فارن پالیسی الجھاؤ کا شکار
پاکستان کو واضح غیر جانبدار پالیسی پر عمل کی ضرورت ہے۔
قومیں اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی سے پہچانی جاتی ہیں کیونکہ وہ اس سے اپنا معیار زندگی اور انداز فکر نمایاں کرتی ہیں۔ جیسا کہ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے ایک جزیرہ نما ملک کو عالم میں متعارف کرایا ۔ وہ سرد جنگ کے دوران افرو ایشیائی ممالک کے رہنما کے طور پر ابھرے اور بڑے ممالک بھی ان کی راہ پر چلتے رہے بلکہ آزاد خارجہ پالیسی کے بانیوں میں سے وہ زندہ و جاوید ہے یا عمرکے آخری حصے میں جب کاسترو قریب المرگ تھے صدر اوباما نے ان کی پذیرائی کا شرف حاصل کیا اور معاہدے کیے جس پر اب امریکی ایجنسیاں اور مسٹر ٹرمپ خاصے پریشان ہیں مگر اب کیا ہوسکتا ہے۔
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔ اوباما نے ایران سے جو نیوکلیئر سمجھوتہ کیا وہ بھی ایران کی مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت یا گویا خارجہ حکمت عملی ایک مضبوط سیاسی مشینری ہے، مگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کیاکہنا کیونکہ یہاں تو سرے سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں دو مشیران ہیں اوراگر معاملہ ان کی سوچ سے آگے کا ہے تو نزہت صادق ہیں جنھوں نے قطر اور سعودی معاملے پر یہ موقف اختیار کیا کہ ہم سعودی عرب کے نسبتاً زیادہ ساتھ ہیں کیونکہ وہ معاشی طور پر ہمارا قریبی دوست ہے ۔
غور فرمائیے کہ ہمارا سیاسی موقف کوئی نہیں۔ رقم ہمارا اصولی موقف ہے اور ہمارے اصولی پیمانے نہیں بس مشورہ ایسا ہے جیسے دو پڑوسیوں میں تو تو، میں میں ہوگئی ہو اس پر مشورہ دے دیا گیا ہے نہ یہ کہ دونوں ملکوں کی عالمی پوزیشن کیا ہے، سیاسی فوجی روابط کیا ہیں، ان کے ہمنواؤں کے کیا اثرات ہیں ۔ یہ دونوں ممالک امریکا نواز ہیں اور دیگر موضوعات زیر غور رکھنے کی ضرورت ہے، پھر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی مثبت اور منفی فیصلے سرعام نہیں ہوتے وہ تو ملکی رویوں سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک صورتحال سی پیک کے معاملے کی ہے اس پر اب جب کہ عدلیہ میں حکومت کے خلاف معاملات زور و شور سے جاری ہیں۔ سی پیک کی اشتہاری مہم بھی زوروشور سے جاری ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ مہم اپنے انجام کو بخوبی پہنچ گئی تو ملک کی قسمت بدل جائے گی بشرطیکہ انصاف کا ترازو حرکت میں رہے۔
جہاں تک سی پیک کا معاملہ ہے ذرا اس کو بغور دیکھیے چین جب دنیا بھر کی مصنوعات اور اپنی مصنوعات کو عروج پر لے جاچکا اور مزید اندرونی کھپت کی گنجائش نہ رہی تو اس نے اپنے اردگرد کے ممالک میں مال کو فروخت کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے پہلے پاکستان سے رابطہ کیا تاکہ روس کی سابقہ ریاستوں کو ہدف بنایا جائے اور پاکستان کو استعمال کیا جائے تو پاکستان جو قرضوں سے دبا ہوا ملک ہے وہ فوراً بچاؤ کے لیے تیار ہوگیا ویسے بھی پاکستان چین دیرینہ تعلقات اس میں کارگر ثابت ہوئے اور سی پیک نے اصولی طور پر ایک معاہدے کی شکل لے لی جب کہ چند ماہ ہوئے بھارت نے ایک اور راستہ جو چین بنگلہ دیش سے بھارت ہوتا ہوا چین سے انڈونیشیا تک لے جانا چاہتا تھا مودی سرکار نے نہ کردیا۔ جس سے 1962 والی بھارت چین تلخی پیدا ہوگئی۔
راستہ دراصل چین کے پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں چین کوکئی گنا ہم سے زائد فوائد ہیں لیکن ہمارے لیے امریکی امداد کے 2 بلین ڈالر کے مقابل بہت سود مند ہے۔ سی پیک سے کس کو انکار ہے البتہ تھوڑا بہت جو رخنہ بلوچ مزاحمتی گروہوں کی طرف سے جاری ہے، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اربوں روپوں کے اشتہارات کے بجائے کوئی سیاسی چاشنی مخالفین کی جانب بھی پھینک دیں تاکہ ان کو گفت و شنید میں لاکر ایک موقع اور دے کر دنیا کی نظر بد اور اسرائیل کی نگاہوں کو خیرہ کیا جاسکے، کیونکہ موجودہ بھارت کانگریس کا نہیں بلکہ گاندھی جی کو فائر کرکے ہلاک کرنے والوں کا ہے۔گاندھی نہرو کا بھارت فلسطینیوں کا حامی تھا جب کہ اب بھارت میں نہروکی کردار کشی ہو رہی ہے۔
گاندھی جے نے دو قومی نظریے کو مان لیا تھا اور دنیا نے بھی جس میں سوویت یونین کے مرد آہن جوزف اسٹالین بھی تھے اور امریکا بھی ایک پیج پر تھا اور ظاہر ہے برطانیہ بھی جو ان دنوں برطانیہ عظمیٰ کہلاتا تھا۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں اب جو حاکم ہیں دنیا میں گائے کے گوشت کے سب سے بڑے ایکسپورٹر ہیں مگر آدم کو گائے ذبح کرنے پر وہ ذبح کردیتے ہیں۔گائے کو انھوں نے مقدس کتاب کا درجہ دے رکھا ہے یہ سیاسی چال ہے اور امریکا کی ناک تلے یہ ہو رہا ہے۔ اس لیے کشمیری تحریک کو ایک نیا رخ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آزادی کے حصول کے لیے فکری اجتہاد کیا جائے اور عالمی پیمانے پر اس کو مذہبی تحریک کے بجائے ایک قومی تحریک کا درجہ بھی دینے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں اسلام دشمن قوتیں اس کو محض مذہبی رنگ نہ دے سکیں جب کہ مودی اس کو محض مذہبی انتہا پسندوں کا ایک گروہ قرار دیتا ہے۔
لہٰذا خارجہ امور میں رفتہ رفتہ یہ رنگ ڈالنے کی ضرورت ہے اور ٹی وی ٹاکس کا بھی یہی رخ ہونا چاہیے تاکہ بھارت کے اعتدال پسندوں اور دنیا کے قومی آزادی کے متوالوں سے ہمارا رشتہ قائم ہوسکے۔ کشمیری تحریک کو محض مسلم تحریک نہیں بلکہ مظلوموں کی قومی تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور دوسرے مسالک کے لوگ بھی انھی کے ہمنوا ہیں 1940-46کے طرز پر تحریک کو نہیں چلایا جاسکتا، یہ 2017 کا وقت ہے اس کو موجودہ وقت اور انداز سے چلانے کی ضرورت ہے اور دنیا بھر کے ممالک میں وفود بھیجنے کی ضرورت ہے تاکہ اقوام عالم میں ہماری تائید اور بھارت دباؤکا شکار بنے۔ اس طرح ہماری فارن پالیسی بھی ایک الجھاؤ کا شکار ہے۔
یہ تو تھا محض کشمیرکا معاملہ، سی پیک جس کے اشتہارات کی آج کل بھرمار ہے، یہ ایک بڑے الجھاؤ سے گزرا اور گزر رہا ہے، کون نہیں جانتا کہ امریکا، بھارت عرب دنیا اسرائیل یہ سب سی پیک پر کوئی مثبت ردعمل نہیں رکھتے گوادر پورٹ دبئی جیسے دس پورٹوں سے بڑا عریض اور وسیع ہوگا اور یہ راہداری دنیا کی عظیم راہداری ہوگی جس سے بمبئی اور دبئی کی تجارت مجروح ہوکے رہے گی اور ارد گرد کی کاروباری دنیا یقینا متاثر ہوگی۔
لہٰذا پاکستان کو ہر حال میں چوکنا رہنا ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین کی حکومت گوکہ کمیونسٹ حکومت ہے مگر وہ پنج شیلا کے اصولوں پر گامزن ہے اور اس کاو معاشی نظام اشتراکیت اور جدید کاروباری اصولوں کا مرقع ہے وہاں کے سیاسی اہداف کمیونسٹ پارٹی طے کرتی ہے اور سختی سے کاربند ہوتی ہے وہاں ایک پارٹی نظام ہے کوئی مخالف جماعت نہ سرگرم عمل ہے اور نہ رہ سکتی ہے کیونکہ وہاں کی حکومت افلاس دشمن ہے۔ مذہبی آزادی ضرور ہے مگر کسی کو یہ آزادی نہیں کہ وہ دوسرے پر کفر کی پٹی چسپاں کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔
چین روس کا زبردست اتحادی ہے اور سی پیک میں چین کا اتحادی اور زبردست حامی ہے کیونکہ سوویت یونین بلوچستان کے گرم سمندر تک آنے کی خواہش رکھتا تھا بلوچستان میں روس نواز سیاسی گروپ 1960 سے فعال تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا شکست و ریخت سے دوچار ہوتے گئے اور اب نیشنسلٹ تحریک بھی نمایاں نہیں چین نے وہاں قدم جما لیے ہیں اور کام جاری ہے، یہ بہتر ہوتا کہ سیاسی پارٹی جو ملک پر حکمرانی کی دعویدار ہے اور نیشنل پارٹی جو اس کی ہمنوا ہے کوئی کردار ادا کرتی بلکہ اس کے برعکس ایک سیاسی الجھاؤ کو ہوا دے رہی ہے اور قطر اور اس کے مخالف اتحاد کو ہوا دے رہی ہے بلکہ 16 جولائی کو مسٹر ٹرمپ نے بھی قطر کو دہشت گرد ملک قرار دے دیا جب کہ امریکی اڈے کو بھی وہاں سے لے جانے کا عندیہ دے دیا حالانکہ موجودہ دہشت گردی جو سعودی عرب میں ہو رہی ہے وہ قطر کا کارنامہ نہیں بلکہ وہ حوثی اور انصارالاسلام اور یمن کے دوسرے گروہوں کا نتیجہ ہیں لہٰذا اب پاکستان کو عرب دنیا کی آپسی کشمکش سے دور رہنے اور چین کے ہمنواؤں سے قریب تر ہونے کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس طرح پاکستان بھی اسرائیلی کیمپ کا حصہ کہلانے لگے گا۔
پاکستان کو واضح غیر جانبدار پالیسی پر عمل کی ضرورت ہے۔ بھارت سے بھی نہ کوئی جنگی حکمت عملی رکھنے کی ضرورت ہے نہ ہی انتہائی قربت داری کی، بس درمیانی رواداری کی راہ اور نہ امریکی حاشیہ برداری جیسا کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی یعنی سینیٹ کا رویہ ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ ہے جس میں سینیٹر الیاس بلور اور دوسرے اراکین نے بھی مسٹر رضا ربانی کے راستے کو چنا ہے کہ پاکستان کیونکر سعودی کیمپ کا حصہ بن رہا ہے جب کہ جنرل راحیل شریف پاکستان واپس آچکے ہیں مگر اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی بقول فرحت اللہ بابر کے یہ راہ ملک میں فرقہ واریت کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی پالیسی کنفیوژڈ ہے اور الجھاؤ کا شکار بھی جب کہ اب تاریخ میں پہلی بار روس اور چین مشترکہ فوجی مشقیں کرکے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک ہی موقف رکھتے ہیں۔
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔ اوباما نے ایران سے جو نیوکلیئر سمجھوتہ کیا وہ بھی ایران کی مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت یا گویا خارجہ حکمت عملی ایک مضبوط سیاسی مشینری ہے، مگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کیاکہنا کیونکہ یہاں تو سرے سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں دو مشیران ہیں اوراگر معاملہ ان کی سوچ سے آگے کا ہے تو نزہت صادق ہیں جنھوں نے قطر اور سعودی معاملے پر یہ موقف اختیار کیا کہ ہم سعودی عرب کے نسبتاً زیادہ ساتھ ہیں کیونکہ وہ معاشی طور پر ہمارا قریبی دوست ہے ۔
غور فرمائیے کہ ہمارا سیاسی موقف کوئی نہیں۔ رقم ہمارا اصولی موقف ہے اور ہمارے اصولی پیمانے نہیں بس مشورہ ایسا ہے جیسے دو پڑوسیوں میں تو تو، میں میں ہوگئی ہو اس پر مشورہ دے دیا گیا ہے نہ یہ کہ دونوں ملکوں کی عالمی پوزیشن کیا ہے، سیاسی فوجی روابط کیا ہیں، ان کے ہمنواؤں کے کیا اثرات ہیں ۔ یہ دونوں ممالک امریکا نواز ہیں اور دیگر موضوعات زیر غور رکھنے کی ضرورت ہے، پھر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی مثبت اور منفی فیصلے سرعام نہیں ہوتے وہ تو ملکی رویوں سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک صورتحال سی پیک کے معاملے کی ہے اس پر اب جب کہ عدلیہ میں حکومت کے خلاف معاملات زور و شور سے جاری ہیں۔ سی پیک کی اشتہاری مہم بھی زوروشور سے جاری ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ مہم اپنے انجام کو بخوبی پہنچ گئی تو ملک کی قسمت بدل جائے گی بشرطیکہ انصاف کا ترازو حرکت میں رہے۔
جہاں تک سی پیک کا معاملہ ہے ذرا اس کو بغور دیکھیے چین جب دنیا بھر کی مصنوعات اور اپنی مصنوعات کو عروج پر لے جاچکا اور مزید اندرونی کھپت کی گنجائش نہ رہی تو اس نے اپنے اردگرد کے ممالک میں مال کو فروخت کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے پہلے پاکستان سے رابطہ کیا تاکہ روس کی سابقہ ریاستوں کو ہدف بنایا جائے اور پاکستان کو استعمال کیا جائے تو پاکستان جو قرضوں سے دبا ہوا ملک ہے وہ فوراً بچاؤ کے لیے تیار ہوگیا ویسے بھی پاکستان چین دیرینہ تعلقات اس میں کارگر ثابت ہوئے اور سی پیک نے اصولی طور پر ایک معاہدے کی شکل لے لی جب کہ چند ماہ ہوئے بھارت نے ایک اور راستہ جو چین بنگلہ دیش سے بھارت ہوتا ہوا چین سے انڈونیشیا تک لے جانا چاہتا تھا مودی سرکار نے نہ کردیا۔ جس سے 1962 والی بھارت چین تلخی پیدا ہوگئی۔
راستہ دراصل چین کے پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں چین کوکئی گنا ہم سے زائد فوائد ہیں لیکن ہمارے لیے امریکی امداد کے 2 بلین ڈالر کے مقابل بہت سود مند ہے۔ سی پیک سے کس کو انکار ہے البتہ تھوڑا بہت جو رخنہ بلوچ مزاحمتی گروہوں کی طرف سے جاری ہے، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اربوں روپوں کے اشتہارات کے بجائے کوئی سیاسی چاشنی مخالفین کی جانب بھی پھینک دیں تاکہ ان کو گفت و شنید میں لاکر ایک موقع اور دے کر دنیا کی نظر بد اور اسرائیل کی نگاہوں کو خیرہ کیا جاسکے، کیونکہ موجودہ بھارت کانگریس کا نہیں بلکہ گاندھی جی کو فائر کرکے ہلاک کرنے والوں کا ہے۔گاندھی نہرو کا بھارت فلسطینیوں کا حامی تھا جب کہ اب بھارت میں نہروکی کردار کشی ہو رہی ہے۔
گاندھی جے نے دو قومی نظریے کو مان لیا تھا اور دنیا نے بھی جس میں سوویت یونین کے مرد آہن جوزف اسٹالین بھی تھے اور امریکا بھی ایک پیج پر تھا اور ظاہر ہے برطانیہ بھی جو ان دنوں برطانیہ عظمیٰ کہلاتا تھا۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں اب جو حاکم ہیں دنیا میں گائے کے گوشت کے سب سے بڑے ایکسپورٹر ہیں مگر آدم کو گائے ذبح کرنے پر وہ ذبح کردیتے ہیں۔گائے کو انھوں نے مقدس کتاب کا درجہ دے رکھا ہے یہ سیاسی چال ہے اور امریکا کی ناک تلے یہ ہو رہا ہے۔ اس لیے کشمیری تحریک کو ایک نیا رخ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آزادی کے حصول کے لیے فکری اجتہاد کیا جائے اور عالمی پیمانے پر اس کو مذہبی تحریک کے بجائے ایک قومی تحریک کا درجہ بھی دینے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں اسلام دشمن قوتیں اس کو محض مذہبی رنگ نہ دے سکیں جب کہ مودی اس کو محض مذہبی انتہا پسندوں کا ایک گروہ قرار دیتا ہے۔
لہٰذا خارجہ امور میں رفتہ رفتہ یہ رنگ ڈالنے کی ضرورت ہے اور ٹی وی ٹاکس کا بھی یہی رخ ہونا چاہیے تاکہ بھارت کے اعتدال پسندوں اور دنیا کے قومی آزادی کے متوالوں سے ہمارا رشتہ قائم ہوسکے۔ کشمیری تحریک کو محض مسلم تحریک نہیں بلکہ مظلوموں کی قومی تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور دوسرے مسالک کے لوگ بھی انھی کے ہمنوا ہیں 1940-46کے طرز پر تحریک کو نہیں چلایا جاسکتا، یہ 2017 کا وقت ہے اس کو موجودہ وقت اور انداز سے چلانے کی ضرورت ہے اور دنیا بھر کے ممالک میں وفود بھیجنے کی ضرورت ہے تاکہ اقوام عالم میں ہماری تائید اور بھارت دباؤکا شکار بنے۔ اس طرح ہماری فارن پالیسی بھی ایک الجھاؤ کا شکار ہے۔
یہ تو تھا محض کشمیرکا معاملہ، سی پیک جس کے اشتہارات کی آج کل بھرمار ہے، یہ ایک بڑے الجھاؤ سے گزرا اور گزر رہا ہے، کون نہیں جانتا کہ امریکا، بھارت عرب دنیا اسرائیل یہ سب سی پیک پر کوئی مثبت ردعمل نہیں رکھتے گوادر پورٹ دبئی جیسے دس پورٹوں سے بڑا عریض اور وسیع ہوگا اور یہ راہداری دنیا کی عظیم راہداری ہوگی جس سے بمبئی اور دبئی کی تجارت مجروح ہوکے رہے گی اور ارد گرد کی کاروباری دنیا یقینا متاثر ہوگی۔
لہٰذا پاکستان کو ہر حال میں چوکنا رہنا ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین کی حکومت گوکہ کمیونسٹ حکومت ہے مگر وہ پنج شیلا کے اصولوں پر گامزن ہے اور اس کاو معاشی نظام اشتراکیت اور جدید کاروباری اصولوں کا مرقع ہے وہاں کے سیاسی اہداف کمیونسٹ پارٹی طے کرتی ہے اور سختی سے کاربند ہوتی ہے وہاں ایک پارٹی نظام ہے کوئی مخالف جماعت نہ سرگرم عمل ہے اور نہ رہ سکتی ہے کیونکہ وہاں کی حکومت افلاس دشمن ہے۔ مذہبی آزادی ضرور ہے مگر کسی کو یہ آزادی نہیں کہ وہ دوسرے پر کفر کی پٹی چسپاں کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔
چین روس کا زبردست اتحادی ہے اور سی پیک میں چین کا اتحادی اور زبردست حامی ہے کیونکہ سوویت یونین بلوچستان کے گرم سمندر تک آنے کی خواہش رکھتا تھا بلوچستان میں روس نواز سیاسی گروپ 1960 سے فعال تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا شکست و ریخت سے دوچار ہوتے گئے اور اب نیشنسلٹ تحریک بھی نمایاں نہیں چین نے وہاں قدم جما لیے ہیں اور کام جاری ہے، یہ بہتر ہوتا کہ سیاسی پارٹی جو ملک پر حکمرانی کی دعویدار ہے اور نیشنل پارٹی جو اس کی ہمنوا ہے کوئی کردار ادا کرتی بلکہ اس کے برعکس ایک سیاسی الجھاؤ کو ہوا دے رہی ہے اور قطر اور اس کے مخالف اتحاد کو ہوا دے رہی ہے بلکہ 16 جولائی کو مسٹر ٹرمپ نے بھی قطر کو دہشت گرد ملک قرار دے دیا جب کہ امریکی اڈے کو بھی وہاں سے لے جانے کا عندیہ دے دیا حالانکہ موجودہ دہشت گردی جو سعودی عرب میں ہو رہی ہے وہ قطر کا کارنامہ نہیں بلکہ وہ حوثی اور انصارالاسلام اور یمن کے دوسرے گروہوں کا نتیجہ ہیں لہٰذا اب پاکستان کو عرب دنیا کی آپسی کشمکش سے دور رہنے اور چین کے ہمنواؤں سے قریب تر ہونے کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس طرح پاکستان بھی اسرائیلی کیمپ کا حصہ کہلانے لگے گا۔
پاکستان کو واضح غیر جانبدار پالیسی پر عمل کی ضرورت ہے۔ بھارت سے بھی نہ کوئی جنگی حکمت عملی رکھنے کی ضرورت ہے نہ ہی انتہائی قربت داری کی، بس درمیانی رواداری کی راہ اور نہ امریکی حاشیہ برداری جیسا کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی یعنی سینیٹ کا رویہ ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ ہے جس میں سینیٹر الیاس بلور اور دوسرے اراکین نے بھی مسٹر رضا ربانی کے راستے کو چنا ہے کہ پاکستان کیونکر سعودی کیمپ کا حصہ بن رہا ہے جب کہ جنرل راحیل شریف پاکستان واپس آچکے ہیں مگر اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی بقول فرحت اللہ بابر کے یہ راہ ملک میں فرقہ واریت کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی پالیسی کنفیوژڈ ہے اور الجھاؤ کا شکار بھی جب کہ اب تاریخ میں پہلی بار روس اور چین مشترکہ فوجی مشقیں کرکے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک ہی موقف رکھتے ہیں۔