استعماریت اور پاکستان
معاشی فوائد کے حصول کو یقینی بناکر اپنی اقتصادی حیثیت کو مستحکم کرنے کا ’’چلن‘‘ دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے۔
ISLAMABAD:
استعماریت اور دعوت فکر: قومیتوں میں بٹی عالم انسانیت کے موجودہ جدید ارتقائی مرحلے پر یورپی نشاۃ ثانیہ میں ٹھوس عقلی، مادی، صنعتی و سائنسی پیمانوں پر ترتیب دیے گئے نظریات اور ان نظریات میں مقرر کیے گئے اہداف ہی انسانی زندگی کا عظیم ترین مقصد بن چکے ہیں۔ چونکہ صنعتی نظام حیات اور ان نظریات میں سرفہرست مذاہب کو ریاست اور معاشرتی زندگی سے لاتعلق کرنا ناگزیر اور معاشی مقاصد کی خاطر ہر حد پار کرجانا لازمی و حتمی طور پر قبول کیا جاچکا ہے۔ چونکہ بین الاقوامی تعلقات وسیاسیات کی تمام تر راہیں اور سرگرمیاں معاشی مفادات کے حصول کے گرد گھومتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔ چونکہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد کے حصول کو یقینی بناکر اپنی اقتصادی حیثیت کو مستحکم کرنے کا ''چلن'' دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے۔
شاید اسی لیے انسانوں کی انفرادی اور قومی زندگی میں ٹکراؤ، کشمکش اور اضطراب کی کیفیت انسانی زندگی کے اہم اور بنیادی حصے کے طور پر کرۂ ارض کے کونے کونے میں پھیلا دیکھا جانا ممکن ہوسکا ہے۔ تاریخ کا طالب علم ایسی صورتحال میں بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ قوموں پر چھائے اس قسم کے نظریہ حیات سے کوئی مثبت تعمیری اور پرامن دنیا جنم نہیں لے سکتی ہے۔
تو پھر یہ واضح ہے کہ ان نظریات اور طرز زندگی سے جس قوم نے معاشی استحکام پایا ہے وہ انسان بلاشبہ اس جدید ارتقائی مرحلے پر استبداد و استعمار کے سرخیل تسلیم کیے جانے چاہئیں۔ کیونکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا پر غیر ریاستی سرمایہ دارانہ نظام فاتح قرار دیا جاچکا تھا۔ اور کارل مارکس کا نظریہ ''ریاستی سرمایہ داری'' شکست خوردہ تسلیم کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دنیا پر استعماریت کی فتح کا جھنڈا لہرا دیا جاچکا ہے۔ یعنی دنیا پر ہتھیاروں اور افواج کے دم پر فتح مند ہونے کا طریقہ فرسودہ قرار دیا گیا اور سرمائے کے حصول سے فتح مندی کا نیا نظریہ عملی و کلی طور رائج کردیا گیا۔
جس کی تمام بنیادیں صرف اور صرف ان مادی نظریات کی روشنی میں جدید ایجاداتی تعلیم پر مبنی دکھائی دی جانی لگی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر موجودہ دنیا کے وسیع النظر اور ترقی پسند اہل دانش آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کو کوسنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملکوں کو ''ریاستی سرمایہ دارانہ نظام'' اپنانے پر زور دینے لگے ہیں۔
نئے نئے ٹیکسز لگانے، تمام تر وسائل اور ذرایع پیداوار کو نجی ہاتھوں سے لے کر ریاست کے حوالے کرنے کے ساتھ عالمی استعماری اداروں سے بھاری شرح سود پر قرضے لے کر استعماری نصاب کے سائنسی میدان میں دیگر اقوام سے ٹکراؤ کی پالیسیوں کے اطلاق کے مشورے دینے لگے ہیں۔ جس کے لازمی وحتمی نتائج کے طور پر ریاستون کو استعماری اداروں کے پاس گروی رکھے جانے کے نظارے کیے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ ممالک عالم پر پہلے سے ہی استعماری نصاب کے ڈگری یافتہ ''لیکس زدہ'' افراد مقدس ریاستی منصبوں پر براجمان کیے جاچکے ہیں۔
جب کہ یورپ کے جن ممالک نے اس ضمن میں پیشرفت کی ہوئی ہے اور نام نہاد ترقی اور وسیع النظری کا عملی اطلاق ممکن کرکے دکھایا ہوا ہے، ان ممالک کی معاشی حالت زار یہ ہے کہ اب وہاں والدین کے لیے دو بچوں کی پرورش کرنا اور بچوں کے لیے والدین کی نگہداشت کرنا بھی وبال جان بن چکا ہے۔ یعنی یورپ اب ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں ایک گھر کو سلیقے سے چلایا جانا بھی ممکن نہیں رہا۔ تو ان نظریات سے ممالک کو کس طرح چلایا جانا ممکن ہوگا۔ ایسی عملی بھیانک حقیقت بلاشبہ اقوام عالم میں سے سمجھنے والوں کے لیے ایک بہت بڑی دعوت فکر کا کام کرنے لگی ہے۔
یورپ کی حالت زار: یورپ سے اٹھی اصلاحی تحریکوں اور صنعتی انقلاب نے مادی طور عالم انسانیت کی قیادت کا تاج ان مغربی یورپی انسانوں کے سر پہنایا تھا، جنھوں نے مادی نظریات سے یورپ سمیت کرۂ ارض کے کو نے کونے سے متعلق تارکین وطن کی نفری پر مشتمل امریکی قوم سمیت دیگر خطوں میں نئی اقوام اور ان کی ریاستوں کو تشکیل دیا۔ لیکن تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک کی وہ حیثیت نہیں رہی جسے قائدانہ کردار کے زمرے میں لایا جانا ممکن بنتا۔ وہ یورپی اقوام جنھوں نے ممالک عالم کو اپنا مفتوح بنایا ہوا تھا وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یعنی سرد جنگ میں امریکا کے ذیلی اداروں کا سا کام کرنے لگے تھے۔
نائن الیون سانحہ کے بعد تو ان کی حیثیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ جس کی روشنی میں یورپی ممالک کا بین الاقوامی سیاست میں کچھ خاص عملی کردار دور دور تک نظر آنے کی صلاحیت سے محروم و نامراد دیکھا جانا ممکن ہوا ہے، جن ممالک اور اقوام نے یورپ کو استعماریت کی تھانہ داری یعنی امریکی عملداری میں پہنچایا تھا، اب اس یورپ کی حالت زار ہرن کے اس زخمی بچے کی سی ہے جو باربار اٹھنے کی کوششوں میں ٹھوکر کھا کر خود کو مزید زخمی اور کمزور کرتا رہتا ہے۔
اس ضمن میں یورپی یونین کی بنتی بگڑتی صورتحال کو پیش نظر رکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اب یورپی ممالک کی پیداوار مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں ہے، جو استعماریت کو مضبوط کرنے کی مزدوری پر مامور ہیں۔ یورپی ممالک کی جی ڈی پیز کا انحصار جن ذرایع پر ہے ان پر استعماریت کی اجارہ داری ہے۔
اگر بغور نظر دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ ارتقائی مرحلے پر یورپی ممالک کی عملی صورتحال خودمختار اقوام کے بجائے استعماری مصنوعات کے کسی ہول سیلر یا ریٹیلرسے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ بلاشبہ یورپی ممالک کی جی ڈی پیز کا بہت بڑا سہارا بنی ان کمپنیوں کے اعداد وشمار نکال لیں، جو استعماریت سے متعلق انسانوں کی ملکیت ہیں۔
ان کے اثر رسوخ کو عملی و ارتقائی طور سمجھنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں فتوحات پر فتوحات حاصل کرنے والی نازی فوج کی شکست کے اسباب اور تاج برطانیہ کے اعلان بالفور سمیت 1995ء میں قدیم یورپی تہذیب وتمدن کے داعی ملک یونان کے نادہندہ قرار دیے جانے کی مثالیں ہی کافی ہیں۔ جن کی موجودگی میں یورپی اقوام ان کی ناراضگی کے خوف سے لرزہ براندام رہنے لگی ہیں، جب کہ پیرس، برسلز اور لندن سمیت دیگر یورپی ممالک میں ہوئی دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں کے بعد ایک بار پھر یورپی ممالک اپنے سیکیورٹی اداروں کو فعال بنانے کے لیے سخت قسم کی شرائط اور بھاری شرح سود کی بنیاد پر نئے قرضے لے کر استعماریت کے سامنے اور بھی زیادہ زخم زدہ ہوچکے ہیں۔
متحدہ ریاست ہائے امریکا: یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ نقل مکانی کے بعد انسان ذہنی طور کچھ کشادگی اختیار کرنے کی مجبوری خود پر لاحق کردیتا ہے۔ اور اگر یہ نقل مکانی پسماندہ علاقے سے ترقی یافتہ علاقے کی جانب ہو تو پھر وہ گھرانہ یا خاندان اس نئی تمدنی زندگی کو مکمل طور اپنانے کے ساتھ ساتھ اس میں اپنی طرف سے بھی کچھ کچھ وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم کی صف میں امریکی تشخص رکھنے والی قوم نے یورپی نشاۃ ثانیہ میں ترتیب دیے گئے نظریات حیات کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنایا ہوا ہے۔ شاید اسی لیے امریکا میں مذہبی و اخلاقی قدروں سے مبرا نظام تمدن اپنے جوبن پر ہے۔
جس کے نتیجے میں وہاں مادر پدر آزادی نے یورپی نظام تمدن کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر امریکا بہادر سب سے زیادہ ترقی یافتہ، تحقیق یافتہ اور معاشی طور مستحکم نظر آتا ہے۔ ان کی اس طرح کی وسیع النظری اور مخلوط النسل قوم ہونے کے سبب استعماریت کے ذخیرہ شدہ سرمایے کے انباروں کو نیویارک منتقل کرکے امریکی ڈالر کو دنیا کی معاشیات پر اجارہ داری بخشنے کے ساتھ ساتھ، امریکا کو عالمی اداروں کا مسکن بنایا ہوا ہے۔ اور وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے استعماریت کو لاحق جدید خطرات سے نبردآزما رہتا آیا ہے۔ لیکن معروضی حالات میں اب اس کا مرکز و محور یورپ نہیں بلکہ ایشیائی ممالک ہیں۔ جہاں استعماریت کے مفاد نہیں بلکہ ان کی بقا وابستہ ہے۔
استعماریت اور دعوت فکر: قومیتوں میں بٹی عالم انسانیت کے موجودہ جدید ارتقائی مرحلے پر یورپی نشاۃ ثانیہ میں ٹھوس عقلی، مادی، صنعتی و سائنسی پیمانوں پر ترتیب دیے گئے نظریات اور ان نظریات میں مقرر کیے گئے اہداف ہی انسانی زندگی کا عظیم ترین مقصد بن چکے ہیں۔ چونکہ صنعتی نظام حیات اور ان نظریات میں سرفہرست مذاہب کو ریاست اور معاشرتی زندگی سے لاتعلق کرنا ناگزیر اور معاشی مقاصد کی خاطر ہر حد پار کرجانا لازمی و حتمی طور پر قبول کیا جاچکا ہے۔ چونکہ بین الاقوامی تعلقات وسیاسیات کی تمام تر راہیں اور سرگرمیاں معاشی مفادات کے حصول کے گرد گھومتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔ چونکہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد کے حصول کو یقینی بناکر اپنی اقتصادی حیثیت کو مستحکم کرنے کا ''چلن'' دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے۔
شاید اسی لیے انسانوں کی انفرادی اور قومی زندگی میں ٹکراؤ، کشمکش اور اضطراب کی کیفیت انسانی زندگی کے اہم اور بنیادی حصے کے طور پر کرۂ ارض کے کونے کونے میں پھیلا دیکھا جانا ممکن ہوسکا ہے۔ تاریخ کا طالب علم ایسی صورتحال میں بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ قوموں پر چھائے اس قسم کے نظریہ حیات سے کوئی مثبت تعمیری اور پرامن دنیا جنم نہیں لے سکتی ہے۔
تو پھر یہ واضح ہے کہ ان نظریات اور طرز زندگی سے جس قوم نے معاشی استحکام پایا ہے وہ انسان بلاشبہ اس جدید ارتقائی مرحلے پر استبداد و استعمار کے سرخیل تسلیم کیے جانے چاہئیں۔ کیونکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا پر غیر ریاستی سرمایہ دارانہ نظام فاتح قرار دیا جاچکا تھا۔ اور کارل مارکس کا نظریہ ''ریاستی سرمایہ داری'' شکست خوردہ تسلیم کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دنیا پر استعماریت کی فتح کا جھنڈا لہرا دیا جاچکا ہے۔ یعنی دنیا پر ہتھیاروں اور افواج کے دم پر فتح مند ہونے کا طریقہ فرسودہ قرار دیا گیا اور سرمائے کے حصول سے فتح مندی کا نیا نظریہ عملی و کلی طور رائج کردیا گیا۔
جس کی تمام بنیادیں صرف اور صرف ان مادی نظریات کی روشنی میں جدید ایجاداتی تعلیم پر مبنی دکھائی دی جانی لگی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر موجودہ دنیا کے وسیع النظر اور ترقی پسند اہل دانش آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کو کوسنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملکوں کو ''ریاستی سرمایہ دارانہ نظام'' اپنانے پر زور دینے لگے ہیں۔
نئے نئے ٹیکسز لگانے، تمام تر وسائل اور ذرایع پیداوار کو نجی ہاتھوں سے لے کر ریاست کے حوالے کرنے کے ساتھ عالمی استعماری اداروں سے بھاری شرح سود پر قرضے لے کر استعماری نصاب کے سائنسی میدان میں دیگر اقوام سے ٹکراؤ کی پالیسیوں کے اطلاق کے مشورے دینے لگے ہیں۔ جس کے لازمی وحتمی نتائج کے طور پر ریاستون کو استعماری اداروں کے پاس گروی رکھے جانے کے نظارے کیے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ ممالک عالم پر پہلے سے ہی استعماری نصاب کے ڈگری یافتہ ''لیکس زدہ'' افراد مقدس ریاستی منصبوں پر براجمان کیے جاچکے ہیں۔
جب کہ یورپ کے جن ممالک نے اس ضمن میں پیشرفت کی ہوئی ہے اور نام نہاد ترقی اور وسیع النظری کا عملی اطلاق ممکن کرکے دکھایا ہوا ہے، ان ممالک کی معاشی حالت زار یہ ہے کہ اب وہاں والدین کے لیے دو بچوں کی پرورش کرنا اور بچوں کے لیے والدین کی نگہداشت کرنا بھی وبال جان بن چکا ہے۔ یعنی یورپ اب ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں ایک گھر کو سلیقے سے چلایا جانا بھی ممکن نہیں رہا۔ تو ان نظریات سے ممالک کو کس طرح چلایا جانا ممکن ہوگا۔ ایسی عملی بھیانک حقیقت بلاشبہ اقوام عالم میں سے سمجھنے والوں کے لیے ایک بہت بڑی دعوت فکر کا کام کرنے لگی ہے۔
یورپ کی حالت زار: یورپ سے اٹھی اصلاحی تحریکوں اور صنعتی انقلاب نے مادی طور عالم انسانیت کی قیادت کا تاج ان مغربی یورپی انسانوں کے سر پہنایا تھا، جنھوں نے مادی نظریات سے یورپ سمیت کرۂ ارض کے کو نے کونے سے متعلق تارکین وطن کی نفری پر مشتمل امریکی قوم سمیت دیگر خطوں میں نئی اقوام اور ان کی ریاستوں کو تشکیل دیا۔ لیکن تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک کی وہ حیثیت نہیں رہی جسے قائدانہ کردار کے زمرے میں لایا جانا ممکن بنتا۔ وہ یورپی اقوام جنھوں نے ممالک عالم کو اپنا مفتوح بنایا ہوا تھا وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یعنی سرد جنگ میں امریکا کے ذیلی اداروں کا سا کام کرنے لگے تھے۔
نائن الیون سانحہ کے بعد تو ان کی حیثیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ جس کی روشنی میں یورپی ممالک کا بین الاقوامی سیاست میں کچھ خاص عملی کردار دور دور تک نظر آنے کی صلاحیت سے محروم و نامراد دیکھا جانا ممکن ہوا ہے، جن ممالک اور اقوام نے یورپ کو استعماریت کی تھانہ داری یعنی امریکی عملداری میں پہنچایا تھا، اب اس یورپ کی حالت زار ہرن کے اس زخمی بچے کی سی ہے جو باربار اٹھنے کی کوششوں میں ٹھوکر کھا کر خود کو مزید زخمی اور کمزور کرتا رہتا ہے۔
اس ضمن میں یورپی یونین کی بنتی بگڑتی صورتحال کو پیش نظر رکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اب یورپی ممالک کی پیداوار مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں ہے، جو استعماریت کو مضبوط کرنے کی مزدوری پر مامور ہیں۔ یورپی ممالک کی جی ڈی پیز کا انحصار جن ذرایع پر ہے ان پر استعماریت کی اجارہ داری ہے۔
اگر بغور نظر دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ ارتقائی مرحلے پر یورپی ممالک کی عملی صورتحال خودمختار اقوام کے بجائے استعماری مصنوعات کے کسی ہول سیلر یا ریٹیلرسے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ بلاشبہ یورپی ممالک کی جی ڈی پیز کا بہت بڑا سہارا بنی ان کمپنیوں کے اعداد وشمار نکال لیں، جو استعماریت سے متعلق انسانوں کی ملکیت ہیں۔
ان کے اثر رسوخ کو عملی و ارتقائی طور سمجھنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں فتوحات پر فتوحات حاصل کرنے والی نازی فوج کی شکست کے اسباب اور تاج برطانیہ کے اعلان بالفور سمیت 1995ء میں قدیم یورپی تہذیب وتمدن کے داعی ملک یونان کے نادہندہ قرار دیے جانے کی مثالیں ہی کافی ہیں۔ جن کی موجودگی میں یورپی اقوام ان کی ناراضگی کے خوف سے لرزہ براندام رہنے لگی ہیں، جب کہ پیرس، برسلز اور لندن سمیت دیگر یورپی ممالک میں ہوئی دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں کے بعد ایک بار پھر یورپی ممالک اپنے سیکیورٹی اداروں کو فعال بنانے کے لیے سخت قسم کی شرائط اور بھاری شرح سود کی بنیاد پر نئے قرضے لے کر استعماریت کے سامنے اور بھی زیادہ زخم زدہ ہوچکے ہیں۔
متحدہ ریاست ہائے امریکا: یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ نقل مکانی کے بعد انسان ذہنی طور کچھ کشادگی اختیار کرنے کی مجبوری خود پر لاحق کردیتا ہے۔ اور اگر یہ نقل مکانی پسماندہ علاقے سے ترقی یافتہ علاقے کی جانب ہو تو پھر وہ گھرانہ یا خاندان اس نئی تمدنی زندگی کو مکمل طور اپنانے کے ساتھ ساتھ اس میں اپنی طرف سے بھی کچھ کچھ وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم کی صف میں امریکی تشخص رکھنے والی قوم نے یورپی نشاۃ ثانیہ میں ترتیب دیے گئے نظریات حیات کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنایا ہوا ہے۔ شاید اسی لیے امریکا میں مذہبی و اخلاقی قدروں سے مبرا نظام تمدن اپنے جوبن پر ہے۔
جس کے نتیجے میں وہاں مادر پدر آزادی نے یورپی نظام تمدن کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر امریکا بہادر سب سے زیادہ ترقی یافتہ، تحقیق یافتہ اور معاشی طور مستحکم نظر آتا ہے۔ ان کی اس طرح کی وسیع النظری اور مخلوط النسل قوم ہونے کے سبب استعماریت کے ذخیرہ شدہ سرمایے کے انباروں کو نیویارک منتقل کرکے امریکی ڈالر کو دنیا کی معاشیات پر اجارہ داری بخشنے کے ساتھ ساتھ، امریکا کو عالمی اداروں کا مسکن بنایا ہوا ہے۔ اور وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے استعماریت کو لاحق جدید خطرات سے نبردآزما رہتا آیا ہے۔ لیکن معروضی حالات میں اب اس کا مرکز و محور یورپ نہیں بلکہ ایشیائی ممالک ہیں۔ جہاں استعماریت کے مفاد نہیں بلکہ ان کی بقا وابستہ ہے۔