سیف الرحمن گرامی بھی مرحوم ہوگئے

دور طالب علمی کے دوران سیف الرحمن گرامی تقریر اور مباحثے سے دلچسپی رکھتے تھے

آرٹس کونسل کراچی میں اکثر سیف الرحمن گرامی سے ملاقات ہوا کرتی تھی، مرحوم بڑی شفقت فرماتے تھے، ان کی بے وقت موت سے ملک ایک معروف ادب نواز ، انسان دوست اور بزرگ سماجی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ مرحوم نے کراچی میں ادب کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا، ایک طرف کراچی شہر میں موت اور خوف کے سائے لہراتے رہے اور دوسری طرف آرٹس کونسل کی عمارت کے اندر زندگی ہر خوف سے آزاد نظر آتی تھی۔ سیف الرحمن گرامی 2002 میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے پہلی بار سیکریٹری منتخب ہوئے، جس کے بعد اس ادارے کی قسمت جاگ اٹھی، انھوں نے اس ادارے کی بہتری کے لیے بے شمار کام کیے، چار سال بعد 2006 میں ایک مرتبہ پھر نائب صدر کے لیے مرحوم کا انتخاب کیا گیا تھا، اس عرصے کے دوران انھوں نے آرٹس کونسل کراچی میں کوچہ ثقافت، دھنک مشاعرہ اور طعام اور کلام جیسی تقاریب کی روایت ڈالی۔ سیف الرحمن گرامی مرحوم پاکستان میں عالمی مشاعروں کے بانیان میں شمار ہوتے ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی میں ڈائریکٹر انفارمیشن، ڈائریکٹر کلچر اینڈ اسپورٹس سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے والے سیف الرحمن گرامی 67 سال کی عمر میں ہارٹ سرجری کے دوران انتقال کرگئے، یوں ادبی و سماجی خدمات کا باب بند ہوگیا۔

سیف الرحمن گرامی 1946 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے، ان کے والد عبدالرحمن جامی نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن سے فارسی میں ایم اے کیا تھا اور پاکستان آنے کے بعد سندھ یونیورسٹی سے ایک اور ایم اے کرنے کے بعد حیدر آباد، لاڑکانہ اور سندھ کے دوسرے بڑے شہروں میں تعلیم وتدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ سیف الرحمن گرامی کی عمر ابھی چار سال ہی تھی کہ ان کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے میرپور خاص آکر آباد ہوگیا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ مائیکل اسکول حیدر آباد سے حاصل کی جس کے بعد سینٹ بونا ونچر اسکول ایبٹ آباد چلے گئے۔ تین سال ایبٹ آباد میں رہنے کے بعد وہ سندھ میں واپس آگئے اور کیڈٹ کالج پٹارو میں داخلہ لے لیا۔ جہاں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد سیف الرحمن گرامی کو ایئرفورس میں جانے کا شوق ہوا، ٹیسٹ کے دوران انھیں بتایا گیا کہ ان کی آنکھیں خراب ہیں، اس لیے ایئرفورس میں بھرتی نہیں ہوسکتے۔ ان کے والد انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لہٰذا انھیں گورنمنٹ کالج حیدر آباد میں داخلے کے بعد سائنس کا مضمون لینا پڑا۔ مگر میڈیکل میں داخلہ نہ مل سکا تو انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے مائیکروبیالوجی کے شعبے میں داخلہ لے لیا۔

دور طالب علمی کے دوران سیف الرحمن گرامی تقریر اور مباحثے سے دلچسپی رکھتے تھے، ایک مباحثے میں حصہ لیا جس کی بہت پذیرائی ہوئی اور انھیں انعامات سے نوازا گیا۔ یونیورسٹی کے طالب علم کی حیثیت سے بھی نمایاں رہے، یہ 1964 کی بات ہے ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو انھیں مختلف جلسوں میں تقاریر کے لیے بلایا جانے لگا۔ اس دوران ایک جلسے میں دوسرے بڑے سیاسی لیڈروں کے علاوہ شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔ انھوں نے بھی اس جلسے میں تقریر کی۔ جب رات کو جلسہ ختم ہوا تو ایک طالب علم رہنما کے کہنے پر یونیورسٹی جانے کے بجائے وہیں رک گئے، وہاں سے پولیس انھیں گرفتار کرکے تھانے لے گئی جہاں ان پر بہت تشدد کیا گیا، تشدد کے دوران ان سے ایک ہی بات پوچھی گئی کہ انھیں تقریر کس نے لکھ کر دی تھی؟ سیف الرحمن گرامی نے انھیں جب بتایا کہ تقریر انھوں نے خود ہی لکھی تھی تو انھیں یقین نہیں آیا، دو دن تک تشدد کرنے کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین اس وقت کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، ان کے کہنے پر سیف الرحمن گرامی کے والد انھیں کراچی یونیورسٹی سے نکال کر حیدر آباد لے گئے۔ وہاں انھوں نے آرٹس میں داخلہ لیا اور ان کی زندگی دوبارہ بحث مباحثوں، تقاریر، ڈراموں وغیرہ کی طرف لوٹ آئی اور وہ حیدر آباد انٹر کالجیٹ باڈی کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ سوشل ورک میں ایم اے کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔


سیف الرحمن گرامی اسکول اور کالج کے دنوں میں ٹیبل ٹینس کھیلتے تھے اور اس میں وہ چیمپئن بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایسٹ پاکستان نیوز ایجنسی ENA (اینا) کے نام سے شروع ہونے والی نیوز ایجنسی سے کیا۔ جہاں انھیں ڈھائی سو روپے ماہانہ ملا کرتے تھے، کچھ عرصے بعد انھوں نے انگریزی کے ایک اخبار "SUA" میں کام کرنا شروع کردیا، لیکن تین سال کے بعد جب اخبار بند ہوا تو انھوں نے پبلک سروس کے امتحان میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی، اس کے بعد سندھ انفارمیشن کے شعبے میں ملازمت کرلی، سیف الرحمن گرامی دو سال تک جام صادق علی کے پی آر او کے طور پر کام کرتے رہے، جس کے بعد عطا حسین تالپور کے ساتھ رہے، بعد میں انھیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنادیا گیا۔ 1984 میں سیف الرحمن گرامی ڈیپوٹیشن پر کے ایم سی چلے گئے، جس کے بعد انھیں دوبارہ ڈائریکٹر انفارمیشن بنادیا گیا اور وہ وقتاً فوقتاً دونوں اداروں میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے کے ایم سی میں کلچر اور اسپورٹس کا محکمہ قائم کیا اور اپنی دلچسپی اور صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔آرٹس کونسل سے متصل فیضی رحمین آرٹ کمپلیکس کی شاندار عمارت ان کا خواب تھی ۔

سیف الرحمن گرامی نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار تو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے پہلے سیکریٹری اور پھر نائب صدر کی حیثیت سے کیا، انھوں نے آرٹس کونسل میں بہتر تبدیلیاں کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ پہلے مرحلے میں کوچہ ثقافت کا منصوبہ گورنر سندھ عشرت العباد کے سامنے رکھا، گورنر نے کوچہ ثقافت کا اہتمام ایم آر کیانی روڈ پر کرنے کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد ایم آر کیانی روڈ پر کوچہ ثقافت کی ابتدا ہوئی اور یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔ کتابوں سے خاص لگاؤ کی وجہ سے یہاں بھی کتابوں کے اسٹالوں کو خاص اہمیت دی۔ اس سے پہلے سیف الرحمن گرامی نے بڑی کوششوں کے بعد فریئر ہال میں پرانی کتابوں کے اسٹال لگانے کا بندوبست کیا اور یہ سلسلہ بہت کامیاب رہا۔ ایک عرصے تک فریئر ہال کے باغ میں کتابوں کے اسٹالز کا میلہ لگتا رہا، جہاں کتابوں کے شیدائی بڑی تعداد میں آتے اور اپنی پسندیدہ کتابیں خریدتے تھے۔ مطالعے کے شوقین حضرات بڑے شوق سے کتابوں کا انتخاب کرتے نظر آتے تھے۔ سیف الرحمن گرامی خود بھی کتاب بینی کے شوقین تھے۔

سیف الرحمن گرامی مستقبل میں آرٹس کونسل کو مزید ترقی دینے کے خواہش مند تھے، وہ آرٹس کونسل کے آس پاس قائم آرٹس کے دوسرے اداروں کو بھی اس کے ساتھ ملانا چاہتے تھے تاکہ یہاں فنون لطیفہ اور ادب کی سرگرمیوں کی ترویج کے لیے باقاعدہ پروگرام ہوں اور آنے والے لوگ کوچہ ثقافت کی سرگرمیوں اور پاکستان کی ثقافت سے روشناس ہوسکیں۔ سیف الرحمن گرامی کی خدمات نے آرٹس کونسل کو ایک مکمل ثقافتی ادارہ بنادیا تھا اور آج آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اپنی ثقافتی سرگرمیوں کی بدولت نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ملک کے اور خصوصاً کراچی شہر کے حالات کتنے ہی ابتر کیوں نہ ہوں آرٹس کونسل کی ثقافتی سرگرمیاں زندگی کی نوید دیتی ہیں اور اس کا سہرا مرحوم سیف الرحمن گرامی کے سر جاتا ہے۔ افسوس اہل کراچی ایک انسان دوست، کتاب کا شیدائی اور ایک شفیق انسان سے محروم ہوگئے۔ 15 جنوری 2013 کو سیف الرحمن گرامی اپنے خالق حقیقی سے جاملے، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے (آمین)۔
Load Next Story