کیکٹس کے پھول
ہم بے شمار پودوں اور پھولوں کے وجود اور نام سے بھی واقف نہیں۔ یہ معاملہ تو ہوا زمین کی بالائی سطح کا جس پر ہم بستے ہیں، زیرِآب حیات کی بات کریں تو وہ ایک بالکل الگ ہی دنیا ہے جسے جزئیات کی بنیاد پر ایک پوری کائنات قرار دیا جاسکتا ہے، جس طرح کائنات کی دیگر لاتعداد اشیاء کے متعلق سائنسی علم ابھی تشنہ ہے۔
اسی طرح آبی حیات کے بارے میں بھی بہت ساری باتیں محض ابتدائی نوعیت کی ہیں، خواہ آبی جانور ہوں یا آبی پھول پودے۔ جھیل، ندی، نالے، چشمے، دریا اور سمندر کے حُسن سے ہٹ کر صحرا کا رخ کریں تو وہ ایک الگ ہی دنیائے رنگ وبو ہے۔ جنگلی یا صحرائی پودوں کی ساخت اس لحاظ سے منفرد ہوتی ہے کہ یہ زیرِزمین پانی اپنے اندر جذب کرکے، اس کا ذخیرہ کرلیتے ہیں اور اسی پر اِن کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ بہت سخت جان ہوتے ہیں اور انھیں اپنے ماحول میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ان پودوں کی ساخت کی طرح اُن کے پھول بھی عجیب وحشی حسن کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال مختلف اقسام کے کیکٹس کی ہے، جس کے مختلف و متفرق اردو نام اَب ہمارے ادب میں متروک ہوتے جارہے ہیں۔
کیکٹس کی کئی قسموں میں پھولوں اور کانٹوں کی ساتھ ساتھ موجودگی کے علاوہ بعض پورے پورے پودوں کا پھول جیسا ہونا، خاص طور پر گلاب نما ہونا قدرت کی صناعی کا عجیب مظہر ہے۔ فطرت پسند انسان ایک نظر اصل گلاب پر ڈالے اور پھر ایسے کیکٹس (یا مماثل جنگلی پودے) دیکھے تو اس کے لیے یہ طے کرنا محال ہوگا کہ کشش اور نزاکت کے لحاظ سے کسے زیادہ خوب صورت قرار دیا جائے۔ پھول اور کانٹے کو عموماً متضاد سمجھا جاتا ہے ، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مُسَلّم ہے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ پھول اور کانٹے کے ملاپ یا سنگ سنگ رہنے کا ذکر چھڑ جائے تو تو دو اردو اشعار کبھی نظرانداز نہیں ہوسکتے۔ پہلا تو جگرؔ مرادآبادی جیسے نہایت مقبول سخنور کا ہے:
گلشن پرست ہوں، مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جارہا ہوں میں
اور پھر دوسرا شعر بھی ایک اور مقبول شاعر، استاد قمرجلالوی کا ہے جو خاکسار کے نزدیک اردو کے منفرد مطلع ہائے غزل میں شامل ہے:
بنتا نہیں ہے حُسن ستم گر شباب میں
ہوتے ہیں ابتدا سے ہی کانٹے گلاب میں
اور اس سے کم تر مثال دیکھنی ہوتو پھر ایسا فرسودہ کلام یاد آتا ہے:
پھول میں گر اِک آن ہے
کانٹے میں بھی اِک شان ہے
یا وہ جوکسی نے کہا تھا: رفیقوں سے رقیب اچھے جو جل کر نام لیتے ہیں
گُلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں
تو یہ ہوا کسی بظاہر منفی یا نقصان دہ شئے یا با ت سے مثبت نتیجہ اخذکرنا جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے شاعر ہونا تو لازم نہیں، البتہ فطرت کا متوالا ہونا ضروری ہے۔ شاعر تو یہ بھی کہہ سکتا ہے:
شاعر کا دل ہوں
فطرت کی صناعی میں
میں بھی شامل ہوں
جب یہ سوچ لیا جائے کہ خالق کی کوئی بھی تخلیق کسی مصلحت اور بجائے خود کاملیت [Perfection in itself] سے عاری نہیں تو پھر کانٹوں میں بھی حُسن تلاش کرنا آسان ہوجائے گا۔ بعض پودوں میں کانٹوں کی ساخت ہی اتنی نازک اور دل کش ہوتی ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑکر انہیِں پر غور کرنے لگتا ہے۔ آمدم برسرمطلب! کیکٹس کی بہت ساری اقسام میں تھوہر (یا تھوہڑ) اور ناگ پھَنی بہت مشہور ہیں۔ تھوہر (تھے پر پیش کے ساتھ) اسم مذکر ہے۔ یہ کیکٹس یعنی صحرائی یا جنگلی پودوں /درختوں میں شامل ایک زہریلا، دودھ جیسا مواد خارج کرنے والا درخت ہے جسے زقونیا بھی کہا جاتا ہے۔ اسے عربی میں 'زَقّوم'[Zaq'qoom]کہا جاتا ہے اور قرآن مجید کی ایک آیت کے مطابق یہ جہنم کی سزا بھگتنے والے لوگوں کی خوراک ہوگی۔
(ویسے تفاسیر کے مطالعے سے پتاچلتا ہے کہ جہنمیوں کی خوراک میں خون اور پِیپ بھی شامل ہوگا)۔ تھوہر، طب کی رُو سے گرم مزاج کا حامل ہے اور اس کا استعمال، بلغم اور بدن کے فاسد مادّوں کے اخراج کے لیے ہوتا ہے۔ ہم نے اسکول کے زمانے میں اس کی دو قسموں کے نام یوں پڑھے تھے: ڈنڈا تھوہر اور پتھر تھوہر۔ ان کی شکل ہی کی مناسبت سے یہ نام تجویز کیے گئے ہوں گے۔ اسی درخت کی ایک قسم 'ناگ پھنی' [Prickly Pear or Slipper Thorn]کہلاتی ہے، کیوں کہ اس کے پتے، ناگ کے پھن سے مشابہہ ہوتے ہیں۔
اسے طب یونانی میں کانٹا ہاری کے نام سے بھی موسوم کیا گیا، نیز ہندی میں اسے ناگ پھن اور ''ہتھ تھوڑی '' کہا جاتا ہے۔ دیسی طریقہ علاج میں ناگ پھنی سینے کی جلن، قبض، استسقاء، جوڑوں کے درد اور نمونیا کے علاج کے ساتھ ساتھ مانع حمل [Contraceptive] کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پتے بھی دوائی فائدے کے لیے بطورخوراک استعمال ہوتے ہیں۔ خواتین کی تزئین و آرائش کی بات ہو تو جاننے والے جانتے ہیں کہ ناگ پھنی سے بالوں اور چہرے کے حسن میں اضافے کے لیے خول [Beauty mask] بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں رک کر یہ بات بھی دُہراتا چلوں کہ ہندوؤں کے ساتھ ہزار سال رہنے کے سبب، ہمارے یہاں جو بہت سے اَوہام اپنالیے گئے، اُن میں پودوں کے ایسے اثرات کا تَوَہُّم بھی شامل ہے جن کا سائنسی ثبوت نہیں ملتا جیسے ناگ پھنی اور اسی قبیل کے پودوں کے لیے یہ وہم کہ انھیں گھر میں لگانے سے گھر کے مرد کی روزی اور جان کو خطرہ لاحِق ہوتا ہے، لہٰذا اس سے گریز کیا جائے۔
اسلام میں ایسے توہم کی کوئی گنجائش نہیں۔ گذشتہ پندرہ بیس سال سے کراچی کے گھروں میں کیکٹس لگانے اور اگانے کا رجحان بہت عام ہوا ہے اور اس منفرد پودے کی مختلف اقسام کے فروغ کے لیے کیکٹس سوسائٹی بھی قایم ہوچکی ہے۔ میری والدہ مرحومہ نے مدتوں پہلے دیگر تمام پودوں کے ساتھ ساتھ اس کا بھی اہتمام کیا تو انھیں اُسی توہم سے ڈرایا گیا تھا جس کا ذکر خاکسار نے اوپر کیا ہے۔ شکر ہے کہ ذرائع ابلاغ کی فراوانی سے یہ منفی سوچ کم ہوگئی ہے۔ ناگ پھنی بطور علامت اردو شاعری اور افسانہ نگاری میں استعمال ہوتا رہا ہے، مگر جہاں تک راقم کو یاد پڑتا ہے، اس پودے اور اس کے پھول وغیرہ کو منفی معانی میں استعمال کرنے کا رواج رہا ہے۔ اردو شاعری میں لفظ کیکٹس کا استعمال قدرے نیا اور کم کم ہے۔ خاکسار نے اپنے بزرگ معاصر اور کرم فرما، ڈاکٹر فہیم اعظمی (تاریخ وفات: چودہ جولائی سن دوہزارچار) کے مجموعہ کلام 'شوق منفعل' (مطبوعہ سن انیس سواٹھانوے) میں شامل یہ دو شعر ایسے دیکھے جن میں اس لفظ کا عمدہ اور برمحل استعمال داد طلب ہے:
خندہ زن ہوتا ہوں، پی جاتا ہوں آنسو اپنے
کیکٹس لے کے خسارے میں کنول چھوڑ دیا
...........
صحرا میں کیکٹس کی طرح ہے کھِلا فہیم
آنسو سے آنکھ، زخم سے ہے دل بھرا ہوا
(برسبیل ِ تذکرہ عرض کردوں کہ ڈاکٹر فہیم اعظمی کی وفات کے کچھ عرصے بعد، خاکسار نے اپنے تأثرات ایک مختصر مضمون کی شکل میں رقم کرکے ایک طرف رکھ چھوڑے تھے کہ بشرط فرصت کمپوز کرکے کہیں شایع کرادوں گا، عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ مضمون اور ایک دوسرا طویل مضمون نجی کتب خانے میں کہیں 'دفن' ہوگئے۔ کوئی دس سال بعدیہ دونوں تحاریر، آگے پیچھے بازیافت ہوئیں تو پھر اِن کی اشاعت بھی ممکن ہوئی)۔ اس مضمون کے راقم نے بھی اپنی ایک غزل میں لفظ کیکٹس یوں برتا تھا:
وہ کیکٹس کی طرح خاردار لگتا ہے
میں سوچتا ہوں کبھی گل بدن سا پاؤں اُسے
یہاں کیکٹس کے متعلق کچھ مزید دل چسپ معلومات بھی نقل کرتا چلوں۔ پودوں کے کیکٹیسی [Cactaceae] نامی خاندان میں شامل اس درخت کا بنیادی تعلق امریکا اور گردونواح کے جزائر یعنی امیریکاز[ The Americas and surrounding islands] سے ہے، البتہ ایک قسم Rhipsalis bacciferaایسی ہے جو عام طور پر Mistletoe cactusکے نام سے جانی جاتی ہے۔ کیکٹس کی یہ قسم اس خطے کے علاوہ افریقہ اور سری لنکا میں بھی قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔ ناگ پھنی کی طرح ناگ دمنی بھی ایک پودا ہے جو ناگ دون بھی کہلاتا ہے، مگر اس کا تعلق کیکٹیسی خاندان سے نہیں ہے، بلکہ یہ مفید دوائی پودا کسی بھی باغ کے اردگرد باڑھ لگانے میں استعمال ہوتا ہے۔
اس کی افادیت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس خاردار پودے کی لکڑی لگانے سے ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق، سانپ اور بچھو جیسے مُوذی جانور، باغ یا پھُلواری میں داخل نہیں ہوتے۔ اس کا ایک اور نام طب میں زیادہ مشہور ہے: مارچوبہ (ماریعنی سانپ +چوب یعنی لکڑی=فارسی)۔ کیکٹس سے مماثل، ایک بہت مشہور اور مفید، دوائی پودا [Medicinal plant] گھیکوار ہے، جسے ان دنوں، پاکستان میں، مغربی نام ایلو ویرا [Aloe Vera] سے زیادہ پکارا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا کیکٹس ہے۔ گھیکوار کی دو سو چالیس سے زائد اقسام میں اکثر کو اسی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے، مگر علم نباتات کی رُو سے یہ غلط فہمی ہے۔ اس کا تعلق خاندان Asphodelaceae سے ہے۔
یہ درحقیقت زیرزمین موجود پانی سے ازخود سیراب ہونے والا پودا ہے جسے اصطلاح میں Succulent (رسیلا، رس بھرا، گودے والا) یا Water storage plant کہا جاتا ہے۔ چوںکہ یہ خصوصیت کیکٹس میں بھی موجود ہے، لہٰذا اس کے متعلق غلط فہمی کا پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ بات یہیں نہیں رکتی، بلکہ ایسے کئی دیگر پودے دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں جنھیں عوام الناس کیکٹس سمجھتے اور کہتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیکٹس اور گھیکوار دونوں ہی کا استعمال بطور آرائشی پودا بھی کیا جاتا ہے۔
ایک اور ایسا پودا یوفوربیا [Euphorbia] ہے، جس کی مختلف اقسام میں بہت دل کش پھول لگتے ہیں، یہ بھی سہواً کیکٹس شمار ہونے لگا ہے۔ اس کی شاخوں میں باریک باریک کانٹے لگے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پودے بھی کیکٹس نہیں ہیں، مگر انھیں کیکٹس سمجھا جاتا ہے: Agave, Echeveria,Ice Plant,Ocotillo,Yucca,Lithops,Stapelia۔ کیکٹس کے مماثل پودوں میں ایک اور انتہائی مفید دوائی پودا مدار بھی شامل ہے، جسے آک، آکھ، اکون اور دیگر ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے کہتے ہیں:Calotropis Procera۔
انگریزی ادب میں کیکٹس کا بامحاورہ استعمال عام ہے۔ آسٹریلوی چالو انگریزی [Slang] میں کیکٹس کا مفہوم ہے: مُردہ، غیرفعال، تباہ شدہ، بے کار۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ کیکٹس کی قسم ناگ پھنی کا پود، جنوبی امریکا سے 1788میں آسٹریلیا لایا گیا اور جلد ہی اس کی کاشت اتنی بڑھی کہ ہزاروں ایکڑ اراضی پر بس ناگ پھنی ہی ناگ پھنی نظر آتا تھا۔
ظاہر ہے کہ اس تشویش ناک صورت حال کا تدارک بھی ضروری تھا، لہٰذا 1920 کی دہائی میں اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جنوبی امریکا سے ہی تعلق رکھنے والے تتلی نما کیڑے Cactoblastis cactorumکا انتخاب کیا گیا، جس نے اس کیکٹس کا صفایا کردیا۔ یوں یہ لفظ وہاں کی چالو زبان میں معدوم اور بے حیثیت کے معانی میں استعمال ہونے لگا، جب کہ اسی بولی میں In the cactus سے مراد ہے مصیبت یا مشکل میں گرفتار ہونا۔ جدید انگریزی میں To hug the cactusکا مطلب ہے کڑی تنقید برداشت کرنا۔ امریکا میں پائے جانے والے، کرخت آواز کے حامل ایک پرندے کا نامCactus wrenہے۔ ان تمام مثالوں سے یہ معلوم ہوا کہ کیکٹس بے چارے کا منفی معانی ومفاہیم میں استعمال فقط مشرقی ادب تک محدود نہیں، بلکہ مغربی ادب میں بھی یہی چلن ہے۔ اس تفصیل کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی دیکھیے کہ ناگ پھنی کے انگریزی نام Prickly Pear پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ کہاں ناشپاتی [Pear]جیسا نرم، ملائم پھل اور کہاں یہ خاردار پودا جسے خاردار ناشپاتی قرار دیا جاتا ہے۔
زبان کے فرق سے یہ معاملات بہرحال دنیا بھر میں عام ہیں۔ بات کی بات ہے کہ انگریزی میں ٹماٹر کا قدیم عوامی نام Love apple تھا جو صوتی اعتبار سے اور اُس کی ظاہری ساخت کو دیکھتے ہوئے اپنے دیسی نام سے بہتر معلوم ہوتا ہے۔ جب کبھی سیب کے متعلق گفتگو ہوگی تو ایسے سارے نام زیربحث آئیں گے جن میں انگریزی لفظ Apple بطور لاحقہ شامل ہے۔ اردو میں بے شمار مثالیں ایسی ہیں کہ کسی چیز یا شخص یا رشتے کے لیے کوئی ایسا نام، عُرف یا ترکیب استعمال ہوتی ہے کہ اس کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کارِمحال ہے، مگر کئی سال قبل، فرینچ زبان سے ایک نظم انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے، بندہ یہ دیکھ کر حیران وپریشان ہوگیا کہ ماں سے انتہائی محبت کے اظہار کے لیے فقرہ استعمال کیا گیا : Ma petite chère mère اس کا لغوی مطلب ہے، میری ننھی سی پیاری ماں[My little dear mother]۔ بہت سرکھپایا، مگر یہی لکھنا پڑا۔ اسی ترجمے کو اردو میں منتقل کرنے کا سوچا، مگر دِقت نے کرنے نہ دیا۔ ایک بزرگ معاصر نے اس کا ترجمہ تجویز کیا: چھوٹی امی۔ خاکسار نے فوری اختلاف کیا کہ یہ ترکیب تو ہمارے یہاں سوتیلی ماں کے لیے مستعمل ہے۔