نواز شریف کی نا اہلی کے بعد کا منظر نامہ
اقتدار کے ایوان یہ بتا رہے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے لیے شاہد خاقان عباسی کا نام بھی فیورٹ ہے۔
KARACHI:
نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے پر جشن منانے والوں کے لیے بس یہی کہنا ہے دشمن مرے تے خوشی نہ کرو سجناں وی مرجانا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عدالت کا فیصلہ غلط ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی تحفظات ہیں کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ شائد عوام کی عدالت میں اتنا مضبوط نہ رہ سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام انصاف کی خامیاں عدلیہ کے فیصلوں پر سوال کھڑے کر دیتی ہیں۔اگر انصاف یکساں نہیں ہو گا تو اس کی ساکھ پر سوال قائم رہیں گے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد پاکستان کی عدلیہ کے پاس اب کوئی آپشن نہیں سوائے اس کے کہ وہ عمران خان، جہانگیر ترین سب کو نا اہل کر دے۔
بلا شبہ تاریخ عمران خان اور نواز شریف کے بارے میں یہی لکھے گی کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ دونوں اس حد تک آگے نکل گئے کہ دونوں دفن ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا زیادہ ذمے دار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔ لوگ کہیں گے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر مارنے سے اپنا گھر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک کی آف شور کمپنی گناہ تو دوسرے کی ثواب نہیں ہو سکتی۔ ایک کی حلال اور دوسرے کی حرام نہیں ہو سکتی۔ عدلیہ اندھی ہوتی ہے اور اس کو اندھے بن کر ہی انصاف کرنا ہو گا۔
خبریں تو یہ بھی ہیں کہ ایک بڑے احتساب کی تیاری ہے۔ سو سے زائد ارکان اسمبلی کو نااہل کرنے کی تیاری ہے۔ سب کا اعمال نامہ تیار ہے۔ عدالتوں میں مقدمات دائر ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ثبوت موجود ہیں۔ اب پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو ایک بڑی لانڈری کی طرز پر بڑی صفائی کرنی ہو گی۔ لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ سب کو گھر بھیج دیں گے۔ سب کرپٹ ہیں۔ سب چور ہیں۔ اور ملک کس کے حوالہ کر دیں گے۔کیا احتساب کا نظام صرف سیاستدانوں کے لیے ہے۔ جج جنرل بیورکریٹ اس سے مبرا ہیں۔ کیا صرف سیاستدانوں کا احتساب کرنے سے ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ کیا سب برائیوں کی جڑ سیاستدان ہی ہیں۔ باقی سب نیک پارسا ہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی اندرونی صورتحال کا تعلق ہے تو شہباز شریف نے میاں نواز شریف پر واضع کر دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی عبوری مدت کے لیے وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہیں۔ شہباز شریف 2018ء کے انتخابات تک بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ کر مسلم لیگ (ن) کے قلعہ پنجاب کی حفاظت کریں گے۔ تا کہ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کو برقرار رکھ سکے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو پنجاب سے ہٹانے سے پنجاب غیر مستحکم ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے پا س شہباز شریف کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس لیے اب شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہیں۔ شہباز شریف 2018ء میں پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں اور تب اگر مسلم لیگ (ن) جیت جائے تو وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔
تا ہم چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف کی لڑائی مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔ یہ دو افراد کی لڑائی بھی نہیں ہے بلکہ دونوں کے حامی بھی ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں گروپ بنا رکھا ہے۔ اور ہر موقع پر اپنے اپنے دھڑے کی قیادت کرتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک بالواسطہ جملہ خواجہ آصف کے بارے میں کہا بھی۔ تا ہم انھوں نے خواجہ آصف کا نام نہیں لیا۔یہ درست ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے واضع کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہیں لیکن ان کا انداز گفتگو یہ بتا رہا تھا کہ وہ خواجہ آصف کو بھی نہیں بننے دیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ خواجہ آصف کا اقامہ بھی منظر عام پر آگیا ہے اس لیے وہ بھی خطرہ میں ہیں۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر چوہدری نثار علی خان نہیں بن رہے تو میاں نواز شریف کے لیے خواجہ آصف کو بنانا بھی آسان نہیں ہو گا۔جو ارکان اس دھڑے بندی میں واضع طور پر ایک طرف ہو چکے ہیں ان کے امکانات بھی کم ہی لگ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ دونوں نہیں بن سکتے تو ان کے گھوڑے بھی نہیں بن سکیں گے۔ باقی اگر چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ کا فیصلہ تبدیل نہ کیا تو خواجہ آصف کو راستہ مل بھی سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی اقامہ ایک رکاوٹ ہو گی۔
اقتدار کے ایوان یہ بتا رہے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے لیے شاہد خاقان عباسی کا نام بھی فیورٹ ہے۔ ان کے نام پر بھی کافی حد تک اتفاق ہے۔ وہ سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو قابل قبول نام ہے۔ ان کی مسلم لیگ (ن) سے وفاداری بھی اٹوٹ رہی ہے۔ لیکن وہ متنازعہ بھی نہیں ہیں۔ ان پر کرپشن کا بھی کوئی داغ نہیں ہے۔ اس لیے ایک نام وہ بھی ہیں۔ سیاست میں جب تک کچھ ہو نہ جائے حتمی نہیں ہو تا۔ اس لیے بدلتی صورتحال کو سامنے رکھنا ہو گا۔ لیکن ابھی شاہد خاقان کا نام بھی ہے۔سردار ایاز صادق کا نام بھی ہے لیکن شاہد خاقان عباسی کا نام ان سے آگے ہے۔
یہ درست ہے کہ پاناما کیس ہارنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ بحث زور پکڑے گی کہ ہارنے کی وجوہات کیا ہیں۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ مریم بی بی کی حکمت عملی نا کام ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے سنیئر رفقا کو نظر انداز کر کے مریم بی بی کی بات مانی۔ محاذ آرائی کا یہ سارا کریڈٹ مریم بی بی کا تھا۔ اس لیے اس ہار کی ذمے داری مریم بی بی پر بھی آئے گی۔ ان کے سیاسی کیریر کو شروع ہونے سے پہلے دھچکا لگا ہے۔ ان کے لیے اب منزل دور ہوئی ہے اور سفر بھی مشکل ہو گیا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔
مجھے تحریک انصاف پر بھی رحم آرہا ہے۔ انھیں خوف کے سائے میں اتنی بڑی خوشی ملی ہے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی تحریک انصاف کا ایک سیاسی خواب تھا۔ انھیں امید تھی کہ اگر وہ میاں نواز شریف کو ناا ہل کروا لیتے ہیں تو 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ خیر شروع میں تو تحریک انصا ف کا یہ بھی خیال تھا کہ ادھر نواز شریف نا اہل ہوئے اور اگلے دن وہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیں گے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے باقی مدت مکمل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
عمران خان اور جہانگیر ترین پر نا اہلی کی تلوار نے یقینا تحریک انصاف کی خوشی معدوم کر دی ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ تحریک انصاف کو وہ خوشی نہیں مل سکی جس کی انھیں توقع تھی۔ وہ خوف کے سائے میں خوشی منا رہے ہیں۔ انھیں اپنا انجام بھی نظرآ رہا ہے۔اس سے بچنا بھی ایک بہت بڑا امتحان ہو گا۔
ملک میں فوری انتخابات کی راہ پیپلزپارٹی نے روکی ہے۔ پیپلزپارٹی جہاں نواز شریف کی ناہلی کے حق میں تھی۔ وہاں وہ پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے کے حق میں بھی ہے۔ وہ سندھ میں اپنی حکومت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر اکٹھے ہیں تو تحریک انصاف اکیلی کچھ نہیں کر سکتی۔
نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے لیکن ان کی سیاست ختم نہیں ہو ئی۔ وہ پارٹی کے قائد ہیں۔ اگلے فیصلوں سے انھیں باہر نہیں کی جا سکتا۔ یہی حقیقی منظر نامہ ہے۔
نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے پر جشن منانے والوں کے لیے بس یہی کہنا ہے دشمن مرے تے خوشی نہ کرو سجناں وی مرجانا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عدالت کا فیصلہ غلط ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی تحفظات ہیں کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ شائد عوام کی عدالت میں اتنا مضبوط نہ رہ سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام انصاف کی خامیاں عدلیہ کے فیصلوں پر سوال کھڑے کر دیتی ہیں۔اگر انصاف یکساں نہیں ہو گا تو اس کی ساکھ پر سوال قائم رہیں گے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد پاکستان کی عدلیہ کے پاس اب کوئی آپشن نہیں سوائے اس کے کہ وہ عمران خان، جہانگیر ترین سب کو نا اہل کر دے۔
بلا شبہ تاریخ عمران خان اور نواز شریف کے بارے میں یہی لکھے گی کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ دونوں اس حد تک آگے نکل گئے کہ دونوں دفن ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا زیادہ ذمے دار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔ لوگ کہیں گے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر مارنے سے اپنا گھر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک کی آف شور کمپنی گناہ تو دوسرے کی ثواب نہیں ہو سکتی۔ ایک کی حلال اور دوسرے کی حرام نہیں ہو سکتی۔ عدلیہ اندھی ہوتی ہے اور اس کو اندھے بن کر ہی انصاف کرنا ہو گا۔
خبریں تو یہ بھی ہیں کہ ایک بڑے احتساب کی تیاری ہے۔ سو سے زائد ارکان اسمبلی کو نااہل کرنے کی تیاری ہے۔ سب کا اعمال نامہ تیار ہے۔ عدالتوں میں مقدمات دائر ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ثبوت موجود ہیں۔ اب پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو ایک بڑی لانڈری کی طرز پر بڑی صفائی کرنی ہو گی۔ لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ سب کو گھر بھیج دیں گے۔ سب کرپٹ ہیں۔ سب چور ہیں۔ اور ملک کس کے حوالہ کر دیں گے۔کیا احتساب کا نظام صرف سیاستدانوں کے لیے ہے۔ جج جنرل بیورکریٹ اس سے مبرا ہیں۔ کیا صرف سیاستدانوں کا احتساب کرنے سے ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ کیا سب برائیوں کی جڑ سیاستدان ہی ہیں۔ باقی سب نیک پارسا ہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی اندرونی صورتحال کا تعلق ہے تو شہباز شریف نے میاں نواز شریف پر واضع کر دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی عبوری مدت کے لیے وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہیں۔ شہباز شریف 2018ء کے انتخابات تک بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ کر مسلم لیگ (ن) کے قلعہ پنجاب کی حفاظت کریں گے۔ تا کہ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کو برقرار رکھ سکے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو پنجاب سے ہٹانے سے پنجاب غیر مستحکم ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے پا س شہباز شریف کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس لیے اب شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہیں۔ شہباز شریف 2018ء میں پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں اور تب اگر مسلم لیگ (ن) جیت جائے تو وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔
تا ہم چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف کی لڑائی مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔ یہ دو افراد کی لڑائی بھی نہیں ہے بلکہ دونوں کے حامی بھی ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں گروپ بنا رکھا ہے۔ اور ہر موقع پر اپنے اپنے دھڑے کی قیادت کرتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک بالواسطہ جملہ خواجہ آصف کے بارے میں کہا بھی۔ تا ہم انھوں نے خواجہ آصف کا نام نہیں لیا۔یہ درست ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے واضع کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہیں لیکن ان کا انداز گفتگو یہ بتا رہا تھا کہ وہ خواجہ آصف کو بھی نہیں بننے دیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ خواجہ آصف کا اقامہ بھی منظر عام پر آگیا ہے اس لیے وہ بھی خطرہ میں ہیں۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر چوہدری نثار علی خان نہیں بن رہے تو میاں نواز شریف کے لیے خواجہ آصف کو بنانا بھی آسان نہیں ہو گا۔جو ارکان اس دھڑے بندی میں واضع طور پر ایک طرف ہو چکے ہیں ان کے امکانات بھی کم ہی لگ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ دونوں نہیں بن سکتے تو ان کے گھوڑے بھی نہیں بن سکیں گے۔ باقی اگر چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ کا فیصلہ تبدیل نہ کیا تو خواجہ آصف کو راستہ مل بھی سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی اقامہ ایک رکاوٹ ہو گی۔
اقتدار کے ایوان یہ بتا رہے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے لیے شاہد خاقان عباسی کا نام بھی فیورٹ ہے۔ ان کے نام پر بھی کافی حد تک اتفاق ہے۔ وہ سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو قابل قبول نام ہے۔ ان کی مسلم لیگ (ن) سے وفاداری بھی اٹوٹ رہی ہے۔ لیکن وہ متنازعہ بھی نہیں ہیں۔ ان پر کرپشن کا بھی کوئی داغ نہیں ہے۔ اس لیے ایک نام وہ بھی ہیں۔ سیاست میں جب تک کچھ ہو نہ جائے حتمی نہیں ہو تا۔ اس لیے بدلتی صورتحال کو سامنے رکھنا ہو گا۔ لیکن ابھی شاہد خاقان کا نام بھی ہے۔سردار ایاز صادق کا نام بھی ہے لیکن شاہد خاقان عباسی کا نام ان سے آگے ہے۔
یہ درست ہے کہ پاناما کیس ہارنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ بحث زور پکڑے گی کہ ہارنے کی وجوہات کیا ہیں۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ مریم بی بی کی حکمت عملی نا کام ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے سنیئر رفقا کو نظر انداز کر کے مریم بی بی کی بات مانی۔ محاذ آرائی کا یہ سارا کریڈٹ مریم بی بی کا تھا۔ اس لیے اس ہار کی ذمے داری مریم بی بی پر بھی آئے گی۔ ان کے سیاسی کیریر کو شروع ہونے سے پہلے دھچکا لگا ہے۔ ان کے لیے اب منزل دور ہوئی ہے اور سفر بھی مشکل ہو گیا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔
مجھے تحریک انصاف پر بھی رحم آرہا ہے۔ انھیں خوف کے سائے میں اتنی بڑی خوشی ملی ہے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی تحریک انصاف کا ایک سیاسی خواب تھا۔ انھیں امید تھی کہ اگر وہ میاں نواز شریف کو ناا ہل کروا لیتے ہیں تو 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ خیر شروع میں تو تحریک انصا ف کا یہ بھی خیال تھا کہ ادھر نواز شریف نا اہل ہوئے اور اگلے دن وہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیں گے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے باقی مدت مکمل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
عمران خان اور جہانگیر ترین پر نا اہلی کی تلوار نے یقینا تحریک انصاف کی خوشی معدوم کر دی ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ تحریک انصاف کو وہ خوشی نہیں مل سکی جس کی انھیں توقع تھی۔ وہ خوف کے سائے میں خوشی منا رہے ہیں۔ انھیں اپنا انجام بھی نظرآ رہا ہے۔اس سے بچنا بھی ایک بہت بڑا امتحان ہو گا۔
ملک میں فوری انتخابات کی راہ پیپلزپارٹی نے روکی ہے۔ پیپلزپارٹی جہاں نواز شریف کی ناہلی کے حق میں تھی۔ وہاں وہ پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے کے حق میں بھی ہے۔ وہ سندھ میں اپنی حکومت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر اکٹھے ہیں تو تحریک انصاف اکیلی کچھ نہیں کر سکتی۔
نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے لیکن ان کی سیاست ختم نہیں ہو ئی۔ وہ پارٹی کے قائد ہیں۔ اگلے فیصلوں سے انھیں باہر نہیں کی جا سکتا۔ یہی حقیقی منظر نامہ ہے۔