پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مالیاتی لوٹ مار پہلا حصہ
حکومت کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے قانون کو کچی مٹی بناکر اپنا غلام بنانا چاہتی ہے۔
سرمایہ کار90 کروڑ روپے میں فیکٹری کی عمارت خام مال، مشینری، توانائی اور فیکٹری میں کام کرنے والے ورکرز کی اجرتوں پر خرچ کرتا ہے۔ 5 سال بعد سرمایہ کار کے پاس ایسی تین فیکٹریاں ہوجاتی ہیں۔ اس کے بینک میں سرمایہ 2 ارب 70 کروڑ روپے جمع ہوجاتا ہے۔ سرمایہ کار کے پاس پہلے ایک معمولی پرانا بنگلہ تھا۔ اب سرمایہ کار کے پاس آگے سے کئی گنا بڑا بنگلہ اور جدید آرائش سے مزین، لمبی لمبی گاڑیوں، باوردی ڈرائیوروں، نوکر چاکروں کی فوج موجود ہوتی ہے۔
اس کے برعکس اس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکرز کی دسترس سے اشیائے خور ونوش، علاج ومعالجے کی سہولتیں ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولتیں ناپید، ان کی رہائش کچی آبادی ٹوٹے پھوٹے کچے مکانوں، جہاں پانی پینے میں گٹر ملا پانی، بجلی نایاب، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، غریبوں،کچی آبادی میں جگہ جگہ نشہ کرنے والے بیٹھے نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔
کچی آبادیوں کے نوعمر بچے گلیوں میں آوارہ پھرتے، گالم گلوچ، گیند بلا کھیلتے نظر آتے ہیں، ان سے بڑے بچے دو تین کا گروپ بناکر راہ چلتے لوگوں سے موبائل، پرس چھینتے نظر آتے ہیں، حکومت اور لیڈر اسے اسٹریٹ کرائم کہتے ہیں۔ آج عوام دو چکیوں کے پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں، ایک طرف جاگیردار، سرمایہ دار سب سے بڑے جمہوری دھوکے سے عوام کو استعمال کرکے حکومت پر قابض ہیں، دوسری طرف ذاتی کاروبار یا پرائیویٹائزیشن کے کلچرکو استعمال کرکے جاگیردار، سرمایہ کار عوام پر غربت کی آگ انڈیل رہے ہیں۔ عوام ان کے ذاتی کاروبار اورحکومتی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بے بسی، بے اختیاری کے عالم میں پسے جا رہے ہیں۔
جس طرح کارخانے دارکارخانوں میں کام کرنے والے ورکرز سے زیادہ سے زیادہ وقت میں زیادہ سے زیادہ تیار مال حاصل کرتا ہے اور ان کوکم سے کم اجرت دے کر خود کروڑپتی سے ارب پتی اور کھرب پتی بنتا رہتا ہے۔ ورکرز کو ان کے ''سرپلس سرمائے'' سے محروم کرکے خود ہڑپ کر جاتا ہے۔ اگر ورکرز کارخانوں میں کام نہ کریں تو پھر خام مال کو کارخانے دار تیار مال میں کیسے تبدیل کرسکے گا؟ اور مزدوروں سے حاصل ہونے والے تیار مال پر نفع صفت یا سرپلس سرمایہ کیسے حاصل کرسکے گا؟
دنیا میں برپا ہونے والے معاشی انقلابوں سے ڈر کر یورپی ملکوں کے شہنشاہوں، بادشاہوں، جاگیرداروں، نوابوں نے پہلی اور پھر دوسری عالمی جنگ چھیڑی تھی اور اس کے ساتھ جاگیرداری، سرمایہ داری کی بقا کے لیے ''جمہوری فراڈ'' کلچر کا جال پھینک کر مزدوروں سمیت پورے ملکوں کے عوام کو جمہوری فراڈ کلچر کا قیدی بنالیا تھا، جمہوری فراڈ کلچر کو مقدس قرار دینے والوں نے عوام کے سامنے خود کو پیش کردیا کہ ہم جاگیرداروں، سرمایہ داروں میں سے تم جس کو چاہو اپنا نمایندہ بنا سکتے ہو۔
عوام جو ان کی جاگیروں پر ہاری تھے کس طرح جاگیردار کی مرضی کے بغیر ٹھپہ (ووٹ) لگا سکتے تھے۔ شہروں میں وسائل سے محروم عوام خود تو الیکشن لڑ نہیں سکتے تھے۔ ان کے پاس کروڑوں روپے نہیں تھے۔ ان کا ذاتی اثر و رسوخ بالکل نہیں تھا۔ پارٹیوں کے وہ لوگ الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں جو Electables ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہی پارٹی تھپکی دیتی ہے۔ حلقے کے تھانہ کچہریوں اور محکموں کے افسران سے ان کے تعلقات ہوتے ہیں۔ان کے پاس بھی کالے دھندے کا سرمایا ہوتا ہے۔ اس طرح دیہاتوں کے حلقوں شہروں پر جاگیردار، سرمایہ کار''جمہوری فراڈ کلچر'' کے ذریعے قابض ہوکر حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں۔ حکومت پر اسمبلیوں پر قابض ہونا ان کا مقدس ترین ''سیاسی عبادت'' فریضہ ہے۔
جس طرح کارخانے دار صنعتی ورکرز کا سرپلس سرمایہ خود ہڑپ کرکے امیر ترین ہوجاتا ہے اور صنعتی ورکرز مفلوک الحال اور قلت زر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں بالکل اسی فارمولے کو جاگیرداروں اور سرمایہ دار مل کر استعمال کرتے ہیں۔ کارخانے دار مزدوروں کی محنت کا حاصل نفع صفت یا سرپلس سرمایہ خود لے جاتا ہے۔
''جمہوری فراڈ کلچر'' میں جاگیردار، سرمایہ دار اپنے اپنے حلقوں میں مجبور و بے بس عوام سے ووٹ لے کر حق حکمرانی حاصل ہونے کے بعد عوامی سرپلس سرمایہ جو ٹیکسوں کی شکل میں عوامی خزانے میں ریونیو کی شکل میں جمع ہوتا ہے، عوامی ووٹوں کی قوت سے یہ طبقہ حکومت بناکر اس عوامی سرپلس سرمائے کو ہڑپ کرجاتا ہے۔ پورا ملک ان کے لیے کارخانہ ہے اور عوام جن سے ملکی کاروبار چلتا ہے۔ اپنے ہی دیے گئے سرمائے سے محروم رہتے ہیں، اگر 1970ء کے بعد سے اسمبلیوں میں ہر آنے والے کی جائیدادیں، کاروبار چیک کیا جائے تو یہ سب سامنے آجائے گا کہ ایوانوں میں بیٹھ کر عوامی خزانے کو کس طرح لوٹا جاتا رہا ہے۔ ماڈل ایان علی لاکھوں ڈالر باہر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین پر 4 کھرب 62 ارب روپے کی بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں لانچیں ڈالرز سے بھر کر باہر بھجوائی گئیں۔ سرے محل کس رقم سے خریدا گیا۔ 1970ء میں پی پی کے لیڈروں کے جو اثاثے تھے آج کھربوں میں کیسے بدل گئے۔ کیا سندھی غربت کے مارے عوام یہ بھول جائیں گے؟صوبہ بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے پاس کرنسی نوٹوں کے بھرے سوٹ کیس پکڑے گئے۔ انسداد بدعنوانی کی وفاقی عدالت میں ای او بی آئی اسکینڈل کیس میں نامزد سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل پر 44 ارب روپے کی ہیرا پھیری کا مقدمہ چل رہا ہے۔
اس پر الزام ہے کہ اس نے غریب ملازمین کے جمع سرمائے سے نہایت ہی سستی زمینیں مہنگی خرید کر ادارے کو نقصان پہنچایا۔ یہ سرمایہ ملازمین اپنی پنشن کے لیے ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم کٹوا کر اس ادارے میں جمع کراتے ہیں۔ یہ ملازمین پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے ہیں۔
حکومت کی بے حسی دیکھیے ایک تو ان کی پنشن کو ہڑپ کرکے اربوں روپے کا نقصان ملازمین کو پہنچایا گیا کیونکہ مہنگی خریدی گئی زمین کوڑیوں کے مول کی ہے۔ دوسری اہم بات ظفر اقبال گوندل طبقہ اشرافیہ کا نمایندہ ہے۔ ملازمین جن کو بمشکل 5 ہزار سے کچھ اوپر ماہانہ پنشن ملتی ہے اس پنشن کو کم ازکم 15 ہزار کرنے کے بجائے الٹا ملازمین کے معاشی تحفظ کو غیر یقینی شکل پیدا کرکے خطرے سے دوچار کردیا۔ یہ فراڈیے جمہوری حکمرانوں کی غریب عوام کی خدمت کرنے کی مثال ہے؟
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں ہر جگہ جاگیردار، سرمایہ دار اپنے ذاتی مالی فوائد کے لیے ملکی قانون کو اندھا کرنے کی کوشش کرکے عوامی سرمایہ جو ٹیکسوں کی شکل میں حکومت جمع کرتی ہے۔ اشرافیائی حکمران اس سرمائے کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ جمہوریت کے تحت پر عوامی غربت زدہ ووٹوں سے قبضہ کرنے کے بعد یہ عوام کو اپنا پیدائشی غلام اور حکومت اور قانون کو اپنی مرضی سے توڑتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے وڈیروں نے اسمبلی میں ایک بل منظور کیا۔ یہ پیش کردہ بل قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کی تنسیخ سے متعلق ہے۔ اگر یہ بل نافذ العمل ہوا تو سندھ میں قومی احتساب بیورو کی تمام سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی اور اس کے تمام تیار کردہ ریفرنس اور مقدمات صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو منتقل کردیے جائیں گے۔ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے۔
حکومت کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے قانون کو کچی مٹی بناکر اپنا غلام بنانا چاہتی ہے۔ سندھ کی حکومت عوامی سرمائے کو ہڑپ کرنے والوں کو بچانا چاہتی ہے۔ اس سے سندھ کے عوام میں غربت مزید بڑھتی جائے گی اور وڈیروں کے پاس دولت کے انبار بڑھتے جائیں گے۔آج تک پیپلز پارٹی جس کو غریبوں نے ووٹوں سے ہر بار حکومت بنوا کر دی۔ ان غریبوں کا ایک نمایندہ کبھی بھی اسمبلی کا ممبر یا وزیر یا وزیر اعظم نہیں بنا ہے۔ اندرون سندھ غریب عوام غربت کی آگ میں جل رہے ہیں اور وڈیرے ان غربت زدہ انسانوں کا سرمایہ ہڑپ کر رہے ہیں۔
یہ صرف سندھی عوام کا حال ہی نہیں۔ پنجاب کے وڈیرے بھی پنجاب کے غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے حوالے سے بہت کچھ سامنے آرہا ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان SECP کے چیئرمین ظفر حجازی چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری کے مرتکب ہونے کے الزام میں 17 جولائی 2017ء سے عبوری ضمانت پر ہیں۔
جاگیردار سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا یا آزاد کشمیر یا کسی بھی علاقے کا ہو اس کی سرشت میں غریبوں کے حقوق کی پامالی کرنا، غریب عوام کو اپنا جدی پشتی غلام سمجھ کر ان کے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک برتنا اور ان کی کمائی حاصل کرکے زندگی گزارنا۔ جہاں جہاں جاگیرداری ہے وہاں وہاں غلام داری سماج ہے۔ پیپلز پارٹی غریبوں کو جذبات میں لاکر استعمال کرتی آرہی ہے اسی وجہ سے غریبوں کے حالات نہیں بدلے۔(جاری ہے)
اس کے برعکس اس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکرز کی دسترس سے اشیائے خور ونوش، علاج ومعالجے کی سہولتیں ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولتیں ناپید، ان کی رہائش کچی آبادی ٹوٹے پھوٹے کچے مکانوں، جہاں پانی پینے میں گٹر ملا پانی، بجلی نایاب، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، غریبوں،کچی آبادی میں جگہ جگہ نشہ کرنے والے بیٹھے نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔
کچی آبادیوں کے نوعمر بچے گلیوں میں آوارہ پھرتے، گالم گلوچ، گیند بلا کھیلتے نظر آتے ہیں، ان سے بڑے بچے دو تین کا گروپ بناکر راہ چلتے لوگوں سے موبائل، پرس چھینتے نظر آتے ہیں، حکومت اور لیڈر اسے اسٹریٹ کرائم کہتے ہیں۔ آج عوام دو چکیوں کے پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں، ایک طرف جاگیردار، سرمایہ دار سب سے بڑے جمہوری دھوکے سے عوام کو استعمال کرکے حکومت پر قابض ہیں، دوسری طرف ذاتی کاروبار یا پرائیویٹائزیشن کے کلچرکو استعمال کرکے جاگیردار، سرمایہ کار عوام پر غربت کی آگ انڈیل رہے ہیں۔ عوام ان کے ذاتی کاروبار اورحکومتی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بے بسی، بے اختیاری کے عالم میں پسے جا رہے ہیں۔
جس طرح کارخانے دارکارخانوں میں کام کرنے والے ورکرز سے زیادہ سے زیادہ وقت میں زیادہ سے زیادہ تیار مال حاصل کرتا ہے اور ان کوکم سے کم اجرت دے کر خود کروڑپتی سے ارب پتی اور کھرب پتی بنتا رہتا ہے۔ ورکرز کو ان کے ''سرپلس سرمائے'' سے محروم کرکے خود ہڑپ کر جاتا ہے۔ اگر ورکرز کارخانوں میں کام نہ کریں تو پھر خام مال کو کارخانے دار تیار مال میں کیسے تبدیل کرسکے گا؟ اور مزدوروں سے حاصل ہونے والے تیار مال پر نفع صفت یا سرپلس سرمایہ کیسے حاصل کرسکے گا؟
دنیا میں برپا ہونے والے معاشی انقلابوں سے ڈر کر یورپی ملکوں کے شہنشاہوں، بادشاہوں، جاگیرداروں، نوابوں نے پہلی اور پھر دوسری عالمی جنگ چھیڑی تھی اور اس کے ساتھ جاگیرداری، سرمایہ داری کی بقا کے لیے ''جمہوری فراڈ'' کلچر کا جال پھینک کر مزدوروں سمیت پورے ملکوں کے عوام کو جمہوری فراڈ کلچر کا قیدی بنالیا تھا، جمہوری فراڈ کلچر کو مقدس قرار دینے والوں نے عوام کے سامنے خود کو پیش کردیا کہ ہم جاگیرداروں، سرمایہ داروں میں سے تم جس کو چاہو اپنا نمایندہ بنا سکتے ہو۔
عوام جو ان کی جاگیروں پر ہاری تھے کس طرح جاگیردار کی مرضی کے بغیر ٹھپہ (ووٹ) لگا سکتے تھے۔ شہروں میں وسائل سے محروم عوام خود تو الیکشن لڑ نہیں سکتے تھے۔ ان کے پاس کروڑوں روپے نہیں تھے۔ ان کا ذاتی اثر و رسوخ بالکل نہیں تھا۔ پارٹیوں کے وہ لوگ الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں جو Electables ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہی پارٹی تھپکی دیتی ہے۔ حلقے کے تھانہ کچہریوں اور محکموں کے افسران سے ان کے تعلقات ہوتے ہیں۔ان کے پاس بھی کالے دھندے کا سرمایا ہوتا ہے۔ اس طرح دیہاتوں کے حلقوں شہروں پر جاگیردار، سرمایہ کار''جمہوری فراڈ کلچر'' کے ذریعے قابض ہوکر حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں۔ حکومت پر اسمبلیوں پر قابض ہونا ان کا مقدس ترین ''سیاسی عبادت'' فریضہ ہے۔
جس طرح کارخانے دار صنعتی ورکرز کا سرپلس سرمایہ خود ہڑپ کرکے امیر ترین ہوجاتا ہے اور صنعتی ورکرز مفلوک الحال اور قلت زر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں بالکل اسی فارمولے کو جاگیرداروں اور سرمایہ دار مل کر استعمال کرتے ہیں۔ کارخانے دار مزدوروں کی محنت کا حاصل نفع صفت یا سرپلس سرمایہ خود لے جاتا ہے۔
''جمہوری فراڈ کلچر'' میں جاگیردار، سرمایہ دار اپنے اپنے حلقوں میں مجبور و بے بس عوام سے ووٹ لے کر حق حکمرانی حاصل ہونے کے بعد عوامی سرپلس سرمایہ جو ٹیکسوں کی شکل میں عوامی خزانے میں ریونیو کی شکل میں جمع ہوتا ہے، عوامی ووٹوں کی قوت سے یہ طبقہ حکومت بناکر اس عوامی سرپلس سرمائے کو ہڑپ کرجاتا ہے۔ پورا ملک ان کے لیے کارخانہ ہے اور عوام جن سے ملکی کاروبار چلتا ہے۔ اپنے ہی دیے گئے سرمائے سے محروم رہتے ہیں، اگر 1970ء کے بعد سے اسمبلیوں میں ہر آنے والے کی جائیدادیں، کاروبار چیک کیا جائے تو یہ سب سامنے آجائے گا کہ ایوانوں میں بیٹھ کر عوامی خزانے کو کس طرح لوٹا جاتا رہا ہے۔ ماڈل ایان علی لاکھوں ڈالر باہر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین پر 4 کھرب 62 ارب روپے کی بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں لانچیں ڈالرز سے بھر کر باہر بھجوائی گئیں۔ سرے محل کس رقم سے خریدا گیا۔ 1970ء میں پی پی کے لیڈروں کے جو اثاثے تھے آج کھربوں میں کیسے بدل گئے۔ کیا سندھی غربت کے مارے عوام یہ بھول جائیں گے؟صوبہ بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے پاس کرنسی نوٹوں کے بھرے سوٹ کیس پکڑے گئے۔ انسداد بدعنوانی کی وفاقی عدالت میں ای او بی آئی اسکینڈل کیس میں نامزد سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل پر 44 ارب روپے کی ہیرا پھیری کا مقدمہ چل رہا ہے۔
اس پر الزام ہے کہ اس نے غریب ملازمین کے جمع سرمائے سے نہایت ہی سستی زمینیں مہنگی خرید کر ادارے کو نقصان پہنچایا۔ یہ سرمایہ ملازمین اپنی پنشن کے لیے ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم کٹوا کر اس ادارے میں جمع کراتے ہیں۔ یہ ملازمین پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے ہیں۔
حکومت کی بے حسی دیکھیے ایک تو ان کی پنشن کو ہڑپ کرکے اربوں روپے کا نقصان ملازمین کو پہنچایا گیا کیونکہ مہنگی خریدی گئی زمین کوڑیوں کے مول کی ہے۔ دوسری اہم بات ظفر اقبال گوندل طبقہ اشرافیہ کا نمایندہ ہے۔ ملازمین جن کو بمشکل 5 ہزار سے کچھ اوپر ماہانہ پنشن ملتی ہے اس پنشن کو کم ازکم 15 ہزار کرنے کے بجائے الٹا ملازمین کے معاشی تحفظ کو غیر یقینی شکل پیدا کرکے خطرے سے دوچار کردیا۔ یہ فراڈیے جمہوری حکمرانوں کی غریب عوام کی خدمت کرنے کی مثال ہے؟
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں ہر جگہ جاگیردار، سرمایہ دار اپنے ذاتی مالی فوائد کے لیے ملکی قانون کو اندھا کرنے کی کوشش کرکے عوامی سرمایہ جو ٹیکسوں کی شکل میں حکومت جمع کرتی ہے۔ اشرافیائی حکمران اس سرمائے کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ جمہوریت کے تحت پر عوامی غربت زدہ ووٹوں سے قبضہ کرنے کے بعد یہ عوام کو اپنا پیدائشی غلام اور حکومت اور قانون کو اپنی مرضی سے توڑتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے وڈیروں نے اسمبلی میں ایک بل منظور کیا۔ یہ پیش کردہ بل قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کی تنسیخ سے متعلق ہے۔ اگر یہ بل نافذ العمل ہوا تو سندھ میں قومی احتساب بیورو کی تمام سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی اور اس کے تمام تیار کردہ ریفرنس اور مقدمات صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو منتقل کردیے جائیں گے۔ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے۔
حکومت کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے قانون کو کچی مٹی بناکر اپنا غلام بنانا چاہتی ہے۔ سندھ کی حکومت عوامی سرمائے کو ہڑپ کرنے والوں کو بچانا چاہتی ہے۔ اس سے سندھ کے عوام میں غربت مزید بڑھتی جائے گی اور وڈیروں کے پاس دولت کے انبار بڑھتے جائیں گے۔آج تک پیپلز پارٹی جس کو غریبوں نے ووٹوں سے ہر بار حکومت بنوا کر دی۔ ان غریبوں کا ایک نمایندہ کبھی بھی اسمبلی کا ممبر یا وزیر یا وزیر اعظم نہیں بنا ہے۔ اندرون سندھ غریب عوام غربت کی آگ میں جل رہے ہیں اور وڈیرے ان غربت زدہ انسانوں کا سرمایہ ہڑپ کر رہے ہیں۔
یہ صرف سندھی عوام کا حال ہی نہیں۔ پنجاب کے وڈیرے بھی پنجاب کے غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے حوالے سے بہت کچھ سامنے آرہا ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان SECP کے چیئرمین ظفر حجازی چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری کے مرتکب ہونے کے الزام میں 17 جولائی 2017ء سے عبوری ضمانت پر ہیں۔
جاگیردار سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا یا آزاد کشمیر یا کسی بھی علاقے کا ہو اس کی سرشت میں غریبوں کے حقوق کی پامالی کرنا، غریب عوام کو اپنا جدی پشتی غلام سمجھ کر ان کے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک برتنا اور ان کی کمائی حاصل کرکے زندگی گزارنا۔ جہاں جہاں جاگیرداری ہے وہاں وہاں غلام داری سماج ہے۔ پیپلز پارٹی غریبوں کو جذبات میں لاکر استعمال کرتی آرہی ہے اسی وجہ سے غریبوں کے حالات نہیں بدلے۔(جاری ہے)