قابل عمل مفروضہ

وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنے حالات کو ہر صورت بدلنا ہوگا

najmalam.jafri@gmail.com

24 اور 25 جولائی کو عالیہ ضیا نے اپنے کالم میں ایک اہم سوال جو پاکستانی عوام میں سے اکثرکے دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے پر بھرپور انداز میں حقائق پیش کرکے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان کے خیال میں بیلٹ پیپر پر ایک خانہ ''کسی کو بھی نہیں'' کا اضافہ کیا جائے تو اکثر اسی خانے کو پر کرے گی، اگر ایسا ہوا تو واقعی صورتحال کچھ ایسی ہی ہوگی باالفاظ دیگر عوام امیدواروں کا بائیکاٹ کریں گے۔

تمام سیاسی جماعتوں کا کچا چٹھا وہ کھل کر بیان کر ہی چکی ہیں، مگر ہماری نظر میں یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ملک کو آگے بڑھانا ہے، قائم رکھنا ہے تو کوئی نہ کوئی نظام حکومت تو رائج کرنا ہی ہوگا۔ رہ گئی بدعنوانی تو جو موجودہ اور سابقہ حکمراں اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر تمام اداروں پر جھاڑو پھیر کر غیر ممالک میں سارا خزانہ لے جاچکے ہیں نہ وہ ببانگ دہل دعوؤں کے باوجود واپس آسکا، بلکہ دعویدار خود اس سے زیادہ لوٹ کر لے گئے اور نہ ہی اوپر سے نیچے تک پھیلی بدعنوانی کا آیندہ انتخابات تک مداوا ممکن نظر آتا ہے تو اس صورت میں کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا کہ ملک کا نظام بھی جاری و ساری رہے، بدعنوان صاحبان اقتدار اور جاگیردارانہ نظام سے بھی جان چھوٹے۔

اس سلسلے میں کچھ نکات ذہن میں آتے تو ہیں۔ ضروری نہیں کہ صد فی صد درست اور قابل عمل ہوں مگر ایک پاکستانی ہونے کے ناتے یہ حق تو بہرحال ہمیں بھی حاصل ہے کہ اگر اپنی ذہنی استعداد کے مطابق جو حل سمجھ میں آیا اس کو تمام پاکستانیوں کے سامنے پیش کریں سمجھ آئے تو اس پر عمل کریں درست نہ ہو تو اور بھی کئی راستے پیدا ہوسکتے ہیں۔ آخر 20 کروڑ عوام سب ہی موجودہ صورتحال سے تنگ آچکے ہیں اور سب ہی حسب توفیق اس کا کچھ نہ کچھ تدارک کرنا چاہتے ہیں۔

تو ہمارا خیال ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں پاکستان کے ووٹرز کسی لالچ، دھمکی، دباؤ، دھوکے اور بے عمل نعروں کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور بے داغ کردار کے حامل افراد کو ووٹ دیں، کیونکہ اب عوام جان چکے ہیں کہ جھوٹے وعدوں اور غلط دعوؤں پر ووٹ دینا خام خیالی اور خود ان کے اپنے نقصان کے سوا کچھ نہیں۔ جو اپنے اپنے حلقے کے مسائل حل کرے گا جو ایئرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر زبانی عوامی ہمدردی کے بیانات کے بجائے بارش کے پانی کی نکاسی، نالوں کی صفائی، سڑکوں کی مرمت و تعمیر میں ذاتی دلچسپی اور عملی مظاہرہ کرکے یہ ثابت کرے کہ وہ اپنے لباس کی کلف سے بے نیاز ہوکر اہلکاروں، مزدوروں کے ساتھ خود بھی عوامی کام انجام دے سکتے ہیں تو ان سے آیندہ مزید گمبھیر مسائل حل کرنے کی امید بھی کی جاسکتی ہے۔

یہ بتانے کا مطلب یہ ہے کہ آیندہ آزمائی ہوئی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں یا جدی پشتی سیاستدانوں کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر نوآزمودہ افراد کو ووٹ دیے جائیں، اگر اب بھی محض جھوٹے وعدوں، جاگیردارانہ اور وڈیرانہ کلچر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے گئے تو نہ کبھی جمہوریت اصلی صورت میں رائج ہوسکے گی اور نہ ملک کے حالات بدلیں گے۔


جو سیاست داں یا سیاسی جماعتیں وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے جذبے اور ہمت سے عوام کی مقدور بھر خدمت کریں گی عوام بھی ان ہی پر اعتماد کریں گے۔ سچے، کھرے اور محب وطن افراد کا انتخاب ذاتی حیثیت، کردار اور کارکردگی کی بنا پر کرنا ہی ووٹر کی عقل و دانش کا امتحان ہے۔ سیاسی پارٹی کوئی بھی ہو ان میں اچھے باکردار افراد کی کمی نہیں صرف اگلی صفوں کے بڑے بڑے لیڈر ہی ہر بدعنوانی، قانون شکنی وغیرہ میں ملوث ہوتے ہیں عام کارکن تو سچے کھرے اور پارٹی منشور (دکھاوے کا) کے لیے ہی قربانیاں دیتے ہیں مطلب یہ کہ ہر پارٹی میں اچھے لوگ موجود ہیں اب پارٹی کوئی بھی ہو اس کے ہر امیدوار کو ووٹ دینے کی بجائے صرف اس کے باکردار، بااعتماد افراد کو ہی کامیاب کرنا ہوگا۔

پارٹی سطح سے بلند ہوکر محب وطن اور کچھ کر گزرنے والوں کو سامنے لایا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو چند چہروں اور جماعتوں کی اجارہ داری ہی قائم رہے گی، ملک ترقی کی راہ پر کبھی بھی آگے نہ بڑھ سکے گا۔ ملکی دولت کی لوٹ مار جن کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے وہ اپنی فطرت کو کبھی نہ بدلیں گے عوام ہمیشہ اپنے حق سے محروم رہیں گے۔ لہٰذا اس بار کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کے پڑھے لکھے باشعور افراد کو پارٹی کے بجائے ذاتی کردار، عوامی خدمت کا جذبہ، عملی کارکردگی کے علاوہ وطن سے محبت اور ''سب سے پہلے پاکستان'' کے قائل افراد کو منتخب کرنا ہوگا۔ ایسے لوگ جن کی فطرت میں دوسروں کو لوٹنے کی بجائے ان کے مسائل حل کرنے خود ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا شامل ہو، جو اپنے مفاد پر دوسروں کے مفادات کو ترجیح دے سکتے ہوں، جو سیاست برائے سیاست نہیں بلکہ برائے خدمت پر یقین رکھتے ہوں۔

مجھے یقین ہے کہ ہمارے دانشور اور خاندانی سیاسی بازی گر اس رائے کو محض مفروضہ قرار دیں گے۔ مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ مفروضہ کبھی کامیاب حکمت عملی ثابت نہ ہوسکے۔ کچھ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے پیچھے بعض مفروضے ہی تھے مگر جب ان پر عمل کیا گیا تو بہترین نتائج سامنے آئے۔ شخصی کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کرنا ہمارے لیے یوں بھی بے حد ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ طرح طرح کے لسانی، مذہبی، فقہی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ یہ صورتحال مذہبی خصوصاً سیاسی رہنماؤں نے اپنی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ازخود پیدا کی ہے یعنی لڑاؤ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پر گامزن ہیں۔

جب پارٹی کو نظرانداز کرکے، لسانی فقہی، سیاسی نظریوں کو پس پشت ڈال کر محض روشن خیال، غیر متعصب، غیر جانبدار اور مخلص افراد ایوانوں میں جائیں گے تو وہ اپنی روشن خیالی، مساوات اور عملی خدمت سے متعلق بل پیش اور منظور کروائیں گے، اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر وہ انسانی خدمت اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سچے جذبے اور دل سے مل کر کام کریں گے یوں آیندہ چند برسوں میں ہمیں انشا اللہ مخلص، باعمل اور محب وطن قیادت میسر آجائے گی۔

ہم اس مفروضے کو اپنا کر ایک بار قسمت تو آزمائیں، اگر خلوص نیت سے یہ کام کیا جائے تو مشیت ایزدی بھی ہمارے شامل حال ہوگی کیونکہ اس میں ریا کاری نہیں بلکہ ملکی حالات بدلنے کی نیک نیتی ہوگی۔ 70 سال سے ہم جس صورتحال میں مبتلا ہیں اس میں تو ہم دلدل کی طرح پھنستے ہی جا رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنے حالات کو ہر صورت بدلنا ہوگا کیونکہ بقول فیض (تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ)

ہم کو جینا ہے پر یوں ہی تو نہیں جینا ہے
Load Next Story