بے چارے سیاست دان
سیاست دانوں اور ان کے شریک کاروں پر اللہ کا فضل و کرم ہے اور غریب عوام مفلوک الحال قدم قدم پر ذلیل و خوار ہوتے ہوئے
LOS ANGELES:
یہ جو پاناما، آف شور کا شور ہورہا ہے، اس سے عام آدمی کا کیا تعلق، واسطہ! یہ تو وہ مٹائے ہوئے ہاتھی ہیں جنھوں نے رخ موڑ کر اپنی ہی فوج کو روند ڈالا ہے۔ عام لوگ تو 70 سال سے یہ سارے کھیل تماشے دیکھ رہے ہیں اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عام آدمی کا سیاست سے کیا لینا دینا۔ وہ کیا جانیں سیاست کیا ہوتی ہے، ملک کیسے چلتے ہیں۔ یہ سب تو سیاست دان جانتے ہیں۔ یہ انھی کا کام ہے جو ساری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں، اپنے ملک کے لیے بھیک مانگتے ہیں، ملک کو گروی رکھ دیتے ہیں۔ زبان بند، ہونٹوں پر تالے، سوچ پر پابندی، پھر کہیں جاکر کشکول میں پیسے آتے ہیں اور ملک چلتا ہے۔
ملک چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں! اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خراب حالات پل بھر میں نہیں بدلتے، حالات تبدیل ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں، یہ سیاست دان ہی ہیں جو اپنے دن رات ایک کرکے، گھروں سے بے گھر ہوکر ملکوں ملکوں، فقیری چوغا پہن کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ کس کے لیے؟ اور کیوں؟ جواب ہے اپنے ملک کے لیے، غریب عوام کے لیے، ملک قائم رہے اور غریب کا سانس بھی چلتا رہے، ہاری کسان کھیتوں میں کام کرتے رہیں، ملوں کے پہیے چلتے رہیں، غریبوں کا دال دلیا بھی چلتا رہے، غریبوں کے لیے دوا دارو نہیں تو نہ سہی، غریبوں کے بچے اسکول جائیں یا نہیں کوئی بات نہیں، غریب جیسے تیسے زندگی گزار ہی لیتا ہے، ... علاج اللہ کے آسرے پر جی ہی لیتا ہے۔ مانگ تانگ کر گزارا کر ہی لیتا ہے۔
یہ بے چارے سیاست دان جو ملکوں ملکوں جاکر اربوں، کھربوں روپے مانگ کر لاتے ہیں، ان روپوں سے اتنے بڑے ملک کا کیا بنتا ہے، کچھ بھی نہیں، اربوں کھربوں بھیک کے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور یہ بے چارے سیاست دان کشکول اٹھائے دنیا بھر میں نکلے ہی رہتے ہیں۔ یہ بے چارے غم کے مارے، سیدھے سادے بھولے بھالے کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑتے ہیں، آمنے سامنے کھڑے امیدوار سارے کے سارے کروڑوں روپے کا خرچہ کیے الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں، ان میں سے ایک کامیاب ہوتا ہے باقی سب کے کروڑوں غرق ہوجاتے ہیں مگر یہ پھر بھی ''ریس کورس'' ضرور جاتے آتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے سیاست دان جب کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں آجاتے ہیں تو ملکوں ملکوں سے جو بھیک ملتی ہے اس میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔
دیکھیں نا، آخر ان کو بھی تو زندہ رہنا ہوتا ہے۔ یہ ویسے بھی جدی پشتی رئیس ہوتے ہیں، ان پر اللہ کے بڑے فضل و کرم ہوتے ہیں تو ان کے محلوں کی آرائش و زیبائش، فرنیچر، پردے اور باغ میں گھومتے پھرتے مور، بگلے، خوبصورت پرندوں کے رہنے کے جالی دار، ہوادار ڈبے، خونخوار شکاری کتوں کا جتھا۔ جی! کیا کیا بتاؤں، ان بے چارے سیاست دانوں پر اللہ کے بڑے فضل و کرم ہوتے ہیں اور یہ اٹھتے بیٹھتے اپنی ہر آسائش پر یہی کہتے نظر آتے ہیں اللہ کے فضل و کرم سے، اللہ کے فضل و کرم سے۔
تو جناب! اللہ کے فضل و کرم سے ان بے چارے سیاست دانوں اور ان کے ہمنواؤں نے اللہ کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہ غریب لوگ! انھیں کیا پتا، انھیں کیا شعور کہ سیاست کیا ہوتی ہے، یہ غریب لوگ اگر سانس لے رہے ہیں تو یہ بھی انھی سیاست دانوں کی دین ہے ورنہ یہ غریب، انھیں تو صرف جینے کا حق ہے اور باقی کچھ نہیں۔ دوا نہیں ہے، خاموش رہو، بچوں کے لیے تعلیم نہیں ہے، خاموش رہو، رہنے کو گھر نہیں ہے، خاموش رہو، تن پر کپڑے نہیں ہیں، خاموش رہو۔ سیاست دانوں اور ان کے شریک کاروں پر اللہ کا فضل و کرم ہے اور غریب عوام مفلوک الحال قدم قدم پر ذلیل و خوار ہوتے ہوئے لوگ! در اصل ان پر اللہ کا غضب نازل ہے، حضرت مولانا نے فرمادیا ہے اور مولانا کا فرمانا مستند ہے ان کا فرمایا ہوا! بھئی میاں نواز شریف تو خاندانی رئیس ہے دولت مند ہے، یہ ان کو آج پتا چلا ہے۔
یوم مئی پر حبیب جالب جلسوں میں یہ تین شعر پڑھا کرتے تھے، علامہ اقبال بھی شاعر تھے سیاست دان نہیں تھے، اپنے عظیم شاعر سے خطاب کرتے ہوئے جالب کہتے تھے:
لوگ اٹھتے ہیں جب تیرے غریبوں کو جگانے
سب شہر کے زردار پہنچ جاتے ہیں تھانے
کہتے ہیں یہ دولت ہمیں بخشی ہے خدا نے
فرسودہ بہانے وہی افسانے پرانے
اے شاعر مشرق، یہی جھوٹے، یہی بدذات
پیتے ہیں لہو بندۂ مزدور کا دن رات
حبیب جالب بھی شاعر تھے، سیاست دان نہیں تھے مگر یہ بے چارے سیاست دان اپنی تقریروں، کو اقبال، فیض اور جالب کے اشعار سے سجاتے ہیں۔ باقی جو باتیں شاعری میں ان تینوں نے کی ہے
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
سلطانیٔ جمہور لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
اور جالب نے کہا:
اے دوست رہ زیست میں زنداں نہ رہیں گے
آئے گی سحر لوگ پریشان نہ رہیں گے
یہ سب شاعر تھے۔ یہ سیاست دان نہیں تھے۔ سیاست تو سیاست دانوں کا کام ہے اور بھی بڑے عظیم انسان گزرے ہیں مگر وہ صرف عظیم انسان تھے، سیاست دان نہیں تھے وہ جو سیاست دانوں کے لیے کہہ گئے دیوانے کی بڑ ہے۔ جاتی امراء اور ماڈل ٹاؤن ہی بہت تھے، یہ پانامے بنانے کی کیا ضرورت تھی، مگر یہ صرف آج کے حکمرانوں ہی پر بات ختم نہیں ہوتی ایسے ہی پاناموں سے ہمارا ملک خصوصاً پارلیمنٹ بھری پڑی ہے۔
سر دست چیف جسٹس سپریم کورٹ کہہ چکے ہیں۔ ''عمران صاحب! بنی گالا کی منی ٹریل بھی نہیں مل رہی، آپ بندوبست کریں'' اور ابھی تازہ ترین خبر آئی ہے ہائی کورٹ نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی جائیداد کی تفصیل طلب کرلی ہے اور بھی ایسے ہی لوگ اپنی اپنی باری کا انتظار کریں بہت جلد ان کا بھی کچا چٹھا تیا پانچا ہونے والا ہے۔
اب جب میں ایسی باتیں لکھتا ہوں تو ''بعض لوگ کہتے ہیں اسے کیا پتا سیاست کیا ہوتی ہے'' جالب نے کہا تھا
سپر جو شہ کی بنے، غاصبوں کے کام آئے
خدا بچائے رکھے ایسے علم و فن سے مجھے
یہ جو پاناما، آف شور کا شور ہورہا ہے، اس سے عام آدمی کا کیا تعلق، واسطہ! یہ تو وہ مٹائے ہوئے ہاتھی ہیں جنھوں نے رخ موڑ کر اپنی ہی فوج کو روند ڈالا ہے۔ عام لوگ تو 70 سال سے یہ سارے کھیل تماشے دیکھ رہے ہیں اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عام آدمی کا سیاست سے کیا لینا دینا۔ وہ کیا جانیں سیاست کیا ہوتی ہے، ملک کیسے چلتے ہیں۔ یہ سب تو سیاست دان جانتے ہیں۔ یہ انھی کا کام ہے جو ساری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں، اپنے ملک کے لیے بھیک مانگتے ہیں، ملک کو گروی رکھ دیتے ہیں۔ زبان بند، ہونٹوں پر تالے، سوچ پر پابندی، پھر کہیں جاکر کشکول میں پیسے آتے ہیں اور ملک چلتا ہے۔
ملک چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں! اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خراب حالات پل بھر میں نہیں بدلتے، حالات تبدیل ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں، یہ سیاست دان ہی ہیں جو اپنے دن رات ایک کرکے، گھروں سے بے گھر ہوکر ملکوں ملکوں، فقیری چوغا پہن کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ کس کے لیے؟ اور کیوں؟ جواب ہے اپنے ملک کے لیے، غریب عوام کے لیے، ملک قائم رہے اور غریب کا سانس بھی چلتا رہے، ہاری کسان کھیتوں میں کام کرتے رہیں، ملوں کے پہیے چلتے رہیں، غریبوں کا دال دلیا بھی چلتا رہے، غریبوں کے لیے دوا دارو نہیں تو نہ سہی، غریبوں کے بچے اسکول جائیں یا نہیں کوئی بات نہیں، غریب جیسے تیسے زندگی گزار ہی لیتا ہے، ... علاج اللہ کے آسرے پر جی ہی لیتا ہے۔ مانگ تانگ کر گزارا کر ہی لیتا ہے۔
یہ بے چارے سیاست دان جو ملکوں ملکوں جاکر اربوں، کھربوں روپے مانگ کر لاتے ہیں، ان روپوں سے اتنے بڑے ملک کا کیا بنتا ہے، کچھ بھی نہیں، اربوں کھربوں بھیک کے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور یہ بے چارے سیاست دان کشکول اٹھائے دنیا بھر میں نکلے ہی رہتے ہیں۔ یہ بے چارے غم کے مارے، سیدھے سادے بھولے بھالے کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑتے ہیں، آمنے سامنے کھڑے امیدوار سارے کے سارے کروڑوں روپے کا خرچہ کیے الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں، ان میں سے ایک کامیاب ہوتا ہے باقی سب کے کروڑوں غرق ہوجاتے ہیں مگر یہ پھر بھی ''ریس کورس'' ضرور جاتے آتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے سیاست دان جب کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں آجاتے ہیں تو ملکوں ملکوں سے جو بھیک ملتی ہے اس میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔
دیکھیں نا، آخر ان کو بھی تو زندہ رہنا ہوتا ہے۔ یہ ویسے بھی جدی پشتی رئیس ہوتے ہیں، ان پر اللہ کے بڑے فضل و کرم ہوتے ہیں تو ان کے محلوں کی آرائش و زیبائش، فرنیچر، پردے اور باغ میں گھومتے پھرتے مور، بگلے، خوبصورت پرندوں کے رہنے کے جالی دار، ہوادار ڈبے، خونخوار شکاری کتوں کا جتھا۔ جی! کیا کیا بتاؤں، ان بے چارے سیاست دانوں پر اللہ کے بڑے فضل و کرم ہوتے ہیں اور یہ اٹھتے بیٹھتے اپنی ہر آسائش پر یہی کہتے نظر آتے ہیں اللہ کے فضل و کرم سے، اللہ کے فضل و کرم سے۔
تو جناب! اللہ کے فضل و کرم سے ان بے چارے سیاست دانوں اور ان کے ہمنواؤں نے اللہ کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہ غریب لوگ! انھیں کیا پتا، انھیں کیا شعور کہ سیاست کیا ہوتی ہے، یہ غریب لوگ اگر سانس لے رہے ہیں تو یہ بھی انھی سیاست دانوں کی دین ہے ورنہ یہ غریب، انھیں تو صرف جینے کا حق ہے اور باقی کچھ نہیں۔ دوا نہیں ہے، خاموش رہو، بچوں کے لیے تعلیم نہیں ہے، خاموش رہو، رہنے کو گھر نہیں ہے، خاموش رہو، تن پر کپڑے نہیں ہیں، خاموش رہو۔ سیاست دانوں اور ان کے شریک کاروں پر اللہ کا فضل و کرم ہے اور غریب عوام مفلوک الحال قدم قدم پر ذلیل و خوار ہوتے ہوئے لوگ! در اصل ان پر اللہ کا غضب نازل ہے، حضرت مولانا نے فرمادیا ہے اور مولانا کا فرمانا مستند ہے ان کا فرمایا ہوا! بھئی میاں نواز شریف تو خاندانی رئیس ہے دولت مند ہے، یہ ان کو آج پتا چلا ہے۔
یوم مئی پر حبیب جالب جلسوں میں یہ تین شعر پڑھا کرتے تھے، علامہ اقبال بھی شاعر تھے سیاست دان نہیں تھے، اپنے عظیم شاعر سے خطاب کرتے ہوئے جالب کہتے تھے:
لوگ اٹھتے ہیں جب تیرے غریبوں کو جگانے
سب شہر کے زردار پہنچ جاتے ہیں تھانے
کہتے ہیں یہ دولت ہمیں بخشی ہے خدا نے
فرسودہ بہانے وہی افسانے پرانے
اے شاعر مشرق، یہی جھوٹے، یہی بدذات
پیتے ہیں لہو بندۂ مزدور کا دن رات
حبیب جالب بھی شاعر تھے، سیاست دان نہیں تھے مگر یہ بے چارے سیاست دان اپنی تقریروں، کو اقبال، فیض اور جالب کے اشعار سے سجاتے ہیں۔ باقی جو باتیں شاعری میں ان تینوں نے کی ہے
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
سلطانیٔ جمہور لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
اور جالب نے کہا:
اے دوست رہ زیست میں زنداں نہ رہیں گے
آئے گی سحر لوگ پریشان نہ رہیں گے
یہ سب شاعر تھے۔ یہ سیاست دان نہیں تھے۔ سیاست تو سیاست دانوں کا کام ہے اور بھی بڑے عظیم انسان گزرے ہیں مگر وہ صرف عظیم انسان تھے، سیاست دان نہیں تھے وہ جو سیاست دانوں کے لیے کہہ گئے دیوانے کی بڑ ہے۔ جاتی امراء اور ماڈل ٹاؤن ہی بہت تھے، یہ پانامے بنانے کی کیا ضرورت تھی، مگر یہ صرف آج کے حکمرانوں ہی پر بات ختم نہیں ہوتی ایسے ہی پاناموں سے ہمارا ملک خصوصاً پارلیمنٹ بھری پڑی ہے۔
سر دست چیف جسٹس سپریم کورٹ کہہ چکے ہیں۔ ''عمران صاحب! بنی گالا کی منی ٹریل بھی نہیں مل رہی، آپ بندوبست کریں'' اور ابھی تازہ ترین خبر آئی ہے ہائی کورٹ نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی جائیداد کی تفصیل طلب کرلی ہے اور بھی ایسے ہی لوگ اپنی اپنی باری کا انتظار کریں بہت جلد ان کا بھی کچا چٹھا تیا پانچا ہونے والا ہے۔
اب جب میں ایسی باتیں لکھتا ہوں تو ''بعض لوگ کہتے ہیں اسے کیا پتا سیاست کیا ہوتی ہے'' جالب نے کہا تھا
سپر جو شہ کی بنے، غاصبوں کے کام آئے
خدا بچائے رکھے ایسے علم و فن سے مجھے