کیونکہ معاملہ بھارت کا ہے

سیکولر ریاست ہونے کے باوجود دنیا بھارت کا مکروہ چہرہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح دہشت گرد سرِعام مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں

جمہوریت کا چیمپئین کہلوانے والے بھارتیوں نے ایک مسلم نوجوان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اُس کی گردن تن سے جدا کرنے کی کوشش میں انسانیت تک بھلادی۔ فوٹو: فائل

لاہور:
کچھ عرصے سے بھارت، امریکا، فرانس سمیت چند دیگر یورپی ممالک سے تواتر کے ساتھ یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں پر حملہ کیا گیا، کہیں حجاب میں راہ چلتے آوارہ لڑکوں کی مسلم خاتون پر تشدد کی ویڈیوز سامنے آجاتی ہیں تو کہیں کسی مسلمان کو جان سے مارنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہیں، مگر تاسف کی بات تو یہ بھی ہے کہ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی مغربی میڈیا بھی خاموش اور مغرب کی بنائی ہوئیں نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی خاموش، اور اگر کوئی اِس پر صدائے احتجاج بلند کرے تو اُس پر 'شدت پسند' اور 'انتشار پھیلانے' جیسے لیبل چسپاں کردیے جاتے ہیں۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر بھارت کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی، یہ ویڈیو اِس قدر وائرل ہوئی کہ بھارتی چینلز اور اخبارات میں بھی اُس کا چرچا ہوا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خود کو جمہوریت کا چیمپئین کہلوانے والے بھارتی کس طرح نوجوان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اُس کی گردن تن سے جدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جانے والا تو چلا گیا، مگر بھارت کے مکروہ چہرے پر ایک بدنام داغ کا مزید اضافہ کرگیا۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کیا جائے کہ یہ شخص غیر مسلم ہوتا اور اِس پر تشدد کرنے والے مسلمان اور ملک پاکستان ہوتا تو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اِس واقعے کے بعد پوری عالمی برادری پاکستان پر پے درپے لعن طعن کررہی ہوتی اور ہمارے دفتر خارجہ اور وزارت داخلہ اِس پر معافی اور صفائیاں پیش کررہے ہوتے۔

چند منٹوں میں کمیشن بن جاتے، تحقیقات شروع ہوجاتیں اور چند گھنٹوں میں ملزمان خفیہ اداروں کی گرفت میں ہوتے، اور چند مہینوں کے بعد یہ خبر مل رہی ہوتی کہ فلاں جیل میں انہیں پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ اِس تمام تر کارروائی کے بعد بھی دنیا کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا اور وہ پاکستان کو ایک طرف ہلکی سی شاباشی دے کر دوسری طرف ڈومور کا مطالبہ کررہے ہوتے۔ مگر یہ واقعہ چونکہ بھارت میں پیش آیا ہے، اِس لیے سب نے آنکھیں بند کرکے اپنے لب سی لیے ہیں۔

دراصل پاکستان دنیا کو صرف اِس بناء پر کھٹکتا ہے کہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے اور پاکستانی فوج دنیا کی مضبوط ترین افواج میں شامل ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ پاکستان کو دبانے کے لیے مختلف حربے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اِس طرح کا کوئی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو دنیا بھر سے پاکستان کیخلاف احتجاج ہوتا اور بھارت بڑھ چڑھ کر پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا ہوتا۔


امریکا میں کوئی سگنل توڑنے کی جسارت تک نہیں کرسکتا اور پاکستان میں دن دیہاڑے امریکی قتل کرکے بھی باعزت وطن لوٹ جاتے ہیں، یورپ میں کوئی مسلمان خاتون حجاب پہن کر باہر نکل جائے تو اُسے دہشت گردی جیسے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اِس کے باوجود ہم ہی شدت پسند اور دہشت گرد ٹھہرائے جاتے ہیں، ہم سے ہی ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور ہم پر ہی اپنی تمام تر من مانیاں تھونپی جاتی ہیں۔

بھارت میں ایک اندازے کے مطابق 26 علیحدگی پسند تنظیمیں اپنا کام کررہی ہیں۔ اِس کے علاوہ شدت پسند اور دہشت گرد تنظیمیں الگ ہیں، یہاں تک کہ امریکی رپورٹ کے مطابق بھارتی ایٹمی ہتھیار محفوظ نہیں، مگر اِس کے باوجود بھارت دنیا کی آنکھ کا تارا اور امریکا کا لاج دلارا ہے، جس کی وجہ صرف اور صرف وہاں کے حکمرانوں کی اپنے ملک سے وفاداری ہے، جو اپنے ملک سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے بعد بھی دنیا کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے اور ہم کلبھوشن جیسے دہشت گرد کو ثبوت کے ساتھ پکڑنے کے باوجود بھی اُسے پھانسی کے تختے تک نہیں پہنچاسکے۔

اِس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بھارت میں بسنے والے ہر انسان کا اُس پر باہم برابر حق ہے، اور مذہب و عقیدے کی آزادی بھی یکساں حاصل ہے۔ سیکولر ریاست ہونے کے باوجود دنیا بھارت میں شدت پسندی کا مکروہ چہرہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح شدت پسند دہشت گردوں نے سرِعام ایک مسلمان لڑکے کو تشدد کرکے قتل کردیا، جبکہ اِس سے قبل گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل کئے جانے مسلمانوں کی مثالیں بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ انسانی حقوق کا چورن بیچنے والی تنظیموں اور پاکستان سمیت تمام مسلم حکومتوں کو اقوام متحدہ سمیت ہر موثر پلیٹ فارم پر اِس ظلم اور شدت پسندی کیخلاف صدائے احتجاج آواز اٹھانی چاہئیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔
Load Next Story