ہم کون سی تاریخ رقم کر رہے ہیں

ہمارا ملک پاکستان بے پناہ خون، آنسوؤں اور قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا

ملکی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر ہفتے تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ آج کل یہ رفتار ذرا تیز ہوگئی ہے کیونکہ انتخابی سال دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ پرویزمشرف کے لاتعداد وفادار، جانثار ان کی رخصتی اور زوال پر آنسو بہانے والے نواز لیگ میں شامل ہوکر دن رات سڑکوں پر گلے پھاڑ رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے لوگ پی ٹی آئی میں عمران خان کی انقلابی کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں بٹ کر سوائے اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرنے کے اورکچھ نہیں کر رہی اور سب سے بڑھ کر جے آئی ٹی کی بزم میں آنیوالا ہر دوسرا ملزم بڑے عزم کے ساتھ نئی تاریخ رقم کرنے کا دعویدار ہے الغرض یہ کہ ہر طرف تاریخ رقم ہو رہی ہے، موجودہ حکومت نے جے آئی ٹی پر اور جے آئی ٹی نے حکومت پر انگلی اٹھا کر نئی تاریخ رقم کردی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ہر چار پانچ سال کے بعد کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ نون کی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزامات کا شور بلند ہوتا ہے تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کوکھول کر پرانی تاریخ کو دیکھتے ہیں اور پھر اسے بند کرکے نئی تاریخ رقم کرنے کے دعوے سننے اور پڑھنے لگتے ہیں۔

نئی تاریخ رقم کرنے کے کئی دعوے داروں کی طرف سے بڑی بڑی رقمیں تقسیم کرنے اوروصول کرنے کی کہانیاںبڑے بڑے فیصلوں میں بھی موجود ہیں لیکن سزا کسی کو نہیں ملتی کیونکہ ہمارے قانون کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے، اس قانون کے سامنے کچھ لوگ رقم وصول کرکے نئی تاریخ رقم کرنے کے دعوے کرتے ہیں، کچھ لوگ رقم وصول کرنے سے انکارکرتے ہیں اور بڑی خاموشی سے پرانی تاریخ میں گم ہوجاتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر دور میں ایک ایسی تاریخ مرتب کرتے چلے آرہے ہیں جس پر سوائے دکھ اور افسوس کے اورکچھ نہیں کیا جاسکتا۔

حالانکہ زندگی کا تجربہ اورکتابوں کا مطالعہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ جب تک قومی سطح کے احتسابی ادارے نہایت مضبوط، فعال اور آزادانہ ہوں صحیح معنوں میں نہ کسی کا احتساب ہوسکتا ہے اور نہ ہی کرپشن کو لگام دی جاسکتی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ احتسابی اداروں کو آئین میں قوت، آزادی اور سیکیورٹی مہیا کرنے کے علاوہ ان کے سربراہان کی تقرری کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ حکومت کو اپنے وفادار مقررکرنے کا موقع نہ ملے اور ان اداروں میں تمام تقرریاں ملکی سطح پر میرٹ کو بنیاد بناکر کی جائیں۔ میرٹ سے مراد صرف قابلیت ہی نہیں بلکہ دیانت اور کردار ان تقرریوں کے بنیادی ستون ہونے چاہئیں۔

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پاکستانی حکومت کی ''کریم'' نے جو کردار ادا کیا ، سینٹرل جیل کراچی میں ہونے والے سرچ آپریشن میں ممنوعہ سامان اور 35 لاکھ روپے کی برآمدگی، کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کے فرار اور دہشت گرد قیدیوں کے جیل میں اپنے ساتھیوں سے رابطے، موبائل سم چلانے کے لیے جدید ڈیوائس کی فراہمی اور اس کا استعمال، اس جیل میں 8 ڈویژن اور 28 بیرکوں میں 6350 سے زائد قیدیوں کا رکھے جانا، کوئٹہ کے ایم پی اے کا ٹریفک سارجنٹ کو اپنی گاڑی سے کچل کر مار دینا اور پولیس کا اس ایم پی اے کو بچانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال ہمارے ملک میں قانون کی حد درجہ لاچارگی کا اظہار نہیں تو اور پھر کیا ہیں؟ ان واقعات نے وی آئی پی کلچر اور قانون کے تضادات کی قلعی کھول دی ہے۔

قانون کی کتابوں کے دیباچے میں قانون کے بارے میں لکھا ہے کہ ''قانون وہ جال ہے جس میں بڑی مچھلی تو جال پھاڑ کر نکل جاتی ہے اور چھوٹی مچھلی اس میں پھنس جاتی ہے۔'' پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہونے والے واقعات کو دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ ملکی قانون، قاعدے اور ادارے محض مذاق سے زیادہ کچھ نہیں،کسی کا جو دل چاہے کرے، جب چاہے کسی سے جینے کا حق چھین کر موت کا پروانہ اس کے ہاتھ میں تھما دے کوئی اس کو روکنے کی جسارت نہیں کرے گا، اگر گرفتار ہو بھی گیا تو اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اسے ہتھکڑی نہ لگے، حوالات اور جیل میں اسے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے اور قیدی کی حیثیت سے اسے ہر وہ ''آسائش'' فراہم کی جائے جس سے استفادہ کرنا کسی بھی آزاد شہری کی آرزو اور تمنا ہوسکتی ہے۔


یہ ہماری سوسائٹی کے ایسے تضادات ہیں جن پر جتنا بھی شرمندہ ہوا جائے کم ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم، ادارہ یا فرد اپنی عزت اور حقوق کی خود حفاظت نہ کرسکے تو پھر انھیں دنیا کی نظروں میں تماشا بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ چین میں ایک عرصے تک چوری کی سزا موت اور چورکے سر پر گولی مار کر لاش تب تک ورثا کے حوالے نہ کی جاتی جب تک ورثا چوری کا مال واپس اور گولی کا معاوضہ نہ دے دیتے۔

جن دنوں لیاقت علی خان ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور ایوب خان کمانڈر انچیف تھے تو ایک سرکاری کمپلیکس نئی نئی تعمیر ہوئی تھی اس دور میں ایک چینی وفد اس کے دورے پر آیا اور معائنے کے دوران جب عمارت دو تین جگہوں سے ٹپکتی ملی تو پاکستانی میزبان نے شرمندگی سے یہ کہا کہ ''دراصل عمارت ابھی نئی نئی بنی ہے اس لیے ٹپک رہی ہے۔'' یہ سن کر چینی وفدکا سربراہ ہنس کر بولا ''شروع شروع میں ہماری عمارتیں بھی ٹپکا کرتی تھیں لیکن جب سے ہم نے تعمیراتی کمپنی کے ایک ٹھیکے دار کو گولی ماری تب سے ہماری نئی یا پرانی کوئی عمارت کبھی نہیں ٹپکی۔''

جیسی بھی ہے جمہوریت ہمارے ہاں موجود ہے لیکن درج بالا دلخراش واقعات نے یہ حقیقت عیاں کردی ہے کہ جمہوری دور ہونے کے باوجود اگر آج جمہوری کلچر فروغ پذیر نہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ادارے کمزور اور اشرافیہ بالادست ہے۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے سیاست دانوں کے غیر جمہوری طرز عمل سے پتا چلتا ہے کہ سول حکمرانی میں شامل مخصوص عناصر کی نگاہ میں عام لوگوں کی اوقات حشرات الارض سے زیادہ نہیں ایسے طرز فکر میں سزا و جزا کے نظام کا مخدوش ہونا خلاف حقیقت نہیں کہا جاسکتا۔

مقام شکر ہے کہ ظلم و زیادتی کے اس ماحول میں پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا ایک حقیقی تصور چیف جسٹس آف پاکستان کے ''سوموٹو نوٹسز'' نے اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح ہر اندھیری رات کی ایک صبح ضرور ہوتی ہے اسی طرح ہر تصویر کے بدصورت اور روشن رخ ضرور ہوتے ہیںتاہم ہمارے ارباب اختیار کا ہر غلط قدم کا راست ثابت کرنا فہم سے باہر ہے جو مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کا سبب بنتا ہے اور ہر ذی شعور اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ بے بنیاد قیاس آرائیاں عوام کو آگاہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ اہم اداروں کی بے توقیری کا باعث بنتی ہیں۔

ہمارا ملک پاکستان بے پناہ خون، آنسوؤں اور قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جسے ہم اس بری طرح نظرانداز کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی ارزاں جنس ہو۔ ''پانامہ لیکس'' کے حوالے سے ہمارے وطن عزیز میں جو کچھ کہا، سنا، پڑھا یا دیکھا جا رہا ہے اسے جان کر یہ کڑوی حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ ہمارے ملک جیسی مشتبہ تاریخ رکھنے والے ملک میں تاریخ رقم کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔

ہماری تاریخ یہ کہتی ہے کہ جس عدالتی کارروائی کو شروع میں بے داغ اور شفاف قرار دیا گیا، اس پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ہیں اور ایسی کارروائیوں کی بنا پر سنائے جانے والے فیصلوں نے ملک کو بارہا نقصان پہنچایا ہے۔ تاریخ ہمیشہ اپنا فیصلہ بعد میں سناتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس مرتبہ ہم جو فیصلہ سنانے جا رہے ہیں اس پر خود تاریخ کو بھی ناز ہوگا، اور اس کے لیے کارروائی قانون کے مطابق اور ہر قسم کی سیاسی مصلحتوں سے ماورا ہوگی۔
Load Next Story