عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار

عدالت نے مسلسل پانچ سماعتوں میں فریقین کے اعتراضات اور موقف سن کر21 جولائی کو حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا۔

عدالت نے مسلسل پانچ سماعتوں میں فریقین کے اعتراضات اور موقف سن کر21 جولائی کو حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے تاریخی پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائیگا۔ تحریک انصاف اور قانونی ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ زیادہ دن محفوظ نہیں رہیگا، آئندہ ہفتہ بھی آ سکتا ہے۔

تین رکنی عملدرآمد کیس کی مسلسل پانچ سماعتوں میں فریقین کا موقف سنا گیا جب کہ مجموعی طور پر پاناما کیس 273 دنوں پر محیط رہا، اس کی50 سماعتیں ہوئیں،14 ہزار صفحات پر مبنی مواد عدالت عظمیٰ کے روبرو لایا گیا، جے آئی ٹی تشکیل پذیر ہوئی تو پاکستان پولیس سروس کے سینئر افسر واجد ضیا کی سربراہی میں تحقیقاتی عمل 60 روز میں مکمل کیا گیا۔ عدلیہ کے اس بیان نے زبردست ارتعاش پیدا کیا کہ جے آئی ٹی کے پابند نہیں، وکلا بتائیں سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی سفارشات اور تحقیقات پر فیصلہ کیوں دے؟ اس کے علاوہ بھی ججز نے کئی غیر معمولی ریمارکس دیے۔

بلاشبہ ملکی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں پاناما کیس ہمیشہ یاد رہیگا جس میں عہدہ پر موجود وزیراعظم کا احتساب کیا گیا اور اب قوم کو کیس کے ہمہ جہتی اور کثیرالاثر فیصلہ کا انتظار ہے۔ پاناما کیس کو اس اعتبار سے بھی انفرادیت حاصل رہے گی کہ پاکستانی عدلیہ کے نئے آزادانہ کردار، اس کی فیصلہ جاتی استقامت، فکر انگیز اور چونکا دینے والے ریمارکس منطق، حقائق و شواہد پر مبنی فیصلہ کے ملکی سیاست، سماج، طرز حکمرانی، اداروں کی کارکردگی اور انتظامی شفافیت پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات و نتائج کو قوم آئندہ مہینوں اور پھر برسوں میں دیکھتی رہے گی تاہم اصل امتحان یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت حکومتی اور اپوزیشن رہنما عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کو اس کی آئینی و قانونی روح کی روشنی میں سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کے ساتھ تسلیم کریں جس پر ہر قسم کا رد عمل قطعی ملکی مفاد، اداروں کے استحکام، جمہوری عمل اور عدلیہ کے دائمی وقار سے گہری اور غیر متزلزل کمٹمنٹ کا مظہر ہو۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ گارنٹی دیتے ہیںکہ وزیراعظم کی نااہلی کا جائزہ لیں گے، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دیکھنا ہوگا 90ء کی دہائی میں بچوں کا ذریعہ آمدن تھا یا نہیں، ذریعہ آمدن ثابت نہ ہوا تو اثر وزیراعظم پر ہو گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پانچ سال میں اسحاق ڈار کے اثاثے 9 ملین سے 837 ملین کیسے ہو گئے؟ پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جب کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 بھی عدالت میں کھولا گیا اور عدالت نے والیم 10 کا جائزہ بھی لیا۔ اس میں پینڈورا بکس جیسی کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی۔

ادھر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے مشاورتی اجلاس میں پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا ہے، تاہم وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں حکمت عملی وضع کی گئی کہ عدالتی فیصلہ خلاف آیا تو تمام آئینی و قانونی آپشنز استعمال کیے جائیں گے، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پاس رخصتی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔


ملکی تاریخ میں ہلچل مچانے والا پاناما کیس بالآخر عدالت عظمیٰ میں اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ وکلا نے اپنی بہترین پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ نااہلی کا مقدمہ بنا تو ٹرائل فیئر اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہو گا، یاد رہے نئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے حلف اٹھاتے ہی نیا پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے پہلی سماعت 4 جنوری2017ء کو کی اور پھر مسلسل 26 سماعتیں کرنے کے بعد 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا۔

کیس کا عبوری فیصلہ57 روز بعد20 اپریل کو جاری کیا گیا جس میں2 ججز نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے جب کہ تین ججز نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔5 مئی کو تشکیل پانے والی جے آئی ٹی نے8 مئی سے کام کا آغاز کرنے کے بعد63 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کیں اور دس جولائی کو رپورٹ جمع کرائی۔ عدالت نے رپورٹ عام کرتے ہوئے فریقین کو7 روز میں جائزہ لے کر اپنی معروضات و اعتراضات پیش کرنے کی ہدایت کی 17 جولائی کو سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا۔

عدالت نے مسلسل پانچ سماعتوں میں فریقین کے اعتراضات اور موقف سن کر21 جولائی کو حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کے احتساب کو جمہوری نظام کے مزید استحکام کا عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست اور سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے بلا امتیاز احتساب کیا جائے اور موجودہ احتسابی عمل رکنے نہ پائے۔

اب ضرورت بھی اسی بات کی ہے کہ جس جرات، کشادہ نظری، تدبر، صبر و تحمل اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ مقدمہ کی کارروائی میں فریقین اور ان کے وکلا نے حصہ لیا، چنانچہ لازم ہے کہ اسی جذبہ سے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے اثرات و مضمرات کو بھی عدالتی اور جمہوری عمل کا ناگزیر نتیجہ سمجھا جائے، ریاستی اداروں کا استحکام ایک عظیم آدرش ہے، اس لیے اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے جمہوری عمل اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک پیج پر رہنے کا عہد وقت کا تقاضہ ہے۔

 
Load Next Story