’’مجموعۂ عطاء الحق قاسمی‘‘ پر ایک نظر

تخلیق کار کی حیثیت سے یہی اُن کی شناخت اور ان کے فن کی اصل کامیابی ہے۔

تخلیق کار کی حیثیت سے یہی اُن کی شناخت اور ان کے فن کی اصل کامیابی ہے۔ فوٹو : فائل

عطاء الحق قاسمی فطری مزاح نگار ہیں۔ اس امر کا اظہار اُن کی صرف ان تحریروں ہی سے نہیں ہوتا جو براہِ راست طنز و مزاح کے اسلوب میں لکھی گئی ہیں، بلکہ سفرنامہ، خاکہ یا کالم، کوئی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس فطری جوہر کا رنگ جھلکتا ہوا صاف دکھائی دے گا۔

اردو کے ثقہ سنجیدہ نگاروں کو ناگوار نہ گزرے تو یہ تک کہا جاسکتا ہے کہ ان کی یہ صلاحیت ایسی تحریر میں بھی اپنا اظہار کیے بِنا نہیں رہتی جو کسی ادیب، شاعر دوست کی تعزیت کے ضمن میں لکھی جاتی ہے۔ ویسے تو عطاء الحق قاسمی نے ایک کتاب (وصیت نامے) میں فنی لحاظ سے براہِ راست یہ تجربہ بھی کیا ہے، سو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کا معتد بہ حصہ وصیت ناموں اور تعزیت ناموں پر مشتمل ہے۔ یہ تحریریں مزاح کا ایک الگ رُخ سامنے لاتی ہیں، لیکن یہ سب وصیت اور تعزیت نامے چوںکہ فرضی ناموں کے حوالے سے لکھے گئے ہیں، اس لیے ان کے عنوان یا ابتدائی سطور سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک شگفتہ تحریر پڑھ رہے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کے جس فطری جوہر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

اس کا اظہار تو حقیقی تعزیت ناموں تک میں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ممتاز افسانہ نگار اور ہمارے مشترک عزیز دوست منشا یاد کے انتقال پر شائع ہونے والا کالم تھا۔ دوستوں کی موت کا صدمہ بلاشبہ دل گرفتگی کا سبب بنتا ہے، ایک سطح پر اس کا اظہار عطاء الحق قاسمی کے اس کالم میں بھی ہوا تھا، لیکن جس طرح انھوں نے منشایاد کو پرانے حوالوں اور ان کی سادہ دلی اور دوست داری کے واقعات کے ساتھ یاد کیا، اس بیان میں از خود ایک ایسی شگفتگی پیدا ہوگئی، تعزیتی تحریروں میں جس کا تصور تک محال ہوتا ہے۔ کسی بھی لکھنے والے کے یہاں اندازِنظر اور طرزِ اظہار کا یہ جوہر دراصل فطری ہوتا ہے، اسے سیکھ کر یا سمجھ کر اپنایا تو جاسکتا ہوگا لیکن وہ جو فطری صلاحیت کی چمک اور بے ساختہ پن ہوتا ہے، وہ عنصر ظاہر ہے کہ اس میں مفقود ہوگا۔ گویا:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

عطاء الحق قاسمی کے فن اور اُس کے اختصاصی پہلو پر غور کرنے کا جواز دراصل اس کتاب نے فراہم کیا جو ''مجموعہ'' کے نام سے منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس ''مجموعہ'' میں اس سے پہلے شائع ہونے والی ان کی چار کتابیں ''بلبلے''، ''وصیت نامے''، ''ہنسنا رونا منع ہے'' اور ''عطائیے'' شامل ہیں۔ عطاء الحق قاسمی سے ہماری اِکّا دُکّا ملاقاتیں اس سے قبل بھی ہوئی تھیں، لیکن باضابطہ ملاقاتوں کا سلسلہ سراج منیر کے ساتھ بلکہ اُنھی کے دفتر (ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور) میں ۱۹۸۸ء میں آغاز ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن کی بذلہ سنجی، زندہ دلی اور طبعی شگفتگی کا ابتدائی تأثر ہی ایسا تھا کہ تادیر قائم رہتا۔ مستزاد اس پر یہ کہ دو ہی برس بعد سراج منیر نے ایک اُداس شام یک بہ یک میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

ان کے انتقال پر عطاء الحق قاسمی نے کالم لکھا، ''کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور''۔ اس واقعے پر یوں دیکھا جائے تو اتنے عرصے میں گردشِ ایام نے بہت پردے تان دیے ہیں، لیکن یہ بات آج بھی حافظے میں پوری طرح روشن ہے کہ ہم لوگ (شہزاد احمد، یونس جاوید، تحسین فراقی، محمد سہیل عمر اور راقم) جب ملتے، سراج منیر کو ضرور یاد کرتے اور جب یاد کرتے، بے حد ملول ہوتے، لیکن اس یاد گزاری کے عمل میں اگر کہیں عطاء الحق قاسمی کے اس کالم کا ذکر آجاتا تو جیسے خود بہ خود سوگواری کم ہونے لگتی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس کالم کے حوالے سے نادانستہ طور پر بات کا رُخ سراج منیر کی شخصیت کے کسی نہ کسی scintillating حوالے کی طرف ہوجاتا اور پھر ایک کے بعد دوسری ایسی بات یاد آتی چلی جاتی جو ایک زندہ اور چہکتے مہکتے شخص کو آنکھوں کے سامنے لے آتی۔ اسے بلاشبہ حرفِ شگفتہ کی تاثیر ہی کہا جاسکتا ہے۔

بات چل نکلی ہے تو عطاء الحق قاسمی کے فن اور افتادِطبع کی بابت یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ موت واقعتاً اُن کا مستقل موضوع ہے۔ اس مسئلے کو اس کی داخلی نوعیت اور فنّی ضرورت کے لحاظ سے سمجھنے کے لیے بہتر ہوتا کہ ہم یہاں کچھ مثالوں اور حوالوں سے اس مقدمے کو بیان کرتے اور اس کی وضاحت کرتے لیکن خیر چلیے، اس کام کو اگلے کسی وقت کے لیے اٹھا کر رکھتے ہیں، یہاں ان کی چند تحریروں کے صرف عنوانات سے کام لیتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔

''آہ ایف ڈی مخمور''، ''ڈاکٹر اللہ رکھا مرحوم''، ''خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والی میں''، ''اے آر چودھری کی وفاتِ حسرت آیات''، ''اپنی وفات پر ایک تحریر''، ''اِن للہ''، ''ایک تعزیتی گفتگو''، ''ایک مردے سے ملاقات'' غرضے کہ ان کی کوئی ایک کتاب ایسی نہیں ہے جس میں موت کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بلکہ کئی ایک تحریریں شامل نہ ہوں۔ خیال رہے کہ اس ضمن میں ان تحریروں کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے جن میں عدل، انصاف، صداقت، شجاعت وغیرہم کو مجسم کردار بنا کر اپنے معاشرے سے ان کے اُٹھ جانے کا نوحہ کیا گیا ہے، یا وہ تحریریں جو وصیت نامے میں شامل ہیں، ان کا بھی یہاں حوالہ نہیں دیا گیا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ موت یا تعزیت کا یہ موضوع عطاء الحق قاسمی کے یہاں کیوں اس تواتر سے توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے؟

سارتر نے کہا تھا، ''موت، انسانی زندگی کی سب سے ایبسرڈ چیز ہے۔'' تو کیا، کہا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع عطاء الحق قاسمی کے یہاں زندگی کی لایعنیت کو اُس کے سب سے بڑے حوالے کے توسط سے سمجھنے کا ذریعہ ہے؟ جی نہیں۔ تو پھر کیا یہ اُس paranoia کا اظہار ہے جو خواہشِ مرگ کی صورت میں ابھرتا ہے؟ نہیں، ایسا بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ عطاء الحق قاسمی کے یہاں ایک غیرمعمولی ذوقِ حیات پایا جاتا ہے۔ تاہم یہ ذوقِ حیات اقبال جیسا نہیں ہے جو زندگی کی تگ و تاز کو بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

عطاء الحق قاسمی کے یہاں ذوقِ حیات کے معانی ہیں زندگی کو جیسی، جہاں اور جتنی وہ ہے، اُسے بعینہٖ دل سے قبول کرکے اپنے انداز سے جینا۔ یہ جو آخری ٹکڑا ہے، یعنی 'اپنے انداز سے جینا'، یہ ہے وہ نکتہ جو عطاء الحق قاسمی کے یہاں موت کی حقیقت کے تضاد میں زندگی کے معانی کو اُجاگر کرتا ہے۔ اسی کے سبب اُن کے یہاں بار بار موت کا حوالہ بیان میں در آتا ہے۔ وہ جو ایک بات آغازِگفتگو میں کہی گئی تھی کہ عطاء الحق قاسمی کے یہاں تو تعزیتی تحریر تک میں ایک شگفتگی کا احساس ہوتا ہے تو وہ اصل میں اسی ذوقِ حیات کے ساتھ انگلیوں کی پوروں تک زندگی کو جینے کے احساس کا اظہار ہے۔ چناںچہ یہی وہ شے جو انھیں اپنے ایک داخلی مطالبے کے تحت ذوقِ حیات عطا کرتی ہے، اور یہی ذوق اُن کے فن میں فطری مزاح نگاری کے طور پر ظہور کرتا ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل ذرا اس نکتے کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ فطری مزاح نگار اپنی اُفتادِ طبع کے لحاظ سے ہوتا کیا ہے؟ تاکہ اس ضمن میں کوئی ابہام یا التباس نہ رہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے بغیر عطاء الحق قاسمی کی مزاح نگاری کا اصل داعیہ پوری طرح واضح نہیں ہوگا۔ وہ شخص جو کسی بھی طرح کے سخت حالات، ثقہ افراد اور اندوہ ناک واقعات میں سے کوئی نہ کوئی مضحک پہلو تلاش کرکے یا اُن میں کسی طرح کی لایعنیت دریافت کرکے ہنسنے ہنسانے کی گنجائش پیدا کرلے، یقیناً مزاح نگار کہلائے گا، لیکن فطری مزاح نگار نہیں۔ فطری مزاح نگار دراصل وہ ہے جسے شگفتگی کے لیے کوئی مضحک پہلو یا لایعنی نکتہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے برعکس اس کا زاویۂ نگاہ کسی صورتِ حال، فرد یا واقعے کو اس رُخ سے سامنے لاتا ہے کہ ہمارے شعور کا وہ منطقہ ایک جھپاکے سے روشن ہوجاتا ہے۔


جہاں عقل، فکر، جذبے، احساس اور قیاس کے سارے تناسبات اخلاقی اور معاشرتی تحفظات سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال کسی واقعے کی شوکت اور فرد کی تمکنت کو مضحکہ خیز بنانے یا دکھانے سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ یہ تو اس وضع کے ہوتے ہوئے اُس نکتے پر نگاہ مرکوز ہونے سے جہاں بے وضعی از خود پہلے ہی سے تمام تر صداقت کے ساتھ پائی جائے، نمایاں ہوتی ہے۔ یہ بے وضعی دراصل فرد کی، معاشرے کی، زندگی کی اور کبھی کبھی تو پوری کائنات کی ایبسرڈٹی کو اُجاگر کرتی ہے۔

چناںچہ ایک ذرا سے تأمل سے یہ بات ہم پر واضح ہوجاتی ہے کہ اس بے وضعی کا حوالہ تو بے شک کوئی ایک واقعہ یا فردِ واحد ہوتا ہے لیکن ہدف ایک نہیں ہوتا، بلکہ پورا معاشرہ یا اس سے منسلک مجموعی انسانی صورتِ حال ہوتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسے میں واقعہ یا فرد فی الاصل پوری ایک نوع کا قائم مقام یا پروٹو ٹائپ بن جاتا ہے۔ عطاء الحق قاسمی کی مزاح نگاری اسی زُمرے میں آتی ہے۔ ان کے یہاں کسی واقعے، فرد یا صورتِ حال کا استعمال کسی وقتی تفننِ طبع کے سامان کے طور پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ذریعے ایک ایسے اجتماعی رویے کی نشان دہی مقصود ہوتی ہے جسے پوری سنجیدگی سے اختیار کیا گیا ہو، لیکن اس میں ایک لایعنیت یا مضحکہ خیزی بہت آسانی سے اور نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

یہی سبب ہے کہ عطاء الحق قاسمی کے یہاں طنز کا ہتھیار استعمال تو ضرور ہوتا ہے لیکن یہ کسی فرد، گروہ یا صورتِ حال کے لیے تحقیر یا تذلیل کا ذریعہ بننے کے بجائے تفنن یا شگفتگی کی کیفیت میں ایک خاص طرح کے حزن کی آمیزش کرکے اس کی قوت بڑھاتا اور اُسے زیادہ مؤثر بنا دیتا ہے۔ ہمارے شگفتہ ادب میں اس کی نہایت منفرد مثال مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ''آبِ گم'' ہے۔ یہاں مشتاق احمد یوسفی کا نام محض مثال کے ضمن میں پیش کیا گیا، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اُن کے اور عطاء الحق قاسمی کے مزاح کے زاویے، موضوعات اور اسلوب میں بے حد واضح فرق ہے۔

عطاء الحق قاسمی جیسا کہ ابتداً کہا گیا، فطری مزاح نگار ہیں۔ اُن کے مزاح کا ایک کلیدی وصف اُس جستجو سے نمایاں ہوتا ہے جو دراصل جھوٹ کو سچ کے مقابل لانے سے عبارت ہے۔ خیال رہے کہ یہ وہ جھوٹ ہوتا ہے جو نبھائے نہیں نبھتا اور عطاء الحق قاسمی اِس کے رُو بہ رُو اُس سچائی کو لاتے ہیں جو چھپائے نہیں چھپتی۔ چناںچہ اُن کی مزاح نگاری کو بیانیہ سے لے کر قاری کے ذہن پر اثرانداز ہونے تک کسی بھی مرحلے پر اُن کی قوتِ متخیلہ سے کمک طلب نہیں کرنی پڑتی، بلکہ عطاء الحق قاسمی کے لیے سارا خام مواد معاشرے اور اطراف کی انسانی صورتِ حال سے فراہم ہوجاتا ہے۔

محمد حسن عسکری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جو لوگ اپنے معاشرے اور اس کی اقدار سے مطمئن ہوں، انھیں ہونٹ سکیڑ کر مسکرانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ مراد یہ ہے کہ کچھ لوگ بے فکری کی ہنسی نہیں ہنستے، بلکہ اُن کی ہنسی کے عقب میں گہری فکر اور گہرے حزن کا احساس کارفرما ہوتا ہے- اور یہ ہنسی دراصل ان کے لیے ایک طرف زندگی کو قابلِ برداشت بنانے اور دوسری طرف اس کی بابت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت کی علامت ہوا کرتی ہے۔ ظاہر ہے یہاں پر یہ سوال آسانی سے کیا جاسکتا ہے کہ آخر اس زہر خند کی بجائے آدمی سیدھے سادے انداز میں اور صاف طور پر سنجیدگی سے زندگی اور حالات اور حقائق کا سامنا کیوں نہیں کرتا اور یہ کہ ہنسی کی آڑ لے کر وہ زندگی کے اس کیف و کم کا آخر بگاڑ کیا سکتا ہے؟

بات یہ ہے کہ ہنستے بولتے اور روتے گاتے انسانوں کی یہ کائنات نہ تو کوئی مشین ہے اور نہ ہی انسان اس مشین کا کوئی کَل پرزہ کہ بس ایک بار جہاں، جس طرح اور جس کام کے لیے مخصوص ہوگیا، سارا وقت وہی کرتا رہے گا۔ چوںکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ انسانی صورتِ حال ہر روز نہیں ہر لمحہ تغیر پذیر ہے، لہٰذا اس کے مشاہدات اور تجربات اس کے ذہن و دل کی کیفیات کو یکساں نہیں رہنے دیتے۔ نتیجتاً طرزِاحساس نہیں، طرزعمل میں بھی اس کے یہاں تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

یہ نامیاتی رشتہ بسا اوقات لایعنیت کے اس اندوہ ناک احساس تک جا پہنچتا ہے جہاں زندگی ناقابلِ برداشت یا ناقابلِ قبول ہوجاتی ہے۔ چناںچہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان کے زندہ رہنے کی واحد صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے احساس یا سوچ کا کوئی زاویہ اُس کے قلب کی اس کیفیت کو بدل ڈالے۔ اسے ہم اپنی سہولت کے لیے سیفٹی والو کا نام دے سکتے ہیں۔ تو اب ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ سیفٹی والو اس کے دل و دماغ میں جمع ہو جانے والے دھویں کو باہر نکلنے کا راستہ دکھانے میں کامیاب ہوجائے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس سیفٹی والو کی کل کیسے دبے؟ یہ ہر انسان کے بس کا روگ نہیں ہوتی۔ انسانی تہذیب میں یہی وہ قدر ہے جو ادب و فن کی قدر و قیمت متعین کرتا ہے۔ ترقی پسند دانش وروں نے سماجی مساوات پر تو بہت بقراطی چھانٹی، پر انسانی احساس کے اس رُخ پر ان کی نگاہ کبھی نہ پڑی جو انسان کے لیے زمین و آسماں کو سیاہ نقطے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ ادب کا تو کام انسانی احساس کی تحلیل و تطہیر ہے، اور ہم جس سیفٹی والو کا ذکر کر رہے تھے، اس کی کل دبا کر یہ کام عطاء الحق قاسمی جیسے مزاح نگار نہایت ذمے داری اور پوری سنجیدگی سے کرتے ہیں۔

تاہم خاطر نشان رہے کہ اس سنجیدگی کا گراہم گرین کی پُرجلال تمکنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے خارج میں یا فن کے ظاہر میں نہیں بلکہ یہ مزاح کے قلب اور اس کے ساتھ انسانی احساس کے عین مرکز میں اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح زمین کے سینے میں زندہ بیج کرتا ہے- کہ اپنے جوہر کو منکشف کرنے اور اپنے امکانات کو بہ روے کار لانے کے لیے اپنے ہی حفاظتی ڈھانچے کو توڑتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد زمین، اس کے نمکیات، مٹی، ہوا اور پانی کے اثرات قبول کرتا اور ظاہر ہوتا جاتا ہے۔

مزاح نگار بھی اپنے معاشرے، اس کے اجتماعی شعور، اخلاقی نظام، انفرادی رویوں اور جذبی کیفیات، سب سے اپنی ضرورت کے مطابق اثر قبول کرتا اور ان سب کو اپنے احساس کی کٹھالی میں ڈال کر اور اپنا رنگ دے کر فن کے قالب میں ڈھالتا ہے، تب وہ فن ظہور کرتا ہے جو معاشرے کی حبس دم صورتِ حال میں سیفٹی والو کی طرح کام کرتے ہوئے اس کے دھویں کو خارج ہونے کا راستہ دکھا دیتا ہے۔

عطاء الحق قاسمی کی مزاح نگاری اسی قبیل کا فن ہے اور اُن کا ہنر انسان کے تہذیبی آزار اور معاشرتی اندوہ پر خود کو آزماتا اور اپنی معنویت قائم کرتا ہے۔ تخلیق کار کی حیثیت سے یہی اُن کی شناخت اور ان کے فن کی اصل کامیابی ہے۔ چناںچہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کے لیے مزاح نگاری بہ حیثیتِ صنفِ ادب حقیقتاً محض تفننِ طبع سے عبارت نہیں ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کے پس منظر میں ایک بڑی انسانی ذمے داری پوری تہذیبی متانت کے ساتھ کارفرما ہوتی ہے۔ عطاء الحق قاسمی نے اس کام کو ایک طرزِحیات اور اسلوبِ زندگی کے طور پر اختیار ہی نہیں کیا بلکہ فن کارانہ لگن کے طور پر اسے نبھایا بھی ہے۔ انسانی تہذیب کی رُو سے یہ اُن کی کامیابی اور اُن کے فن کا طرۂ امتیاز ہے۔
Load Next Story