بدقسمتی سے عدالتیں جھوٹی شہادتیں تسلیم کرلیتی ہیں سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے دو ملزمان کو 15 سال بعد بری کردیا
سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے دو ملزمان کو 15 سال بعد بری کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے دو ملزمان غلام مصطفےٰ اور منصور سکندر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں 15 سال بعد بری کردیا۔
غلام مصطفیٰ کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں خاتون سمیت دو افراد کو قتل کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی جب کہ منصور سکندر پر 2002 میں فیصل آباد میں ایک شخص کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ ٹرائل کورٹس نے ملزمان کو عمرقید کی سزا سنائی جسے ہائی کورٹس نے برقرار رکھا، جس پر ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور شک کا فائدہ دے کر ملزمان کو سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دیں۔
یہ بھی پڑھیں: قتل کا ملزم 17 سال بعد سپریم کورٹ سے بری
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مدعی اس طرح کے مقدمات میں جھوٹ کا پلندہ بنالیتے ہیں اور بدقسمتی سے عدالتیں بھی جھوٹی شہادتوں کو تسلیم کرلیتی ہیں۔
ملزمان کے خلاف گواہی دینے والے افراد کے بارے میں ڈپٹی پراسیکیوٹر محمد جعفر نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کے گواہان جائے وقوعہ کے قریب دربار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تھے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جنت سچ بولنے سے ملے گی درباروں پر فاتحہ خوانی سے جنت نہیں ملے گی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لوگ جھوٹی کہانیاں بنا کرکہتے ہیں کہ عدالت نے انصاف نہیں کیا، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کیا اس نے خود انصاف کیا ہے، ہمارے معاشرے میں قتل کے بعد لوگ اللہ کوبھول جاتے ہیں، حالانکہ جب لاش سامنے آجائے تو اللہ تعالی زیادہ یاد آنا چاہیے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے دو ملزمان غلام مصطفےٰ اور منصور سکندر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں 15 سال بعد بری کردیا۔
غلام مصطفیٰ کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں خاتون سمیت دو افراد کو قتل کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی جب کہ منصور سکندر پر 2002 میں فیصل آباد میں ایک شخص کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ ٹرائل کورٹس نے ملزمان کو عمرقید کی سزا سنائی جسے ہائی کورٹس نے برقرار رکھا، جس پر ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور شک کا فائدہ دے کر ملزمان کو سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دیں۔
یہ بھی پڑھیں: قتل کا ملزم 17 سال بعد سپریم کورٹ سے بری
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مدعی اس طرح کے مقدمات میں جھوٹ کا پلندہ بنالیتے ہیں اور بدقسمتی سے عدالتیں بھی جھوٹی شہادتوں کو تسلیم کرلیتی ہیں۔
ملزمان کے خلاف گواہی دینے والے افراد کے بارے میں ڈپٹی پراسیکیوٹر محمد جعفر نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کے گواہان جائے وقوعہ کے قریب دربار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تھے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جنت سچ بولنے سے ملے گی درباروں پر فاتحہ خوانی سے جنت نہیں ملے گی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لوگ جھوٹی کہانیاں بنا کرکہتے ہیں کہ عدالت نے انصاف نہیں کیا، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کیا اس نے خود انصاف کیا ہے، ہمارے معاشرے میں قتل کے بعد لوگ اللہ کوبھول جاتے ہیں، حالانکہ جب لاش سامنے آجائے تو اللہ تعالی زیادہ یاد آنا چاہیے۔