اک پتلی تماشا ہے
آمریت اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کبھی ایک رخ عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے اور کبھی دوسرا۔
خوب تماشا مسلسل ہو رہا ہے۔ باری باری الیکشن جیتا جاتا ہے۔ اقتدار مل جانے کے بعد قومی خزانے میں لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ الیکشن اور اقتدار ملنے سے پہلے جن کے پاس پودینے کے باغ تھے، حکومت ملنے کے بعد صرف ایک بات یاد رہ جاتی ہے کہ ''لوٹو مال بناؤ اور بھاگ جاؤ''۔ خاندان کا بچہ بچہ ارب پتی بن جاتا ہے۔ یہ نیک کام پہلے دو سال میں ہو جاتا ہے، گدھے، گھوڑے، خچر سب خرید لیے جاتے ہیں۔
ہر ایک کی اپنی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ جب ملک کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر لیے جاتے ہیں اور عوام کی حالت دن بہ دن خستہ ہوتی جاتی ہے، پانچ سال پورے کرنے والوں نے ڈھٹائی سے کرپشن کی، کیونکہ ان کے پیچھے مضبوط ہاتھ تھے جو انھیں استحکام بخش رہے تھے۔ ایک پتلی تماشا ہے جو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلسل جاری ہے۔ خواہ آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت؟ دونوں دھوکا ہیں، فریب ہے۔ اصل طاقت کس کے پاس ہے؟
یہ سب جانتے ہیں، کٹھ پتلیوں کو اسٹیج مہیا کر کے اس پہ نچانے والے آہنی ہاتھ بظاہر نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ خفیہ ہاتھ ہیں، یہ وہ ہاتھ ہیں جو باری باری من پسند لوگوں کو سامنے لاتے ہیں اور ان کی ہر حرکت پہ نظر رکھتے ہیں۔ ان خفیہ ہاتھوں میں سے ایک سب سے بڑا اور مضبوط ہاتھ اس سپرپاور کا ہے جس کی مرضی و منشا کے بغیر ہمارے لیڈر اور اعلیٰ ترین افسران کچھ نہیں کر سکتے۔
آمریت اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کبھی ایک رخ عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ بے حسی اور بے غیرتی کی انتہا یہ ہے کہ جو پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ دو سال یا تین سال کے بعد بڑبڑانا شروع کر دیتی ہے، سارے الزامات اور کرپشن انھیں صرف حکومت میں نظر آتی ہے۔ لیکن جوں ہی خود انھیں حکومت ملتی ہے توسابقہ حکومت دوسرے فریق کو لتاڑنا اور جھاڑنا شروع کر دیتی ہے۔ ''چور مچائے شور'' والا محاورہ زندہ ہو جاتا ہے۔
نہ کبھی کرپشن ختم ہو گی نہ باری باری اقتدار حاصل کرنے کا کھیل۔ خواہ موجودہ حکومت ہو یا سابقہ۔ دونوں کرپشن میں ایک دوسرے کو مات دینے اور ساتھ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار۔ ''فرینڈلی اپوزیشن'' کی اصطلاح بھی ''نظریہ ضرورت'' کے تحت وجود میں آئی ہے۔ ملک ہر طرح سے ڈوب رہا ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جو زوال پذیر نہ ہو۔ اور کیوں نہ ہو؟
حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ سوائے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خاص لوگ سربراہ کے طور پر بٹھانے کے۔ تاکہ کرپشن اور بے ایمانی کا سمندر آسانی سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا خاندان کے بچے بچے کے خون میں سرائیت کر جائے۔ حالات کبھی نہیں بدل سکتے کیونکہ ''اقتدار مافیا'' ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان میں نظام کی تبدیلی ایک ڈھکوسلا ہے۔ صرف چہرے بدلتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان ''جمہوریت کی بندریا'' کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہے۔
جہاں تعلیم روبہ زوال ہو، جہالت اور حماقت کا دور دورہ ہو، جہاں کھیت میں داخل ہونے کی سزا بچے کی جان لے لینا ہو، جہاں چہروں پہ تیزاب پھینکنا اور قتل کر دینا غیرت کہلائے، جہاں مولوی حضرات سچ کا ساتھ دینے کے بجائے ہر حکومت سے اپنا اپنا حصہ لے کر مزے اڑاتے ہوں، جہاں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کرنا کوئی جرم نہ سمجھا جائے، غریب آدمی اپنی روزی روٹی کے چکر میں پھنسا رہتا ہے، سرمایہ داروں کو ہر نظام سوٹ کرتا ہے کیونکہ وہ ہر پارٹی میں کھانچے بنا لیتے ہیں۔ بھائی ایک پارٹی میں، بھتیجا، بھانجا کسی دوسری پارٹی میں، بیٹا، داماد اور اب بیٹیاں، بہوئیں بھی کہیں نہ کہیں کھپا دی جاتی ہیں تاکہ بوقت ضرور کام آئیں۔
سمدھیانے بھی سیاسی مصلحت کے تحت منتخب کیے جاتے ہیں۔ پھر سمدھیوں کو ایسے عہدے دیے جاتے ہیں جو کڑے وقت میں ان کے لیے ڈھال بن سکیں۔ رہ گیا درمیانہ طبقہ جس کے پاس شعور بھی ہوتا ہے اور ناانصافی پر آواز بھی اٹھانی آتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں درمیانہ طبقہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ محدود آمدنی میں بڑھتے ہوئے اخراجات اور دن بہ دن امربیل کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اس طبقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اب انقلاب کی امید رکھنا حماقت ہے۔ مایوسی، ڈپریشن اور فرسٹریشن نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
صورتحال اماوس کی رات کی طرح ہے۔ کہیں سے کسی جگنو کے چمکنے کی توقع بھی فضول لگتی ہے۔ مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے، جاگتے میں خواب دیکھنا سراسر حماقت ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ عدالتیں آزاد ہوں گی نہ فوری انصاف مہیا کریں گی۔ خوش فہمی میں مبتلا لوگ سمجھتے ہیں کہ آئندہ نظام میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ بالکل نہیں، کوئی بھی آئے آف شور کمپنیاں یوں ہی بنتی رہیں گی، دکھاوے کا احتساب بھی ہوتا رہے گا، لیکن لوٹ مار کا بازار یوں ہی گرم رہے گا۔
الف لیلیٰ کے علی بابا نے چالیس چوروں کو ٹھکانے لگا کر خزانہ حاصل کیا تھا۔ لیکن موجودہ دور کے علی بابا کے ساتھ چالیس چور بھی شامل ہیں۔ جو ہر ادارے میں مال بنانے میں مصروف ہیں اور تو اور انھوں نے اولڈ ایج بینیفٹ کے ادارے کو بھی نہیں بخشا۔ معمر افراد کو جو پنشن ملتی ہے، اس پر بھی شب خون مارا۔ کرپشن، غبن اور لوٹ مار جاری و ساری ہے۔ احتساب کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی سب کچھ دیکھتی ہے۔
کچھ لوگ گرفتار بھی کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے گاڈفادر انھیں ہتھکڑی نہیں لگانے دیتے۔ اور پھر کوئی نہ کوئی دوست احباب یا رشتے دار گلوخلاصی کروا دیتا ہے اور وہ باعزت بری ہوکر کچھ عرصے کے لیے زیر زمین چلے جاتے ہیں۔ اور نہایت باریکی سے حالات کا جائزہ لے کر یا تو دوبارہ سرگرم ہوجاتے ہیں یا پارٹی بدل لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شطرنج کی بساط بچانے والے کون ہیں؟ مہرے کس کی مرضی سے رکھے گئے ہیں اور ان مہروں کی چال چلنے والا کون ہے۔ دھن دولت کی فراوانی کی وجہ سے انھیں تمام معلومات گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔ ہر ادارے میں ان کے پیادے موجود ہیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں سے یہ ہر لمحہ باخبر رہتے ہیں۔
ایک طرف کرپشن اور دہشتگردی کے خاتمے کے دعوے اور دوسری طرف آئے دن خودکش دھماکوں کی خبریں۔ پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کی خبریں۔ ایک بارش میں سارا نظام درہم برہم۔ رین ایمرجنسی صرف اخبارات کی خبروں تک محدود ہے۔ حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ بالخصوص کراچی میں جو تباہ کن صورتحال ہے، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اس شہر پر عذاب نازل ہوا ہے۔ پورا شہر اور شہر کی ہر گلی اور ہر فٹ پاتھ کچرا کنڈی بنی ہوئی ہے۔
کراچی کی بدنصیبی یہ بھی ہے کہ دور دراز علاقوں سے روزی کمانے والے جب اس ''شہر بے مثال'' میں آتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنی عادتیں اور طرز زندگی بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔ دن بہ دن شہر پر آبادی کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ چاروں طرف سے اس شہر پر یلغار ہے۔ پلوں کے نیچے ان گداگروں، خانہ بدوشوں اور کاری گروں کے ٹھکانے ہیں، جہاں جی چاہا پولیس کو بھتہ دے کر جھونپڑی ڈال لی۔ وہیں کھا رہے ہیں، وہیں رفع حاجات کر رہے ہیں، وہیں نہا دھو رہے ہیں اور وہیں سو رہے ہیں۔ کسی نہ کسی جگہ کسی بھی چیز کا ٹھیلا لگایا، چنگ چی رکشہ چلایا اور کچرا پھینکنے لگے۔ کیونکہ یہ ان کا کلچر ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ کراچی کو کچرا کنڈی بنانے میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بلدیاتی اداروں کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جس کو بیمار ہونا ہے وہ کراچی آ جائے۔ ملک کے سب سے زیادہ کماؤ شہر کو خدا جانے کس کی نظر لگ گئی۔ اصل قصور سندھ حکومت کا ہے جس کی کارکردگی زیرو ہے۔ صورتحال ایسی تباہ کن ہے کہ نہ پینے کا صاف پانی ہے نہ صفائی کا انتظام۔ لوگ یہاں کس طرح زندہ ہیں یہ ان کے دل سے پوچھیے؟
ہر ایک کی اپنی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ جب ملک کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر لیے جاتے ہیں اور عوام کی حالت دن بہ دن خستہ ہوتی جاتی ہے، پانچ سال پورے کرنے والوں نے ڈھٹائی سے کرپشن کی، کیونکہ ان کے پیچھے مضبوط ہاتھ تھے جو انھیں استحکام بخش رہے تھے۔ ایک پتلی تماشا ہے جو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلسل جاری ہے۔ خواہ آمریت ہو یا نام نہاد جمہوریت؟ دونوں دھوکا ہیں، فریب ہے۔ اصل طاقت کس کے پاس ہے؟
یہ سب جانتے ہیں، کٹھ پتلیوں کو اسٹیج مہیا کر کے اس پہ نچانے والے آہنی ہاتھ بظاہر نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ خفیہ ہاتھ ہیں، یہ وہ ہاتھ ہیں جو باری باری من پسند لوگوں کو سامنے لاتے ہیں اور ان کی ہر حرکت پہ نظر رکھتے ہیں۔ ان خفیہ ہاتھوں میں سے ایک سب سے بڑا اور مضبوط ہاتھ اس سپرپاور کا ہے جس کی مرضی و منشا کے بغیر ہمارے لیڈر اور اعلیٰ ترین افسران کچھ نہیں کر سکتے۔
آمریت اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کبھی ایک رخ عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ بے حسی اور بے غیرتی کی انتہا یہ ہے کہ جو پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ دو سال یا تین سال کے بعد بڑبڑانا شروع کر دیتی ہے، سارے الزامات اور کرپشن انھیں صرف حکومت میں نظر آتی ہے۔ لیکن جوں ہی خود انھیں حکومت ملتی ہے توسابقہ حکومت دوسرے فریق کو لتاڑنا اور جھاڑنا شروع کر دیتی ہے۔ ''چور مچائے شور'' والا محاورہ زندہ ہو جاتا ہے۔
نہ کبھی کرپشن ختم ہو گی نہ باری باری اقتدار حاصل کرنے کا کھیل۔ خواہ موجودہ حکومت ہو یا سابقہ۔ دونوں کرپشن میں ایک دوسرے کو مات دینے اور ساتھ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار۔ ''فرینڈلی اپوزیشن'' کی اصطلاح بھی ''نظریہ ضرورت'' کے تحت وجود میں آئی ہے۔ ملک ہر طرح سے ڈوب رہا ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جو زوال پذیر نہ ہو۔ اور کیوں نہ ہو؟
حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ سوائے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خاص لوگ سربراہ کے طور پر بٹھانے کے۔ تاکہ کرپشن اور بے ایمانی کا سمندر آسانی سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا خاندان کے بچے بچے کے خون میں سرائیت کر جائے۔ حالات کبھی نہیں بدل سکتے کیونکہ ''اقتدار مافیا'' ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان میں نظام کی تبدیلی ایک ڈھکوسلا ہے۔ صرف چہرے بدلتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان ''جمہوریت کی بندریا'' کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہے۔
جہاں تعلیم روبہ زوال ہو، جہالت اور حماقت کا دور دورہ ہو، جہاں کھیت میں داخل ہونے کی سزا بچے کی جان لے لینا ہو، جہاں چہروں پہ تیزاب پھینکنا اور قتل کر دینا غیرت کہلائے، جہاں مولوی حضرات سچ کا ساتھ دینے کے بجائے ہر حکومت سے اپنا اپنا حصہ لے کر مزے اڑاتے ہوں، جہاں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کرنا کوئی جرم نہ سمجھا جائے، غریب آدمی اپنی روزی روٹی کے چکر میں پھنسا رہتا ہے، سرمایہ داروں کو ہر نظام سوٹ کرتا ہے کیونکہ وہ ہر پارٹی میں کھانچے بنا لیتے ہیں۔ بھائی ایک پارٹی میں، بھتیجا، بھانجا کسی دوسری پارٹی میں، بیٹا، داماد اور اب بیٹیاں، بہوئیں بھی کہیں نہ کہیں کھپا دی جاتی ہیں تاکہ بوقت ضرور کام آئیں۔
سمدھیانے بھی سیاسی مصلحت کے تحت منتخب کیے جاتے ہیں۔ پھر سمدھیوں کو ایسے عہدے دیے جاتے ہیں جو کڑے وقت میں ان کے لیے ڈھال بن سکیں۔ رہ گیا درمیانہ طبقہ جس کے پاس شعور بھی ہوتا ہے اور ناانصافی پر آواز بھی اٹھانی آتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں درمیانہ طبقہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ محدود آمدنی میں بڑھتے ہوئے اخراجات اور دن بہ دن امربیل کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اس طبقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اب انقلاب کی امید رکھنا حماقت ہے۔ مایوسی، ڈپریشن اور فرسٹریشن نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
صورتحال اماوس کی رات کی طرح ہے۔ کہیں سے کسی جگنو کے چمکنے کی توقع بھی فضول لگتی ہے۔ مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے، جاگتے میں خواب دیکھنا سراسر حماقت ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ عدالتیں آزاد ہوں گی نہ فوری انصاف مہیا کریں گی۔ خوش فہمی میں مبتلا لوگ سمجھتے ہیں کہ آئندہ نظام میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ بالکل نہیں، کوئی بھی آئے آف شور کمپنیاں یوں ہی بنتی رہیں گی، دکھاوے کا احتساب بھی ہوتا رہے گا، لیکن لوٹ مار کا بازار یوں ہی گرم رہے گا۔
الف لیلیٰ کے علی بابا نے چالیس چوروں کو ٹھکانے لگا کر خزانہ حاصل کیا تھا۔ لیکن موجودہ دور کے علی بابا کے ساتھ چالیس چور بھی شامل ہیں۔ جو ہر ادارے میں مال بنانے میں مصروف ہیں اور تو اور انھوں نے اولڈ ایج بینیفٹ کے ادارے کو بھی نہیں بخشا۔ معمر افراد کو جو پنشن ملتی ہے، اس پر بھی شب خون مارا۔ کرپشن، غبن اور لوٹ مار جاری و ساری ہے۔ احتساب کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی سب کچھ دیکھتی ہے۔
کچھ لوگ گرفتار بھی کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے گاڈفادر انھیں ہتھکڑی نہیں لگانے دیتے۔ اور پھر کوئی نہ کوئی دوست احباب یا رشتے دار گلوخلاصی کروا دیتا ہے اور وہ باعزت بری ہوکر کچھ عرصے کے لیے زیر زمین چلے جاتے ہیں۔ اور نہایت باریکی سے حالات کا جائزہ لے کر یا تو دوبارہ سرگرم ہوجاتے ہیں یا پارٹی بدل لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شطرنج کی بساط بچانے والے کون ہیں؟ مہرے کس کی مرضی سے رکھے گئے ہیں اور ان مہروں کی چال چلنے والا کون ہے۔ دھن دولت کی فراوانی کی وجہ سے انھیں تمام معلومات گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔ ہر ادارے میں ان کے پیادے موجود ہیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں سے یہ ہر لمحہ باخبر رہتے ہیں۔
ایک طرف کرپشن اور دہشتگردی کے خاتمے کے دعوے اور دوسری طرف آئے دن خودکش دھماکوں کی خبریں۔ پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کی خبریں۔ ایک بارش میں سارا نظام درہم برہم۔ رین ایمرجنسی صرف اخبارات کی خبروں تک محدود ہے۔ حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ بالخصوص کراچی میں جو تباہ کن صورتحال ہے، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اس شہر پر عذاب نازل ہوا ہے۔ پورا شہر اور شہر کی ہر گلی اور ہر فٹ پاتھ کچرا کنڈی بنی ہوئی ہے۔
کراچی کی بدنصیبی یہ بھی ہے کہ دور دراز علاقوں سے روزی کمانے والے جب اس ''شہر بے مثال'' میں آتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنی عادتیں اور طرز زندگی بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔ دن بہ دن شہر پر آبادی کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ چاروں طرف سے اس شہر پر یلغار ہے۔ پلوں کے نیچے ان گداگروں، خانہ بدوشوں اور کاری گروں کے ٹھکانے ہیں، جہاں جی چاہا پولیس کو بھتہ دے کر جھونپڑی ڈال لی۔ وہیں کھا رہے ہیں، وہیں رفع حاجات کر رہے ہیں، وہیں نہا دھو رہے ہیں اور وہیں سو رہے ہیں۔ کسی نہ کسی جگہ کسی بھی چیز کا ٹھیلا لگایا، چنگ چی رکشہ چلایا اور کچرا پھینکنے لگے۔ کیونکہ یہ ان کا کلچر ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ کراچی کو کچرا کنڈی بنانے میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بلدیاتی اداروں کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جس کو بیمار ہونا ہے وہ کراچی آ جائے۔ ملک کے سب سے زیادہ کماؤ شہر کو خدا جانے کس کی نظر لگ گئی۔ اصل قصور سندھ حکومت کا ہے جس کی کارکردگی زیرو ہے۔ صورتحال ایسی تباہ کن ہے کہ نہ پینے کا صاف پانی ہے نہ صفائی کا انتظام۔ لوگ یہاں کس طرح زندہ ہیں یہ ان کے دل سے پوچھیے؟