مرے وطن کی فصیلوں میں روشنی رکھنا
زندگی کے اس اسٹیج سے کردار اِن اور آؤٹ ہوتے رہتے ہیں مگر کھیل ہر حال میں جاری رہتا ہے۔
28 جولائی 2017ء کا دن اب ہمیشہ کے لیے تاریخ کی اس بے رحم ڈائری میں محفوظ ہوگیا ہے جس میں طاقتور سے طاقتور اور کمزور سے کمزور، تمام انسان دو بریکٹوں جتنی یکساں جگہ پاتے ہیں۔ (پیدائش۔موت) دیکھا جائے تو یہی اصول قدرے بدلی ہوئی شکل میں اقتدار اور نظریات پر بھی لاگو ہوتا ہے اور وہ جو کسی نے کہا ہے کہ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں تو یہ بات بھی کوئی اتنی غلط نہیں۔
خلاء کیسا اور کتنا ہی ہی کیوں نہ ہو بالآخر بھر جاتا ہے، زندگی کے اس اسٹیج سے کردار اِن اور آؤٹ ہوتے رہتے ہیں مگر کھیل ہر حال میں جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی عمر اس وقت کوئی دو ہفتے کم ستر برس ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں قوموں کی زندگی میں یہ عرصہ بہت معمولی ہوتا ہے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی تک شاید یہ بات کسی حد تک صحیح بھی تھی کہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کی محفوظ اور مصدقہ تاریخ کا کل دورانیہ آٹھ دس ہزار برس کے لگ بھگ ہے اور آسمانی کتابوں سے حاصل کردہ معلومات کے ساتھ ساتھ انسانی اور معاشرتی تہذیب کے آثار بھی کم و بیش یہیں تک ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ ٹائن بی نے کہا تھا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہ اصول اگرچہ عالمگیر ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو حاکم اور طاقتور کہلاتے ہیں۔ ان کے عروج و زوال کے مناظر سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور اس میں کسی خاص قوم، علاقے یا زمانے کی تخصیص بھی نہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ علمی، مذہبی اور صنعتی انقلابات کے باعث یورپ میں اٹھارویں صدی عیسوی کے ہنگامہ میں بادشاہت کا وہ تصور بدلنا شروع ہو گیا تھا جس کا سلسلہ معلوم تاریخ کے ابتدائی ادوار سے جڑا ہوا تھا اور پہلی بار عام آدمی اور ڈھور ڈنگروں میں تفریق کا رویہ اور بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ایک حقیقت بن کر سامنے آ رہا تھا جس کی بہترین مثال وہ اصطلاح ہے جسے انگریزی میں Banovolant Despotism یعنی رحم دل آمریت کہا جاتا ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی اور ضرورت کو سمجھنے کے لیے اسی زمانے کی اردو غزل کے ان دو اشعار سے مدد لی جا سکتی ہے کہ؎
حکم حاکم ہے کہ اس محکمۂ عدل کے بیچ
دست فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی
اور یہ کہ؎
شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاک پا جن کی
ان ہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں بہت ہی کم کسی سیاسی مسئلے پر براہِ راست اظہار خیال کرتا ہوں کہ ایک محاورے کے مطابق ''یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہے'' اور یوں بھی اس میدان کے ''ماہرین'' تعداد میں اس قدر زیادہ ہو گئے ہیں کہ مستثنیات سے قطع نظر اب ان میں فرق اچھے برے سے زیادہ چھوٹے بڑے کا رہ گیا ہے اور ان کی پہچان کا مرحلہ شیخ صاحب کے حرم جیسا ہوگیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک عرب شیخ صاحب نے ایک محفل میں کسی خاتون کو دیکھا اور اس کے حسن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً ہی شادی کا پیغام بھی دے دیا۔ اس خاتون نے مسکرا کر کہا ''ذرا ذہن پہ زور دیجیے میں کچھ عرصہ قبل آپ کی بیوی رہ چکی ہوں۔''
اس موضوع پر کرنے کو اور بھی بہت سی دلچسپ اور پر لطف باتیں ہیں مگر انھیں کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ورنہ وہ مسئلہ جس کے لیے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے بیچ میں ہی رہ جائے گا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ شریف خاندان کی منی ٹریل یا سیاسی تاریخ کیا ہے اور کیا نہیں اور پانامہ کیس کے حوالے سے میاں محمد نواز شریف کو جس طرح سے نااہل قرار دیا گیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط اور یہ کہ فکر اور رویوں کے اعتبار سے ''آخر ہم کب بڑے ہونگے'' اس میں بھی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران بہت سے اچھے اور تعمیری نوعیت کے کام بھی ہوئے ہیں جن کا کریڈٹ اسے ضرور ملنا چاہیے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ اس کے ہم عصروں یعنی زرداری، مشرف، پرویز الٰہی اور بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی جو جو اچھے کام کیے ہیں ان کی تحقیق کی جانی چاہیے کہ محاسبے یا احتساب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ متعلقہ لوگوں کی صرف برائیوں اور کمزوریوں ہی کو شمار کرتے چلے جائیں۔
بدقسمتی سے ان ستر برسوں میں بالعموم اور گزشتہ چالیس برس میں بالخصوص ہم نے اجتماعیت کے رستوں کو چھوڑ کر لڑائی جھگڑے، تفرقہ پرستی اور گروہ بندی کو سیاست سمیت کم و بیش زندگی کے ہر شعبے میں اپنا شعار بنا لیا ہے۔ نئی آنیوالی حکومتیں گزشتہ حکومت کے ملک اور عوام دوست منصوبوں کو صرف اسلیے آگے نہیں بڑھاتیں کہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے کریڈٹ ان کے بجائے کسی اور کو مل جائے گا۔ سیاسی جماعتیں نام تو جمہوریت کا لیتی ہیں مگر عملی طور پر ان میں موروثیت اور آمریت کا ماحول ہے جو Space ہم اپنے لیے مانگتے ہیں وہی دوسروں کو دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے کرنے کے کام سیاسی جماعتوں کے چند ''چنیدہ'' افراد کرتے ہیں اور یوں حکمران لوگ عوام کے ساتھ ساتھ خود اپنے ساتھیوں سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ فی الوقت میاں نواز شریف کی ناہلی پر ان کے مخالفین خوشی اور کامیابی کے جو گیت گا رہے ہیں اس کا وقتی جواز تو سمجھ میں آتا ہے مگر عملی طور پر یہ ان کے اپنے امتحان کا نقطۂ آغاز بھی ہے۔
شریف خاندان پر جو مقدمات قائم ہوئے ہیں وہ ان کا اور عدالتوں کا مسئلہ ہے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستان کی تعمیر و ترقی، سلامتی اور مضبوطی کے لیے جو کام کیا ہے اور جن پالیسیوں کو اپنایا ہے وہ ہم سب کا مسئلہ ہے کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور اس کی بہتری کے لیے کام کرنا ہم سب کی صوابدید نہیں بلکہ فرض ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جزوی اختلافات سے قطع نظر جتنے اچھے اور مثبت کام اس حکومت نے کیے نہ صرف ان کی تحسین واجب ہے بلکہ ان کے تسلسل کو بھی قائم رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان سے محبت ہم سب کا سانجھا ورثہ ہے اور اس میں کوئی بھی اس سے کم نہیں۔
ملک کی ترقی کا طریقہ کار طے کرنے میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر اس کی بنیاد پر کسی کے جذبہ حب الوطنی پر شک کرنا انتہائی غیر مناسب بات ہے۔ 28 جولائی کو جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات اور توجیحات اپنی جگہ لیکن اس کا محرک اور منزل صرف اور صرف پاکستان کی عزت، ترقی، خوشحالی اور اس کے عوام کی یکساں اور انصاف پر مبنی بہتری اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت اور فروغ کو ہی ہونا چاہیے میں نے کوئی چالیس برس قبل بھٹو صاحب کی گرفتاری اور ان پر قائم ہونیوالے مقدمے کے حوالے سے لکھا تھا کہ؎
کوئی چراغ بجھے یا جلے مگر مولا
مرے وطن کی فصیلوں میں روشنی رکھنا
یہی بات میں میاں صاحب کی نااہلی کے اس عدالتی فیصلے کے حوالے سے بھی دہرانا چاہتا ہوں۔ اب یہ دونوں باتیں ہمارے آپ کے ردعمل سے قطع نظر تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور اس سے آگے کا کام وقت کی عدالت کا ہے سو اسے اپنا کرنے دیجیے۔ میں یہ تو ماننے کو تیار ہوں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہمارے اور عالم اسلام کے مشترکہ دشمنوں کے ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی طرف چوہدری نثار نے گزشتہ دنوں اشارہ بھی کیا ہے لیکن میں کسی بھی سیاستدان یا سیاسی پارٹی کو ان کا آلہ کار یا جانتے بوجھتے ہوئے سہولت کار ماننے سے انکاری ہوں۔ نادانستگی یا کم فہمی کی وجہ سے کوئی ان کا حصہ بن تو سکتا ہے مگر کسی کو بھی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور فتوے دینے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ الیکشن 2018ء کا نتیجہ جو بھی نکلے ہر پاکستانی کا پہلا ووٹ ''پاکستان'' ہی کو پڑنا چاہیے کہ باقی سب کے رشتے اسے بنیادی رشتے کا پرتو اور اسی کی Extention ہیں۔
ہر ایک راہ ستارہ فشاں ہے میرے لیے
مرے وطن کی زمیں، آسماں ہے میرے لیے
خلاء کیسا اور کتنا ہی ہی کیوں نہ ہو بالآخر بھر جاتا ہے، زندگی کے اس اسٹیج سے کردار اِن اور آؤٹ ہوتے رہتے ہیں مگر کھیل ہر حال میں جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی عمر اس وقت کوئی دو ہفتے کم ستر برس ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں قوموں کی زندگی میں یہ عرصہ بہت معمولی ہوتا ہے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی تک شاید یہ بات کسی حد تک صحیح بھی تھی کہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کی محفوظ اور مصدقہ تاریخ کا کل دورانیہ آٹھ دس ہزار برس کے لگ بھگ ہے اور آسمانی کتابوں سے حاصل کردہ معلومات کے ساتھ ساتھ انسانی اور معاشرتی تہذیب کے آثار بھی کم و بیش یہیں تک ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ ٹائن بی نے کہا تھا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہ اصول اگرچہ عالمگیر ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو حاکم اور طاقتور کہلاتے ہیں۔ ان کے عروج و زوال کے مناظر سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور اس میں کسی خاص قوم، علاقے یا زمانے کی تخصیص بھی نہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ علمی، مذہبی اور صنعتی انقلابات کے باعث یورپ میں اٹھارویں صدی عیسوی کے ہنگامہ میں بادشاہت کا وہ تصور بدلنا شروع ہو گیا تھا جس کا سلسلہ معلوم تاریخ کے ابتدائی ادوار سے جڑا ہوا تھا اور پہلی بار عام آدمی اور ڈھور ڈنگروں میں تفریق کا رویہ اور بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ایک حقیقت بن کر سامنے آ رہا تھا جس کی بہترین مثال وہ اصطلاح ہے جسے انگریزی میں Banovolant Despotism یعنی رحم دل آمریت کہا جاتا ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی اور ضرورت کو سمجھنے کے لیے اسی زمانے کی اردو غزل کے ان دو اشعار سے مدد لی جا سکتی ہے کہ؎
حکم حاکم ہے کہ اس محکمۂ عدل کے بیچ
دست فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی
اور یہ کہ؎
شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاک پا جن کی
ان ہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں بہت ہی کم کسی سیاسی مسئلے پر براہِ راست اظہار خیال کرتا ہوں کہ ایک محاورے کے مطابق ''یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہے'' اور یوں بھی اس میدان کے ''ماہرین'' تعداد میں اس قدر زیادہ ہو گئے ہیں کہ مستثنیات سے قطع نظر اب ان میں فرق اچھے برے سے زیادہ چھوٹے بڑے کا رہ گیا ہے اور ان کی پہچان کا مرحلہ شیخ صاحب کے حرم جیسا ہوگیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک عرب شیخ صاحب نے ایک محفل میں کسی خاتون کو دیکھا اور اس کے حسن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً ہی شادی کا پیغام بھی دے دیا۔ اس خاتون نے مسکرا کر کہا ''ذرا ذہن پہ زور دیجیے میں کچھ عرصہ قبل آپ کی بیوی رہ چکی ہوں۔''
اس موضوع پر کرنے کو اور بھی بہت سی دلچسپ اور پر لطف باتیں ہیں مگر انھیں کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ورنہ وہ مسئلہ جس کے لیے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے بیچ میں ہی رہ جائے گا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ شریف خاندان کی منی ٹریل یا سیاسی تاریخ کیا ہے اور کیا نہیں اور پانامہ کیس کے حوالے سے میاں محمد نواز شریف کو جس طرح سے نااہل قرار دیا گیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط اور یہ کہ فکر اور رویوں کے اعتبار سے ''آخر ہم کب بڑے ہونگے'' اس میں بھی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران بہت سے اچھے اور تعمیری نوعیت کے کام بھی ہوئے ہیں جن کا کریڈٹ اسے ضرور ملنا چاہیے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ اس کے ہم عصروں یعنی زرداری، مشرف، پرویز الٰہی اور بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی جو جو اچھے کام کیے ہیں ان کی تحقیق کی جانی چاہیے کہ محاسبے یا احتساب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ متعلقہ لوگوں کی صرف برائیوں اور کمزوریوں ہی کو شمار کرتے چلے جائیں۔
بدقسمتی سے ان ستر برسوں میں بالعموم اور گزشتہ چالیس برس میں بالخصوص ہم نے اجتماعیت کے رستوں کو چھوڑ کر لڑائی جھگڑے، تفرقہ پرستی اور گروہ بندی کو سیاست سمیت کم و بیش زندگی کے ہر شعبے میں اپنا شعار بنا لیا ہے۔ نئی آنیوالی حکومتیں گزشتہ حکومت کے ملک اور عوام دوست منصوبوں کو صرف اسلیے آگے نہیں بڑھاتیں کہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے کریڈٹ ان کے بجائے کسی اور کو مل جائے گا۔ سیاسی جماعتیں نام تو جمہوریت کا لیتی ہیں مگر عملی طور پر ان میں موروثیت اور آمریت کا ماحول ہے جو Space ہم اپنے لیے مانگتے ہیں وہی دوسروں کو دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے کرنے کے کام سیاسی جماعتوں کے چند ''چنیدہ'' افراد کرتے ہیں اور یوں حکمران لوگ عوام کے ساتھ ساتھ خود اپنے ساتھیوں سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ فی الوقت میاں نواز شریف کی ناہلی پر ان کے مخالفین خوشی اور کامیابی کے جو گیت گا رہے ہیں اس کا وقتی جواز تو سمجھ میں آتا ہے مگر عملی طور پر یہ ان کے اپنے امتحان کا نقطۂ آغاز بھی ہے۔
شریف خاندان پر جو مقدمات قائم ہوئے ہیں وہ ان کا اور عدالتوں کا مسئلہ ہے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستان کی تعمیر و ترقی، سلامتی اور مضبوطی کے لیے جو کام کیا ہے اور جن پالیسیوں کو اپنایا ہے وہ ہم سب کا مسئلہ ہے کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور اس کی بہتری کے لیے کام کرنا ہم سب کی صوابدید نہیں بلکہ فرض ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جزوی اختلافات سے قطع نظر جتنے اچھے اور مثبت کام اس حکومت نے کیے نہ صرف ان کی تحسین واجب ہے بلکہ ان کے تسلسل کو بھی قائم رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان سے محبت ہم سب کا سانجھا ورثہ ہے اور اس میں کوئی بھی اس سے کم نہیں۔
ملک کی ترقی کا طریقہ کار طے کرنے میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر اس کی بنیاد پر کسی کے جذبہ حب الوطنی پر شک کرنا انتہائی غیر مناسب بات ہے۔ 28 جولائی کو جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات اور توجیحات اپنی جگہ لیکن اس کا محرک اور منزل صرف اور صرف پاکستان کی عزت، ترقی، خوشحالی اور اس کے عوام کی یکساں اور انصاف پر مبنی بہتری اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت اور فروغ کو ہی ہونا چاہیے میں نے کوئی چالیس برس قبل بھٹو صاحب کی گرفتاری اور ان پر قائم ہونیوالے مقدمے کے حوالے سے لکھا تھا کہ؎
کوئی چراغ بجھے یا جلے مگر مولا
مرے وطن کی فصیلوں میں روشنی رکھنا
یہی بات میں میاں صاحب کی نااہلی کے اس عدالتی فیصلے کے حوالے سے بھی دہرانا چاہتا ہوں۔ اب یہ دونوں باتیں ہمارے آپ کے ردعمل سے قطع نظر تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور اس سے آگے کا کام وقت کی عدالت کا ہے سو اسے اپنا کرنے دیجیے۔ میں یہ تو ماننے کو تیار ہوں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہمارے اور عالم اسلام کے مشترکہ دشمنوں کے ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی طرف چوہدری نثار نے گزشتہ دنوں اشارہ بھی کیا ہے لیکن میں کسی بھی سیاستدان یا سیاسی پارٹی کو ان کا آلہ کار یا جانتے بوجھتے ہوئے سہولت کار ماننے سے انکاری ہوں۔ نادانستگی یا کم فہمی کی وجہ سے کوئی ان کا حصہ بن تو سکتا ہے مگر کسی کو بھی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور فتوے دینے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ الیکشن 2018ء کا نتیجہ جو بھی نکلے ہر پاکستانی کا پہلا ووٹ ''پاکستان'' ہی کو پڑنا چاہیے کہ باقی سب کے رشتے اسے بنیادی رشتے کا پرتو اور اسی کی Extention ہیں۔
ہر ایک راہ ستارہ فشاں ہے میرے لیے
مرے وطن کی زمیں، آسماں ہے میرے لیے