ملک بچانے کی کوشش کیجیے
ملک کے موجودہ حالات ہی بہ زبان خود یہ کہہ رہے ہیں کہ خدارا ملک کی طرف دیکھو
JEDDAH:
جی ہاں! ملک بچانے کی کوشش کیجیے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، ہر کوئی خاص و عام کہہ رہا ہے۔ ہم سب کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہر طرف سے کیوں یہی صدا آرہی ہے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی وجہ سے یہ صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات ہی بہ زبان خود یہ کہہ رہے ہیں کہ خدارا ملک کی طرف دیکھو، ملک کے رخ کو دیکھو، ملک کی سرزمین کو دیکھو، ملک کے اندر اور باہر کے حدود و اربع کو دیکھو۔ اِس بارے میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔
نویدیں سنائی جارہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کسی کو قومی و ملکی مفادات پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے؟ ہر خاص و عام اپنے ہی مفادات اور مسائل میں گِھرا ہوا ہے۔ کوئی معاشی بدحالی و بے روزگاری، کوئی مہنگائی و غربت کے مسائل سے پریشان ہے تو کوئی حکومت کی عوامی مسائل کی طرف بے توجہی و چشم پوشی سے بے زار ہے۔حکمران عوام کی بہتری کے دعوے تو کرتے ہیں
مگر ان کے یہ دعوے نعروں کی گونج میں ختم ہو جاتے ہیں اور عملی صورت میں نہیں ڈھلتے۔الیکشن سے پہلے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ ہم آگئے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی مگر اقتدار ملتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ کون عوام اور کونسی ترقی کے وعدے۔اب عوام کا ایک بڑا حصہ کافی سمجھ دار ہو گیا ہے وہ سیاستدانوں کے وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ،اب وہ ملک میں ایسی قیادت چاہتا ہے جو حقیقی معنوں میں ترقی کا سفر شروع کرے ۔
کہنے کو تو آمریت ختم ہوگئی اور ''جمہوریت'' آگئی۔ مگر جمہوریت پروان نہیں چڑھ رہی ہے۔ جمہوریت تو شروع دن سے ہی ہچکولے کھا رہی ہے۔
ثابت قدمی سے آگے کی طرف نہیں جارہی۔ اس لیے کہ اِس کے راستے بڑے کٹھن ہیں۔ اس کے راستوں پر بے شمار رکاوٹیں ہیں۔ سنتے تو یہی آرہے ہیں کہ ''جمہوریت کیا ہے ''Govt. of the people, for the people and by the people'' اس نظریے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کیا موجودہ دور کی جمہوریت بالکل اِس کے مطابق ہے؟ جواب یہی ہوگا کہ نہیں! کیونکہ موجودہ دورِ جمہوریت میں تو عوام کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بس اقتدار کی ہوس اور رسّہ کشی ہی نظر آتی ہے۔ یہ محض خیالی نظریہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ موجودہ حالات خود اس کا ثبوت دے رہے، کیا یہی جمہوریت کی روایات ہیں۔
جمہوریت تو کہتی ہے کہ عوام کی شراکت داری ہی جمہوری نظام کی روح ہے۔ اگر کسی جمہوری حکومت میں عوام کو ہی نظرانداز کردیا جائے تو کیا وہ صحیح معنوں میں جمہوری نظام چلاسکتی ہے۔ یہی حال اب موجودہ دور جمہوریت کا ہورہا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود، عوام کے مسائل، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی و دیگر معاشی مسائل کا حل کہیں نظر نہیں آرہا ہے، یعنی یہ سب مسائل لایعنی ہو کر رہ گئے۔ اس کے برعکس نان ایشوز، اسکینڈلز، غیر عوامی مسائل کا طوفان کھڑا ہوا ہے۔ اس پر طرۂ امتیاز یہ کہ اِن غیر ضروری مسائل کو بھی حل کرنے کی کوئی صورت نہیں نکالی جاتی بلکہ اِن غیر ضروری مسائل میں الجھ کر ''قومی مسائل'' کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ جمہوریت میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور یہ جمہوریت کا ''حسن'' بھی کہلاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ ''اختلاف برائے اختلاف'' کو شعار بنا کر ملک و قوم کے مفادات کو نظرانداز کردیا جائے۔ بے شک غیر جمہوری اقدامات پر تنقید ضرور ہونی چاہیے لیکن مثبت انداز میں۔ اس میں کسی تخریبی عنصر کا شائبہ نہ ہو۔ جس دن سے موجودہ دور حکومت کا آغاز ہوا۔ اسی وقت سے نہ صرف حکومت کی جانب سے بلکہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی غیر جمہوری رویے سامنے آرہے ہیں۔ اسی وجہ سے کئی حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ سب ''نورا کشتی'' ہے۔ نہ حکومت نہ ہی حزب اختلاف دونوں طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ ایک طرف حکومتی ساکھ بچانے کی صورت نظر آرہی ہے تو دوسری طرف حکومت گرانے کی شد و مد نظر آرہی ہے۔
پورا ملک شدید بحرانوں کا شکار ہے۔ کہیں مزدوروں کا احتجاج تو کہیں اساتذہ کا احتجاج، کہیں ڈاکٹروں کا احتجاج تو کہیں سرکاری ملازمین کا احتجاج تو کہیں صحافیوں کا احتجاج تو کہیں طلبا و طالبات کا احتجاج تو کہیں ریلوے، اسٹیل ملز کے ملازمین کے احتجاج۔ ان تمام احتجاجوں کا اظہار مختلف جگہوں میں، ریلیوں، ہڑتالوں، جلسے و جلوسوں، دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں کے ذریعے کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری املاک بلکہ نجی املاک کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے لیکن سب سے اہم بحران ''توانائی بحران'' ہے جو نہ وفاقی، نہ ہی صوبائی حکومتوں کے قابو میں آرہا ہے۔ اس توانائی بحران نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔
اچھے خاصے روشن شہروں میں اندھیروں کا راج ہے۔ اِن تمام بحرانوں کا منبع سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ''کرپشن'' کو قرار دیا جارہا ہے۔ اسی بِنا پر بڑے بڑے ''کرپشن'' کے اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں۔ چونکہ حکومتی سطح پر اِن کرپشن اسکینڈلز کی روک تھام یا خاتمے کا کوئی ردّعمل نظر نہیں آرہا ہے، اس لیے عدالتوں کو اِن کرپشن اسکینڈلز کا نوٹس لینا پڑرہا ہے، جس کی وجہ سے عدالتوں پر اس قدر بوجھ پڑ گیا ہے کہ سطحی طرز پر یہی تاثر مل رہا ہے کہ عدالتیں بھی ان ہی اسکینڈلز کی سماعتوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں اور دیگر عوامی مقدمات جو سالہا سال سے چھوٹی و بڑی عدالتوں میں زیر التوا ہیں، ان کی باری ہی نہیں آرہی۔
صاحبانِ اقتدار و حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزام تراشیوںکے سوا کچھ نہیں سوچ رہے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کے دن بھی کتنے رہ گئے۔ عام انتخابات بھی سر پر آرہے ہیں اور سیاسی ماحول میں بھی کافی گرما گرمی ہے۔ بڑے بڑے آزمائے ہوئے مہرے تو ہیں ہی مگر دیگر چھوٹے اور نو آزمودہ چہرے بھی بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہی مسئلہ بن کر رہ گیا تھا، اب چیف الیکشن کمشنر صاحب کا انتخاب ہوگیا ہے تو اس پر تنقید و بداعتمادی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ہے نا کتنے افسوس اور جمہوریت کے ڈول میں سوراخ ڈالنے والی بات، عجیب رنگ و ڈھنگ اختیار کیے ہوئے ہیں یہ لوگ جو حزب اختلاف میںہیں اور جو اسمبلیوں سے باہر بیٹھے ہیں۔ کیا کیجیے اِن کا گو کہ ملک کی سالمیت کو خطرہ پہنچنے کے خطرات منڈلارہے ہیں تو دوسری طرف اِن ساون کے اندھوں کو محض اقتدار حاصل کرنے کی فکر لگی ہوئی ہے۔
ملکی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ کوئی محکمہ، کوئی ادارہ اور نہ ریاستی ستون متحرک ہیں۔ سب اپنی اپنی ڈفلی بجارہے ہیں اور ملکی معاملات سے لاپرواہی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے میں نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے کہ ''ملک بچانے کی کوشش کیجیے''۔ خدا کرے کہ جمہوریت کو زک نہ پہنچے، جمہوریت چلتی رہے کیونکہ آمریت سے لنگڑی لولی جمہوریت بہتر ہے۔
جی ہاں! ملک بچانے کی کوشش کیجیے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، ہر کوئی خاص و عام کہہ رہا ہے۔ ہم سب کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہر طرف سے کیوں یہی صدا آرہی ہے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی وجہ سے یہ صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات ہی بہ زبان خود یہ کہہ رہے ہیں کہ خدارا ملک کی طرف دیکھو، ملک کے رخ کو دیکھو، ملک کی سرزمین کو دیکھو، ملک کے اندر اور باہر کے حدود و اربع کو دیکھو۔ اِس بارے میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔
نویدیں سنائی جارہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کسی کو قومی و ملکی مفادات پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے؟ ہر خاص و عام اپنے ہی مفادات اور مسائل میں گِھرا ہوا ہے۔ کوئی معاشی بدحالی و بے روزگاری، کوئی مہنگائی و غربت کے مسائل سے پریشان ہے تو کوئی حکومت کی عوامی مسائل کی طرف بے توجہی و چشم پوشی سے بے زار ہے۔حکمران عوام کی بہتری کے دعوے تو کرتے ہیں
مگر ان کے یہ دعوے نعروں کی گونج میں ختم ہو جاتے ہیں اور عملی صورت میں نہیں ڈھلتے۔الیکشن سے پہلے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ ہم آگئے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی مگر اقتدار ملتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ کون عوام اور کونسی ترقی کے وعدے۔اب عوام کا ایک بڑا حصہ کافی سمجھ دار ہو گیا ہے وہ سیاستدانوں کے وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ،اب وہ ملک میں ایسی قیادت چاہتا ہے جو حقیقی معنوں میں ترقی کا سفر شروع کرے ۔
کہنے کو تو آمریت ختم ہوگئی اور ''جمہوریت'' آگئی۔ مگر جمہوریت پروان نہیں چڑھ رہی ہے۔ جمہوریت تو شروع دن سے ہی ہچکولے کھا رہی ہے۔
ثابت قدمی سے آگے کی طرف نہیں جارہی۔ اس لیے کہ اِس کے راستے بڑے کٹھن ہیں۔ اس کے راستوں پر بے شمار رکاوٹیں ہیں۔ سنتے تو یہی آرہے ہیں کہ ''جمہوریت کیا ہے ''Govt. of the people, for the people and by the people'' اس نظریے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کیا موجودہ دور کی جمہوریت بالکل اِس کے مطابق ہے؟ جواب یہی ہوگا کہ نہیں! کیونکہ موجودہ دورِ جمہوریت میں تو عوام کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بس اقتدار کی ہوس اور رسّہ کشی ہی نظر آتی ہے۔ یہ محض خیالی نظریہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ موجودہ حالات خود اس کا ثبوت دے رہے، کیا یہی جمہوریت کی روایات ہیں۔
جمہوریت تو کہتی ہے کہ عوام کی شراکت داری ہی جمہوری نظام کی روح ہے۔ اگر کسی جمہوری حکومت میں عوام کو ہی نظرانداز کردیا جائے تو کیا وہ صحیح معنوں میں جمہوری نظام چلاسکتی ہے۔ یہی حال اب موجودہ دور جمہوریت کا ہورہا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود، عوام کے مسائل، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی و دیگر معاشی مسائل کا حل کہیں نظر نہیں آرہا ہے، یعنی یہ سب مسائل لایعنی ہو کر رہ گئے۔ اس کے برعکس نان ایشوز، اسکینڈلز، غیر عوامی مسائل کا طوفان کھڑا ہوا ہے۔ اس پر طرۂ امتیاز یہ کہ اِن غیر ضروری مسائل کو بھی حل کرنے کی کوئی صورت نہیں نکالی جاتی بلکہ اِن غیر ضروری مسائل میں الجھ کر ''قومی مسائل'' کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ جمہوریت میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور یہ جمہوریت کا ''حسن'' بھی کہلاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ ''اختلاف برائے اختلاف'' کو شعار بنا کر ملک و قوم کے مفادات کو نظرانداز کردیا جائے۔ بے شک غیر جمہوری اقدامات پر تنقید ضرور ہونی چاہیے لیکن مثبت انداز میں۔ اس میں کسی تخریبی عنصر کا شائبہ نہ ہو۔ جس دن سے موجودہ دور حکومت کا آغاز ہوا۔ اسی وقت سے نہ صرف حکومت کی جانب سے بلکہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی غیر جمہوری رویے سامنے آرہے ہیں۔ اسی وجہ سے کئی حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ سب ''نورا کشتی'' ہے۔ نہ حکومت نہ ہی حزب اختلاف دونوں طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ ایک طرف حکومتی ساکھ بچانے کی صورت نظر آرہی ہے تو دوسری طرف حکومت گرانے کی شد و مد نظر آرہی ہے۔
پورا ملک شدید بحرانوں کا شکار ہے۔ کہیں مزدوروں کا احتجاج تو کہیں اساتذہ کا احتجاج، کہیں ڈاکٹروں کا احتجاج تو کہیں سرکاری ملازمین کا احتجاج تو کہیں صحافیوں کا احتجاج تو کہیں طلبا و طالبات کا احتجاج تو کہیں ریلوے، اسٹیل ملز کے ملازمین کے احتجاج۔ ان تمام احتجاجوں کا اظہار مختلف جگہوں میں، ریلیوں، ہڑتالوں، جلسے و جلوسوں، دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں کے ذریعے کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری املاک بلکہ نجی املاک کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے لیکن سب سے اہم بحران ''توانائی بحران'' ہے جو نہ وفاقی، نہ ہی صوبائی حکومتوں کے قابو میں آرہا ہے۔ اس توانائی بحران نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔
اچھے خاصے روشن شہروں میں اندھیروں کا راج ہے۔ اِن تمام بحرانوں کا منبع سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ''کرپشن'' کو قرار دیا جارہا ہے۔ اسی بِنا پر بڑے بڑے ''کرپشن'' کے اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں۔ چونکہ حکومتی سطح پر اِن کرپشن اسکینڈلز کی روک تھام یا خاتمے کا کوئی ردّعمل نظر نہیں آرہا ہے، اس لیے عدالتوں کو اِن کرپشن اسکینڈلز کا نوٹس لینا پڑرہا ہے، جس کی وجہ سے عدالتوں پر اس قدر بوجھ پڑ گیا ہے کہ سطحی طرز پر یہی تاثر مل رہا ہے کہ عدالتیں بھی ان ہی اسکینڈلز کی سماعتوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں اور دیگر عوامی مقدمات جو سالہا سال سے چھوٹی و بڑی عدالتوں میں زیر التوا ہیں، ان کی باری ہی نہیں آرہی۔
صاحبانِ اقتدار و حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزام تراشیوںکے سوا کچھ نہیں سوچ رہے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کے دن بھی کتنے رہ گئے۔ عام انتخابات بھی سر پر آرہے ہیں اور سیاسی ماحول میں بھی کافی گرما گرمی ہے۔ بڑے بڑے آزمائے ہوئے مہرے تو ہیں ہی مگر دیگر چھوٹے اور نو آزمودہ چہرے بھی بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہی مسئلہ بن کر رہ گیا تھا، اب چیف الیکشن کمشنر صاحب کا انتخاب ہوگیا ہے تو اس پر تنقید و بداعتمادی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ہے نا کتنے افسوس اور جمہوریت کے ڈول میں سوراخ ڈالنے والی بات، عجیب رنگ و ڈھنگ اختیار کیے ہوئے ہیں یہ لوگ جو حزب اختلاف میںہیں اور جو اسمبلیوں سے باہر بیٹھے ہیں۔ کیا کیجیے اِن کا گو کہ ملک کی سالمیت کو خطرہ پہنچنے کے خطرات منڈلارہے ہیں تو دوسری طرف اِن ساون کے اندھوں کو محض اقتدار حاصل کرنے کی فکر لگی ہوئی ہے۔
ملکی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ کوئی محکمہ، کوئی ادارہ اور نہ ریاستی ستون متحرک ہیں۔ سب اپنی اپنی ڈفلی بجارہے ہیں اور ملکی معاملات سے لاپرواہی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے میں نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے کہ ''ملک بچانے کی کوشش کیجیے''۔ خدا کرے کہ جمہوریت کو زک نہ پہنچے، جمہوریت چلتی رہے کیونکہ آمریت سے لنگڑی لولی جمہوریت بہتر ہے۔