مودی جی پھنس گئے
اس وقت بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ انتہا پسند مذہبی جنونی آر ایس ایس کی بھارت میں حکومت قائم ہے
مانا کہ بھارت نے بہت ترقی کرلی ہے مگر وہ اس سے بھی زیادہ ترقی کرسکتا تھا اگر اس کے قائدین ہوس ملک گیری کی بیماری میں مبتلا نہ ہوتے۔ انھوں نے تو آزادی کے فوراً بعد سے ہی یہ گھناؤنا کھیل کھیلنا شروع کردیا تھا۔ پہلے کشمیر پھر حیدرآباد دکن، جوناگڑھ مناوادر۔ اس کے بعد گوا پھر سکم پر قبضہ کرلیا حتیٰ کہ مشرقی پاکستان کو بھی نہیں بخشا گیا۔
اگر وہ بھارت کے رقبے میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنا ذہن بھارت کی معاشی اور صنعتی ترقی پر مرکوز کرتے اور ساتھ ہی اپنے عوام کی روٹی کپڑا اور مکان کی ضروریات پر توجہ دیتے تو آج بھارت ترقی پذیر ملک کے بجائے ایک ترقی یافتہ ملک کہلاتا۔ بھارت اپنی پڑوسی ریاستوں پر اس لیے قبضہ کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ تمام فوجی اعتبار سے کمزور تھیں بھارت حکمراں انھیں فتح کرکے یہ گمان کرتے رہے کہ بھارت حربی طور پر بہت طاقتور بن گیا ہے جب کہ ایسا ہرگز نہیں تھا انھوں نے فوج کی نفری تو خوب بڑھائی مگر نہ تو فوجی ساز و سامان کو اس لحاظ سے بڑھایا اور نہ ہی فوج کی دیگر ضروریات پر توجہ دی حتیٰ کہ فوج کے کھانے پینے کے معیار کا بھی خیال نہیں رکھا۔
حکمرانوں کے ملک میں جنگی ماحول بنائے رکھنے کی وجہ سے فوج کے اعلیٰ افسران کے وارے نیارے ہوتے رہے۔ وہ اسلحے کی خرید اور فوج کی روزمرہ کی ضروریات کی چیزوں پر دل کھول کر کمیشن کھاتے رہے پھر جو بھی اسلحہ خریدا گیا اعلیٰ ظاہر کرکے گھٹیا خریدا گیا۔ اس کی ویسے تو بہت سی مثالیں ہیں مگر مگ 21 جنگی طیاروں کی مثال سب سے نمایاں ہے، پھر المیہ یہ ہے کہ فوج کے کرپشن کو چیلنج کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اعلیٰ افسران نام نہاد دہشتگردوں کے جعلی مقابلے بھی کراتے رہے، ان ڈراموں میں ہزاروں کشمیریوں، سکھوں، نکسلوں اور نگاؤں کو ناحق قتل کردیا گیا مگر اس بہانے حکومت سے بڑی بڑی انعامی رقمیں وصول کرتے رہے۔ جہاں تک اسلحے پر کمیشن کا معاملہ ہے وہ اس قدر پھلا پھولا کہ ماضی میں حالت آج سے بھی بدتر تھی۔ اس وقت صرف وزیر دفاع ہی نہیں وزیر اعظم بھی کرپشن میں ملوث پائے گئے تھے۔
وزیراعظم راجیو گاندھی پر سوئیڈن سے منگائی گئیں بفورس توپوں پر کمیشن وصول کرنے پر برسوں مقدمہ چلتا رہا تھا، بھارت کی کمزور فوجی تیاری کی وجہ سے ہی وہ 1962 میں چین سے تاریخی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا تھا۔ اس جنگ میں بھارتی فوج کی ایک اور خامی سامنے آئی کہ اس میں فوجی مردانگی کے جذبے کی زبردست کمی ہے۔ بھارتی فوجی چینی فوج کے آگے ٹک نہ سکے اور ہر محاذ پر بھاگ کھڑے ہوئے۔
بھارت نے اب اگر اسلحے کے انبار لگا لیے ہیں اور وہ اس وقت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے مگر اس کی فوج میں اب بھی فوجی مردانگی کی کمی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انھیں ڈھنگ کا کھانا تک نہیں دیا جاتا۔ گزشتہ دنوں کچھ بھارتی فوجیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کو دیے جانے والے ناقص کھانے کی تصاویر پوری دنیا میں شیئر کی تھیں۔کاش کہ بھارتی حکمراں شیخی بگھارنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت بھی ڈالیں تو ان کی فوج کی حالت کچھ بہتر ہوجائے اور وہ لڑنے کے قابل ہوجائے۔
وہ پاکستان کو دولخت کرنے کو اپنی عظیم فوجی فتح قرار دیتے ہیں لیکن اگر اس وقت پاکستان میں خانہ جنگی کا ماحول نہ ہوتا۔ بنگالیوں کی بغاوت نے ملک کے نظام کو درہم برہم نہ کیا ہوتا تو یقینا پاکستانی فوج بھارت کو 65 کی جنگ جیسا منہ توڑ جواب دیتی۔ پھر بھارت نے اکیلے پاکستان پر کون سی برتری حاصل کرلی تھی اگر روسی طیارے اور روسی پائلٹ بھارت کو دستیاب نہ ہوتے اور وہ پاکستان پر حملہ آور نہ ہوتے تو بھارت کبھی بھی پاکستان پر برتری حاصل نہ کر پاتا۔
بہرحال بھارت بنگلہ دیش بناکر اپنی فوج پر بہت فخر و غرور کرنے لگا تھا جب کہ یہ سارا کمال روسیوں کا تھا اب اس نے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ کارگل میں سخت ہزیمت اٹھانے کے باوجود نام نہاد فتح کے نشے میں چور ہو کر چین کو للکارا ہے۔ اس وقت اگر کانگریسی حکومت برسر اقتدار ہوتی تو وہ یقینا چین سے کسی بھی قسم کے ٹکراؤ سے گریز کرتی کیونکہ 1962 میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اور پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے وزیر اعظم تھے۔
اس وقت بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ انتہا پسند مذہبی جنونی آر ایس ایس کی بھارت میں حکومت قائم ہے جس کے وزیر اعظم مودی حد سے زیادہ خوش فہم واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس خوش فہمی میں بھارتی فوجیں چین کی سرحد کے اندر داخل کرکے بھارتی عوام کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت چین بھارت سے صرف اتنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی فوجیں اس کی سرحد سے واپس بلا لے تاکہ وہ اپنی سرحد کے اندر سڑک کی تعمیر مکمل کرسکے مگر بھارت کا استدلال ہے کہ سڑک نہیں بن سکتی کیونکہ وہ اس کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
اصل معاملہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور سینہ زوری کا ہے کیونکہ چین جس علاقے میں سڑک تعمیر کر رہا ہے وہاں سے بھارت کی سرحد کوسوں دور ہے البتہ اس علاقے سے متصل بھوٹان کی سرحد ہے اس طرح یہ مسئلہ صرف بھوٹان اور چین کے مابین ہے مگر بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے بھوٹان کی درخواست پر اپنی فوجیں وہاں بھیجی ہیں جب کہ بھوٹان کی حکومت نے اس معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ بھوٹانی حکومت نے اس سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی سڑک کی تعمیر پر کوئی اعتراض کیا ہے تو پھر بھارت سڑک کی تعمیر پر کیوں معترض ہے؟ چینی معروف مبصر مسٹر لانگ زنگ چن نے بھارت کے جارحانہ رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ''بھارت کا یہ کہنا کہ اس نے بھوٹان کی درخواست پر اپنی فوجیں متنازعہ علاقے میں داخل کی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی درخواست پر کوئی بھی تیسرا ملک اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرسکتا ہے اگر بھوٹان نے بھارت سے درخواست کی بھی ہے تو بھارت کو اپنی فوجوں کو بھوٹان کی سرحد میں رکھنا چاہیے تھا نہ کہ متنازعہ علاقے میں داخل کرتا''بھارتی تجزیہ کار راہل ویدی نے اپنی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ سیکیورٹی کے حوالے سے بھارت کی تشویش بجا ہے لیکن بھارت کو متنازع علاقے میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہم بھارتی اتنا کہہ سکتے ہیں کہ چین نے اٹسے ٹسکو کی خلاف ورزی کی ہے مگر ہم نے سیکیورٹی کے مسئلے کو ضرورت سے زیادہ اچھال کر خود ہی گول کرلیا ہے اور اب چین کی باری ہے۔ چین کے سرکاری ٹی وی چائنا گلوبل ٹی وی کے معروف اینکر مسٹر یانگ روئی کا کہنا ہے کہ چینی عوام اپنی حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ ہمارے علاقے میں دراندازی کرنیوالے بھارتی فوجیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں دیر کی جا رہی ہے۔ جب بھارت پاکستان پر ببانگ دہل سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے (جو ہوئی نہیں) تو چین بھارت کے خلاف سرجیل اسٹرائیک کرنے میں کیوں پس و پیش کر رہا ہے۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان نے بھارت کو تنبیہ کی ہے کہ وہ ہٹ دھرمی سے باز آجائے ورنہ پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے مگر چینی فوج کے عزائم کو کوئی نہیں ہلا سکتا۔ اس وقت مودی بظاہر تو خوش نظر آرہے ہیں مگر اندر ہی اندر ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ امریکا کے چڑھانے پر فاش غلطی کر بیٹھے ہیں اب وہ امریکا سمیت تمام مغربی ممالک سے چین کے خلاف مدد حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی بھی ملک چین سے محاذ آرائی کے لیے تیار نہیں ہے، چنانچہ انھوں نے بے عزتی سے بچنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کے لیے اپنے قومی سلامتی کے مشیر مسٹر اجیت ڈوبھال کو بیجنگ بھیجا تھا مگر وہاں چینی حکام نے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی اور مودی کو واضح پیغام دیا ہے کہ فوجوں کو پیچھے ہٹانے کے سوا کوئی سودے بازی نہیں چلے گی۔
اگر وہ بھارت کے رقبے میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنا ذہن بھارت کی معاشی اور صنعتی ترقی پر مرکوز کرتے اور ساتھ ہی اپنے عوام کی روٹی کپڑا اور مکان کی ضروریات پر توجہ دیتے تو آج بھارت ترقی پذیر ملک کے بجائے ایک ترقی یافتہ ملک کہلاتا۔ بھارت اپنی پڑوسی ریاستوں پر اس لیے قبضہ کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ تمام فوجی اعتبار سے کمزور تھیں بھارت حکمراں انھیں فتح کرکے یہ گمان کرتے رہے کہ بھارت حربی طور پر بہت طاقتور بن گیا ہے جب کہ ایسا ہرگز نہیں تھا انھوں نے فوج کی نفری تو خوب بڑھائی مگر نہ تو فوجی ساز و سامان کو اس لحاظ سے بڑھایا اور نہ ہی فوج کی دیگر ضروریات پر توجہ دی حتیٰ کہ فوج کے کھانے پینے کے معیار کا بھی خیال نہیں رکھا۔
حکمرانوں کے ملک میں جنگی ماحول بنائے رکھنے کی وجہ سے فوج کے اعلیٰ افسران کے وارے نیارے ہوتے رہے۔ وہ اسلحے کی خرید اور فوج کی روزمرہ کی ضروریات کی چیزوں پر دل کھول کر کمیشن کھاتے رہے پھر جو بھی اسلحہ خریدا گیا اعلیٰ ظاہر کرکے گھٹیا خریدا گیا۔ اس کی ویسے تو بہت سی مثالیں ہیں مگر مگ 21 جنگی طیاروں کی مثال سب سے نمایاں ہے، پھر المیہ یہ ہے کہ فوج کے کرپشن کو چیلنج کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اعلیٰ افسران نام نہاد دہشتگردوں کے جعلی مقابلے بھی کراتے رہے، ان ڈراموں میں ہزاروں کشمیریوں، سکھوں، نکسلوں اور نگاؤں کو ناحق قتل کردیا گیا مگر اس بہانے حکومت سے بڑی بڑی انعامی رقمیں وصول کرتے رہے۔ جہاں تک اسلحے پر کمیشن کا معاملہ ہے وہ اس قدر پھلا پھولا کہ ماضی میں حالت آج سے بھی بدتر تھی۔ اس وقت صرف وزیر دفاع ہی نہیں وزیر اعظم بھی کرپشن میں ملوث پائے گئے تھے۔
وزیراعظم راجیو گاندھی پر سوئیڈن سے منگائی گئیں بفورس توپوں پر کمیشن وصول کرنے پر برسوں مقدمہ چلتا رہا تھا، بھارت کی کمزور فوجی تیاری کی وجہ سے ہی وہ 1962 میں چین سے تاریخی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا تھا۔ اس جنگ میں بھارتی فوج کی ایک اور خامی سامنے آئی کہ اس میں فوجی مردانگی کے جذبے کی زبردست کمی ہے۔ بھارتی فوجی چینی فوج کے آگے ٹک نہ سکے اور ہر محاذ پر بھاگ کھڑے ہوئے۔
بھارت نے اب اگر اسلحے کے انبار لگا لیے ہیں اور وہ اس وقت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے مگر اس کی فوج میں اب بھی فوجی مردانگی کی کمی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انھیں ڈھنگ کا کھانا تک نہیں دیا جاتا۔ گزشتہ دنوں کچھ بھارتی فوجیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کو دیے جانے والے ناقص کھانے کی تصاویر پوری دنیا میں شیئر کی تھیں۔کاش کہ بھارتی حکمراں شیخی بگھارنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت بھی ڈالیں تو ان کی فوج کی حالت کچھ بہتر ہوجائے اور وہ لڑنے کے قابل ہوجائے۔
وہ پاکستان کو دولخت کرنے کو اپنی عظیم فوجی فتح قرار دیتے ہیں لیکن اگر اس وقت پاکستان میں خانہ جنگی کا ماحول نہ ہوتا۔ بنگالیوں کی بغاوت نے ملک کے نظام کو درہم برہم نہ کیا ہوتا تو یقینا پاکستانی فوج بھارت کو 65 کی جنگ جیسا منہ توڑ جواب دیتی۔ پھر بھارت نے اکیلے پاکستان پر کون سی برتری حاصل کرلی تھی اگر روسی طیارے اور روسی پائلٹ بھارت کو دستیاب نہ ہوتے اور وہ پاکستان پر حملہ آور نہ ہوتے تو بھارت کبھی بھی پاکستان پر برتری حاصل نہ کر پاتا۔
بہرحال بھارت بنگلہ دیش بناکر اپنی فوج پر بہت فخر و غرور کرنے لگا تھا جب کہ یہ سارا کمال روسیوں کا تھا اب اس نے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ کارگل میں سخت ہزیمت اٹھانے کے باوجود نام نہاد فتح کے نشے میں چور ہو کر چین کو للکارا ہے۔ اس وقت اگر کانگریسی حکومت برسر اقتدار ہوتی تو وہ یقینا چین سے کسی بھی قسم کے ٹکراؤ سے گریز کرتی کیونکہ 1962 میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اور پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے وزیر اعظم تھے۔
اس وقت بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ انتہا پسند مذہبی جنونی آر ایس ایس کی بھارت میں حکومت قائم ہے جس کے وزیر اعظم مودی حد سے زیادہ خوش فہم واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس خوش فہمی میں بھارتی فوجیں چین کی سرحد کے اندر داخل کرکے بھارتی عوام کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت چین بھارت سے صرف اتنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی فوجیں اس کی سرحد سے واپس بلا لے تاکہ وہ اپنی سرحد کے اندر سڑک کی تعمیر مکمل کرسکے مگر بھارت کا استدلال ہے کہ سڑک نہیں بن سکتی کیونکہ وہ اس کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
اصل معاملہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور سینہ زوری کا ہے کیونکہ چین جس علاقے میں سڑک تعمیر کر رہا ہے وہاں سے بھارت کی سرحد کوسوں دور ہے البتہ اس علاقے سے متصل بھوٹان کی سرحد ہے اس طرح یہ مسئلہ صرف بھوٹان اور چین کے مابین ہے مگر بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے بھوٹان کی درخواست پر اپنی فوجیں وہاں بھیجی ہیں جب کہ بھوٹان کی حکومت نے اس معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ بھوٹانی حکومت نے اس سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی سڑک کی تعمیر پر کوئی اعتراض کیا ہے تو پھر بھارت سڑک کی تعمیر پر کیوں معترض ہے؟ چینی معروف مبصر مسٹر لانگ زنگ چن نے بھارت کے جارحانہ رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ''بھارت کا یہ کہنا کہ اس نے بھوٹان کی درخواست پر اپنی فوجیں متنازعہ علاقے میں داخل کی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی درخواست پر کوئی بھی تیسرا ملک اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرسکتا ہے اگر بھوٹان نے بھارت سے درخواست کی بھی ہے تو بھارت کو اپنی فوجوں کو بھوٹان کی سرحد میں رکھنا چاہیے تھا نہ کہ متنازعہ علاقے میں داخل کرتا''بھارتی تجزیہ کار راہل ویدی نے اپنی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ سیکیورٹی کے حوالے سے بھارت کی تشویش بجا ہے لیکن بھارت کو متنازع علاقے میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہم بھارتی اتنا کہہ سکتے ہیں کہ چین نے اٹسے ٹسکو کی خلاف ورزی کی ہے مگر ہم نے سیکیورٹی کے مسئلے کو ضرورت سے زیادہ اچھال کر خود ہی گول کرلیا ہے اور اب چین کی باری ہے۔ چین کے سرکاری ٹی وی چائنا گلوبل ٹی وی کے معروف اینکر مسٹر یانگ روئی کا کہنا ہے کہ چینی عوام اپنی حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ ہمارے علاقے میں دراندازی کرنیوالے بھارتی فوجیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں دیر کی جا رہی ہے۔ جب بھارت پاکستان پر ببانگ دہل سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے (جو ہوئی نہیں) تو چین بھارت کے خلاف سرجیل اسٹرائیک کرنے میں کیوں پس و پیش کر رہا ہے۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان نے بھارت کو تنبیہ کی ہے کہ وہ ہٹ دھرمی سے باز آجائے ورنہ پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے مگر چینی فوج کے عزائم کو کوئی نہیں ہلا سکتا۔ اس وقت مودی بظاہر تو خوش نظر آرہے ہیں مگر اندر ہی اندر ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ امریکا کے چڑھانے پر فاش غلطی کر بیٹھے ہیں اب وہ امریکا سمیت تمام مغربی ممالک سے چین کے خلاف مدد حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی بھی ملک چین سے محاذ آرائی کے لیے تیار نہیں ہے، چنانچہ انھوں نے بے عزتی سے بچنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کے لیے اپنے قومی سلامتی کے مشیر مسٹر اجیت ڈوبھال کو بیجنگ بھیجا تھا مگر وہاں چینی حکام نے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی اور مودی کو واضح پیغام دیا ہے کہ فوجوں کو پیچھے ہٹانے کے سوا کوئی سودے بازی نہیں چلے گی۔