سورج میں سوراخ
کیا اس کے باعث زمین تباہی کا شکار ہوسکتی ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کیا ہے؟ سورج ہمارے نظام شمسی کے مرکز کا ستارہ ہے۔ یہ ہاٹ پلازما کا لگ بھگ مکمل کرہ ہے جو اپنی اندرونی حرکت سے ایک مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک ڈائنامو پراسیس استعمال کرتا ہے۔
اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے اس پورے کرۂ ارض پر سورج نہ صرف زندگی برقرار رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے، بلکہ ہماری زمین پر اسی کی وجہ سے ہر طرح کی توانائی پیدا ہوتی ہے تو یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ سورج اس کرۂ ارض پر ہر طرح کی حرکت پذیری، نقل و حرکت اور چہل پہل کا سبب ہے۔ اسی کی وجہ سے ہماری زمین پر ہریالی بھی ہے اور پیڑ پودے بھی۔ اگر سورج نہ ہوتا تو نہ ہمیں پانی ملتا اور نہ توانائی کے دوسرے ذرائع حاصل ہوپاتے۔ ہماری زندگیوں میں ساری بہار اسی سورج کے دم سے ہے۔ یہی سورج ہماری فصلیں پکاتا ہے اور ہمارے لیے ہر طرح کے پھل تیار کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بڑی تعداد میں اناج بھی تیار کرتا ہے۔ گویا اہل زمین کی خوراک کا بندوبست اسی سورج کے ذمے ہے۔ یہ ہماری زمین پر بارشیں بھی برساتا ہے اور ہر طرح کے موسم بھی ہمیں دیتا ہے۔
سورج کا قطر ہماری زمین کے مقابلے میں 109گنا بڑا ہے اور اس کی کمیت زمین کے مقابلے میں لگ بھگ330,000 ہے، گویا یہ ہمارے پورے نظام شمسی کی مجموعی کمیت کا لگ بھگ 99.86 فی صد ہے۔
سورج کی کمیت کا لگ بھگ تین چوتھائی ہائیڈروجن (~73%) پر مشتمل ہوتا ہے اور باقی زیادہ تر ہیلیم (~25%) اس میں زیادہ بھاری عناصر مثلاً آکسیجن، کاربن، نیون گیس اور فولاد بہت چھوٹی مقدار میں ہیں۔
سورج کوئی نیا یا نوجوان ستارہ نہیں ہے، یہ تو خاصی عمر والا ہوچکا ہے۔ ہماری زمین پر بسنے والے ماہرین اور سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہ لگ بھگ4.6 ارب سال پہلے وجود میں آیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک بہت بڑے مالیکیولر بادل میں مادے کی گردشی تباہی اس کے وجود میں آنے کا سبب بنی تھی۔ اس سارے کے سارے مادے کا زیادہ تر حصہ جب مرکز میں جمع ہوگیا تو باقی سب مادے چپٹے اور سیدھے ہوکر مدار میں سورج کے گرد گردش کرنے لگے جن سے ہمارا نظام شمسی وجود میں آگیا۔
اس کے بعد سورج کی وحشت اور حدت میں اضافہ ہوا تو یہ مرکزی مادہ اس قدر شدید گرم اور کثیف بن گیا کہ اس کی وجہ سے اس کے مرکز میں نیوکلیئر پگھلاؤ والے دھماکے بھی ہونے لگے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تمام ستارے لگ بھگ اسی پراسیس کے ذریعے وجود میں آئے ہیں اور بعد میں انہی نے ہمارا نظام شمسی تشکیل دیا ہے۔ ہمارا سورج کوئی نوجوان ستارہ نہیں ہے، بل کہ اسے تو اصل میں ادھیڑ عمر ستارہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ چار ارب برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے آج تک ڈرامائی طور پر اپنی جگہ موجود ہے اور ذرہ برابر بھی نہیں بدلا ہے اور خیال ہے کہ آئندہ مزید پانچ ارب سال تک بھی نہیں بدلے گا اور اپنی اس حالت پر مستحکم رہے گا۔
سورج کو زمانۂ قدیم سے ہی توانائی اور طاقت کا بہت بڑا اور بہت خوف ناک ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور بعض اقوام میں اور ان کی ثقافتوں میں سے تو اسے ایک دیوتا کا درجہ دیا گیا ہے، گویا اسے طاقت و توانائی کا مظہر سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہماری زمین جس طرح مختلف زمانوں میں سورج کے گرد چکر لگاتی رہی ہے، اس کی وجہ سے ہمارا شمسی کیلینڈر وجود میں آیا ہے جو آج بھی دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارا سورج ہماری زمین کے آسمان پر نظر آنے والی سب سے روشن اور تابندہ چیز ہے۔
مگر حالیہ برسوں میں یہ سورج بھی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہمارے خلائی اور سائنسی ماہرین نے اس پر ٹوٹ پھوٹ یا ہلچل مچتی دیکھی ہے۔
گذشتہ ہفتے یہ خبر ناسا نے بہت نمایاں طور پر ساری دنیا میں جاری کی کہ ہمارے زمین کے محسن سورج میں 75,000 میل چوڑا ایک ایسا بہت بڑا سوراخ پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہماری زمین پر بھی کافی اہم تبدیلیاں آسکتی ہیں اور اس کرۂ ارض کا اور اس پر بسنے والوں کا بہت بڑا اور ناقابل بیان نقصان ہوسکتا ہے جس کی شاید برسوں اور صدیوں بھی تلافی نہ ہوسکے۔
ہمارے ارضی ماہرین اس لیے بھی پریشان ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے مواصلاتی سیارے تباہ ہوسکتے ہیں اور ہماری زمین تاریکی میں ڈوب سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اہل زمین کا بہت زیادہ نقصان ہوگا جس کے بارے میں فی الحال تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے بارے میں ماہرین بہت زیادہ فکر مند ہیں اور زمین کے مستقبل کے حوالے سے انہیں لاتعداد پریشانیاں لاحق ہیں۔
ان سائنس دانوں اور ماہرین نے زمین پر رہنے بسنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ سورج پر نمودار ہونے والے 75,000 میل چوڑے سوراخ کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض پر بڑی تباہی آسکتی ہے، اس کا فوری طور پر کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا ہوگا، اگر یہ مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا اور اس سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی طے نہیں کی گئی تو سورج سے تباہ کن شمسی شعلے زمین پر آکر اسے ملیا میٹ کرسکتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے جس شمسی دھبے کو دیکھا ہے، اسے انہوں نے AR2665 کا نام دیا ہے اور یہ دھبا 74,560 میل یعنی 120,000 کلومیٹر چوڑا ہے، یہ اپنی جسامت میں اتنا بڑا ہے کہ ہماری زمین سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ شمسی دھبا اپنی جسامت میں اتنا بڑا اور خوف ناک ہے کہ اس میں سے 'M-class'شمسی شعلے پیدا ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری زمین پر بے شمار ریڈیائی رابطوں میں خلل پڑسکتا ہے اور بعد میں انہی کے باعث مصنوعی مواصلاتی سیارے بھی تباہی و بربادی کا شکار ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے تاب کاری کے طوفان پیدا ہوں گے اور نئے نئے مواصلاتی خلل زمین کے مواصلاتی نظام کو بری طرح متاثر کردیں گے۔
٭٭٭
یہ ہماری زمین کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں؟
شمسی شعلے ہماری زمین کے تمام مواصلاتی سیاروں کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض کو بہت بڑا اور بھاری نقصان ہوگا جو بعد میں جانی نقصان میں بھی بدل سکتا ہے اور اس کی وجہ سے مالی نقصان تو اتنا زیادہ ہوگا کہ ہم اس کے بارے میں فی الوقت سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے خلائی ماہرین سارا سال خلائی لیبارٹریوں میں بھی موجود رہتے ہیں اور وہاں نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے خلانوردوں کے لیے اس کی وجہ سے فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے، کیوں کہ وہ اس انسان بردار مشن کے ساتھ مقابلتاً زیادہ نیچے والے مدار میں ہیں۔ اگر وہ اوپری مدار میں ہوتے تو یقینی طور پر اس شمسی طوفان یا شمسی شعلوں کی براہ راست زد میں ہوتے، مگر فی الحال وہ اس متوقع تباہی سے محفوظ ہیں۔ لیکن ان کے لیے بہرحال ایک خطرہ تو موجود ہے ہی، وہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ اپنے تجرباتی مراحل میں خلا میں چہل قدمی کرتے ہیں، اس لیے وہ cumulative exposure کے حوالے سے فکر مند ہوں گے اور انہیں ہونا بھی چاہیے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلسل اور متواتر سورج پر برپا ہونے والے شمسی طوفان کی تباہ کن شعاعوں اور شعلوں کی زد میں تو ہیں جن کے باعث وہ بھی کسی نہ کسی خطرے بلکہ متعدد انجانے خطروں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری زمین کے لیے ایک اور بڑا خطرہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چارجڈ پارٹیکلز یا اس شمسی طوفان کی وجہ سے چارج ہونے والے ذرات ہماری زمین کی مقناطیسی فیلڈ کو متاثر کرکے ہماری ایئر لائنز کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔ پھر بہت بڑے بڑے شمسی شعلے ہمارے برقی نظام کے گرڈز میں ایسے ایسے بہاؤ یا روئیں پیدا کرسکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہماری توانائی کی سپلائی کسی بھی وقت بھی شدید طور پر متاثر ہوکر ختم بھی ہوسکتی ہے اور ہماری زمین پر مکمل ایسی تاریکی چھاسکتی ہے کہ رات کا سماں معلوم ہو۔
٭٭٭
اس آنے والے شمسی طوفان کا کب اور کیسے پتا چلا، اس کے حوالے سے ہمارے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سولر ڈائنامکس آبزرویٹری نے سب سے پہلے گذشتہ ہفتے ایک بہت بڑے شمسی دھبے کا پتا چلایا تھا جو اس پورے رواں ہفتے تک موجود رہا۔ یہ شمسی دھبے اصل میں سورج کی سطح کے وہ زیادہ تاریک اور زیادہ سرد حصے ہیں جو سورج کی مقناطیسی فیلڈ کے ساتھ انٹرایکشن کی وجہ سے بنے ہیں۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حصے ان خطوں میں نمودار ہورہے ہیں جہاں بہت زیادہ شدید مقناطیسی حرکت پذیری ہورہی ہے اور جب بھی ان میں سے توانائی خارج ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں شمسی شعلے بھی نمودار ہوتے ہیں اور شمسی دھبوں سے نہایت شدید اور خوف ناک شمسی طوفان بھی پیدا ہوتے ہیں جن کا ابھی تک نہ تو کوئی علاج نظر آرہا ہے اور نہ ان سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی جاسکی ہے۔
اس طرح کے شمسی طوفان یا شمسی شعلے پوری دنیا کے اردگرد نہایت مسحور کن قطبی روشنیاں پیدا کرسکتے ہیں، لیکن ان حسین مناظر کے ساتھ ساتھ ہمارے کرۂ ارض کی پاور گرڈز کے ساتھ خطرناک قسم کے کھیل بھی کھیلے جاسکتے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر افراتفری پھیل سکتی ہے اور زمین کے کچھ حصے اندھیرے میں بھی ڈوب سکتے ہیں۔
اپنے جاری کردہ ایک بیان میں ناسا نے کہا:''نئے سن اسپاٹس (شمسی دھبوں) کا ایک گروپ گھومتا دکھائی دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بہت تیزی کے ساتھ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اس سے دو روز پہلے تک سورج بالکل صاف اور دھبوں سے پاک تھا، لیکن اب یہ پہلا سن اسپاٹ گروپ نمودار ہوا ہے اور فی الوقت یہ سورج پر واحد سن اسپاٹ گروپ ہے۔''
٭٭٭
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس ضمن میں کوئی یقینی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ ان کی وجہ سے کیا کیا ہوسکتا ہے اور ہماری زمین کس کس طرح اور کس کس انداز سے متاثر ہوسکتی ہے۔ لیکن NOAA کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئیاں کہتی ہیں کہ ان کے باعث M-class flares کے مواقع صرف 25فی صد ہیں، کیوں کہ یہ شمسی دھبے ہمارے کرۂ ارض کے بالکل سامنے اور براہ راست ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شمسی دھبے یا سن اسپاٹ ہماری اس پیاری زمین کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے فوٹوگرافرز کے لیے ایک ایسا موقع بھی فراہم کررہے ہیں کہ یہ لوگ ان لمحات اور اس شمسی طوفان کے باعث پیدا ہونے والی قطبی روشنیوں کی ناقابل فراموش، تاریخی اور نادر تصویریں لے سکتے ہیں۔
ایک بہت اچھے اور شوقین فوٹوگرافر Bruno Boni de Oliveira کا اس حوالے سے کہنا تھا:''میں بہت عرصے سے سورج کی کوئی خوب صورت تصویر کھینچنا چاہتا تھا، مگر ہر بار سورج کی شعاعیں آڑے آجاتی تھیں، سورج کی تیز روشنی مجھے میرے مطلب کی تصویر بنانے نہیں دیتی تھی۔ لیکن 11جولائی کے موسم گرما میں مجھے وہ موقع مل گیا کہ میں نے سورج کی ایک بہت اچھی تصویر بہت اچھے زاویے سے کھینچ لی۔ مجھے یہ موقع سورج کے غروب ہونے سے چند منٹ پہلے مل سکا تھا۔ جب میں نے فوکس کیا تو مجھے سورج پر ایک دھبا دکھائی دیا۔ میں نے یہ بات ماہرین کو بتائی۔ اس کے بعد تو ہر طرف طوفان آگیا۔''
ابھی اس متوقع تباہی اور خطرات و خدشات کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے صرف اندازے ہی لگائے جارہے ہیں، کچھ یقین سے یا حتمی انداز سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوجائے گا۔ ہم سب مسلمان ہیں اور بہ حیثیت مسلمان اس بات پر کامل یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے، وہ اﷲ کے حکم سے ہی ہوتا ہے، یہ ساری دنیا اور ساری کائنات اسی کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کے بنائے ہوئے نظام بلکہ نظاموں کے تحت تمام کام چل رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں یہ یقین اور ایمان رکھنا چاہیے کہ ہمارا رب جس نے اس پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے، اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے بھی تمام انتظامات کر رکھے ہیں، وہ اپنے بندوں کو کبھی خطروں میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ ہم اسی سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اہل دنیا پر رحم فرمائے گا اور ہماری اس پیاری سی اور خوب صورت زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے اس پورے کرۂ ارض پر سورج نہ صرف زندگی برقرار رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے، بلکہ ہماری زمین پر اسی کی وجہ سے ہر طرح کی توانائی پیدا ہوتی ہے تو یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ سورج اس کرۂ ارض پر ہر طرح کی حرکت پذیری، نقل و حرکت اور چہل پہل کا سبب ہے۔ اسی کی وجہ سے ہماری زمین پر ہریالی بھی ہے اور پیڑ پودے بھی۔ اگر سورج نہ ہوتا تو نہ ہمیں پانی ملتا اور نہ توانائی کے دوسرے ذرائع حاصل ہوپاتے۔ ہماری زندگیوں میں ساری بہار اسی سورج کے دم سے ہے۔ یہی سورج ہماری فصلیں پکاتا ہے اور ہمارے لیے ہر طرح کے پھل تیار کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بڑی تعداد میں اناج بھی تیار کرتا ہے۔ گویا اہل زمین کی خوراک کا بندوبست اسی سورج کے ذمے ہے۔ یہ ہماری زمین پر بارشیں بھی برساتا ہے اور ہر طرح کے موسم بھی ہمیں دیتا ہے۔
سورج کا قطر ہماری زمین کے مقابلے میں 109گنا بڑا ہے اور اس کی کمیت زمین کے مقابلے میں لگ بھگ330,000 ہے، گویا یہ ہمارے پورے نظام شمسی کی مجموعی کمیت کا لگ بھگ 99.86 فی صد ہے۔
سورج کی کمیت کا لگ بھگ تین چوتھائی ہائیڈروجن (~73%) پر مشتمل ہوتا ہے اور باقی زیادہ تر ہیلیم (~25%) اس میں زیادہ بھاری عناصر مثلاً آکسیجن، کاربن، نیون گیس اور فولاد بہت چھوٹی مقدار میں ہیں۔
سورج کوئی نیا یا نوجوان ستارہ نہیں ہے، یہ تو خاصی عمر والا ہوچکا ہے۔ ہماری زمین پر بسنے والے ماہرین اور سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہ لگ بھگ4.6 ارب سال پہلے وجود میں آیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک بہت بڑے مالیکیولر بادل میں مادے کی گردشی تباہی اس کے وجود میں آنے کا سبب بنی تھی۔ اس سارے کے سارے مادے کا زیادہ تر حصہ جب مرکز میں جمع ہوگیا تو باقی سب مادے چپٹے اور سیدھے ہوکر مدار میں سورج کے گرد گردش کرنے لگے جن سے ہمارا نظام شمسی وجود میں آگیا۔
اس کے بعد سورج کی وحشت اور حدت میں اضافہ ہوا تو یہ مرکزی مادہ اس قدر شدید گرم اور کثیف بن گیا کہ اس کی وجہ سے اس کے مرکز میں نیوکلیئر پگھلاؤ والے دھماکے بھی ہونے لگے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تمام ستارے لگ بھگ اسی پراسیس کے ذریعے وجود میں آئے ہیں اور بعد میں انہی نے ہمارا نظام شمسی تشکیل دیا ہے۔ ہمارا سورج کوئی نوجوان ستارہ نہیں ہے، بل کہ اسے تو اصل میں ادھیڑ عمر ستارہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ چار ارب برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے آج تک ڈرامائی طور پر اپنی جگہ موجود ہے اور ذرہ برابر بھی نہیں بدلا ہے اور خیال ہے کہ آئندہ مزید پانچ ارب سال تک بھی نہیں بدلے گا اور اپنی اس حالت پر مستحکم رہے گا۔
سورج کو زمانۂ قدیم سے ہی توانائی اور طاقت کا بہت بڑا اور بہت خوف ناک ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور بعض اقوام میں اور ان کی ثقافتوں میں سے تو اسے ایک دیوتا کا درجہ دیا گیا ہے، گویا اسے طاقت و توانائی کا مظہر سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہماری زمین جس طرح مختلف زمانوں میں سورج کے گرد چکر لگاتی رہی ہے، اس کی وجہ سے ہمارا شمسی کیلینڈر وجود میں آیا ہے جو آج بھی دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارا سورج ہماری زمین کے آسمان پر نظر آنے والی سب سے روشن اور تابندہ چیز ہے۔
مگر حالیہ برسوں میں یہ سورج بھی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہمارے خلائی اور سائنسی ماہرین نے اس پر ٹوٹ پھوٹ یا ہلچل مچتی دیکھی ہے۔
گذشتہ ہفتے یہ خبر ناسا نے بہت نمایاں طور پر ساری دنیا میں جاری کی کہ ہمارے زمین کے محسن سورج میں 75,000 میل چوڑا ایک ایسا بہت بڑا سوراخ پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہماری زمین پر بھی کافی اہم تبدیلیاں آسکتی ہیں اور اس کرۂ ارض کا اور اس پر بسنے والوں کا بہت بڑا اور ناقابل بیان نقصان ہوسکتا ہے جس کی شاید برسوں اور صدیوں بھی تلافی نہ ہوسکے۔
ہمارے ارضی ماہرین اس لیے بھی پریشان ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے مواصلاتی سیارے تباہ ہوسکتے ہیں اور ہماری زمین تاریکی میں ڈوب سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اہل زمین کا بہت زیادہ نقصان ہوگا جس کے بارے میں فی الحال تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے بارے میں ماہرین بہت زیادہ فکر مند ہیں اور زمین کے مستقبل کے حوالے سے انہیں لاتعداد پریشانیاں لاحق ہیں۔
ان سائنس دانوں اور ماہرین نے زمین پر رہنے بسنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ سورج پر نمودار ہونے والے 75,000 میل چوڑے سوراخ کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض پر بڑی تباہی آسکتی ہے، اس کا فوری طور پر کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا ہوگا، اگر یہ مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا اور اس سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی طے نہیں کی گئی تو سورج سے تباہ کن شمسی شعلے زمین پر آکر اسے ملیا میٹ کرسکتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے جس شمسی دھبے کو دیکھا ہے، اسے انہوں نے AR2665 کا نام دیا ہے اور یہ دھبا 74,560 میل یعنی 120,000 کلومیٹر چوڑا ہے، یہ اپنی جسامت میں اتنا بڑا ہے کہ ہماری زمین سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ شمسی دھبا اپنی جسامت میں اتنا بڑا اور خوف ناک ہے کہ اس میں سے 'M-class'شمسی شعلے پیدا ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری زمین پر بے شمار ریڈیائی رابطوں میں خلل پڑسکتا ہے اور بعد میں انہی کے باعث مصنوعی مواصلاتی سیارے بھی تباہی و بربادی کا شکار ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے تاب کاری کے طوفان پیدا ہوں گے اور نئے نئے مواصلاتی خلل زمین کے مواصلاتی نظام کو بری طرح متاثر کردیں گے۔
٭٭٭
یہ ہماری زمین کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں؟
شمسی شعلے ہماری زمین کے تمام مواصلاتی سیاروں کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض کو بہت بڑا اور بھاری نقصان ہوگا جو بعد میں جانی نقصان میں بھی بدل سکتا ہے اور اس کی وجہ سے مالی نقصان تو اتنا زیادہ ہوگا کہ ہم اس کے بارے میں فی الوقت سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے خلائی ماہرین سارا سال خلائی لیبارٹریوں میں بھی موجود رہتے ہیں اور وہاں نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے خلانوردوں کے لیے اس کی وجہ سے فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے، کیوں کہ وہ اس انسان بردار مشن کے ساتھ مقابلتاً زیادہ نیچے والے مدار میں ہیں۔ اگر وہ اوپری مدار میں ہوتے تو یقینی طور پر اس شمسی طوفان یا شمسی شعلوں کی براہ راست زد میں ہوتے، مگر فی الحال وہ اس متوقع تباہی سے محفوظ ہیں۔ لیکن ان کے لیے بہرحال ایک خطرہ تو موجود ہے ہی، وہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ اپنے تجرباتی مراحل میں خلا میں چہل قدمی کرتے ہیں، اس لیے وہ cumulative exposure کے حوالے سے فکر مند ہوں گے اور انہیں ہونا بھی چاہیے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلسل اور متواتر سورج پر برپا ہونے والے شمسی طوفان کی تباہ کن شعاعوں اور شعلوں کی زد میں تو ہیں جن کے باعث وہ بھی کسی نہ کسی خطرے بلکہ متعدد انجانے خطروں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری زمین کے لیے ایک اور بڑا خطرہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چارجڈ پارٹیکلز یا اس شمسی طوفان کی وجہ سے چارج ہونے والے ذرات ہماری زمین کی مقناطیسی فیلڈ کو متاثر کرکے ہماری ایئر لائنز کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔ پھر بہت بڑے بڑے شمسی شعلے ہمارے برقی نظام کے گرڈز میں ایسے ایسے بہاؤ یا روئیں پیدا کرسکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہماری توانائی کی سپلائی کسی بھی وقت بھی شدید طور پر متاثر ہوکر ختم بھی ہوسکتی ہے اور ہماری زمین پر مکمل ایسی تاریکی چھاسکتی ہے کہ رات کا سماں معلوم ہو۔
٭٭٭
اس آنے والے شمسی طوفان کا کب اور کیسے پتا چلا، اس کے حوالے سے ہمارے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سولر ڈائنامکس آبزرویٹری نے سب سے پہلے گذشتہ ہفتے ایک بہت بڑے شمسی دھبے کا پتا چلایا تھا جو اس پورے رواں ہفتے تک موجود رہا۔ یہ شمسی دھبے اصل میں سورج کی سطح کے وہ زیادہ تاریک اور زیادہ سرد حصے ہیں جو سورج کی مقناطیسی فیلڈ کے ساتھ انٹرایکشن کی وجہ سے بنے ہیں۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حصے ان خطوں میں نمودار ہورہے ہیں جہاں بہت زیادہ شدید مقناطیسی حرکت پذیری ہورہی ہے اور جب بھی ان میں سے توانائی خارج ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں شمسی شعلے بھی نمودار ہوتے ہیں اور شمسی دھبوں سے نہایت شدید اور خوف ناک شمسی طوفان بھی پیدا ہوتے ہیں جن کا ابھی تک نہ تو کوئی علاج نظر آرہا ہے اور نہ ان سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی جاسکی ہے۔
اس طرح کے شمسی طوفان یا شمسی شعلے پوری دنیا کے اردگرد نہایت مسحور کن قطبی روشنیاں پیدا کرسکتے ہیں، لیکن ان حسین مناظر کے ساتھ ساتھ ہمارے کرۂ ارض کی پاور گرڈز کے ساتھ خطرناک قسم کے کھیل بھی کھیلے جاسکتے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر افراتفری پھیل سکتی ہے اور زمین کے کچھ حصے اندھیرے میں بھی ڈوب سکتے ہیں۔
اپنے جاری کردہ ایک بیان میں ناسا نے کہا:''نئے سن اسپاٹس (شمسی دھبوں) کا ایک گروپ گھومتا دکھائی دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بہت تیزی کے ساتھ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اس سے دو روز پہلے تک سورج بالکل صاف اور دھبوں سے پاک تھا، لیکن اب یہ پہلا سن اسپاٹ گروپ نمودار ہوا ہے اور فی الوقت یہ سورج پر واحد سن اسپاٹ گروپ ہے۔''
٭٭٭
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس ضمن میں کوئی یقینی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ ان کی وجہ سے کیا کیا ہوسکتا ہے اور ہماری زمین کس کس طرح اور کس کس انداز سے متاثر ہوسکتی ہے۔ لیکن NOAA کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئیاں کہتی ہیں کہ ان کے باعث M-class flares کے مواقع صرف 25فی صد ہیں، کیوں کہ یہ شمسی دھبے ہمارے کرۂ ارض کے بالکل سامنے اور براہ راست ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شمسی دھبے یا سن اسپاٹ ہماری اس پیاری زمین کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے فوٹوگرافرز کے لیے ایک ایسا موقع بھی فراہم کررہے ہیں کہ یہ لوگ ان لمحات اور اس شمسی طوفان کے باعث پیدا ہونے والی قطبی روشنیوں کی ناقابل فراموش، تاریخی اور نادر تصویریں لے سکتے ہیں۔
ایک بہت اچھے اور شوقین فوٹوگرافر Bruno Boni de Oliveira کا اس حوالے سے کہنا تھا:''میں بہت عرصے سے سورج کی کوئی خوب صورت تصویر کھینچنا چاہتا تھا، مگر ہر بار سورج کی شعاعیں آڑے آجاتی تھیں، سورج کی تیز روشنی مجھے میرے مطلب کی تصویر بنانے نہیں دیتی تھی۔ لیکن 11جولائی کے موسم گرما میں مجھے وہ موقع مل گیا کہ میں نے سورج کی ایک بہت اچھی تصویر بہت اچھے زاویے سے کھینچ لی۔ مجھے یہ موقع سورج کے غروب ہونے سے چند منٹ پہلے مل سکا تھا۔ جب میں نے فوکس کیا تو مجھے سورج پر ایک دھبا دکھائی دیا۔ میں نے یہ بات ماہرین کو بتائی۔ اس کے بعد تو ہر طرف طوفان آگیا۔''
ابھی اس متوقع تباہی اور خطرات و خدشات کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے صرف اندازے ہی لگائے جارہے ہیں، کچھ یقین سے یا حتمی انداز سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوجائے گا۔ ہم سب مسلمان ہیں اور بہ حیثیت مسلمان اس بات پر کامل یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے، وہ اﷲ کے حکم سے ہی ہوتا ہے، یہ ساری دنیا اور ساری کائنات اسی کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کے بنائے ہوئے نظام بلکہ نظاموں کے تحت تمام کام چل رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں یہ یقین اور ایمان رکھنا چاہیے کہ ہمارا رب جس نے اس پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے، اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے بھی تمام انتظامات کر رکھے ہیں، وہ اپنے بندوں کو کبھی خطروں میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ ہم اسی سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اہل دنیا پر رحم فرمائے گا اور ہماری اس پیاری سی اور خوب صورت زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔