سندھ میں بڑھتی ہوئی اموات کی شرح

ہم لوگ اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ بڑھتے ہوئے موت کے طوفان کو روکنے کے لیے کوئی درست کوشش نہیں کر رہے ہیں

PESHAWAR:
میں جب صبح خاص طور پر سندھی اخبار پڑھتا ہوں تو دل بیٹھ جاتا ہے اور سوچ ایک دم حکومت کی طرف چلی جاتی ہے کہ سندھ میں دن بہ دن اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے کئی اسباب ہیں۔

کئی مرتبہ یہ سوچا کہ اب میں سندھی اخبار نہیں پڑھوں گا جس میں نظر پڑتے ہی یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ فلاں جگہ گھریلو تنازع کی وجہ سے بیٹے نے ماں کو قتل کردیا، سسر نے بہو کوکاری قرار دلوا کر شوہر کے ہاتھوں قتل کروادیا، موٹرسائیکل کی ٹکر سے دو پیدل چلنے والے مارے گئے، بس کے ساتھ کار کی ٹکر، کئی افراد موت کا شکار ہوگئے، اسپتال میں بستر نہ ملنے کی وجہ سے بیمار نے دم توڑ دیا، ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ عورت بچے سمیت فوت ہوگئی، سانپ کاٹنے سے ایک آدمی ہلاک ہوگیا، تھر میں بچے بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں، شوہر کو روٹھی ہوئی بیوی نہ ملی تو اس نے اپنی ساس اور سالوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا، ڈاکو نے لوٹ مار کے دوران تین افراد قتل کردیے، چھوٹی بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے قتل کرکے اس کی لاش بوری میں بند کرکے پھینک دی۔

ایک دن میں کئی لوگ مر رہے ہیں جس کی تعداد اگر ایک مہینے اور پھر ایک سال کے لیے جمع کرو تو معلوم ہوگا کہ آنے والے عرصے میں آبادی کا ایک بڑا حصہ اس طرح سے ختم ہوجائے گا۔ آج مجھے اس کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ شکار پور کے قریب جتوئی قبیلے کے دو گروپوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں تقریباً 20 افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوگئے۔ اس طرح کی یہ خبر کئی مرتبہ وقفے وقفے کے ساتھ آتی رہی ہے کہ قبائلی جھگڑوں میں سیکڑوں جانے ضایع ہوگئیں۔

تھر میں اور دوسرے قحط اور بھوک زیادہ غربت والے علاقوں میں نومولود بچے مر رہے تھے اور ہیں جو دنیا کو دیکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں تھیلیسمیا جیسی بیماری میں پیدا ہونے والے بچے بھی زندہ تصور نہیں کیے جاتے، سندھ میں جو پینے کا پانی مل رہا ہے وہ کتنا گندا اور خطرناک ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہیپاٹائٹس سے مر رہے ہیں، کینسر اور دل کے امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

ہم لوگ اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ بڑھتے ہوئے موت کے طوفان کو روکنے کے لیے کوئی درست کوشش نہیں کر رہے ہیں، کئی لوگ ہیروئن، سگریٹ، گٹکا استعمال کرکے اپنی زندگی کا سفر کم کر رہے ہیں۔ موذی بیماریاں جو بچوں کو پانچ سال تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا لقمہ بناکر ختم کردیتی ہیں، غربت ، افلاس اور بیماریوں نے ہمارا گھیرا تنگ کردیا ہے، مہنگائی اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کئی افراد خودکشی کر رہے ہیں، کئی مجبور ہوکر لوٹ مار، چوری، چھینا جھپٹی کرنے لگتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔ اغوا کرنے کے بعد اگر مانگی ہوئی رقم نہیں ملتی تو مغوی کو گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ہیروئنچی راستے میں فٹ پاتھ پر مر جاتے ہیں۔کاروکاری کے الزام میں جانیں جا رہی ہیں، بارشوں میں، سیلاب میں اور ذاتی چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں مرنے والوں کی تعداد بھی کبھی کبھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

کتنے عرصے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے گندے پانی کا اخراج دریائے سندھ اور دوسرے آبپاشی کینالز پر متعلقہ افسران کو بلاکر کہا ہے کہ خدارا سندھ میں رہنے والوں پر رحم کھاؤ جو گٹر کا پانی پی کر کئی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کھوچکے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے لیے علاج معالجے کی اس وقت کیا صورتحال ہے آپ اخباروں میں پڑھ رہے ہیں اور الیکٹرانک چینلز پر دیکھ رہے ہیں۔

میں تو حیران ہوں کہ نقلی چیزوں کے کارخانوں میں تیار ہونے والی اشیا کو چینلز پر دکھایا گیا ہے مگر اس کے باوجود بھی کچھ نہیں ہوا، اور لوگ ملاوٹ والی اشیا اور نقلی ادویات سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن سیاسی لوگ صرف اپنے لیے اقتدار حاصل کرنے اور حکومت میں بیٹھے ہوئے کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ میں شیخ رشید سے سوال کرتا ہوں کہ نواز شریف کو ہٹانے کے علاوہ وہ کتنی مرتبہ سندھ میں یا پھر پنجاب میں عوام کو درپیش مسائل کے لیے حکومت کے پاس جاکر احتجاج نامہ داخل کروایا ہے۔


انھیں نہ تو عوام سے پیار ہے اور نہ ہی اپنے ملک سے، وہ صرف اقتدار کے بھوکے ہیں، اگر وہ سچے ہیں تو پھر عوام کو درپیش مسائل جس میں سب سے زیادہ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، روٹی، کپڑا، گھر، صاف پینے کا پانی، امن کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور پارلیمنٹ میں آواز بلند کریں یا پھر عوام سے مل کر حقوق کے لیے جدوجہد کریں جہاں پر یہ نہ کہیں کہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے چور ہیں اور وہ ایماندار اور صحیح لوگ ہیں۔ اگر کوئی ایماندار ہے تو اس کا ثبوت اپنے عمل سے دے۔

سندھ کے اندر کئی خاندان ایسے ہیں جو سب کے سب اندھے ہیں، کئی خاندان اپاہج ہیں کئی بچے پیدا ہوتے ہی فالج کی بیماری میں مبتلا ہیں، کئی مرتبہ ان کے بارے میں اخباروں اور چینلز پر رپورٹیں چلی ہیں مگر آج تک کوئی بھی وہاں نہیں گیا، حکومت نے کوئی ٹیم نہیں بھیجی، این جی او والے نہیں گئے، اپوزیشن نے کوئی توجہ نہیں دی۔

اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے مختیار کار سے لے کر ایس ڈی ایم، ڈی سی، کمشنر اور محکمہ کے سیکریٹری کی بڑی فوج پل رہی ہے جنھیں صرف اے سی گاڑیاں ہوں، اے سی دفتر ہوں، نوکر چاکر ہوں، اچھے بڑے سرکاری گھر ہوں، مفت کے ٹیلیفون ہوں، ٹی اے ڈی اے ہوں اور وہ صرف سرکاری اجلاس میں شرکت کریں، کھانا کھائیں، گپ شپ لڑائیں اور کرپشن کریں یا پھر غریب عوام کے اوپر رعب جمائیں پھر اپنے علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر کو خوش رکھیں۔

اس کے لیے وہ وزرا اور دوسرے وزٹ پر آنے والے افسران کے آگے پیچھے خوش آمد کرتے نظر آئیں گے، ان کے لیے اور ان کے بچوں کے لیے تحفے تحائف پیش کریں گے۔ میں بھی سرکاری افسر رہا ہوں اور یہ سب کچھ دیکھتا رہا ہوں مگر میں نے کئی افسران کو منتیں کرکے غریبوں کے لیے بہت کچھ کروایا ہے جس کا صلہ ان کو بھی یہ ملا کہ جب وہ ٹرانسفر ہوئے تو وہاں کے لوگ ان کو روکنے کے لیے جلوس نکالتے، حکومت کو اپیلیں کرتے اور جاتے وقت ان کو دعائیں دیتے رہے اور جب بھی انھیں یاد کرتے بڑے احترام اور دل سے انتظار کرتے تھے۔

اس ملک میں اقتدار اس کو ملنا چاہیے جس کے دل میں غریبوں اور عام آدمی کے لیے ہمدردی ہو اور ان کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ اس کے لیے وہ لوگ بہتر ہوتے ہیں جو خود ساری چیزوں کی خبر رکھتے ہیں اور وہ ہیں درمیانہ طبقے والے لوگ۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف بھٹو کو اپنی آنکھوں سے غریبوں کے لیے کام کرتے دیکھا یا پھر اللہ بخش سومرو کے بارے میں پڑھا۔ اگر ایسے سیاسی لیڈر یا پھر محمد ہاشم میمن جیسے بیورو کریٹ آجائیں تو سمجھو سندھ کی قسمت جاگ جائے گی۔

ایک مرتبہ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ سیاست میں کیوں نہیں آجاتے، تو میں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ پاکستان کی سیاست صرف امیروں کے لیے ہے جس میں سردار ہو، پیر ہو، میر ہو یا پھر بڑا بزنس مین ہو کیونکہ اس کے لیے بڑی بڑی گاڑیاں ہوں، گارڈ ہوں، صبح و شام اوطاق پر کھانا اور پینا چلتا رہے ورنہ مجھے کون پوچھے گا۔ یہاں پر سیاست امیروں کا کھیل ہے بس بھٹو پتا نہیں کیسے امیروں سے نکل کر غریب عوام میں آگیا۔

کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر ہمارے قلم سے کیا ہوتا ہے، ایک تو اس معاشرے میں جس کے پاس دولت نہیں ہے وہ ایسے ہی بے وقوف اور بے کار ہے اور تو چھوڑو آپ کو اپنے گھر والے بھی نہیں پوچھتے، سب کو پیسہ چاہیے اور اس کے دل و دماغ میں پلنے والی خواہشوں کی تکمیل چاہیے۔ میں پھر بھی صاحب اقتدار، بحیثیت افراد کو اور انسانیت سے پیار کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ سندھ کے ان لوگوں کو مصیبتوں سے نکالنے کے لیے کمربستہ ہوکر نکلیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ بااثر لوگ بھی کچھ کریں۔ حکومت اپنا فرض پورا کرے ورنہ یہاں پر کچھ بھی نہیں بچے گا۔
Load Next Story