عوام دوست رہنما معراج محمد خان
یہ ایک حقیقی عوام دوست سیاستدان کی موت ضرور تھی البتہ نظریات کی نہیں۔
ABBOTABAD:
مولوی تاج محمدکا شمار فرخ آباد کے ماہرین طب میں ہوتا تھا ، انھیں حسن خلق کے باعث شہر بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ہماری محدود معلومات کے مطابق مولوی تاج محمد کے تین صاحبزادے تھے سب سے بڑے صاحبزادے نامور فلمی صحافی وہاج بن تاج المعروف دکھی پریم نگری تھے یہ صاحب بمبئی میں قیام کے دوران وہاں کی فلمی صحافت میں نمایاں مقام رکھتے تھے ان کے اداکار دلیپ کمار و ہدایت کار کے آصف سے ذاتی مراسم تھے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں قیام کے دوران تادم مرگ دکھی پریم نگری فلمی صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کی صحافتی زندگی پاکستان میں کوئی چالیس برس تک محیط رہی البتہ مولوی تاج محمد کے منجھلے صاحبزادے منہاج برنا بھی پاکستانی صحافت میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔ دکھی پریم نگری و منہاج برنا اب اس دنیا فانی میں موجود نہیں ہیں ۔
معراج محمد خان جوکہ 20 اکتوبر 1938 کو فرخ آباد میں پیدا ہوئے یعنی قیام پاکستان سے کوئی 9 برس قبل۔ معراج محمد خان نے ابتدائی تعلیم فرخ آباد میں ہی حاصل کی، البتہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد معراج محمد خان اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان تشریف لے آئے اور بلوچستان کے پرفضا مقام کوئٹہ میں رہائش اختیارکی مگر پھر قلیل عرصہ کوئٹہ میں قیام کے بعد معراج محمد خان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا اور کراچی میں ہی اس خاندان نے بود و باش اختیار کرلی۔
معراج محمد خان نے حصول تعلیم کے لیے ڈی جے کالج میں داخلہ لے لیا بعدازاں حصول تعلیم کا شوق ہی تھا کہ کالج کی تعلیم کے بعد مزید حصول تعلیم کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جہاں نوجوان معراج محمد خان نے حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا سیاست میں حصہ لینا بھی شروع کردیا یہی زمانہ تھا جب وہ ایک پرجوش مقرر ثابت ہوئے۔
یہ ذکر ہے 1958 کا البتہ 1962 میں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے فلسفے میں بی۔اے کی سند حاصل کی جب کہ اس وقت وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی چن لیے گئے تھے البتہ جب کنونشن مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو معراج محمد خان نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن چھوڑ کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی جہاں ان کے جوہر خطابت پوری طرح عیاں ہوگئے یوں بھی ان کا تعلق آفریدی قبیلے سے تھا شجاعت و بہادری اس قبیلے کا خاص وصف ہے۔
یہی صفات معراج محمد خان میں موجود تھیں البتہ جب 1966 میں آمر ایوب خان و ان کی کابینہ کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ چھوڑ کر ایوبی آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو معراج محمد خان ذوالفقار علی بھٹو کے بااعتماد ساتھیوں میں شامل ہوگئے چنانچہ 30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا تو معراج محمد خان بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیان میں سے تھے۔
اب سیاسی کیفیت یہ تھی کہ ایک جانب مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی مقبولیت حاصل کر رہی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آچکے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ نوجوان معراج محمد خان ذوالفقار علی بھٹو کے گویا دایاں بازو بن چکے تھے جب کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ واحد سیاسی قوت کے طور پر شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں سامنے آرہی تھی۔
ان حالات میں ناعاقبت اندیش آمر ایوب خان نے اپنے آمرانہ دور حکومت کے 10 برس مکمل ہونے پر اکتوبر 1968 کو ملک بھر میں عظیم الشان جشن منانے کا اہتمام کر ڈالا ذاتی تشہیر کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے مسائل سے دوچار عوام نے ایوب خان کے اس اقدام کو سخت ناپسند کیا چنانچہ پورا ملک ایوبی آمریت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا۔ پرجوش معراج محمد خان نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما ہونے کے ناتے ملک بھر کے طلبا کو منظم کیا اور ایک تاریخی جدوجہد ایوبی آمریت کے خلاف شروع ہوگئی اس آمریت مخالف جدوجہد میں طلبا محاذ نے اہم ترین کردار ادا کیا ان طلبا کی قیادت معراج محمد خان نے کی۔ ایوب خان اپنے خلاف شروع ہونے والی اس تحریک کا سامنا نہ کرسکے اور 25 مارچ 1969 کو اقتدار ایک اور آمر یحییٰ خان کے سپرد کرگئے۔
یحییٰ خان کے دور حکومت میں 1970 کے عام انتخابات ہوئے۔ معراج محمد خان نے ان انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی انتخابی مہم میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا اور ملک کے طول و ارض کے دورے کیے نتیجہ 1970 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی البتہ انتقال اقتدار کا مرحلہ نامکمل رہا جس کے باعث مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش بن گیا اور 20 دسمبر 1971 کو مغربی پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے حلف اٹھالیا البتہ معراج محمد خان بھٹو کابینہ میں وزیر محنت نامزد ہوئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے معراج محمد خان کو اپنا جان نشین قرار دیا تھا مگر جلد ہی معراج محمد خان و ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے جوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوگئے اور بالآخر معراج محمد خان بھٹو حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ یہ ضرور تھا کہ اگر معراج محمد خان ذاتی مفادات مدنظر رکھتے تو بھٹو حکومت سے چپکے رہتے مگر اصول پرست معراج محمد خان نے ایسا نہ کیا بعدازاں انھوں نے بھٹو حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ البتہ 1977 میں معراج محمد خان نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور اس سیاسی جماعت کا نام قومی محاذ آزادی رکھا گیا۔ اس سیاسی جماعت نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
ضیا آمریت کے خلاف یہ تحریک 1983 میں چلائی گئی۔ معراج محمد خان نے اس تحریک میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ ریگل چوک صدر کراچی سے اپنی گرفتاری پیش کی، اس موقعے پر ان کے سر پر چوٹیں بھی آئیں۔ 1985 کے عام انتخابات کا تمام اہم سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا جن میں معراج محمد خان کی جماعت قومی محاذ آزادی بھی شریک تھی۔ البتہ 1988 میں قومی محاذ آزادی نے کراچی کی چند نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے ضرور کیے مگر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
اپنے طویل سیاسی سفر کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف (PTI) میں شمولیت اختیار کرلی جہاں ان کا شمار مرکزی رہنماؤں میں ہوتا تھا، مگر جلد ہی وہ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہوگئے اور گویا سیاست سے ہی کنارہ کش ہوگئے البتہ کوئی چار برس قبل انھوں نے ایک مقامی حال میں خطاب کرتے ہوئے افغانستان و پاکستان کے سیاسی حالات پر ایک مدلل تقریر کی گویا وہ ایک ادیب بھی تھے بہرکیف 21 و 22 جولائی 2016 کی درمیانی شب وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
یہ ایک حقیقی عوام دوست سیاستدان کی موت ضرور تھی البتہ نظریات کی نہیں۔ ان کے نظریات سے آج بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ بہرکیف ہم ان کی پہلی برسی پر انھیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں گوکہ ان کی پہلی برسی کے سلسلے میں ایک ہفتہ قبل ہی تقریبات کا آغاز ہوچکا ہے۔
مولوی تاج محمدکا شمار فرخ آباد کے ماہرین طب میں ہوتا تھا ، انھیں حسن خلق کے باعث شہر بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ہماری محدود معلومات کے مطابق مولوی تاج محمد کے تین صاحبزادے تھے سب سے بڑے صاحبزادے نامور فلمی صحافی وہاج بن تاج المعروف دکھی پریم نگری تھے یہ صاحب بمبئی میں قیام کے دوران وہاں کی فلمی صحافت میں نمایاں مقام رکھتے تھے ان کے اداکار دلیپ کمار و ہدایت کار کے آصف سے ذاتی مراسم تھے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں قیام کے دوران تادم مرگ دکھی پریم نگری فلمی صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کی صحافتی زندگی پاکستان میں کوئی چالیس برس تک محیط رہی البتہ مولوی تاج محمد کے منجھلے صاحبزادے منہاج برنا بھی پاکستانی صحافت میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔ دکھی پریم نگری و منہاج برنا اب اس دنیا فانی میں موجود نہیں ہیں ۔
معراج محمد خان جوکہ 20 اکتوبر 1938 کو فرخ آباد میں پیدا ہوئے یعنی قیام پاکستان سے کوئی 9 برس قبل۔ معراج محمد خان نے ابتدائی تعلیم فرخ آباد میں ہی حاصل کی، البتہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد معراج محمد خان اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان تشریف لے آئے اور بلوچستان کے پرفضا مقام کوئٹہ میں رہائش اختیارکی مگر پھر قلیل عرصہ کوئٹہ میں قیام کے بعد معراج محمد خان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا اور کراچی میں ہی اس خاندان نے بود و باش اختیار کرلی۔
معراج محمد خان نے حصول تعلیم کے لیے ڈی جے کالج میں داخلہ لے لیا بعدازاں حصول تعلیم کا شوق ہی تھا کہ کالج کی تعلیم کے بعد مزید حصول تعلیم کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جہاں نوجوان معراج محمد خان نے حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا سیاست میں حصہ لینا بھی شروع کردیا یہی زمانہ تھا جب وہ ایک پرجوش مقرر ثابت ہوئے۔
یہ ذکر ہے 1958 کا البتہ 1962 میں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے فلسفے میں بی۔اے کی سند حاصل کی جب کہ اس وقت وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی چن لیے گئے تھے البتہ جب کنونشن مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو معراج محمد خان نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن چھوڑ کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی جہاں ان کے جوہر خطابت پوری طرح عیاں ہوگئے یوں بھی ان کا تعلق آفریدی قبیلے سے تھا شجاعت و بہادری اس قبیلے کا خاص وصف ہے۔
یہی صفات معراج محمد خان میں موجود تھیں البتہ جب 1966 میں آمر ایوب خان و ان کی کابینہ کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ چھوڑ کر ایوبی آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو معراج محمد خان ذوالفقار علی بھٹو کے بااعتماد ساتھیوں میں شامل ہوگئے چنانچہ 30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا تو معراج محمد خان بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیان میں سے تھے۔
اب سیاسی کیفیت یہ تھی کہ ایک جانب مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی مقبولیت حاصل کر رہی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آچکے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ نوجوان معراج محمد خان ذوالفقار علی بھٹو کے گویا دایاں بازو بن چکے تھے جب کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ واحد سیاسی قوت کے طور پر شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں سامنے آرہی تھی۔
ان حالات میں ناعاقبت اندیش آمر ایوب خان نے اپنے آمرانہ دور حکومت کے 10 برس مکمل ہونے پر اکتوبر 1968 کو ملک بھر میں عظیم الشان جشن منانے کا اہتمام کر ڈالا ذاتی تشہیر کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے مسائل سے دوچار عوام نے ایوب خان کے اس اقدام کو سخت ناپسند کیا چنانچہ پورا ملک ایوبی آمریت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا۔ پرجوش معراج محمد خان نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما ہونے کے ناتے ملک بھر کے طلبا کو منظم کیا اور ایک تاریخی جدوجہد ایوبی آمریت کے خلاف شروع ہوگئی اس آمریت مخالف جدوجہد میں طلبا محاذ نے اہم ترین کردار ادا کیا ان طلبا کی قیادت معراج محمد خان نے کی۔ ایوب خان اپنے خلاف شروع ہونے والی اس تحریک کا سامنا نہ کرسکے اور 25 مارچ 1969 کو اقتدار ایک اور آمر یحییٰ خان کے سپرد کرگئے۔
یحییٰ خان کے دور حکومت میں 1970 کے عام انتخابات ہوئے۔ معراج محمد خان نے ان انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی انتخابی مہم میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا اور ملک کے طول و ارض کے دورے کیے نتیجہ 1970 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی البتہ انتقال اقتدار کا مرحلہ نامکمل رہا جس کے باعث مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش بن گیا اور 20 دسمبر 1971 کو مغربی پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے حلف اٹھالیا البتہ معراج محمد خان بھٹو کابینہ میں وزیر محنت نامزد ہوئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے معراج محمد خان کو اپنا جان نشین قرار دیا تھا مگر جلد ہی معراج محمد خان و ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے جوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوگئے اور بالآخر معراج محمد خان بھٹو حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ یہ ضرور تھا کہ اگر معراج محمد خان ذاتی مفادات مدنظر رکھتے تو بھٹو حکومت سے چپکے رہتے مگر اصول پرست معراج محمد خان نے ایسا نہ کیا بعدازاں انھوں نے بھٹو حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ البتہ 1977 میں معراج محمد خان نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور اس سیاسی جماعت کا نام قومی محاذ آزادی رکھا گیا۔ اس سیاسی جماعت نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
ضیا آمریت کے خلاف یہ تحریک 1983 میں چلائی گئی۔ معراج محمد خان نے اس تحریک میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ ریگل چوک صدر کراچی سے اپنی گرفتاری پیش کی، اس موقعے پر ان کے سر پر چوٹیں بھی آئیں۔ 1985 کے عام انتخابات کا تمام اہم سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا جن میں معراج محمد خان کی جماعت قومی محاذ آزادی بھی شریک تھی۔ البتہ 1988 میں قومی محاذ آزادی نے کراچی کی چند نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے ضرور کیے مگر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
اپنے طویل سیاسی سفر کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف (PTI) میں شمولیت اختیار کرلی جہاں ان کا شمار مرکزی رہنماؤں میں ہوتا تھا، مگر جلد ہی وہ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہوگئے اور گویا سیاست سے ہی کنارہ کش ہوگئے البتہ کوئی چار برس قبل انھوں نے ایک مقامی حال میں خطاب کرتے ہوئے افغانستان و پاکستان کے سیاسی حالات پر ایک مدلل تقریر کی گویا وہ ایک ادیب بھی تھے بہرکیف 21 و 22 جولائی 2016 کی درمیانی شب وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
یہ ایک حقیقی عوام دوست سیاستدان کی موت ضرور تھی البتہ نظریات کی نہیں۔ ان کے نظریات سے آج بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ بہرکیف ہم ان کی پہلی برسی پر انھیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں گوکہ ان کی پہلی برسی کے سلسلے میں ایک ہفتہ قبل ہی تقریبات کا آغاز ہوچکا ہے۔