غدار کے بدلے محب وطن عافیہ
ہم نے ہمیشہ امریکا کے ایک سچے وفادار دوست کا کردار ادا کیا ہے۔
ISLAMABAD:
امریکی ایوان نمائندگان نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی قوم کا ہیرو قرار دے دیا ہے۔ اس خبر پر ہمیں امریکی قوم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس طرح انھوں نے ہمیں بھارت پر فوقیت دے دی ہے۔گوکہ بھارتی ہمیشہ سے ہی امریکی قوم کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں مگر امریکیوں نے بھارت کے کسی شہری کوکبھی اپنا ہیرو تسلیم نہیں کیا چنانچہ امریکیوں کی جانب سے شکیل آفریدی کو بخشے گئے اعزاز پر ہمیں ضرور غورکرنا چاہیے کہ آخر ہم نے اسے کیوں غدار قرار دیکر جیل میں ڈالا ہوا ہے۔
شکیل آفریدی کا اتنا ہی تو قصور تھا کہ اس نے اسامہ کی خفیہ رہائش گاہ کا کھوج لگا کر اوبامہ اور ہیلری کو خبر کردی تھی اور اسامہ وہ تھا محض جس کی وجہ سے آج پوری اسلامی دنیا تباہی وبربادی کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا اسامہ پاکستان کا خیرخواہ تھا؟ القاعدہ نے پاکستان کو بھی نہیں بخشا تھا، اگر اسامہ اپنی ضد چھوڑ کر افغانستان سے چلا جاتا تو امریکا کو افغانستان پر حملہ کرنے کا موقع میسر نہ آتا۔ محض اس کی وجہ سے افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اور افغانستان پر امریکیوں کا تسلط قائم ہوگیا پاکستان جو طالبان حکومت کا دوست اور حمایتی تھا اسے بھی تباہی وبربادی کی دلدل میں پھنسا دیا۔
کاش کہ اس وقت سابق صدر جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کی پرواہ کرنے کے بجائے ملک کی پرواہ کرتے تو پاکستان ضرور اس عذاب سے محفوظ رہتا مگر اقتدار اور حکمرانی ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے۔ جونیئر بش کی جانب سے انھیں امریکا کا ساتھ نہ دینے کی صورت میں پتھرکے دور میں پہنچانے کی جو دھمکی دی گئی تھی اگر وہ اس دھمکی پر تمام قومی رہنماؤں سے مشورہ کرلیتے تو ضرور اس مسئلے کا کوئی کارگر حل نکل آتا جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی محفوظ رہ جاتی۔
چلو اگر اس وقت بش کا حکم مان ہی لیا گیا تھا تو کم سے کم دو شرائط کو ضرور منوا لیا جاتا ایک تو یہ کہ بھارت کو افغانستان سے دور رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ امریکا پاکستان کی خدمت کے صلے میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے کا تحریری وعدہ کرے۔ افسوس کہ نہ اس وقت کوئی اپنی بات منوائی گئی اور اب بہت کچھ گنوانے کے بعد افغان مصیبت سے باہر نکلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ہماری تمام قربانیوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے حالانکہ شروع شروع میں پورا مغرب بڑھ چڑھ کر ہماری تعریفیں کر رہا تھا مگر دراصل ہم سمجھ نہیں پائے کہ وہ صرف اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے ہمیں آسمان پر چڑھا رہے تھے۔
اب عالم یہ ہے کہ وہ اپنا کام نکلنے کے بعد افغانستان کے خلفشارکا ہمیں ہی ذمے دار قرار دے رہے ہیں جب کہ اس خلفشار کی وجہ بھارت ہے جو افغان جنگ کو جاری رکھنے کا خواہاں ہے تاکہ وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھ سکے۔ افسوس تو اس امر پر ہے کہ امریکی جیسی باشعور قوم نہ جانے کیوں اتنی نادان بنی ہوئی ہے کہ وہ بھارت کی چالوں کو سمجھ ہی نہیں پا رہی ہے اور افغانستان کی خونی دلدل میں اپنے وسائل اور فوجیوں کو ضایع کر رہی ہے مگر ایسا نہیں ہے اب حالات و واقعات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت بھارتی پروپیگنڈے کا شکار ہوچکی ہے اس نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھارت کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔
بعض ذرایع کے مطابق بھارت افغانستان میں اپنا فوجی اڈہ بھی قائم کرچکا ہے جو جنگ کے وقت پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی ایوان نمایندگان نے بھارت کے لیے کام کر رہے اپنے دو ارکان کی سفارش پر پاکستان کی مالی امداد پر کئی کڑی شرائط عائد کردی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی لوبیٹنٹ کیا کر رہے ہیں جن پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں جو اپنی پالیسی بنائی ہے اس کا سراسر مقصد پاکستان پر سخت دباؤ ڈال کر اسے بھارت کے طابع بنانا ہے مگر پاکستان خطے میں بھارت کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا مزید برآں بھارت امریکا کے زیر سایہ افغان سرزمین سے پاکستان کے امن کو جو نقصان پہنچا رہا ہے اس سے خود امریکا کی پریشانیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ امریکا پر واضح ہونا چاہیے کہ افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان کے پاس ہے جہاں تک پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا معاملہ ہے یہ سات دہائیوں پر محیط ہیں۔
ہم نے ہمیشہ امریکا کے ایک سچے وفادار دوست کا کردار ادا کیا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں جب بھارت روس کا فرمانبردار بنا ہوا تھا ہم نے امریکا کی ہر طرح سے خدمت کی ۔ اس نے ہمارے ہاں فوجی اڈے قائم کیے۔ اس کے حکم پر ہم نے کمیونزم کے خلاف بند باندھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب افغانستان میں روس نے قبضہ کیا ہم نے امریکا کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ روس کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں کو پناہ دی اور بالآخر روس کو افغانستان سے نکال کر دم لیا۔
اس کے بعد طالبان افغانستان پر چھا گئے وہ وہاں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے جس کا انھوں نے وہاں تجرباتی مظاہرہ بھی کیا مگر افسوس کہ ان کے بعض اقدامات اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تھے جنھیں مغرب نے خوب اچھالا اور انھیں بدنام کردیا تاہم اس کے بعد بھی طالبان حکومت کو امریکا یا کسی اور ملک سے کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ خود امریکا ان کا حمایتی تھا۔ بدقسمتی سے اسامہ افغانستان میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگیا اور ملا عمر کا مہمان بن گیا۔ اس سے امریکا کے تیور بدل گئے کیونکہ القاعدہ پوری دنیا میں امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہی تھی۔ اس نے کئی شہروں میں امریکی سفارتی مشنز کو نقصان پہنچایا تھا۔
امریکی حکومت نے طالبان حکومت کو اسامہ کو افغانستان سے باہر نکالنے کی ہدایت کی مگر ایسا نہ ہوا اور اس کے نتیجے میں پھر جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب اس وقت امریکا سے ہمارے تلخ تعلقات کی ایک بڑی وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اس کے حوالے نہ کرنا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب شکیل آفریدی ملک کا غدار ہے اور امریکیوں نے اسے اپنا ہیرو تسلیم کرلیا ہے تو اسے امریکا کے حوالے کرنے میں آخر کیا قباحت ہے البتہ اب اس کے بدلے چودہ برس سے امریکی جیل میں اذیت ناک زندگی بسر کر رہی قوم کی بیٹی اور ہیرو عافیہ صدیقی کو فوراً واپس وطن لایا جائے اور یہ ہرگزکوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔
افسوس تو ان سابق حکمرانوں پر ہے جنھوں نے اسے چند ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کردیا تھا۔ بعد کے حکمرانوں کو خود امریکیوں نے اسے واپس لینے کے مواقعے فراہم کیے مگر ہمارے حکمرانوں نے اس عمل میں اپنا فائدہ نہ دیکھتے ہوئے ان مواقعوں کو ضایع کرکے عافیہ کی بوڑھی ماں اور بہن کو ہی نہیں پوری قوم کو مایوس کیا۔ ماضی میں عافیہ کی رہائی کا پہلا سنہری موقع 2011 میں آیا تھا جب ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بدلے امریکی حکومت خود عافیہ کو رہا کرنے کے لیے تیار تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد 2016 کے آخر میں صدر اوبامہ کی رخصتی کے وقت عام معافی کے تحت امریکی حکومت عافیہ کو رہا کرنا چاہتی تھی۔
اس سلسلے میں ہماری وزارت خارجہ کا صرف ایک خط درکار تھا افسوس کہ مشیر خارجہ ایک خط لکھنے کی زحمت نہ کرسکے۔ جہاں تک شکیل آفریدی کی غداری کا تعلق ہے اگر اس نے اسامہ کا خفیہ ٹھکانہ تلاش ہی کرلیا تھا تو اسے اس کی خبر پاکستانی حکام کو کرنا تھی۔ اس طرح اسامہ کی گرفتاری سے پاکستان سرخرو ہوتا اور اس کی بھی حب الوطنی پر کوئی آنچ نہ آتی مگر اس نے اپنی نادانی یا انعام کے لالچ میں خود کو وطن کا دشمن ثابت کردیا ہے۔
پوری پاکستانی قوم اس کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے کہ اس نے جس قوم کے لیے کام کیا اور انھوں نے اس کے صلے میں اسے اپنا ہیرو تسلیم کرلیا ہے اسے انھی کے حوالے کردیا جائے مگر اس کے بدلے میں قوم کی بیٹی اور ہیرو عافیہ صدیقی کو بہرصورت واپس لاکر قوم کی مایوسی کو خوشیوں میں تبدیل کیا جائے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی قوم کا ہیرو قرار دے دیا ہے۔ اس خبر پر ہمیں امریکی قوم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس طرح انھوں نے ہمیں بھارت پر فوقیت دے دی ہے۔گوکہ بھارتی ہمیشہ سے ہی امریکی قوم کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں مگر امریکیوں نے بھارت کے کسی شہری کوکبھی اپنا ہیرو تسلیم نہیں کیا چنانچہ امریکیوں کی جانب سے شکیل آفریدی کو بخشے گئے اعزاز پر ہمیں ضرور غورکرنا چاہیے کہ آخر ہم نے اسے کیوں غدار قرار دیکر جیل میں ڈالا ہوا ہے۔
شکیل آفریدی کا اتنا ہی تو قصور تھا کہ اس نے اسامہ کی خفیہ رہائش گاہ کا کھوج لگا کر اوبامہ اور ہیلری کو خبر کردی تھی اور اسامہ وہ تھا محض جس کی وجہ سے آج پوری اسلامی دنیا تباہی وبربادی کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا اسامہ پاکستان کا خیرخواہ تھا؟ القاعدہ نے پاکستان کو بھی نہیں بخشا تھا، اگر اسامہ اپنی ضد چھوڑ کر افغانستان سے چلا جاتا تو امریکا کو افغانستان پر حملہ کرنے کا موقع میسر نہ آتا۔ محض اس کی وجہ سے افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اور افغانستان پر امریکیوں کا تسلط قائم ہوگیا پاکستان جو طالبان حکومت کا دوست اور حمایتی تھا اسے بھی تباہی وبربادی کی دلدل میں پھنسا دیا۔
کاش کہ اس وقت سابق صدر جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کی پرواہ کرنے کے بجائے ملک کی پرواہ کرتے تو پاکستان ضرور اس عذاب سے محفوظ رہتا مگر اقتدار اور حکمرانی ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے۔ جونیئر بش کی جانب سے انھیں امریکا کا ساتھ نہ دینے کی صورت میں پتھرکے دور میں پہنچانے کی جو دھمکی دی گئی تھی اگر وہ اس دھمکی پر تمام قومی رہنماؤں سے مشورہ کرلیتے تو ضرور اس مسئلے کا کوئی کارگر حل نکل آتا جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی محفوظ رہ جاتی۔
چلو اگر اس وقت بش کا حکم مان ہی لیا گیا تھا تو کم سے کم دو شرائط کو ضرور منوا لیا جاتا ایک تو یہ کہ بھارت کو افغانستان سے دور رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ امریکا پاکستان کی خدمت کے صلے میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے کا تحریری وعدہ کرے۔ افسوس کہ نہ اس وقت کوئی اپنی بات منوائی گئی اور اب بہت کچھ گنوانے کے بعد افغان مصیبت سے باہر نکلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ہماری تمام قربانیوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے حالانکہ شروع شروع میں پورا مغرب بڑھ چڑھ کر ہماری تعریفیں کر رہا تھا مگر دراصل ہم سمجھ نہیں پائے کہ وہ صرف اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے ہمیں آسمان پر چڑھا رہے تھے۔
اب عالم یہ ہے کہ وہ اپنا کام نکلنے کے بعد افغانستان کے خلفشارکا ہمیں ہی ذمے دار قرار دے رہے ہیں جب کہ اس خلفشار کی وجہ بھارت ہے جو افغان جنگ کو جاری رکھنے کا خواہاں ہے تاکہ وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھ سکے۔ افسوس تو اس امر پر ہے کہ امریکی جیسی باشعور قوم نہ جانے کیوں اتنی نادان بنی ہوئی ہے کہ وہ بھارت کی چالوں کو سمجھ ہی نہیں پا رہی ہے اور افغانستان کی خونی دلدل میں اپنے وسائل اور فوجیوں کو ضایع کر رہی ہے مگر ایسا نہیں ہے اب حالات و واقعات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت بھارتی پروپیگنڈے کا شکار ہوچکی ہے اس نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھارت کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔
بعض ذرایع کے مطابق بھارت افغانستان میں اپنا فوجی اڈہ بھی قائم کرچکا ہے جو جنگ کے وقت پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی ایوان نمایندگان نے بھارت کے لیے کام کر رہے اپنے دو ارکان کی سفارش پر پاکستان کی مالی امداد پر کئی کڑی شرائط عائد کردی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی لوبیٹنٹ کیا کر رہے ہیں جن پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں جو اپنی پالیسی بنائی ہے اس کا سراسر مقصد پاکستان پر سخت دباؤ ڈال کر اسے بھارت کے طابع بنانا ہے مگر پاکستان خطے میں بھارت کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا مزید برآں بھارت امریکا کے زیر سایہ افغان سرزمین سے پاکستان کے امن کو جو نقصان پہنچا رہا ہے اس سے خود امریکا کی پریشانیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ امریکا پر واضح ہونا چاہیے کہ افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان کے پاس ہے جہاں تک پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا معاملہ ہے یہ سات دہائیوں پر محیط ہیں۔
ہم نے ہمیشہ امریکا کے ایک سچے وفادار دوست کا کردار ادا کیا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں جب بھارت روس کا فرمانبردار بنا ہوا تھا ہم نے امریکا کی ہر طرح سے خدمت کی ۔ اس نے ہمارے ہاں فوجی اڈے قائم کیے۔ اس کے حکم پر ہم نے کمیونزم کے خلاف بند باندھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب افغانستان میں روس نے قبضہ کیا ہم نے امریکا کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ روس کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں کو پناہ دی اور بالآخر روس کو افغانستان سے نکال کر دم لیا۔
اس کے بعد طالبان افغانستان پر چھا گئے وہ وہاں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے جس کا انھوں نے وہاں تجرباتی مظاہرہ بھی کیا مگر افسوس کہ ان کے بعض اقدامات اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تھے جنھیں مغرب نے خوب اچھالا اور انھیں بدنام کردیا تاہم اس کے بعد بھی طالبان حکومت کو امریکا یا کسی اور ملک سے کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ خود امریکا ان کا حمایتی تھا۔ بدقسمتی سے اسامہ افغانستان میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگیا اور ملا عمر کا مہمان بن گیا۔ اس سے امریکا کے تیور بدل گئے کیونکہ القاعدہ پوری دنیا میں امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہی تھی۔ اس نے کئی شہروں میں امریکی سفارتی مشنز کو نقصان پہنچایا تھا۔
امریکی حکومت نے طالبان حکومت کو اسامہ کو افغانستان سے باہر نکالنے کی ہدایت کی مگر ایسا نہ ہوا اور اس کے نتیجے میں پھر جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب اس وقت امریکا سے ہمارے تلخ تعلقات کی ایک بڑی وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اس کے حوالے نہ کرنا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب شکیل آفریدی ملک کا غدار ہے اور امریکیوں نے اسے اپنا ہیرو تسلیم کرلیا ہے تو اسے امریکا کے حوالے کرنے میں آخر کیا قباحت ہے البتہ اب اس کے بدلے چودہ برس سے امریکی جیل میں اذیت ناک زندگی بسر کر رہی قوم کی بیٹی اور ہیرو عافیہ صدیقی کو فوراً واپس وطن لایا جائے اور یہ ہرگزکوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔
افسوس تو ان سابق حکمرانوں پر ہے جنھوں نے اسے چند ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کردیا تھا۔ بعد کے حکمرانوں کو خود امریکیوں نے اسے واپس لینے کے مواقعے فراہم کیے مگر ہمارے حکمرانوں نے اس عمل میں اپنا فائدہ نہ دیکھتے ہوئے ان مواقعوں کو ضایع کرکے عافیہ کی بوڑھی ماں اور بہن کو ہی نہیں پوری قوم کو مایوس کیا۔ ماضی میں عافیہ کی رہائی کا پہلا سنہری موقع 2011 میں آیا تھا جب ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بدلے امریکی حکومت خود عافیہ کو رہا کرنے کے لیے تیار تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد 2016 کے آخر میں صدر اوبامہ کی رخصتی کے وقت عام معافی کے تحت امریکی حکومت عافیہ کو رہا کرنا چاہتی تھی۔
اس سلسلے میں ہماری وزارت خارجہ کا صرف ایک خط درکار تھا افسوس کہ مشیر خارجہ ایک خط لکھنے کی زحمت نہ کرسکے۔ جہاں تک شکیل آفریدی کی غداری کا تعلق ہے اگر اس نے اسامہ کا خفیہ ٹھکانہ تلاش ہی کرلیا تھا تو اسے اس کی خبر پاکستانی حکام کو کرنا تھی۔ اس طرح اسامہ کی گرفتاری سے پاکستان سرخرو ہوتا اور اس کی بھی حب الوطنی پر کوئی آنچ نہ آتی مگر اس نے اپنی نادانی یا انعام کے لالچ میں خود کو وطن کا دشمن ثابت کردیا ہے۔
پوری پاکستانی قوم اس کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے کہ اس نے جس قوم کے لیے کام کیا اور انھوں نے اس کے صلے میں اسے اپنا ہیرو تسلیم کرلیا ہے اسے انھی کے حوالے کردیا جائے مگر اس کے بدلے میں قوم کی بیٹی اور ہیرو عافیہ صدیقی کو بہرصورت واپس لاکر قوم کی مایوسی کو خوشیوں میں تبدیل کیا جائے۔