کیا عجب دنیا ہے یہ دنیا بھی
موجودہ یا حالیہ فساد اور ذلت و رسوائی کی بنیاد مال و دولت دنیا ہے
گاؤں کے ایک غریب کسان کو خبر ملتی ہے کہ دور دراز کے ایک گاؤں کے زمیندار نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسانوں میں اپنی زمین مفت بانٹے گا، خبر کان میں پڑتے ہی یہ کسان اس گاؤں کا رخ کرتا ہے اور وہ حیران رہ جاتا ہے کہ جو خبر اس نے سنی تھی وہ واقعی درست ہے۔
ایک سر پھرا زمیندار کسانوں میں اپنی زمین واقعی مفت بانٹنا چاہتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک جو جتنی زمین چاہے، اتنی زمین پر نشان لگا کر وہ زمین لے لے، لیکن اسے بہرصورت سورج غروب ہونے سے پہلے اس پوائنٹ پر واپس پہنچنا ہوگا، جہاں سے اس نے زمین پر نشان لگانا شروع کیا تھا، بصورت دیگر نہ صرف یہ کہ وہ معمولی رقم ضبط کرلی جائے گی جو زر ضمانت کے طور پر زمین دار نے اپنے پاس رکھوائی ہے بلکہ اس شخص کی ساری محنت بھی اکارت جائے گی کیونکہ سورج غروب ہونے سے پہلے واپس نہ آنے کی صورت میں اسے زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملے گا۔
یہ غریب کسان اگلے روز فجر کے وقت کدال ہاتھ میں لیے اس پوائنٹ پر پہنچتا ہے، جہاں سے زمین اس نے ''دلنی'' شروع کرنا تھی اور پورے جوش و خروش سے زمین پر نشانہ لگاتا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، پانچ، چھ میل کا رقبہ نشان زدہ کرنے کے بعد وہ سانس لینے کے لیے رکتا ہے، وہ نشان زدہ زمین پر نظر دوڑاتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی حد نہیں رہتی کہ وہ ایک وسیع علاقے کا مالک بن چکا ہے، وہ واپسی کے سفر کا ارادہ کرتا ہے مگر پھر اسے خیال آتا ہے کہ تھوڑے سے فاصلے پر پھلوں کا جو ایک بڑا باغ ہے اسے بھی اپنے رقبے میں شامل کرلے تو پورے علاقے میں اس کی امارت کی دھاک بیٹھ جائے گی۔
چنانچہ وہ دوبارہ کدال ہاتھ میں پکڑ کر اپنا سفر شروع کردیتا ہے۔ اس دوران دوپہر ہوجاتی ہے گرمی کی شدت اسے بے حال کردیتی ہے، پیاس سے اس کی زبان سوکھ کر کانٹا بن جاتی ہے لیکن زمین کی ہوس میں وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، اب اس کا جسم جواب دینے لگتا ہے، چنانچہ وہ واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔
مگر اسے یہ دیکھ کر سخت پریشانی ہوتی ہے کہ سورج ڈوبنے میں صرف دو تین گھنٹے رہ گئے ہیں اور اس کا واپسی کا سفر اس سے کہیں زیادہ لمبا ہے۔ اس کے جسم میں بھی سکت نہیں اور پیاس نے بھی اس کا برا حال کیا ہوا ہے تاہم وہ گھسٹتا گھسٹتا واپسی کا سفر شروع کرتا ہے اور کدال سے نشان لگاتا چلا جاتا ہے۔
جب منزل اس سے صرف ایک فرلانگ کے فاصلے پر رہ جاتی ہے تو وہ گر پڑتا ہے، مگر پھر وہ اپنے جسم کی ساری طاقت بحال کرکے کھڑا ہوا ہے اور چلنا شروع ہوجاتا ہے، اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی ہوتی ہے، اس کے قدم لڑکھڑا رہے ہوتے ہیں اور اس کی زبان میں سوئیاں سی چبھ رہی ہوتی ہیں، سورج غروب ہونے میں چند لمحے باقی ہیں، تاہم وہ ادھر موئے جسم کو تیزی سے گھسیٹتا ہوا سورج غروب ہونے سے پہلے اس پوائنٹ تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور جہاں زمیندار اور گاؤں کے دوسرے لوگ اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ کسان اس پوائنٹ پر پہنچتے ہی گر جاتا ہے، لوگ اس کے قریب جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ مرچکا ہے۔ زمیندار اس کے ہاتھ سے کدال کھینچ کر اپنے ایک مزارعے کی طرف اچھالتا ہے اور کہتا ہے ''اس کی قبر کھود دو، اسے صرف دو گز زمین درکار تھی۔''
مذکورہ بالا کہانی عالمی شہرت یافتہ مصنف ٹالسٹائی کی ایک بہت مشہور کہانی How much land does a man require (ایک انسان کو کتنی زمین کی ضرورت ہوتی ہے؟) ہے۔ ہمیں پاناما اور جے آئی ٹی، سپریم کورٹ، حکمران اور اپوزیشن کی بازگشت کے حوالے سے بہت یاد آرہی ہے۔ یہ بہت عجیب و غریب کہانی ہے، بات تو اس میں وہی کہی گئی ہے جو ہم برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن ٹالسٹائی نے کہانی کو جو ٹریٹ منٹ دیا ہے اس سے یہ کہانی دنیا کے افسانوی ادب کی بہترین کہانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ''ایک انسان کو کتنی زمین کی ضرورت ہوتی ہے؟''
ملکی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے حکمران یا ارباب اختیار، سیاست دان سبھی کے سبھی مال بٹورنے مال بنانے میں مصروف کار ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی لوگوں کی بھاری اکثریت یہی کچھ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پانامہ پیپرز کے حوالے سے بھی دیکھیں تو ہمارے ملک میں یہی عوامل کارفرما نظر آئیں گے۔ ہمارے ملک میں یہ سارا فساد، شور و غل کیوں برپا ہے؟ اس مہم جوئی، کشمکش، لڑائی، جھگڑے اور لعن طعن کی بنیاد کیا ہے؟
موجودہ یا حالیہ فساد اور ذلت و رسوائی کی بنیاد مال و دولت دنیا ہے، رشتے و پیوند ہے۔ اسی لیے قرآن مجید مال و دولت اور اولاد کو فتنہ قرار دیتا ہے۔ویسے بھی انسان اگر مال و دولت کی حرص و ہوس کا غلام بن جائے تو پھر اس ہوس کو لگام دینا اور حرص کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔ انسان دولت کے انبار اکٹھے کرکے اپنی آل کا مستقبل خوشحال بنانے کے جنون میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ انسان کی تدبیر کے علاوہ ایک فیکٹر مقدر کا بھی ہے اور مقدر کا بنیادی اصول یہی ہے کہ جب ہوس انتہا کی حدوں کو چھونے لگے تو تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں اور تقدیر کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
تقدیر کا عمل ذلت اور رسوائی لاتا ہے اور انسان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس دولت و امارت کو وہ عزت، شہرت اور اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے وہ دولت اس کی عزت، شہرت، مقبولیت اور اقتدار کی دشمن بن جاتی ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قدرت ہر انسان کی رسی دراز کرتی ہے لیکن جب قدرت رسی کھینچتی ہے تو انسان کو اپنے علاوہ دوسروں کا بھی حساب دینا پڑتا ہے، اپنے نیک نام بزرگوں کے کفن یا قبر پر پڑتے چھینٹے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
ہر انسان کو یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ اس کی پکڑ اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ اگلے جہان کی پکڑ ہمیں نظر نہیں آتی جب کہ اس جہان کی پکڑ کا تماشا ساری دنیا دیکھتی، سنتی، ہنستی اور افسوس کرتی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ اس سے کوئی بھی ذی شعور سبق حاصل نہیں کرتا۔ آج وطن عزیز میں جو ہنگامہ جو فساد برپا ہے، شور و غوغا، ماتم ہے، ذلت و رسوائی کا بازار گرم ہے اس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور اس سارے فساد کی جڑ دولت، دولت اور صرف دولت ہے اور اس کی ہوس۔
پاناما لیکس کے حوالے سے جاری تحقیقاتی اور عدالتی عمل خصوصاً جے آئی ٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی سطح پر جو افراتفری مچی اس کے زندگی کے ہر شعبے پر منفی اثرات نمایاں ہوئے اور صرف ایک دن میں اسٹاک مارکیٹ بری طرح کریش ہوگئی اور ایک ہی دن میں سرمایہ کاروں کے چار کھرب سے زیادہ روپے ڈوب گئے اور پاناما لیکس کے حوالے سے ملک کے ذمے داروں کی کارگزاری نے پاکستانی وقار، حرمت اور معیشت سبھی کو اندازوں سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری ثقافتی شناخت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری پیش رفت ہماری جدید اسلہ سے مسلح بہادر افواج، ہمارا سیاسی اور معاشی استحکام اور ہمارا اسٹرٹیجک محل وقوع ہماری قومی طاقت کے بنیادی عوامل ہیں جو عالمی برادری کو ہماری بات سننے اور اس میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن ہم داخلی طور پر متحد ہوں گے تو ہمارے موقف کا وزن محسوس کیا جائے گا۔ لیکن افسوس آپس میں دست و گریباں ہونے کی وجہ سے عالمی برادری میں ہم اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ حکومت اور اپوزیشن میں ''عقابوں'' کے علاوہ فاختہ صفت لوگ بھی ہیں جو سیاسی رواداری، مفاہمت اور صبر و تحمل سے معاملات کو یکسو کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس وقت کسی نواب زادہ نصراللہ خان کی ہے جو فریقین کو بات چیت کے ذریعے غیر ضروری محاذ آرائی، ہنگامہ خیزی اور لڑنے جھگڑنے سے روکے، انصاف کو اپنا قانونی راستہ اختیار کرنے دے اور اپنی توانائیاں عام انتخابات کے لیے بچا رکھیں جن کے انعقاد میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا۔
ایک سر پھرا زمیندار کسانوں میں اپنی زمین واقعی مفت بانٹنا چاہتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک جو جتنی زمین چاہے، اتنی زمین پر نشان لگا کر وہ زمین لے لے، لیکن اسے بہرصورت سورج غروب ہونے سے پہلے اس پوائنٹ پر واپس پہنچنا ہوگا، جہاں سے اس نے زمین پر نشان لگانا شروع کیا تھا، بصورت دیگر نہ صرف یہ کہ وہ معمولی رقم ضبط کرلی جائے گی جو زر ضمانت کے طور پر زمین دار نے اپنے پاس رکھوائی ہے بلکہ اس شخص کی ساری محنت بھی اکارت جائے گی کیونکہ سورج غروب ہونے سے پہلے واپس نہ آنے کی صورت میں اسے زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملے گا۔
یہ غریب کسان اگلے روز فجر کے وقت کدال ہاتھ میں لیے اس پوائنٹ پر پہنچتا ہے، جہاں سے زمین اس نے ''دلنی'' شروع کرنا تھی اور پورے جوش و خروش سے زمین پر نشانہ لگاتا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، پانچ، چھ میل کا رقبہ نشان زدہ کرنے کے بعد وہ سانس لینے کے لیے رکتا ہے، وہ نشان زدہ زمین پر نظر دوڑاتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی حد نہیں رہتی کہ وہ ایک وسیع علاقے کا مالک بن چکا ہے، وہ واپسی کے سفر کا ارادہ کرتا ہے مگر پھر اسے خیال آتا ہے کہ تھوڑے سے فاصلے پر پھلوں کا جو ایک بڑا باغ ہے اسے بھی اپنے رقبے میں شامل کرلے تو پورے علاقے میں اس کی امارت کی دھاک بیٹھ جائے گی۔
چنانچہ وہ دوبارہ کدال ہاتھ میں پکڑ کر اپنا سفر شروع کردیتا ہے۔ اس دوران دوپہر ہوجاتی ہے گرمی کی شدت اسے بے حال کردیتی ہے، پیاس سے اس کی زبان سوکھ کر کانٹا بن جاتی ہے لیکن زمین کی ہوس میں وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، اب اس کا جسم جواب دینے لگتا ہے، چنانچہ وہ واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔
مگر اسے یہ دیکھ کر سخت پریشانی ہوتی ہے کہ سورج ڈوبنے میں صرف دو تین گھنٹے رہ گئے ہیں اور اس کا واپسی کا سفر اس سے کہیں زیادہ لمبا ہے۔ اس کے جسم میں بھی سکت نہیں اور پیاس نے بھی اس کا برا حال کیا ہوا ہے تاہم وہ گھسٹتا گھسٹتا واپسی کا سفر شروع کرتا ہے اور کدال سے نشان لگاتا چلا جاتا ہے۔
جب منزل اس سے صرف ایک فرلانگ کے فاصلے پر رہ جاتی ہے تو وہ گر پڑتا ہے، مگر پھر وہ اپنے جسم کی ساری طاقت بحال کرکے کھڑا ہوا ہے اور چلنا شروع ہوجاتا ہے، اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی ہوتی ہے، اس کے قدم لڑکھڑا رہے ہوتے ہیں اور اس کی زبان میں سوئیاں سی چبھ رہی ہوتی ہیں، سورج غروب ہونے میں چند لمحے باقی ہیں، تاہم وہ ادھر موئے جسم کو تیزی سے گھسیٹتا ہوا سورج غروب ہونے سے پہلے اس پوائنٹ تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور جہاں زمیندار اور گاؤں کے دوسرے لوگ اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ کسان اس پوائنٹ پر پہنچتے ہی گر جاتا ہے، لوگ اس کے قریب جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ مرچکا ہے۔ زمیندار اس کے ہاتھ سے کدال کھینچ کر اپنے ایک مزارعے کی طرف اچھالتا ہے اور کہتا ہے ''اس کی قبر کھود دو، اسے صرف دو گز زمین درکار تھی۔''
مذکورہ بالا کہانی عالمی شہرت یافتہ مصنف ٹالسٹائی کی ایک بہت مشہور کہانی How much land does a man require (ایک انسان کو کتنی زمین کی ضرورت ہوتی ہے؟) ہے۔ ہمیں پاناما اور جے آئی ٹی، سپریم کورٹ، حکمران اور اپوزیشن کی بازگشت کے حوالے سے بہت یاد آرہی ہے۔ یہ بہت عجیب و غریب کہانی ہے، بات تو اس میں وہی کہی گئی ہے جو ہم برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن ٹالسٹائی نے کہانی کو جو ٹریٹ منٹ دیا ہے اس سے یہ کہانی دنیا کے افسانوی ادب کی بہترین کہانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ''ایک انسان کو کتنی زمین کی ضرورت ہوتی ہے؟''
ملکی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے حکمران یا ارباب اختیار، سیاست دان سبھی کے سبھی مال بٹورنے مال بنانے میں مصروف کار ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی لوگوں کی بھاری اکثریت یہی کچھ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پانامہ پیپرز کے حوالے سے بھی دیکھیں تو ہمارے ملک میں یہی عوامل کارفرما نظر آئیں گے۔ ہمارے ملک میں یہ سارا فساد، شور و غل کیوں برپا ہے؟ اس مہم جوئی، کشمکش، لڑائی، جھگڑے اور لعن طعن کی بنیاد کیا ہے؟
موجودہ یا حالیہ فساد اور ذلت و رسوائی کی بنیاد مال و دولت دنیا ہے، رشتے و پیوند ہے۔ اسی لیے قرآن مجید مال و دولت اور اولاد کو فتنہ قرار دیتا ہے۔ویسے بھی انسان اگر مال و دولت کی حرص و ہوس کا غلام بن جائے تو پھر اس ہوس کو لگام دینا اور حرص کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔ انسان دولت کے انبار اکٹھے کرکے اپنی آل کا مستقبل خوشحال بنانے کے جنون میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ انسان کی تدبیر کے علاوہ ایک فیکٹر مقدر کا بھی ہے اور مقدر کا بنیادی اصول یہی ہے کہ جب ہوس انتہا کی حدوں کو چھونے لگے تو تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں اور تقدیر کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
تقدیر کا عمل ذلت اور رسوائی لاتا ہے اور انسان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس دولت و امارت کو وہ عزت، شہرت اور اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے وہ دولت اس کی عزت، شہرت، مقبولیت اور اقتدار کی دشمن بن جاتی ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قدرت ہر انسان کی رسی دراز کرتی ہے لیکن جب قدرت رسی کھینچتی ہے تو انسان کو اپنے علاوہ دوسروں کا بھی حساب دینا پڑتا ہے، اپنے نیک نام بزرگوں کے کفن یا قبر پر پڑتے چھینٹے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
ہر انسان کو یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ اس کی پکڑ اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ اگلے جہان کی پکڑ ہمیں نظر نہیں آتی جب کہ اس جہان کی پکڑ کا تماشا ساری دنیا دیکھتی، سنتی، ہنستی اور افسوس کرتی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ اس سے کوئی بھی ذی شعور سبق حاصل نہیں کرتا۔ آج وطن عزیز میں جو ہنگامہ جو فساد برپا ہے، شور و غوغا، ماتم ہے، ذلت و رسوائی کا بازار گرم ہے اس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور اس سارے فساد کی جڑ دولت، دولت اور صرف دولت ہے اور اس کی ہوس۔
پاناما لیکس کے حوالے سے جاری تحقیقاتی اور عدالتی عمل خصوصاً جے آئی ٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی سطح پر جو افراتفری مچی اس کے زندگی کے ہر شعبے پر منفی اثرات نمایاں ہوئے اور صرف ایک دن میں اسٹاک مارکیٹ بری طرح کریش ہوگئی اور ایک ہی دن میں سرمایہ کاروں کے چار کھرب سے زیادہ روپے ڈوب گئے اور پاناما لیکس کے حوالے سے ملک کے ذمے داروں کی کارگزاری نے پاکستانی وقار، حرمت اور معیشت سبھی کو اندازوں سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری ثقافتی شناخت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری پیش رفت ہماری جدید اسلہ سے مسلح بہادر افواج، ہمارا سیاسی اور معاشی استحکام اور ہمارا اسٹرٹیجک محل وقوع ہماری قومی طاقت کے بنیادی عوامل ہیں جو عالمی برادری کو ہماری بات سننے اور اس میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن ہم داخلی طور پر متحد ہوں گے تو ہمارے موقف کا وزن محسوس کیا جائے گا۔ لیکن افسوس آپس میں دست و گریباں ہونے کی وجہ سے عالمی برادری میں ہم اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ حکومت اور اپوزیشن میں ''عقابوں'' کے علاوہ فاختہ صفت لوگ بھی ہیں جو سیاسی رواداری، مفاہمت اور صبر و تحمل سے معاملات کو یکسو کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس وقت کسی نواب زادہ نصراللہ خان کی ہے جو فریقین کو بات چیت کے ذریعے غیر ضروری محاذ آرائی، ہنگامہ خیزی اور لڑنے جھگڑنے سے روکے، انصاف کو اپنا قانونی راستہ اختیار کرنے دے اور اپنی توانائیاں عام انتخابات کے لیے بچا رکھیں جن کے انعقاد میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا۔