انقلاب کا بگل اور فتو نائی
پاکستان کے غریبوں کے ساتھ یہ بڑا عجیب مسئلہ ہے، وہ اپنی محرومیوں کی توجیہات پیش کرکے خودکو دلاسہ دینے لگتے ہیں
بات تین تیرہ کی نہیں ہے، بات تین تیرہ جمع سولہ کی بھی نہیں ہے، بات پورے تین سو روپے کی ہے، ان تین سو روپے نے فتو نائی کی زندگی کو بدل کررکھ دیا ہے۔
فتو نائی گوشت خور ہے اور بلا کا گوشت خور، بوٹی کے بغیر سالن کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور بوٹی بھی بچھیا کے گوشت کی، گرماگرم سالن میں تیرتی ریشے دارگوشت کی بوٹیاں فتو نائی کی جان ہیں، گوشت کو دیکھ کر فتو کی آنکھوں میں فتورآجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فتو کا ماضی پہلوانی کرتے ہوئے گزرا ہے، اس کے باپ، دادا، پردادا سب نائی(ہیئر ڈریسر ) تھے، فتو چوتھی نسل گیسو سنوار فنکار ہے، ہاتھ میں ایسی صفائی کہ ٹنڈ کروانے والے کو آخر تک محسوس نہیں ہوتا کہ سر پر بلیڈ پھیرا جا رہا ہے یا فتو نائی پیار سے ہاتھ پھیر رہا ہے۔ آج کل کے نئے نائی تو ایسے کمبخت ہیں کہ ادھر گردن گھماؤ، ادھر مڑو، ادھر جھکو، فتو کا اسٹائل بالکل جدا ہے، گاہک کو باتوں میں الجھا کر خود ادھر سے ادھر ہوتا رہتا ہے، زبان کی طرح اس کی قینچی چلتی ہے اور اس سے پہلے کہ کوئی فتو کی کسی بات کو سمجھے، کام ہوچکا ہوتا ہے۔ فتو بہت کم پیسے لیتا ہے، آج کل کے نئے نائی تو بال کاٹنے کے 80 روپے تک بنالیتے ہیں، مگر فتو نے اپنے ابا کے زمانے کے ریٹ مقررکررکھے ہیں، 12 روپے میں ٹنڈ، 20 روپے میں بال کاٹ دیتا ہے اور خط بنانے میں تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ فتو پہلے شیو بھی کردیتا تھا مگر جب سے اس نے داڑھی نہ رکھنے کا عبرت ناک انجام نامی کتابچہ پڑھا ہے، اس نے شیو کرنا چھوڑدیا ہے اور اپنی 8x12 کی دکان میں داڑھی کے فضائل کا اشتہار ٹانگ دیا ہے۔
فتو دن میں 700 روپے دیہاڑی بنا لیتا ہے، ان 700 روپوں میں سے اسے 200 روپے دکان کے بھاڑے اور 200 روپے دکان کے سامان کے لیے رکھنے ہوتے ہیں۔ فتو کے پاس روزانہ کے 300 روپے بچتے ہیں جن میں اس کو اپنے گھر کا راشن چلانا ہوتا ہے، اس کی بیوی نام کی صابرہ ہے، اس جیسی جلی کٹی سنانے والی عورت شاید ہی کسی اور کی زندگی میں آئی ہو، فتو یہ 300 روپے اپنی صابرہ کے ہاتھ پر روز خا موشی سے رکھ کر صبر کرلیتا ہے۔
فتو کے دن کے سب سے صبر آزما لمحات اس وقت آتے ہیں جب دکان بند کرکے وہ واپسی پر تین سو روپے اپنی مٹھی میں دبائے گھر جارہا ہوتا ہے، صامو قصائی کی دکان فتونائی کے گھر کے راستے میں ہی پڑتی ہے، صامو قصائی روز اسے آواز دے کر بلا لیتا ہے اور لال لال ریشے دار گوشت فتو نائی کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا ہے، ایسے میں فتو نائی کا بہت دل چاہتا ہے کہ وہ آج تازہ تازہ گوشت خرید کر اپنے گھر لے کر جائے مگر جیسے ہی وہ اپنی مٹھی میں بند ان 300 روپوں کو محسوس کرتا ہے تو اس کے سامنے بہت سے منظر فلم کی طرح چلنے لگتے ہیں، ایک بچہ پھٹی ہوئی قمیض پہنے اور خالی فیڈر لیے فرش پر بیٹھا رو رہا ہے، ایک عورت جو دروازے کی چوکھٹ پر باربار آکر فتو نائی کا انتظارکررہی ہے، فتونائی کو اس سمے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تین سو روپے اس کے لیے ایک دھوکا ہیں، ان تین سو روپوں نے اس کی ہر خوشی کو چھین لیا ہے، کسی نے اس کا گوشت چھین لیا ہے، ریشے دار گوشت، آج جب صامو قصائی نے پوچھا کہ فتو بھائی، بچھیا کا تازہ گوشت ہے، گھر کے لیے لے جاؤ، تو فتو بس اتنا کہہ کر لوٹ آیا ''صامو بھائی بڑے کا گوشت صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔''
پاکستان کے غریبوں کے ساتھ یہ بڑا عجیب مسئلہ ہے، وہ اپنی محرومیوں کی توجیہات پیش کرکے خودکو دلاسہ دینے لگتے ہیں، فتو نائی نے بھی یہی کیا اور کرتا رہے گا۔ فتو کا نام میں نے ایک استعارے کے طور پر لیا ہے ، وہ غلام ہے اس استحصالی نظام کا جس میں ملک بھر کے لاکھوں فتو نان شبینہ کو محتاج ہیں، بیروزگارہیں ، گولیوں سے روز بھونے جارہے ہیں، دہشت گرد ان کا شکار کرکے پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دلوانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے غریبوں کی یہ عجیب نفسیات ہے کہ وہ اپنی محرومیوں پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں جیسے یہ ان کا مقدر تھیں، وہ نہیں جانتے کہ یہ محرومیاں ان پر مسلط کی گئی ہیں۔ تین سو روپے کو زبردستی فتو نائی کا مسئلہ بنادیا گیا ہے مگر یہ کبھی فتو کا مسئلہ نہیں تھے، جس دن فتو جیسے لوگوں نے اس سمجھوتے کو ترک کردیا، پاکستان میں انقلاب کا بگل بج جائے گا۔
فتو نائی گوشت خور ہے اور بلا کا گوشت خور، بوٹی کے بغیر سالن کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور بوٹی بھی بچھیا کے گوشت کی، گرماگرم سالن میں تیرتی ریشے دارگوشت کی بوٹیاں فتو نائی کی جان ہیں، گوشت کو دیکھ کر فتو کی آنکھوں میں فتورآجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فتو کا ماضی پہلوانی کرتے ہوئے گزرا ہے، اس کے باپ، دادا، پردادا سب نائی(ہیئر ڈریسر ) تھے، فتو چوتھی نسل گیسو سنوار فنکار ہے، ہاتھ میں ایسی صفائی کہ ٹنڈ کروانے والے کو آخر تک محسوس نہیں ہوتا کہ سر پر بلیڈ پھیرا جا رہا ہے یا فتو نائی پیار سے ہاتھ پھیر رہا ہے۔ آج کل کے نئے نائی تو ایسے کمبخت ہیں کہ ادھر گردن گھماؤ، ادھر مڑو، ادھر جھکو، فتو کا اسٹائل بالکل جدا ہے، گاہک کو باتوں میں الجھا کر خود ادھر سے ادھر ہوتا رہتا ہے، زبان کی طرح اس کی قینچی چلتی ہے اور اس سے پہلے کہ کوئی فتو کی کسی بات کو سمجھے، کام ہوچکا ہوتا ہے۔ فتو بہت کم پیسے لیتا ہے، آج کل کے نئے نائی تو بال کاٹنے کے 80 روپے تک بنالیتے ہیں، مگر فتو نے اپنے ابا کے زمانے کے ریٹ مقررکررکھے ہیں، 12 روپے میں ٹنڈ، 20 روپے میں بال کاٹ دیتا ہے اور خط بنانے میں تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ فتو پہلے شیو بھی کردیتا تھا مگر جب سے اس نے داڑھی نہ رکھنے کا عبرت ناک انجام نامی کتابچہ پڑھا ہے، اس نے شیو کرنا چھوڑدیا ہے اور اپنی 8x12 کی دکان میں داڑھی کے فضائل کا اشتہار ٹانگ دیا ہے۔
فتو دن میں 700 روپے دیہاڑی بنا لیتا ہے، ان 700 روپوں میں سے اسے 200 روپے دکان کے بھاڑے اور 200 روپے دکان کے سامان کے لیے رکھنے ہوتے ہیں۔ فتو کے پاس روزانہ کے 300 روپے بچتے ہیں جن میں اس کو اپنے گھر کا راشن چلانا ہوتا ہے، اس کی بیوی نام کی صابرہ ہے، اس جیسی جلی کٹی سنانے والی عورت شاید ہی کسی اور کی زندگی میں آئی ہو، فتو یہ 300 روپے اپنی صابرہ کے ہاتھ پر روز خا موشی سے رکھ کر صبر کرلیتا ہے۔
فتو کے دن کے سب سے صبر آزما لمحات اس وقت آتے ہیں جب دکان بند کرکے وہ واپسی پر تین سو روپے اپنی مٹھی میں دبائے گھر جارہا ہوتا ہے، صامو قصائی کی دکان فتونائی کے گھر کے راستے میں ہی پڑتی ہے، صامو قصائی روز اسے آواز دے کر بلا لیتا ہے اور لال لال ریشے دار گوشت فتو نائی کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا ہے، ایسے میں فتو نائی کا بہت دل چاہتا ہے کہ وہ آج تازہ تازہ گوشت خرید کر اپنے گھر لے کر جائے مگر جیسے ہی وہ اپنی مٹھی میں بند ان 300 روپوں کو محسوس کرتا ہے تو اس کے سامنے بہت سے منظر فلم کی طرح چلنے لگتے ہیں، ایک بچہ پھٹی ہوئی قمیض پہنے اور خالی فیڈر لیے فرش پر بیٹھا رو رہا ہے، ایک عورت جو دروازے کی چوکھٹ پر باربار آکر فتو نائی کا انتظارکررہی ہے، فتونائی کو اس سمے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تین سو روپے اس کے لیے ایک دھوکا ہیں، ان تین سو روپوں نے اس کی ہر خوشی کو چھین لیا ہے، کسی نے اس کا گوشت چھین لیا ہے، ریشے دار گوشت، آج جب صامو قصائی نے پوچھا کہ فتو بھائی، بچھیا کا تازہ گوشت ہے، گھر کے لیے لے جاؤ، تو فتو بس اتنا کہہ کر لوٹ آیا ''صامو بھائی بڑے کا گوشت صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔''
پاکستان کے غریبوں کے ساتھ یہ بڑا عجیب مسئلہ ہے، وہ اپنی محرومیوں کی توجیہات پیش کرکے خودکو دلاسہ دینے لگتے ہیں، فتو نائی نے بھی یہی کیا اور کرتا رہے گا۔ فتو کا نام میں نے ایک استعارے کے طور پر لیا ہے ، وہ غلام ہے اس استحصالی نظام کا جس میں ملک بھر کے لاکھوں فتو نان شبینہ کو محتاج ہیں، بیروزگارہیں ، گولیوں سے روز بھونے جارہے ہیں، دہشت گرد ان کا شکار کرکے پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دلوانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے غریبوں کی یہ عجیب نفسیات ہے کہ وہ اپنی محرومیوں پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں جیسے یہ ان کا مقدر تھیں، وہ نہیں جانتے کہ یہ محرومیاں ان پر مسلط کی گئی ہیں۔ تین سو روپے کو زبردستی فتو نائی کا مسئلہ بنادیا گیا ہے مگر یہ کبھی فتو کا مسئلہ نہیں تھے، جس دن فتو جیسے لوگوں نے اس سمجھوتے کو ترک کردیا، پاکستان میں انقلاب کا بگل بج جائے گا۔