قیادت کا قحط الرجال

ہمارا کوئی دشمن نہیں سوائے ہمارے جاہل اور متعصب ملّا اور خود ہماری دینی معلومات درست نہ ہونے کے۔

najmalam.jafri@gmail.com

طلبا تنظیموں پر ضیا الحق نے 1985 میں پابندی عائد کی۔ ان کے بعد عوامی و جمہوری حکومتوں کے طور پر تین بار ''ن لیگ'' اور تین بار پیپلز پارٹی نے حکومت کی مگر ان میں سے کسی نے بھی طلبا یونین بحال کرنے کی کوشش نہ کی۔ کوٹہ سسٹم بھٹو دور میں نافذ ہوا۔ ایم کیو ایم نے ابتدا ہی سے کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی، مگر پی پی کی اتحادی کے طور پر جب وہ اقتدار (سندھ میں) میں شریک بھی رہے انھوں نے کوٹہ سسٹم ختم کرانے کی کوئی منظم کوشش نہ کی۔

آج دوسرے علاقوں سے آنے والوں کو کراچی میں بڑے بڑے نجی اداروں میں ملازمتیں باآسانی مل جاتی ہیں جب کہ کراچی میں پیدا ہونے اور مرنے والوں کی اولادوں کو کراچی ہی سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگاری کا سامنا ہے۔

کوٹہ سسٹم سے یہ تو ہوا کہ دیہی علاقوں کے افراد کو بھی آگے بڑھنے کا موقع ملا اب اندرون سندھ کے بے شمار افراد کراچی اور حیدر آباد کے سرکاری و نجی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں مگر کوٹہ سسٹم میں معیار تعلیم بہتر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

دیہی طلبا کو ملکی ترقی میں شامل کرنا ایک اچھا خیال تو تھا مگر ان کو تعلیم کے ذریعے اس قابل بنانا بھی ضروری تھا محض سسٹم نافذ کرنے سے معیار تعلیم بہتر نہیں بلکہ کچھ بدتر ہی ہوا۔ سفارش، اقربا پروری یا پھر نقل کرکے اور رشوت دے کر ڈگریاں تو حاصل کرلی گئیں مگر متعلقہ شعبوں میں مطلوبہ علمی استعداد پیدا نہ ہونے کے باعث وہ تمام ادارے جو کوٹہ سسٹم کی برکت سے پسماندہ علاقوں کے افراد سے پر ہوئے ان کی حالت ہر دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی گئی۔

کیا یہی ملکی ترقی و خوشحالی کے مسئلے کا حل تھا؟ اگر معیار تعلیم کو بہتر کیا جاتا اور میرٹ کو ترجیح دی جاتی ساتھ ہی طلبا کی صلاحیتوں کو غیر جانبدارانہ ماحول میں پنپنے کا موقع دیا جاتا تو حقدار کو اس کا حق ملتا ہر کوئی میرٹ پر آنے کی کوشش کرکے اپنے اپنے شعبے میں بہترین کارکردگی کی فکر کرتا یوں ہر ادارے کو باصلاحیت اور لائق افراد میسر آتے، جب اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی تو ترقی کا راستہ کون روک سکتا تھا۔

کوٹہ سسٹم سے جو اس لیے نافذ کیا گیا تھا کہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے حالات بدلیں گے اور ان کے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرکے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع ملے گا تو ہوا اس کے برعکس، غریب کسان اور مزارعے کے بچے تو اسی حال میں رہے البتہ اثر و رسوخ والے وڈیروں کے بے فکرے، محنت سے جی چرانے والے، سفارش اور رشوت (کیونکہ ان کے والد اتنا کچھ ان کے لیے کرسکتے تھے) کے باعث بلا پڑھے لکھے ہر طرف پھیل گئے۔

اگر غریب بچوں کو واقعی تعلیم دی جاتی بلاتفریق ان کی صلاحیتوں کو نکھرنے دیا جاتا تو ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ قیادت کا قحط الرجال بھی نہ پڑتا۔ تعلیمی اداروں کی یونین کے فعال طلبا میں ازخود لیڈر پیدا ہوتے، یوں پاکستان کو بار بار ناقص کارکردگی سے پُر حکمرانی سے نجات کی صورت بھی اجاگر ہوتی۔


ہمارے لوگوں خصوصاً طلبا میں صلاحیت کی کمی نہیں آج بھی چھوٹے شہروں بلکہ قصبوں کے طلبا بہتر سہولیات نہ ہونے کے باوجود کیمبرج میں ریاضی، کیمیا طبیعات، اقتصادیات وغیرہ میں دنیا بھر میں اول پوزیشن حاصل کرتے ہیں پاکستان کے کئی طلبا تمام مضامین (اے لیول کے جن کی تعداد 22، 23 مضامین تک رہی ہے)اے پلس گریڈ لاکر اپنے ہی پاکستانی طلبا کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔

اتنی لیاقت اور قابلیت کے باوجود ان میں قائدانہ صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ مضمون میں بیرون ملک اعلیٰ تدریسی کارکردگی تو دکھاتے ہیں مگر ملکی قیادت سنبھالنے بلکہ سیاست کے نام پر کان پکڑتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ محض اس لیے کہ ان کے اساتذہ نے ہر مضمون ان کو بڑی جانفشانی سے پڑھایا اور پھر بڑے فخر سے انھیں بین الاقوامی سطح کے امتحانات میں پیش بھی کیا۔

طلبا نے اپنی اور اساتذہ کی محنت کو رائیگاں نہیں ہونے دیا اور اعلیٰ کارکردگی کے ریکارڈ قائم کیے۔ مگر تعلیمی اداروں میں یونین نہ ہونے، غیر نصابی سرگرمیوں کے مفقود ہونے، پارلیمانی مباحثوں، مقابلۂ معلومات عامہ، شعر گوئی اور بیت بازی و مذاکروں کا انعقاد نہ ہونے کے باعث وہ اپنی ان صلاحیتوں کے اظہار سے محروم رہے۔ برسوں ہوگئے تعلیمی اداروں میں مسابقت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا رجحان ہی مفقود ہوچکا ہے۔

جب یہ طلبا اپنی تعلیمی لیاقت میں تمام دنیا کے طلبا کو جو ان کے مقابلے میں زیادہ بہتر ماحول اور تعلیمی مراعات کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں پاکستانی طلبا ان سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں اپنی صلاحیتیں نہیں آزماتے؟ وہ تو یہ سب کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں مگر تعلیمی اداروں میں ایسے مواقع فراہم ہی نہیں کیے جاتے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ہمارے بہن بھائیوں بلکہ خود ہمارے زمانہ طالب علمی تک اچھا طالب علم اسی کو سمجھا جاتا تھا جو تعلیم کے علاوہ اسکول کالج کی تمام نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا بلکہ ہر ایونٹ میں اول نہیں تو دوم انعام ضرور حاصل کرتا۔

سیاست اگر دوسروں پر الزام تراشی، اپنے علاوہ سب کو نیچا دکھانے اور ہر کسی کی پگڑی اچھالنے کا نام ہے تو ملک کا ہر باشعور شخص سیاست کو دور سے ہی سلام کرتا رہے گا۔ سیاسی اکھاڑے میں تو سازشی، ابن الوقت ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے والے ہی قابض رہیں گے، مگر ایسا نہیں ہے کہ اس رجحان کو تبدیل کیا ہی نہیں جاسکتا۔ تبدیلی ایوانوں سے نہیں عوامی ذہنوں سے لانے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے دانشور، اہل قلم، غیر جانبدار، غیر متعصب، روشن خیال افراد اگر مخلصانہ کوشش کریں۔ خصوصاً اگر اساتذہ اپنے طلبا میں مساوات، احترام انسانیت، روشن خیالی، غیر متعصبانہ طرز فکر کے علاوہ حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دیں تو ہماری آنے والی نسلیں اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔

مذہبی رہنما اگر فقہی منافرت اور اختلاف کے بجائے اجتماعی سوچ اور زندگی میں صرف اور صرف خوف خدا کی ترغیب دیں تو غیر مسلم معاشرے تو ملاوٹ، دھوکہ دہی، معاشرتی بددیانتی سے پاک ہوں، وہاں قانون کا احترام اور نفاذ ہر صورت ممکن ہو، مگر اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں غیر معیاری ملاوٹ زدہ اشیائے خوردونوش اور پھر صفائی کے فقدان کے باعث طرح طرح کے امراض میں مبتلا افراد جب شفاخانوں کا رخ کریں تو صحت کے بجائے ذمے داروں اور مسیحا کی لاپرواہی کے باعث مزید امراض کا شکار ہوکر آئیں۔

ہیپاٹائٹس کے علاج کو جانے والے ایڈز میں مبتلا ہوجائیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی چیز کی پرواہ کیے بغیر سب سے پہلے زندگی بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اخراجات وغیرہ کا معاملہ بعد میں طے ہوتا ہے۔ یہاں حادثے میں معمولی زخمی بھی بروقت طبی امداد نہ ملنے پر زیادہ خون بہہ جانے کے باعث سڑک پر ہی دم توڑ دیتا ہے۔

یہ ہے وہ مسلم ملک جہاں ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے ہر ذمے داری کو پس پشت ڈال کے صرف اسلام کا بول بالا کرنے کی کوشش کے پردے میں احترام انسانیت اور خوف خدا سے عاری مفروضوں پر عمل کرنے والوں کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے کوئی مومن نہیں صرف مسلم جو خوف خدا، اس کے ہر جگہ موجود ہونے ہر کسی کے حال دل سے واقف ہونے پر ایمان رکھتا ہے وہ کیسے دواؤں اور غذاؤں میں ملاوٹ، کپڑا یا ترکاری ناپنے اور تولنے میں کمی کا مرتکب ہوسکتا ہے، وہ غیر مسلموں اور جاہل مسلمانوں کی جہالت پر توہین رسالتؐ کی حد لگا کر کسی کی زندگی کو داؤ پر لگانے کو اسلامی خدمت کیسے قرار دے سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام اپنے ہر ماننے والے (مرد و زن) پر حصول علم کو فرض قرار دیتا ہے۔ ہمارا کوئی دشمن نہیں سوائے ہمارے جاہل اور متعصب ملّا اور خود ہماری دینی معلومات درست نہ ہونے کے۔
Load Next Story