اخلاص کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول

اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے اور جس عمل میں اخلاص نہ ہو وہ ریاکاری ہے

ریاکاری کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب دوسرے لوگ موجود ہیں تو عمل کرنے میں چستی ہے اور اکیلا ہے تو سستی ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
ایک مومن کا یہ شیوہ ہے کہ جو عمل بھی کیا جائے وہ خالصتاً اللہ کی خوش نودی کے لیے کیا جائے اور اس میں کوئی بھی دُنیاوی غرض شامل نہ ہو۔ ہم کئی کام کرتے ہیں جس میں دنیاوی غرض و غایت شامل ہوتی ہے' وہ کام اخلاص کے زمرے سے نکل جاتا ہے۔

مثال کے طور پر کوئی روزہ رکھے اور ذہن میں یہ بات ہوکہ اس سے ڈائیٹنگ بھی ہوجائے گی، بھوکا رہنے کے فوائد اور بچت بھی ہوجائے گی، کام کرنے کے لیے وقت بھی زیادہ ملے گا۔ اگر اس طرح کی نیت شامل ہوگئی تو روزے میں اخلاص جاتا رہا۔ اس طرح کوئی حج کے لیے نکلے اور نیت یہ ہو وہاں شاپنگ کریں گے تو اخلاص کہاں رہا ؟

کسی نے اللہ کی رضا کے لیے حج کیا اور نیت اس کی شاپنگ کی نہیں ہے مگر ضمناً واپسی پر کچھ خرید لیا تو جرم نہیں ہے جب کہ جائز طریقے پر اس کو خرید کر لیا ہو۔ حج یا عمرے کے لیے اس لیے سفر اختیار کیا کہ ڈاکٹر نے بھی کہا کہ آب و ہوا تبدیل کرو اور اپنا ٹینشن کم کرو، جب آزاد فضاؤں میں گھومیں گے اور کوئی فکر نہیں ہوگی یا گھر میں لڑائی جھگڑوں سے یا دشمن پیچھے لگے ہوئے ہیں یا قرض دار تنگ کر رہے ہیں، اس طرح دشمنوں سے جان چھوٹ جائے گی اور حج یا عمرہ بھی ہوجائے گا، یہ باتیں بھی اخلاص کو باطل کردیں گی۔

اس لیے کہ اس کا یہ عمل اللہ کے لیے نہیں رہا۔ اس لیے اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے، جبھی یہ عمل خالص کہلائے گا۔ اس طرح کوئی رات کو عباد ت کرتا ہے اور اصل مقصد عبادت نہیں بل کہ چوکی داری کرنا ہے کہ گھر یا دکان کے سامان کی حفاظت بھی رہے تو یہ اس کی عبادت اللہ عزوجل کے لیے نہ ہوئی۔ اس طرح کوئی علم حاصل کرتا ہے یا اس کے ذریعے مزید آگے یہ دنیا کمائے گا یا نوکری اچھی ملے گی یا روزگار کا بندوبست ہوجائے گا، یہ علم دین حاصل کرنا بھی اس کا اللہ عزوجل کے لیے نہ ہوا۔ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، اگر نیت کرے کہ میں علم اللہ کے لیے حاصل کررہا ہوں تو روزگار کہیں بھی نہیں گیا، بے شک بعد میں تدریس وغیرہ کرکے اس کا مشاہرہ حاصل کرے مگر پڑھے اس لیے کہ اس سے مجھے اچھی نوکری مل جائے گی، اس کے ذریعے میں اپنا پیٹ پالوں گا، اس کی یہ نیت اخلاص سے خالی ہے۔

جو عمل اللہ کے لیے کیا جاتا ہے، اس کی بہت برکتیں ہوتی ہیں۔ حضرت علی المرتضیؓ فرماتے ہیں: ''عمل کی کمی کی فکر مت کرو اس کی قبولیت کی فکر کرو۔''

حضور نبی کریمؐ نے معاذ بن جبلؓ سے فرمایا : '' اپنے عمل کو خالص کرو تھوڑا بھی کافی ہوگا۔'' اللہ کے پیارے محبوب ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ جو بند ہ چالیس دن خالص اللہ عزوجل کے لیے عمل کرے تو اللہ تعالیٰ حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر ظاہر فرما دیتا ہے۔ دُنیا میں ہوسکتا ہے اسے کوئی صلہ مل بھی جائے، آخرت میں اسے کیا ملے گا؟ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ: ''جو دُنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے اور اس میں کمی نہ کریں گے۔'' (سورۃ ہود )

جو دنیا میں آرائش چاہتا ہے، اس دنیا میں نفع چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سارا مل جائے گا۔ آج کل دنیا وی نفع کمانے کے لیے آدمی اپنا دین یا عمل بہت بیچتا نظر آتا ہے کہ جہالت کی انتہا ہوگئی ہے۔ ایسا دور آگیا کہ انسان اپنا عمل دو ٹکے میں بیچ دیتا ہے، اس کی بالکل پروا ہی نہیں کرتا، دیکھو تسبیح کا دام صحیح لگانا میں حج پر جارہا ہوں، اچھے والا احرام دینا میں حج پر جارہا ہوں، سب کو پتا ہے احرام وہی لے گا جس نے حج پر جانا ہے، نہ بھی بولتا تو تیرا نقارہ تو بجا ہی ہوا ہے کہ حج پر جارہا ہے، پھر بھی سب کو بتاتا پھیرے گا کہ میں حج پر جا رہا ہوں۔ اپنے عمل کی نمائش کا اتنا دور دورہ ہے کہ پتا ہی نہیں کہ ریاکاری کیا ہے اور اخلاص کیا ہے؟ علم ہی نہیں ہے اور علم کے بغیر تقویٰ حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ جس بات کی معلومات ہوگی اسی میں انسان تقویٰ کرے گا، بچے گا، اللہ سے ڈرے گا۔ جب پتا ہی کچھ نہیں ہوگا تو کرے گا کیا؟

اخلاص، عمل کی قبولیت کی کنجی ہے۔ ہر عمل کے لیے اخلاص ضروری ہے' ہر وہ عمل جو اخلاص سے خالی ہے جس میں کوئی دنیاوی غرض ہو، ہاں اللہ عزوجل کی رضا ہوتے ہوئے بندے کی رضا شامل ہوجائے' اس کے پیارے حبیبؐ کی رضا شامل ہوجائے، ماں باپ کی رضا شامل ہوجائے تو یہ اخلاص کے منافی نہیں، یہ بھی اخلاص میں شامل ہے بل کہ عام مسلمان کو راضی کرنا بھی بعض صورتوں میں اخلاص میں شامل ہے۔ صرف نیت کی بات ہے، نیت تبدیل ہوگئی، عمل کا بیڑا غرق ہوگیا، تو نیت کی اصلاح بہت ضروری ہے۔

اب جس طرح لوگ لوگوں کی خدمت کرتے ہیں یا سماجی طور پر کا م کرتے ہیں مگر انہیں واہ! واہ کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ واہ صاحب بڑی خدمت کر رہے ہیں، غریبوں کی بڑی مدد کر رہے ہیں اور وہ زکوٰۃ لے کر خیرات بانٹتے ہیں اور اپنے پلے سے کوئی بھی مدد نہیں کرتا۔ الا ماشاء اللہ شاید ہی کوئی اپنے پلے سے خدمت کرتا ہو ورنہ باقی دوسروں سے چند ہ کرکے خدمت کرتے ہیں۔ عمل چاہے تھوڑا ہو اخلاص کے ساتھ ہو، یہ تھوڑا بھی بہت زیادہ ہے۔ شیطان بڑا مکار ہے، مگر اخلاص ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے شیطان بھی مار کھا جاتا ہے اور اس نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ ترجمہ کنزالایمان: ''مگر ان میں جو تیر ے چنے ہوئے بندے ہیں (مخلص بندے ہیں)''۔ (سورۃ ص)


جو صاحب اخلاص ہے اس پر شیطان کا داؤ نہیں چلتا، باقی سب پر اس کا داؤ چلتا ہے، اچھے بھلے کو وہ گم راہ کردیتا ہے۔ جس کام میں اخلاص ہو، اس میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ شیطان اخلاص کے آگے بے بس ہو جاتا ہے، اگر کا م میں اخلاص نہیں ہے تو شیطان قابو پا لیتا ہے۔ اخلاص میں بڑی طاقت ہے، بڑی قوت ہے، اس کو ہم نے آج تک سمجھا ہی نہیں، ہم اپنی حکمت عملی میں لگے رہتے ہیں، بعض ایسی حکمت عملی جو خلافِ شرع بھی ہوتی ہیں، اس میں لگے رہتے ہیں اور شیطان سمجھاتا ہے کہ ہم یہ نیکی کر رہے ہیں، حالاں کہ وہ نیکی نہیں ہوتی، اس میں بڑے بڑے اہل علم مارے جاتے ہیں، بڑے بڑے مبلّغین شیطان کے اس چکر میں آجاتے ہیں، مثلاً جو مبلّغ ہوگا شیطان اس کا اخلاص یونہی ختم کر دے گا۔

جب وہ بیان کرے گا تو اس کا جی چاہے گا کہ لوگ سبحان اللہ کہیں، داد و تحسین دیں، اگر نعرے نہ لگے، لوگوں نے سبحان اللہ نہ کہا تو مبلّغ کہے گا، یار یہ تو خشک لوگ ہیں، ہر مبلّغ چاہے گا، میرے بیان کی لوگ تعریف کریں، میری واہ واہ کریں، سبحان اللہ! کتنا زبردست آپ نے بیان کیا، اب دل میں خوش ہوا اور یہ جھوٹ بولے گا اور مزید ریاکاری کرے گا کہ نہیں نہیں، میں نے کہاں بیان کیا؟ مجھے کہاں آتا ہے؟ ٹوٹے پھوٹے میں نے دو چار جملے بول دیے ہیں، مگر دل کی کیفیت یہ نہیں ہے، عاجزی اسی صورت میں عاجزی ہے جب دل کی بھی یہی کیفیت ہو ورنہ یہ ریاکاری ہے اور ریاکاری کبیرہ گناہ ہے اور اس میں جہنم کا استحقاق ہے اور ریاکاری یہ عام ہے اور یہ شیطان کے ایسے وار ہیں کہ نہیں سمجھتا کہ مگر جسے اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرما دے، مثلاً مبلّغ کسی کی اصلاح کرنا چاہتا ہے، کوئی اور اس کی اصلاح کر دے یا اس سے اچھا بیان کرنے والا آجائے اور اس کو بیان دے دیا جائے تو مبلّغ رنجیدہ ہوگا۔

اگر یہ رنجیدہ ہو گا تو شیطان چیونٹی سے بھی مخفی چال میں اس کے پاس آئے گا اور اس کا ذہین بنائے گا اور مبلّغ کا ذہین بنے گا، یار اگر میں بیان کرتا اور فلاں کی اصلاح ہوتی تو مجھے اس کا ثواب ملتا۔ افسوس میں اس نیکی سے محروم ہوگیا اور یہ ایسا غیر محسوس طریقے پر شیطان کا وار ہوتا ہے کہ اچھا بھلا، اس کو سمجھ نہیں پاتا کہ یہ شیطان کا وار ہے کہ رنجیدہ اور دل برداشتہ مبلّغ یا کارکن جو دین کا کام کر رہا ہے، اگر کسی اور نے وہی کام کر دیا تو رنجیدہ ہوگا اور شیطان اس کو یوں بہکائے گا کہ میں اس لیے رنجیدہ ہوں کہ میں اس نیکی سے محروم رہ گیا۔

اگر کوئی ہم سے بہتر اس کی اصلاح کرسکتا ہے تو ہم خاموش ہو جائیں وہ اس کی اصلاح کر دے اور ہم خوش ہوں تو ہم جو اس کی اصلاح کرتے اس سے ثواب زیادہ مل جائے گا، دیکھو ثواب زیادہ ملے گا کہ ''نیکی کا دار و مدار نیت پر ہے۔'' لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نیکی سے محروم رہ گئے، یہ ہم نہیں سمجھ رہے کہ یہ ہمیں شیطان گم راہ کر رہا ہے، یوں ایک حسد کا جذبہ دل میں پیدا ہو جاتا ہے کہ فلاں فلاں نیک کام جو میں کرنا چاہتا تھا، فلاں نے کیوں کرلیا بل کہ یہ میں ہی کرتا ہے اس لیے رنجیدہ ہوگیا بل کہ رنجیدہ کیا بعض اوقات یہ غیبت بھی کرے گا، برائی بھی کرے گا، اس کی کاٹ بھی کرے گا، اسے نیچا دکھانے کی کوشش بھی کرے گا، یہ تو صاف شیطان کا کھلونا بن گیا۔ یہاں اخلاص کہاں؟ اس طرح شیطان کے ایسے وار ہیں کہ اسے ہم سمجھ نہیں پاتے، اس طرح جو ایسا کرتا ہے اس کے لیے بہت نقصان ہے، آخرت کا بہت زیادہ نقصان ہے، بعض اوقات نیکی سے محرومی سے بھی اخلاص اور ریاکاری کا پتا چل جاتا ہے۔

ایک بزرگ کا واقعہ سیدنا امام محمد غزالیؒ احیاء العلوم میں نقل کرتے ہیں، وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال تک پہلی صف میں نماز پڑھی، تیس سال کے بعد ایک ایسا موقع آیا کہ مجھے پہلی صف میں جگہ نہیں ملی بل کہ دوسری صف میں جگہ ملی، اس طرح مجھے لوگوں کے سامنے بڑی شرمندگی ہوئی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ ہمیشہ پہلی صف میں نظر آتا ہے آج یہ پیچھے کیوں رہ گیا ہے۔ بس میرا ضمیر جاگ اٹھا اور میں سمجھ گیا کہ یہ سب شیطان کا دھوکا تھا کہ میں تیس سال سے جو پہلی صف میں نماز پڑھتا تھا، یہ میری ریاکارانہ نماز تھی ورنہ آج دوسری صف میں مجھے لوگوں سے شرم نہ آتی، لوگوں سے شرم آنا اس بات کی دلیل بنائی کہ میں تیس سال سے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھ رہا تھا تو ان بزرگوں نے اپنی تیس سال کی نمازیں قضا کیں۔ یہ کتنی زبردست مدنی سوچ ہے۔

ریاکاری کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب دوسرے لوگ موجود ہیں تو عمل کرنے میں چستی ہے اور اکیلا ہے تو سستی ہے، یہ ریا کاری کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اگر سب اس پر غور کریں تو بہت سوں کو پتا چل جائے گا کہ میری حالت یہی ہے۔ جب لوگوں میں ہوتا ہوں تو میں بہت عمل کرنے میں چست ہوتا ہوں، پیچھے میں سست ہوتا ہوں، یہی نعت شریف پڑھی جا رہی ہے، آپ لوگوں میں بیٹھو گے تو بڑا منہ بناؤ گے اور رونے جیسی شکل بناؤ گے اور اکیلے میں نعت شریف سنو گے تو وہ کیفیت نہیں ہوگی، کیا یہ ریاکاری نہیں ہے؟ ا س میں بہت ساری باتیں آدمی اپنی قیاس کر لیتا ہے۔ جب بہت سارے لوگ ہوں تو آپ کو نعت خوانی کا سوجھتا ہے، کم آدمی ہیں تو آپ کتراتے ہیں اور چھوٹے نعت خوان کو آگے کر دیتے ہیں۔

ایکوساؤنڈ ہے تو آپ کا نعت پڑھنے کو زیادہ جی چاہتا ہے کہ بس اب پڑھے جاؤ، ''ونس مور'' کہنے کی بھی ضرورت نہیں، آپ بس پڑھے ہی جا رہے ہو، نعرے لگ رہے ہیں تو پڑھے ہی جارہے ہیں، یہ کیا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے پڑھنا ہے، لوگ داد دے رہے ہیں اس لیے پڑھے جا رہے ہیں یا نوٹ آ رہے ہیں تو پڑھے جا رہے ہو، مال دار کی محفل میں پڑھے جا رہے ہو اور جب غریب آپ کو بلاتا ہے تو آپ کا گلا بیٹھ جاتا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ تو اخلاص نہیں ہے۔

تنہائی میں آپ نعت نہیں پڑھتے، یا پڑھتے ہیں تو وہ جذبات نہیں ہوتے، سب کے سامنے پڑھتے ہیں تو جذبات ہوتے ہیں، سب کے سامنے نعت شریف سنتے ہیں تو جذبات اور ہوتے ہیں، اکیلے میں سنتے ہیں تو جذبات آپ کے بالکل ٹھنڈے ہوتے ہیں، دل جمعی نہیں ہوتی، لوگ دیکھ رہے ہیں تو دل جمعی ہوتی ہے، یہ سب کیا ہے؟ تو ہر ایک کو اپنے عمل پر خوب خوب غور کرنا چاہیے، خوب سمجھنا چاہیے کہ کہیں میری آخرت تباہ نہ ہوجائے۔

جو اللہ کے لیے عمل کرتا ہے، اس کے اندر تو قدرتی طور پر جاذبیت پیدا ہوتی ہے، اس کے دل میں نور پید ا ہوتا ہے، اس کے دل کے نور سے لوگ اس کے طرف مائل ہوتے ہیں اور وہ ان کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور ایک ہماری حالت یہ ہے کہ لوگ ہمیں دیکھ کر دُور بھاگ جاتے ہیں، ہم میں اخلاص نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص کی نعمت سے مالامال فرمائے۔ آمین
Load Next Story