مسئلہ پھول کا ہے
یعنی گدھا کبھی گھوڑے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا چاہے وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہی کیوں نہ حاصل کر لے
گزشتہ اتوار کے کالم میں' میں نے ایک شرارتاً کی گئی اخلاق سوز فون کال کا ذکر کیا تھا جس نے ایک ہنستے بستے گھر کو پل میں اجاڑ کر رکھ دیا اس متعلقہ شخص کے لیے یہ ایک ایسی تفریح تھی جس کے نقصانات کا شاید اسے اب بھی اندازہ نہیں ہے لیکن زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ اس جرم کی تفتیش یا مجرم کی شناخت اور سزا کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس ضمن میں جو صورت حال اب تک سامنے آئی ہے اس کی مثال اس کنوئیں اور کتے والی کہانی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ایک کنوئیں میں کتا گر کر مر گیا۔
بتایا گیا کہ اب اس کا پانی صرف اس صورت میں پاک اور پینے کے قابل ہو سکتا ہے کہ کنوئیں میں سے چالیس ڈول پانی نکال دیا جائے سو ایسا ہی کیا گیا مگر اس سے پہلے کہ لوگ اس پانی کو دوبارہ پینا شروع کرتے کسی اللہ کے بندے نے آواز لگائی ''بھائیو یہ پانی اس وقت تک صاف نہیں ہو گا جب تک اس میں سے کتے کو نہیں نکالو گے۔'' اب دیکھا جائے تو ہمارا عمومی اجتماعی رویہ بھی مردہ کتے کو کنوئیں سے نکالے بغیر ہی اسے صاف کرنے جیسا ہے۔ یہ بات تو یونہی برسبیل تذکرہ بیچ میں آ گئی، اصل میں، میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ اسی ایکسپریس کے ایڈیشن میں دو ایسے کالم بھی شایع ہوئے ہیں جو مرحومہ پروین شاکر کے اس شعر کی اپنے اپنے انداز میں یاد دلاتے ہیں کہ
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پہلا کالم برادرم جاوید چوہدری کا ''گٹھڑی کھل جائے گی'' کے عنوان سے ہے اور دوسرا محترمہ زاہدہ حنا کا ''جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم (آخری حصہ) ہے۔ جن احباب کی نظر سے یہ کالم نہیں گزرے ان کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے دونوں کالموں سے کچھ اقتباس نقل کرتا ہوں۔
''ترکی' ایران اور پاکستان تینوں مضبوط افواج کے مالک ہیں۔ ایران کو35برسوں سے کسی نہ کسی جنگ میں الجھا کر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ترکی اور پاکستان میں فوج اور سیاست دانوں کو لڑایا جا رہا ہے یہ ٹرینڈ خطرناک ہے۔ ترکی اور پاکستان دونوں مختلف قومیتوں' نسلوں' زبانوں' مسلکوں کا مجموعہ ہیں دونوں مجموعے فوج کی رسی سے بندھے ہیں یہ رسی جس دن کھل گئی یہ دونوں ملک چھوٹے چھوٹے ''وار زون'' میں تقسیم ہو جائیں گے... چنانچہ احتیاط لازم ہے آخر وہ لیڈر ہی کیا جو اپنے ماتحت اداروں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے... فوج اور جمہوریت دونوں ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہیں آپ دونوں کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ملک بچے گا ورنہ گٹھڑی راستے میں ہی کھل جائے گی۔
ہر چیز بکھر جائے گی(جاوید چوہدری) ''پاکستان مختلف قومیتوں' مذاہب' مسلکوں' تہذیبی اور سماجی اکائیوں پر مشتمل ایک ملک ہے اس پر کسی ایک نظریے' ادارے' مسلک یا طرز فکر کی سوچ مسلط کرنے سے یہ تنوع جو ہمارے لیے باعث رحمت ہے وہ ایک عذاب میں تبدیل ہو جائے گا اور ایک ایسی صورت حال جنم لے گی جس میں ماضی جیسے المناک واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ پاکستان کی تخلیق عوام کے مینڈیٹ کا نتیجہ تھی اسے نہ ماننے سے ملک دولخت ہوا اور اب بھی اگر عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے... یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ مسند اقتدار پر کون فائز رہے گا... ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے اور تاریخ سے سبق سیکھا جائے۔ جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں ہمیں 70سال کے تجربے سے کچھ تو سبق سیکھنا چاہیے''(زاہدہ حنا)۔
اتفاق سے دونوں کالموں میں ایک جملہ معنوی اور لفظی دونوں اعتبار سے بہت حد تک مشترک ہے اور وہ یہ کہ ''فوج اور جمہوریت'' یا ''جمہوریت اور پاکستان'' لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی مسئلہ ان دونوں کا نہیں اس سسٹم اور طریقہ کار کا ہے جس کے تحت ان دونوں کو چلایا اور ان کے باہمی تعلقات کو طے کیا جا رہا ہے۔
کچھ دن قبل کسی نیوز چینل پر ہونے والی ایک سیاسی ڈس کشن کے دوران سائنس کی دنیا کے ایک محترم اور اہم نام ڈاکٹر عطاء الرحمن کہہ رہے تھے کہ اس مسئلے کا حل صدارتی نظام حکومت ہے کہ جس میں صدر عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتا ہے اور پھر اپنی اس منتخب کردہ ٹیم کے ذریعے سے نظام حکومت کو چلاتا ہے جس کے اکثر وزراء اسمبلیوں کے بجائے ملک میں موجود دانش' صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ ملکی سیاست کے کنوئیں سے جب تک اس فرسودہ' ناکارہ' خود غرضانہ اور از کار رفتہ سوچ اور نظام کے کتے کو باہر نہیں نکالا جائے گا یہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔ صدارتی نظام حکومت اور اس سے متعلق سابقہ تجربات اور عملی مشکلات کے حوالے سے ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر جہاں تک موجودہ نظام اور طرز فکر کا تعلق ہے کم از کم مجھے ان کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا
خر عیسیٰ اگر بہ مکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
یعنی گدھا کبھی گھوڑے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا چاہے وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہی کیوں نہ حاصل کر لے۔ کہ اصل مسئلہ گدھا نہیں بلکہ اس کی خصلت اور Capacity ہے (واضح رہے کہ اس شعر کی یہ تشریح موجودہ صورت حال کے حوالے سے کی جا رہی ہے اس کا لفظی ترجمہ یقیناً مختلف ہے) تفصیل اس اجمال کی یہ بنتی ہے کہ بلاشبہ جمہوریت اور فوج کے مثبت اور (بوجوہ قدرے مختلف انداز کے تعلقات کے باوجود) اور تعمیری افہام و تفہیم پر مبنی نظام میں ہی ہم سب کی بقا ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ دو مثبت چیزیں لازم و ملزوم بھی ہوں اور آپس میں متصادم بھی رہیں، باقی رہی یہ بات کہ اس طرح کی صورت حال کو مثالی اور مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا تو یہ اپنی جگہ پر درست ہے اور چیزوں کو ان کی صحیح اور مقررہ جگہ پر رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم مل کر نہ صرف اس کے لیے کوشش کریں گے بلکہ اپنے اپنے حصے کا کتا بھی اس کنوئیں سے باہر نکالیں گے اور اس کے لیے جس Space کی ضرورت ہے وہ بھی کھلے دل سے ایک دوسرے کو فراہم کریں گے۔
میڈیا پر اس وقت پاناما کیس کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے غور سے دیکھا جائے تو اس کی بنیادی وجہ اور محرکات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس پھول سے خوشبو کی جگہ کچھ اور قسم کے بخارات فضا میں پھیلا رہے ہیں، کل کو یہ بھی خوشبو کی طرح تحلیل ہو جائیں گے یعنی مسئلہ پھر پھول کا ہی ہے کہ وہ کدھر جائے گا! اس حوالے سے دو شعر جو میں پہلے بھی مختلف حوالوں سے درج کر چکا ہوں اس وضاحت کے ساتھ مسئلہ ان کی تکرار کا نہیں معانی کی سمجھ اور تفہیم کا ہے۔
اپنی پستی کا نہ الزام کسی پر رکھو
پاؤں پھسلے تو اسے پھر سے جما کر رکھو
قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے
اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو
بتایا گیا کہ اب اس کا پانی صرف اس صورت میں پاک اور پینے کے قابل ہو سکتا ہے کہ کنوئیں میں سے چالیس ڈول پانی نکال دیا جائے سو ایسا ہی کیا گیا مگر اس سے پہلے کہ لوگ اس پانی کو دوبارہ پینا شروع کرتے کسی اللہ کے بندے نے آواز لگائی ''بھائیو یہ پانی اس وقت تک صاف نہیں ہو گا جب تک اس میں سے کتے کو نہیں نکالو گے۔'' اب دیکھا جائے تو ہمارا عمومی اجتماعی رویہ بھی مردہ کتے کو کنوئیں سے نکالے بغیر ہی اسے صاف کرنے جیسا ہے۔ یہ بات تو یونہی برسبیل تذکرہ بیچ میں آ گئی، اصل میں، میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ اسی ایکسپریس کے ایڈیشن میں دو ایسے کالم بھی شایع ہوئے ہیں جو مرحومہ پروین شاکر کے اس شعر کی اپنے اپنے انداز میں یاد دلاتے ہیں کہ
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پہلا کالم برادرم جاوید چوہدری کا ''گٹھڑی کھل جائے گی'' کے عنوان سے ہے اور دوسرا محترمہ زاہدہ حنا کا ''جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم (آخری حصہ) ہے۔ جن احباب کی نظر سے یہ کالم نہیں گزرے ان کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے دونوں کالموں سے کچھ اقتباس نقل کرتا ہوں۔
''ترکی' ایران اور پاکستان تینوں مضبوط افواج کے مالک ہیں۔ ایران کو35برسوں سے کسی نہ کسی جنگ میں الجھا کر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ترکی اور پاکستان میں فوج اور سیاست دانوں کو لڑایا جا رہا ہے یہ ٹرینڈ خطرناک ہے۔ ترکی اور پاکستان دونوں مختلف قومیتوں' نسلوں' زبانوں' مسلکوں کا مجموعہ ہیں دونوں مجموعے فوج کی رسی سے بندھے ہیں یہ رسی جس دن کھل گئی یہ دونوں ملک چھوٹے چھوٹے ''وار زون'' میں تقسیم ہو جائیں گے... چنانچہ احتیاط لازم ہے آخر وہ لیڈر ہی کیا جو اپنے ماتحت اداروں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے... فوج اور جمہوریت دونوں ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہیں آپ دونوں کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ملک بچے گا ورنہ گٹھڑی راستے میں ہی کھل جائے گی۔
ہر چیز بکھر جائے گی(جاوید چوہدری) ''پاکستان مختلف قومیتوں' مذاہب' مسلکوں' تہذیبی اور سماجی اکائیوں پر مشتمل ایک ملک ہے اس پر کسی ایک نظریے' ادارے' مسلک یا طرز فکر کی سوچ مسلط کرنے سے یہ تنوع جو ہمارے لیے باعث رحمت ہے وہ ایک عذاب میں تبدیل ہو جائے گا اور ایک ایسی صورت حال جنم لے گی جس میں ماضی جیسے المناک واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ پاکستان کی تخلیق عوام کے مینڈیٹ کا نتیجہ تھی اسے نہ ماننے سے ملک دولخت ہوا اور اب بھی اگر عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے... یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ مسند اقتدار پر کون فائز رہے گا... ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے اور تاریخ سے سبق سیکھا جائے۔ جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں ہمیں 70سال کے تجربے سے کچھ تو سبق سیکھنا چاہیے''(زاہدہ حنا)۔
اتفاق سے دونوں کالموں میں ایک جملہ معنوی اور لفظی دونوں اعتبار سے بہت حد تک مشترک ہے اور وہ یہ کہ ''فوج اور جمہوریت'' یا ''جمہوریت اور پاکستان'' لازم و ملزوم ہیں۔ یعنی مسئلہ ان دونوں کا نہیں اس سسٹم اور طریقہ کار کا ہے جس کے تحت ان دونوں کو چلایا اور ان کے باہمی تعلقات کو طے کیا جا رہا ہے۔
کچھ دن قبل کسی نیوز چینل پر ہونے والی ایک سیاسی ڈس کشن کے دوران سائنس کی دنیا کے ایک محترم اور اہم نام ڈاکٹر عطاء الرحمن کہہ رہے تھے کہ اس مسئلے کا حل صدارتی نظام حکومت ہے کہ جس میں صدر عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتا ہے اور پھر اپنی اس منتخب کردہ ٹیم کے ذریعے سے نظام حکومت کو چلاتا ہے جس کے اکثر وزراء اسمبلیوں کے بجائے ملک میں موجود دانش' صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ ملکی سیاست کے کنوئیں سے جب تک اس فرسودہ' ناکارہ' خود غرضانہ اور از کار رفتہ سوچ اور نظام کے کتے کو باہر نہیں نکالا جائے گا یہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔ صدارتی نظام حکومت اور اس سے متعلق سابقہ تجربات اور عملی مشکلات کے حوالے سے ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر جہاں تک موجودہ نظام اور طرز فکر کا تعلق ہے کم از کم مجھے ان کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا
خر عیسیٰ اگر بہ مکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
یعنی گدھا کبھی گھوڑے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا چاہے وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہی کیوں نہ حاصل کر لے۔ کہ اصل مسئلہ گدھا نہیں بلکہ اس کی خصلت اور Capacity ہے (واضح رہے کہ اس شعر کی یہ تشریح موجودہ صورت حال کے حوالے سے کی جا رہی ہے اس کا لفظی ترجمہ یقیناً مختلف ہے) تفصیل اس اجمال کی یہ بنتی ہے کہ بلاشبہ جمہوریت اور فوج کے مثبت اور (بوجوہ قدرے مختلف انداز کے تعلقات کے باوجود) اور تعمیری افہام و تفہیم پر مبنی نظام میں ہی ہم سب کی بقا ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ دو مثبت چیزیں لازم و ملزوم بھی ہوں اور آپس میں متصادم بھی رہیں، باقی رہی یہ بات کہ اس طرح کی صورت حال کو مثالی اور مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا تو یہ اپنی جگہ پر درست ہے اور چیزوں کو ان کی صحیح اور مقررہ جگہ پر رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم مل کر نہ صرف اس کے لیے کوشش کریں گے بلکہ اپنے اپنے حصے کا کتا بھی اس کنوئیں سے باہر نکالیں گے اور اس کے لیے جس Space کی ضرورت ہے وہ بھی کھلے دل سے ایک دوسرے کو فراہم کریں گے۔
میڈیا پر اس وقت پاناما کیس کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے غور سے دیکھا جائے تو اس کی بنیادی وجہ اور محرکات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس پھول سے خوشبو کی جگہ کچھ اور قسم کے بخارات فضا میں پھیلا رہے ہیں، کل کو یہ بھی خوشبو کی طرح تحلیل ہو جائیں گے یعنی مسئلہ پھر پھول کا ہی ہے کہ وہ کدھر جائے گا! اس حوالے سے دو شعر جو میں پہلے بھی مختلف حوالوں سے درج کر چکا ہوں اس وضاحت کے ساتھ مسئلہ ان کی تکرار کا نہیں معانی کی سمجھ اور تفہیم کا ہے۔
اپنی پستی کا نہ الزام کسی پر رکھو
پاؤں پھسلے تو اسے پھر سے جما کر رکھو
قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے
اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو