’’ بیت الخلا تعمیر کروانے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو بیویاں بیچ دو ‘‘
مجسٹریٹ کے بیان پر بھارت میں شورشرابا
ہندوستان میں ان دنوں صفائی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ ملک کے گلی کوچوں کو کوڑا کرکٹ سے پاک کرنے اور شہریوں میں صفائی ستھرائی کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے تیس لاکھ سرکاری ملازمین کے علاوہ اسکولوں اور کالجوں کے لاکھوں طلبا اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ تین سال سے جاری مہم کے دوران سرکاری ملازمین شہر شہر، گاؤں گاؤں جاکر شہریوں کو صفائی ستھرائی کی اہمیت اور اسے برقرار رکھنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دورے کے دوران ایک ضلعی مجسٹریٹ نے متنازع ریمارکس دیے جس پر ان دنوں بھارت میں خاصا شور ہورہا ہے۔
ضلعی مجسٹریٹ کنول تنوج گذشتہ ہفتے ضلع اورنگ آباد کے ایک گاؤں میں صفائی مہم کے دوران اہل دیہہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ ان کا ایجنڈا گاؤں والوں کو بیت الخلاؤں کی تعمیر پر آمادہ کرنا اور کھلے عام رفع حاجت کے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا۔ اس موقع پر گاؤں کے تمام لوگ مرکزی چوک میں جمع ہوگئے تھے۔
اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کنول تنوج نے گاؤں والوں سے کہا کہ خواتین کی عصمت دری کے واقعات اور بیت الخلا میں گہرا تعلق ہے۔ جن دیہات کے گھروں میں بیت الخلا موجود ہیں وہاں خواتین کی آبروریزی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں( واضح رہے کہ ہندوستان میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں، جس کی بنیاد پر اب بیرون ممالک میں بھی بھارتی حکومت پر سخت تنقید ہونے لگی ہے اور کئی ملکوں نے اپنی خواتین شہریوں کو ہندوستان کے سفر میں محتاط رہنے کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔ مقامی خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات کا ایک اہم سبب بیت الخلاؤں کی عدم موجودگی بتایا جاتا ہے)
ضلعی مجسٹریٹ نے گاؤں کے لوگوں سے اپنے خطاب میں نخوت آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہا،'' کیا تم لوگ اتنے غریب ہو کہ ایک ٹوائلٹ بنانے کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ کیا تمھارے نزدیک اپنی عورتوں کی عزت کی قدروقیمت بارہ ہزار روپے سے بھی کم ہے؟ '' کنول نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جن افراد کے نزدیک ان کی بیوی کی عصمت کی قدر بارہ ہزار سے کم ہے وہ ہاتھ اٹھائیں۔ کنول کے پے در پے توہین آمیز سوالات کے جواب میں ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ اس کے پاس بیت الخلا تعمیر کرنے کے لیے بارہ ہزار روپے نہیں ہیں۔
اس کے جواب میں ضلعی مجسٹریٹ نے اس شخص کو جواب دیتے ہوئے کہا،'' اگر ایسی بات ہے تو جاؤ اور جاکر اپنی بیوی کو بیچ دو ! اگر تم لوگوں کی یہی سوچ ہے تو بہتر ہے کہ سب کے سب اپنی بیویاں فروخت کردو!'' کنول کے ان جملوں نے اہل دیہہ کو بھڑکا دیا۔ انھوں نے ضلعی مجسٹریٹ کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ کئی لوگوں نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ پولیس اہل کاروں نے مجسٹریٹ کو بہ مشکل بپھرے ہوئے ہجوم سے بچایا اور اسے لے کر فوراً روانہ ہوگئے۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ان کے توسط سے مجسٹریٹ کے خیالات ذرائع ابلاغ کی زینت بنے اور پھر ملک بھر سے مجسٹریٹ اور حکومت پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ضلعی مجسٹریٹ کنول تنوج گذشتہ ہفتے ضلع اورنگ آباد کے ایک گاؤں میں صفائی مہم کے دوران اہل دیہہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ ان کا ایجنڈا گاؤں والوں کو بیت الخلاؤں کی تعمیر پر آمادہ کرنا اور کھلے عام رفع حاجت کے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا۔ اس موقع پر گاؤں کے تمام لوگ مرکزی چوک میں جمع ہوگئے تھے۔
اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کنول تنوج نے گاؤں والوں سے کہا کہ خواتین کی عصمت دری کے واقعات اور بیت الخلا میں گہرا تعلق ہے۔ جن دیہات کے گھروں میں بیت الخلا موجود ہیں وہاں خواتین کی آبروریزی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں( واضح رہے کہ ہندوستان میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں، جس کی بنیاد پر اب بیرون ممالک میں بھی بھارتی حکومت پر سخت تنقید ہونے لگی ہے اور کئی ملکوں نے اپنی خواتین شہریوں کو ہندوستان کے سفر میں محتاط رہنے کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔ مقامی خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات کا ایک اہم سبب بیت الخلاؤں کی عدم موجودگی بتایا جاتا ہے)
ضلعی مجسٹریٹ نے گاؤں کے لوگوں سے اپنے خطاب میں نخوت آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہا،'' کیا تم لوگ اتنے غریب ہو کہ ایک ٹوائلٹ بنانے کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ کیا تمھارے نزدیک اپنی عورتوں کی عزت کی قدروقیمت بارہ ہزار روپے سے بھی کم ہے؟ '' کنول نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جن افراد کے نزدیک ان کی بیوی کی عصمت کی قدر بارہ ہزار سے کم ہے وہ ہاتھ اٹھائیں۔ کنول کے پے در پے توہین آمیز سوالات کے جواب میں ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ اس کے پاس بیت الخلا تعمیر کرنے کے لیے بارہ ہزار روپے نہیں ہیں۔
اس کے جواب میں ضلعی مجسٹریٹ نے اس شخص کو جواب دیتے ہوئے کہا،'' اگر ایسی بات ہے تو جاؤ اور جاکر اپنی بیوی کو بیچ دو ! اگر تم لوگوں کی یہی سوچ ہے تو بہتر ہے کہ سب کے سب اپنی بیویاں فروخت کردو!'' کنول کے ان جملوں نے اہل دیہہ کو بھڑکا دیا۔ انھوں نے ضلعی مجسٹریٹ کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ کئی لوگوں نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ پولیس اہل کاروں نے مجسٹریٹ کو بہ مشکل بپھرے ہوئے ہجوم سے بچایا اور اسے لے کر فوراً روانہ ہوگئے۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ان کے توسط سے مجسٹریٹ کے خیالات ذرائع ابلاغ کی زینت بنے اور پھر ملک بھر سے مجسٹریٹ اور حکومت پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔