پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں کا مذموم سلسلہ
پاکستان کے عوام اور فوج نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی ہے
KARACHI:
افغانستان میں امریکی فورسزکے کمانڈر جنرل جان ڈبلیو نکلسن نے جی ایچ کیو میں پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کی جس میں جہاں خطے کی سیکیورٹی اور سرحدی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا، وہی جنرل قمرجاوید باجوہ نے افغانستان اور امریکا کے بعض حلقوں کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردارکو داغ دار کرنے کے لیے الزام تراشیوں کا معاملہ بھی سامنے لائے۔
یہ حقیقت ہے کہ خطے میں امن اور استحکام کی خاطر پاکستان نے ایک بے مثال کردار ادا کیا ہے، لیکن ایک تسلسل کے ساتھ افغانستان حکومت کی جانب سے الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور امریکا کی ڈو مور اینڈ مور اور شک وشبہ طرزکے پالیسی بیانات بعض عناصرکی جانب سے آئے روز سامنے آتے ہیں ۔افغانستان نہ صرف ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے بلکہ ہم تاریخ وثقافت کے اٹوٹ بندھن میں بھی بندھے ہیں۔ افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف جنگ پاکستان نے لڑی، چار دہائی سے لاکھوں افغان مہاجرین کو ٹھہرایا، پھر دہشتگردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ بھی پاکستان لڑرہا ہے، لیکن اس وقت صورتحال کسی بھی طور پر تسلی بخش نہیں ہے، پاکستان میں جتنے بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فیروز پور سانحے کی سخت ترین مذمت کی ہے، اسی تناظر میں پاکستانی آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ اس قسم کی الزام تراشیاں پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جاری کوششوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
دہشتگردی کو شکست دینا اپنا قومی مفاد سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور فوج نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی ہے اور یوں سرے سے اس کا انکار دل آزاری کے ساتھ ساتھ حقائق سے نظریں چرانا اور بہتان لگانے کی علت شمار ہوگا۔دوسری جانب افغان ٹی وی ''طلوع نیوز'' کے مطابق امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈانفورڈ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کے لیے واشنگٹن کی نئی حکمت عملی کا اہم حصہ ہو گا۔ دراصل زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی وافغانستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسی مربوط اورفعال حکمت عملی ترتیب دیں جس سے خطے میں امن واستحکام آئے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو اور آنے والی نسلیں جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات پاکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکیں ۔ پاکستان نے ہرکڑے وقت میں افغانستان کی دامے ،درمے ، قدمے ، سخنے مدد کی ہے اور امریکا سے بھی دوستی نبھائی ہے اب یہ فیصلہ دونوں ملکوں نے کرنا ہے کہ وہ الزام تراشی چھوڑ کر خطے میں پائیدار امن کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔
افغانستان میں امریکی فورسزکے کمانڈر جنرل جان ڈبلیو نکلسن نے جی ایچ کیو میں پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کی جس میں جہاں خطے کی سیکیورٹی اور سرحدی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا، وہی جنرل قمرجاوید باجوہ نے افغانستان اور امریکا کے بعض حلقوں کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردارکو داغ دار کرنے کے لیے الزام تراشیوں کا معاملہ بھی سامنے لائے۔
یہ حقیقت ہے کہ خطے میں امن اور استحکام کی خاطر پاکستان نے ایک بے مثال کردار ادا کیا ہے، لیکن ایک تسلسل کے ساتھ افغانستان حکومت کی جانب سے الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور امریکا کی ڈو مور اینڈ مور اور شک وشبہ طرزکے پالیسی بیانات بعض عناصرکی جانب سے آئے روز سامنے آتے ہیں ۔افغانستان نہ صرف ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے بلکہ ہم تاریخ وثقافت کے اٹوٹ بندھن میں بھی بندھے ہیں۔ افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف جنگ پاکستان نے لڑی، چار دہائی سے لاکھوں افغان مہاجرین کو ٹھہرایا، پھر دہشتگردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ بھی پاکستان لڑرہا ہے، لیکن اس وقت صورتحال کسی بھی طور پر تسلی بخش نہیں ہے، پاکستان میں جتنے بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فیروز پور سانحے کی سخت ترین مذمت کی ہے، اسی تناظر میں پاکستانی آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ اس قسم کی الزام تراشیاں پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جاری کوششوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
دہشتگردی کو شکست دینا اپنا قومی مفاد سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور فوج نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی ہے اور یوں سرے سے اس کا انکار دل آزاری کے ساتھ ساتھ حقائق سے نظریں چرانا اور بہتان لگانے کی علت شمار ہوگا۔دوسری جانب افغان ٹی وی ''طلوع نیوز'' کے مطابق امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈانفورڈ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کے لیے واشنگٹن کی نئی حکمت عملی کا اہم حصہ ہو گا۔ دراصل زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی وافغانستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسی مربوط اورفعال حکمت عملی ترتیب دیں جس سے خطے میں امن واستحکام آئے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو اور آنے والی نسلیں جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات پاکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکیں ۔ پاکستان نے ہرکڑے وقت میں افغانستان کی دامے ،درمے ، قدمے ، سخنے مدد کی ہے اور امریکا سے بھی دوستی نبھائی ہے اب یہ فیصلہ دونوں ملکوں نے کرنا ہے کہ وہ الزام تراشی چھوڑ کر خطے میں پائیدار امن کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔