاور ہاؤسز سو فیصد Capacity میں کام نہیںکر پاتے۔ وہ اس لیے کہ بجلی چوری کرنے کا رجحان ہے اور سرکاری ادارے بجلی کے واجبات ادا نہیں کرتے۔
معاشی نظریئے سے اگر دیکھا جائے تو ریاست کے بلڈ پریشر کے تعین کا بیرو میٹر کرنٹ اکاؤنٹ ہی کافی ہے جو آجکل منفی ہونے میں بلندیوں کو چھو رہا ہے اور سارے تاریخی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔
مسلم لیگ ن کے پچھلے دو ادوار اور موجودہ دورکا اگر جائزہ لیا جائے تو جتنی معاشی بے راہ روی پر وہ چلی ہے شاید ہی کوئی اور چلا ہو۔ یہاں تک کے پچھلے ادوار میںافراطِ زر % 18 بھی رہا۔ اس دور میں افراط زر اگر 5% پر ہے تو اس کا کریڈٹ مسلم لیگ کی حکومت کو نہیں دیا جا سکتا، بلکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گِر گئیں۔ وفاقی حکومت نے اِن چار سالوں میں بیرونی اور اندرونی اتنے قرضے لیے کہ اگر موازنہ کیاجائے تو پچھلے دونوں ادوارکے قرضے ایک طرف اور اِن چار سالوں کے قرضے ایک طرف۔
مالی سال2015-2016 کے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا نظر آتا ہے اور اب مالی سال 2016-2017 میں یہ خسارہ بڑھ کر ساڑھے دس ارب ڈالر کو پہنچ چکا ہے، یوں کہیے کہ دو سو فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خاکہ کیوں اس طرح بنا ہے اب ذرا اِس کو بھی دیکھیے ہماری ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالر سے گِر کر، پچھلے سال ساڑھے اْنیس ارب ڈالر پر ٹھہری اور ہماری امپورٹ 45 ارب ڈالر سے پچاس ارب ڈالر تک پہنچی اور emittancesٛR بھی گریں مگر ساڑھے سترہ ہزار ڈالر تک پھر بھی Stable رہیں۔
یوں کہیے کہ Balance of payment میں لگ بھگ سترہ ارب ، کا خسارہ ہوا ، اس لیے کہ بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی میں پچیس فیصد اضافہ ہوا مالی سال 2015-2016 کی بہ نسبت آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ہمارا مجموعی قرضہ مجموعی پیداوار (GDP) کے مقابلے75.4%تک پہنچ گیاہے اور بہت سے ذرایع یہ بھی کہتے ہیں کہ85% کے لگ بھگ ہے۔دکھ اس بات کا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار میںہیر پھیر کی گئی ہے، برآمدات و درآمدات کے اعداد و شمارPakistan Board of Status(PBS) سے مماثلت نہیں رکھتے۔ خود PBS نے اعداد و شمار کو کتنا Manupulate کیا وہ بحث ہم نہیں کرتے۔ کیونکہ PBS وزارتِ خزانہ کے زیر آتا ہے اور یہ وزارت اسحْٰق ڈار کے پاس ہے۔ 2021 سے ہر سال ہمیں پانچ ارب ڈالر CPEC کی مد میں لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں ہمیں چین کو دینے ہیں۔IMF 2016, کی رپورٹ میںکہتا ہے کہ پاکستانی روپیہ اپنی حقیقی سطح سے سترہ فیصد اوپر ہے یعنی اگر یہ کہا جائے کہ ڈالر اب اس سال کے آخر تک 120 روپے تک کا ہو جائے گا ۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کرے کوئی اور بھر ے کوئی اور رواں سال کی شرح نمو کا تخمینہ چھ فیصد ہے، مگرMody's کہتے ہیں کہ یہ5.5% سے زیادہ نہیں بڑھے گی۔ مطلب یہ کہ ٹیکسز کی مد میں جو ہم نے اپنی آمدنی کا ٹارگٹ رکھا ہے وہ حاصل نہیں ہو گا یعنی مالی خسارہ جو ہم نے4.1% تک سوچا ہے وہIMF کہتا ہے کہ4.7% تک کا ہو گا اور Mody's کہتے ہیں کہ یہ خسارہ 5% تک ہو گا۔ یعنی کیا ہم قرضہ در رقرضہ لیے جائیں گے؟ اور میری سوچ یہ ہے کہ جب تک اِس ملک میںSkilled Labour نہیں بڑھے گا تب تک کچھ بھی حاصل نہ ہو گا ہم اور زیادہ دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔
Skilled Labour کا تعلق ہے Human Development indicator (HDI) سے ہے نہ کہGDP- سے ۔ 2002 میں HDIکے حوالے سے جہاں ہم تھے وہاں سے بارہ ملک آگے نِکل چْکے ہیں۔ یہ بحث بے حد طویل ہے اور میںایک وکیل ہوں۔ دل روتا ہے بہت ، کہ اپنے وطن کے لیے اپنے قلم کی جنبش سے بہت کچھ رقم کروںکہ اِن بڑے ایوانوں میں سے مجھے بھی کوئی پڑھتا ہو اور تبدیلی کی کوئی امید بندھ جائے۔ اب سپریم کورٹ کے پاس اِس ملک کی فریاد پہنچ چکی ہے شاید کہ کوئی داد رسی ہوجائے۔ اب پاکستان کو نواز شریف اور زرداری کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نئی جمہوریت کی ضرورت ہے۔
''یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیںجس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل''
ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ حقائق و قانون کو سول جج یا مجسٹریٹ کی آنکھ سے دیکھے اور دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ سول کورٹ ایک محدود کورٹ ہے، اس کی سوچ اور حد بھی محدود ہے۔ وہ بہت سارے Percedences کی تابع ہوتی ہے۔اْس کو تشریح بھی Literal کرنی ہوتی ہے۔ اس کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ اْس کے بالکل اْلٹ سپریم کورٹ ہے۔ اختیارات بھی لامحدود حد بھی لا محدود، تشریح کرنے کا اختیار بھی لا محدودPercedences بھی خود بناتا ہے۔
سچ کو دیکھنے کا زاویہ کچھ اس طرح بھی ہوتا ہے۔امریکا کوامریکا کس نے بنایا، امریکا کی سپریم کورٹ نے، ہندوستان کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بنایا اور چلے جائیں اگر یورپین کورٹ آف جسٹس، تو اسٹالز برگز میں انسانی حقوق کی کورٹ ہو، یا میگنا کارٹا ہو ، توایسے کئی جج صاحبان جو جسٹس دراب پٹیل کی طرح قوموں کی تاریخ میںگہرے نقوش چھوڑ گئے ہونگے۔ اْن کی سمت کا پھر اس طرح سے کچھ تعین ہوا کہ آیندہ کی نسلیں تابناک مستقبل کی امین بنیں۔
ہماری سیاست اقرباء پروری کا مجموعہ ہے۔چوروں کے کنبے ہیں اور اِن کنبوں کے ڈیرے ہیں، اِن ڈیروں کے کوئی وڈیرے ہیں۔ کوئی خان ، چوہدری ، کوئی سردار ، کوئی گماشتہ سرمایہ دار، کوئی کمیشن پر کام کرتا ہے تو کوئی قبضہ کرتا ہے، کوئی ذخیرہ اندوزی ، کوئی منی لانڈرنگ تو کوئی قرضے کھاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟کل پرسوں کی رپورٹ ہے سندھ میں75% فیصد لوگوں کو پینے کے لیے آلودہ پانی ملتا ہے، بلکہ 80%۔ اور ایسے کئی حقائق یہاں سامنے لائے جا سکتے ہیں جو اِس اقرباء پروری کا نتیجہ ہیں۔ ہم اتنے مقروض ہو چکے ہیں کہ پاکستان ایک بہت بڑے بحران کی دہلیز پر کھڑا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ اِس وجہ سے ہے کہ اس کی طلب بڑھ گئی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنی بجلی کی طلب بڑھی ہے اتنی ہی اْس کی رسد۔ مگر بجلی پیدا کرنے کے پاور ہاؤسز سو فیصد Capacity میں کام نہیںکر پاتے۔ وہ اس لیے کہ بجلی چوری کرنے کا رجحان ہے اور سرکاری ادارے بجلی کے واجبات ادا نہیں کرتے۔
معاشی نظریئے سے اگر دیکھا جائے تو ریاست کے بلڈ پریشر کے تعین کا بیرو میٹر کرنٹ اکاؤنٹ ہی کافی ہے جو آجکل منفی ہونے میں بلندیوں کو چھو رہا ہے اور سارے تاریخی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔
مسلم لیگ ن کے پچھلے دو ادوار اور موجودہ دورکا اگر جائزہ لیا جائے تو جتنی معاشی بے راہ روی پر وہ چلی ہے شاید ہی کوئی اور چلا ہو۔ یہاں تک کے پچھلے ادوار میںافراطِ زر % 18 بھی رہا۔ اس دور میں افراط زر اگر 5% پر ہے تو اس کا کریڈٹ مسلم لیگ کی حکومت کو نہیں دیا جا سکتا، بلکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گِر گئیں۔ وفاقی حکومت نے اِن چار سالوں میں بیرونی اور اندرونی اتنے قرضے لیے کہ اگر موازنہ کیاجائے تو پچھلے دونوں ادوارکے قرضے ایک طرف اور اِن چار سالوں کے قرضے ایک طرف۔
مالی سال2015-2016 کے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا نظر آتا ہے اور اب مالی سال 2016-2017 میں یہ خسارہ بڑھ کر ساڑھے دس ارب ڈالر کو پہنچ چکا ہے، یوں کہیے کہ دو سو فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خاکہ کیوں اس طرح بنا ہے اب ذرا اِس کو بھی دیکھیے ہماری ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالر سے گِر کر، پچھلے سال ساڑھے اْنیس ارب ڈالر پر ٹھہری اور ہماری امپورٹ 45 ارب ڈالر سے پچاس ارب ڈالر تک پہنچی اور emittancesٛR بھی گریں مگر ساڑھے سترہ ہزار ڈالر تک پھر بھی Stable رہیں۔
یوں کہیے کہ Balance of payment میں لگ بھگ سترہ ارب ، کا خسارہ ہوا ، اس لیے کہ بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی میں پچیس فیصد اضافہ ہوا مالی سال 2015-2016 کی بہ نسبت آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ہمارا مجموعی قرضہ مجموعی پیداوار (GDP) کے مقابلے75.4%تک پہنچ گیاہے اور بہت سے ذرایع یہ بھی کہتے ہیں کہ85% کے لگ بھگ ہے۔دکھ اس بات کا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار میںہیر پھیر کی گئی ہے، برآمدات و درآمدات کے اعداد و شمارPakistan Board of Status(PBS) سے مماثلت نہیں رکھتے۔ خود PBS نے اعداد و شمار کو کتنا Manupulate کیا وہ بحث ہم نہیں کرتے۔ کیونکہ PBS وزارتِ خزانہ کے زیر آتا ہے اور یہ وزارت اسحْٰق ڈار کے پاس ہے۔ 2021 سے ہر سال ہمیں پانچ ارب ڈالر CPEC کی مد میں لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں ہمیں چین کو دینے ہیں۔IMF 2016, کی رپورٹ میںکہتا ہے کہ پاکستانی روپیہ اپنی حقیقی سطح سے سترہ فیصد اوپر ہے یعنی اگر یہ کہا جائے کہ ڈالر اب اس سال کے آخر تک 120 روپے تک کا ہو جائے گا ۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کرے کوئی اور بھر ے کوئی اور رواں سال کی شرح نمو کا تخمینہ چھ فیصد ہے، مگرMody's کہتے ہیں کہ یہ5.5% سے زیادہ نہیں بڑھے گی۔ مطلب یہ کہ ٹیکسز کی مد میں جو ہم نے اپنی آمدنی کا ٹارگٹ رکھا ہے وہ حاصل نہیں ہو گا یعنی مالی خسارہ جو ہم نے4.1% تک سوچا ہے وہIMF کہتا ہے کہ4.7% تک کا ہو گا اور Mody's کہتے ہیں کہ یہ خسارہ 5% تک ہو گا۔ یعنی کیا ہم قرضہ در رقرضہ لیے جائیں گے؟ اور میری سوچ یہ ہے کہ جب تک اِس ملک میںSkilled Labour نہیں بڑھے گا تب تک کچھ بھی حاصل نہ ہو گا ہم اور زیادہ دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔
Skilled Labour کا تعلق ہے Human Development indicator (HDI) سے ہے نہ کہGDP- سے ۔ 2002 میں HDIکے حوالے سے جہاں ہم تھے وہاں سے بارہ ملک آگے نِکل چْکے ہیں۔ یہ بحث بے حد طویل ہے اور میںایک وکیل ہوں۔ دل روتا ہے بہت ، کہ اپنے وطن کے لیے اپنے قلم کی جنبش سے بہت کچھ رقم کروںکہ اِن بڑے ایوانوں میں سے مجھے بھی کوئی پڑھتا ہو اور تبدیلی کی کوئی امید بندھ جائے۔ اب سپریم کورٹ کے پاس اِس ملک کی فریاد پہنچ چکی ہے شاید کہ کوئی داد رسی ہوجائے۔ اب پاکستان کو نواز شریف اور زرداری کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نئی جمہوریت کی ضرورت ہے۔