جامع تصور عبادت

حقوق النفس، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا نام عبادت ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

اسلام کا تصور عبادت دنیا کے تمام مذاہب اور فلسفیانہ نظاموں سے بالکل منفرد، انوکھا اور اچھوتا ہے۔ دنیا میں اس وقت عبادت کے تین تصورات پائے جاتے ہیں۔

(۱)۔ مشرکانہ تصور عبادت: مشرکانہ تصورعبادت کے مطابق کائنات کا ایک خداوند (اِلٰہ یا رب) نہیں ہے بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سرچشمہ خداؤں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی خوش قسمتی و بدقسمتی، کامیابی و ناکامی، نفع و نقصان بہت سی ہستیوں کی خوشی اور ناراضگی پر منحصر ہے۔ ان خداؤں کی خوشی، مہربانی، عنایت اور کرم حاصل کرنے کے لیے پوجا پاٹ، نذر و نیاز، زیارت اور دوسری رسموں کا ایک لمبا چوڑا اور پیچیدہ دستور العمل ہے۔ ان مراسم کی ذہنی توجہ اور جذباتی لگاؤ کے ساتھ ادائیگی کا نام عبادت ہے۔ ان خیالی خداؤں کا انسان سے تعلق صرف رسمی ہے۔ یہ اخلاق، علم و ادب، اعمال، معاشرت، معیشت اور تمدنی زندگی کے لیے کسی قسم کی ہدایت اور رہنمائی نہیں دیتے۔

(۲)۔ راہبانہ تصور عبادت: راہبانہ تصور عبادت کے مطابق یہ دنیا دارالعذاب ہے اور جسم ایک قید خانہ ہے۔ انسان کی روح ایک سزا یافتہ قیدی کی مانند قفس عنصری میں بند ہے۔ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کے تقاضے الگ بلکہ باہم مختلف ہیں۔ ان دونوں کی ترقی ایک ساتھ ناممکن ہے۔ لذت، خواہشات، دنیاوی زندگی کے تعلقات اور دلچسپیاں روح کے حق میں ہتھکڑیاں، بیڑیاں ہیں۔

دنیا کے کاروبار اور معاملات زندگی وہ دلدل ہیں جس میں پھنس کر روح کی پرواز ختم ہوجاتی ہے اور طائر روح پھڑپھڑاتا رہتا ہے۔ دنیا سے دل لگانے سے روح کی روشنی ختم ہوجاتی ہے۔ روحانی ترقی کا کوئی راستہ ایسا نہیں جو دنیا کے اندر سے ہوکر گزرتا ہو بلکہ تمام راستے دنیا کے باہر ہی نکلتے ہیں۔ روح کی نجات کے لیے تنہائی میں دھیان و گیان، ریاضت اور مراقبے کا نام عبادت ہے۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ زندگی کے سارے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے۔ خواہشات کو مٹایا جائے۔ لذت سے کنارہ کشی کی جائے۔


جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبوں کو ٹھوکر سے کانچ کی چوڑیوں کی مانند چھن سے توڑ دیا جائے۔ ان تمام محبتوں کو دل کے خانہ سے کرید کرید کر نکال دیا جائے جو گوشت و خون کے تعلق سے پیدا ہوتی ہیں دنیا کو چھوڑ کر، عائلی زندگی کو توڑ کر معاشرے سے منہ موڑ کر کہیں دور بہت دور چل دیا جائے اور جنگل کے کسی گوشے میں پہاڑ کے کسی کونے میں بیٹھ کر مجاہدوں اور ریاضتوں کے ذریعے دشمن روح یعنی (نفس و جسم) کو اذیت اور تکالیف کی ضرب پر ضرب لگا کر، تڑپا تڑپا کر، سسکا سسکا کر ٹھنڈا کردیا جائے تاکہ روح ہلکی پھلکی اور پاک و صاف ہوکر نجات کے بلند ترین مقام تک پرواز کے قابل ہوجائے۔ مشرکانہ اور راہبانہ دونوں جاہلانہ نظریات ہیں۔

(۳)۔ اسلامی تصور عبادت:عبادت کے معنی دراصل بندگی کے ہیں۔ انسان عبد (بندہ) ہے اللہ اس کا معبود ہے۔ عبد اپنے معبود کی اطاعت میں جو کچھ کرے عبادت ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ کے حکم سے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے اور اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ عبادت ہے۔ وہ اعمال جن کو دنیاوی اور مادی سمجھا جاتا ہے مثلاً تلاش رزق، فکر عیال، والدین کی خدمت، رشتہ داروں کا خیال، پڑوسی کی خبرگیری وغیرہ اسلام میں عبادت کا درجہ رکھتی ہیں۔ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ (نائب) ہے اگر وہ ارادی، شعوری اور اختیاری طور پر بلا جبر و مجبوری با رضا اور باخوشی قوانین الٰہی کے مطابق عمل کرتا ہے تو وہ عبادت کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ دنیا روح کے لیے دارالعذاب نہیں ہے بلکہ دارالعمل ہے۔

جس میں نیک اعمال کرکے روحانی ترقی حاصل کرنے کے لیے خدا نے انسان کو بھیجا ہے۔ یہ دنیا عبادت گاہ اور امتحان گاہ ہے۔ اس کے جذبہ عبادت اور احساس بندگی کا امتحان ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ مضمون عبادت کا ایک امتحانی پرچہ ہے۔ گھر، محلہ، بازار، منڈی، دفتر، کارخانہ، کھیت، مدرسہ، تھانہ، کچہری، پارلیمنٹ اور میدان جنگ۔ سب کے سب مضمون عبادت کے مختلف پرچے ہیں جو اسے حل کرنے ہیں اگر وہ تمام پرچوں کا ہدایت الٰہی کے مطابق جوابات دیتا ہے تو وہ عین عبادت کا حق ادا کرتا ہے اور خدا کی نظر میں کامیاب اور کامران ہے۔

حقوق النفس، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا نام عبادت ہے۔ اسلام میں چند اذکار، وظائف، دعاؤں اور مٹھی بھر رسوم کا نام عبادت نہیں بلکہ خدا کی خاطر جینے، خدا کی خاطر مرنے اور زندگی کے تمام شعبوں کی ہدایت الٰہی کی روشنی میں تعمیر و تشکیل کا نام عبادت ہے۔ اسلام کے تصور عبادت کا دائرہ عمل جائے نماز سے لے کر میدان جنگ تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی مذہب یا انسانی نظام فکر میں عبادت کی اتنی وسعت اور پھیلاؤ نہیں پایا جاتا۔ یہ عین علمی نظریہ ہے۔ اس طرح اسلام عبادت کا ایک مکمل، جامع اور ہمہ گیر تصور پیش کرتا ہے۔
Load Next Story