ریڈیو کمنٹری کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ریڈیو پاکستان نے دنیا کے چپے چپے میں اپنی کمنٹری ٹیم بھیج کر کرکٹ کی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
PESHAWAR:
محمد ادریس کے پاس موجود ہوں تو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا، کرکٹ، کمنٹری ، شخصیات بلکہ ہر موضوع زیر بحث آیا۔ اسی طرح امپائرنگ کی دنیا کے دو سینئر امپائرز خضر حیات اور محبوب شاہ بھی میرے مہربانوں میں شامل ہیں۔ان کے بارے میں دیر تک بات ہوئی۔ اس دوران ریڈیو کمنٹری کا بھی ذکر ہوا۔ دوسری طرف عرصہ دراز بعد ملنے والی کامیابی پر ابھی تک قومی کرکٹ ٹیم بجا طور پر خوشیاں منا رہی ہے اور تاحال انعامات کا سلسلہ جاری ہے۔ گو پاکستان کرکٹ ٹیم کی انٹرنیشنل مصروفیات میں ابھی کافی وقت ہے لیکن یہاں''ڈبہ کمنٹری'' پر لکھنا مقصود ہے۔
ساحر لدھیانوی کی شہرہ آفاق نظم''تاج محل'' کا ایک شعر ہے۔
''ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''
کچھ ایسا ہی مذاق طویل عرصے سے ریڈیو پاکستان ڈبہ کمنٹری کا سہارا لے کر کرکٹ سے محبت کرنے والوں کا اڑا رہا ہے۔رہتی سہتی کسر من پسند کمنٹیٹرز کے انتخاب نے نکال دی ہے۔ ایک وقت تھا یار دوست ٹی وی پر براہ راست میچ دیکھتے لیکن اس کی آواز بند کر کے کمنٹری کا لطف ریڈیو سے اٹھاتے تھے ان میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔کرکٹ کی خوش قسمتی تھی کہ ابتدا سے ہی عمر قریشی اور جمشید مارکر جیسے لیجنڈز موجود تھے یہاں تک کہ انگریزی سے زیادہ واقفیت نہ رکھنے والے بھی ریڈیو کو ترجیح دیتے پھر افتخار احمد ، طارق رحیم اور شہزاد ہمایوں جیسے گراں قدر کمنٹیٹرز کو دور آیا۔
یہ سبھی میچ کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ ہر کوئی خود کو اسٹیڈیم میں موجود تصور کرتا۔اردو کمنٹری کی مقبولیت میں منیر حسین ا نتھک محنت اور کوششیں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے ضیاِء الحق کو قائل کیا اس کے بعد اردو کمنٹری کو بھی ریڈیو اور ٹی وی پر برابر وقت ملنے لگا۔ ستر اور اسی کی دہائی میں حسن جلیل اور محمد ادریس نے اردو کمنٹری کو چار چاند لگا دیئے جس کے بعد اس روایت کی روشن مشعل حمید اختر ، طارق سعید جیسے براڈ کاسٹرز نے تھام لی۔
ریڈیو پاکستان نے دنیا کے چپے چپے میں اپنی کمنٹری ٹیم بھیج کر کرکٹ کی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ سلسلہ 2011 تک جاری رہا۔ دنیا ترقی کا سفر کرنے لگی لیکن پاکستان میں وہ منحوس لمحات آ گئے جب سامعین کو بے وقوف بنانے کے لئے معاشی مسائل کو جواز بنا کر ریڈیو پاکستان میں ڈبہ کمنٹری کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ پاکستان کے کسی شہر میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ کا حال ایسے بتایا جانے لگا جیسے کمنٹیٹرز میدان میں موجود ہوں۔ڈبہ کمنٹری،کمنٹیٹرز کے انتخاب میں میرٹ سے کھلواڑ اور ٹی وی پر صرف انگریزی کمنٹری شائقین کرکٹ کی کھیل سے محبت کا خوب مذاق اڑا رہی ہے۔
حالیہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے دوران جہاں قومی ٹیم نے غیر متوقع نتائج دے کر قوم کو خوشیوں سے سرشار کیا وہیں ریڈیو پاکستان نے اسلام آباد اسٹوڈیو سے ایسی مایوس کن کمنٹری پیش کی جسے سن کر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کھیل پر مکمل دسترس رکھنے والے کمنٹریٹرز کو سرے سے ہی نظر انداز کیا گیا۔ اس دادا گیری کا مرکزی کردار پی بی سی کے کنٹرولر وحید شیخ تھے۔ یہ بات درست ہے کہ کمنٹیٹرز میں خود غرض حضرات کی کمی نہیں لیکن پہلے ریڈیو پاکستان کے پالیسی ساز آج کی طرح نان پروفیشنل نہ تھے وہ چاپلوسوں اور سفارشیوں کی بجائے میرٹ پر کمنٹیٹرز کا انتخاب کرتے تھے۔
پاکستان کرکٹ کمنٹیٹرز کلب آف پاکستان کو بنے تین سال گزر گئے لیکن غیر فعال تنظیم صرف کاغذی کارروائی ہی ثابت ہوئی۔ چیمپئنز ٹرافی کی کمنٹری کے لئے کنٹرولر ریڈیو پاکستان نے من مانی کرتے ہوئے اسی عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے اپنے ایک دوست کو بذریعہ ہوائی جہاز دوسرے شہر سے کمنٹری کے لئے بلوا لیا۔ ان صاحب کو کرکٹ کی باریکیاں تو درکنار اردو زبان تک بولنا نہ آتی تھی۔ دراصل چیمپئنز ٹرافی کے سترہ میچوں کی کمنٹری بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے لوگوں سے کرائی گئی۔
کمنٹیٹرز غیر ملکی کھلاڑیوں کے درست ناموں تک سے واقف نہ تھے۔ ایک کمنٹیٹر انگلینڈ کے کپتان آئن مورگن کو مسلسل ڈیوڈ مورگن کہتے سنے گئے۔ کمنٹری کی اس بندر بانٹ میں اردو اور انگریزی کے سرکردہ کمنٹیٹرز چشتی مجاہد ، طارق سعید اور طارق رحیم تک کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ریڈیو پاکستان بلکہ ہم سب کے لئے شرمناک بات یہ تھی کہ آل انڈیا ریڈیو نے چیمپئنز ٹرافی کے موقع پر اپنے آٹھ کمنٹیٹرز کی تین ٹیمیں بنا کر انہیں انگلینڈ بھیجا تھا۔
شائقین کرکٹ میڈیم ویوز پر پاکستان کے میچوں کی انگلینڈ سے براہ راست کمنٹری آل انڈیا ریڈیو سے سننے پر مجبور ہوئے۔ ماضی میں ہمیشہ آؤٹ اسٹینڈنگ کیٹگری میں شامل کمنٹیٹرز کو اہمیت دی گئی اور ڈبل اے یا پھر اے کیٹگری۔ انڈین اسپورٹس چینلز نے ہندی میں کمنٹری دینا شروع کر دی لیکن پاکستان میں انگریزوں کے پر وردہ ابھی تک حالات کی نزاکت اور زیادہ تر شائقین کرکٹ کی ذہنی سوجھ بوجھ اور اردو سے محبت کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
پاکستان میں میچ براہ راست دکھانے کے حقوق ایک غیر ملکی چینل ٹین اسپورٹس کے پاس ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک افسر نے غیرملکی چینل کے ایک انڈین ڈائریکٹر سے اردو کمنٹری کرنے کی بات کی تو ان کا جواب تھا پہلے آپ اپنے سرکاری ٹی وی پر تو اردو کمنٹری شروع کرائیں پھر ہم سے بات کیجئے گا۔
Zahid.maqsood@expressnew.tv
مشہور کرکٹ کمنٹیٹرمحمد ادریس سے ایک قلبی رشتہ سالہا سال پہلے بنا جو آج تک قائم ہے ، وہ ان دنوں صاحب فراش ہیں ، فیصل آباد میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
محمد ادریس کے پاس موجود ہوں تو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا، کرکٹ، کمنٹری ، شخصیات بلکہ ہر موضوع زیر بحث آیا۔ اسی طرح امپائرنگ کی دنیا کے دو سینئر امپائرز خضر حیات اور محبوب شاہ بھی میرے مہربانوں میں شامل ہیں۔ان کے بارے میں دیر تک بات ہوئی۔ اس دوران ریڈیو کمنٹری کا بھی ذکر ہوا۔ دوسری طرف عرصہ دراز بعد ملنے والی کامیابی پر ابھی تک قومی کرکٹ ٹیم بجا طور پر خوشیاں منا رہی ہے اور تاحال انعامات کا سلسلہ جاری ہے۔ گو پاکستان کرکٹ ٹیم کی انٹرنیشنل مصروفیات میں ابھی کافی وقت ہے لیکن یہاں''ڈبہ کمنٹری'' پر لکھنا مقصود ہے۔
ساحر لدھیانوی کی شہرہ آفاق نظم''تاج محل'' کا ایک شعر ہے۔
''ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''
کچھ ایسا ہی مذاق طویل عرصے سے ریڈیو پاکستان ڈبہ کمنٹری کا سہارا لے کر کرکٹ سے محبت کرنے والوں کا اڑا رہا ہے۔رہتی سہتی کسر من پسند کمنٹیٹرز کے انتخاب نے نکال دی ہے۔ ایک وقت تھا یار دوست ٹی وی پر براہ راست میچ دیکھتے لیکن اس کی آواز بند کر کے کمنٹری کا لطف ریڈیو سے اٹھاتے تھے ان میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔کرکٹ کی خوش قسمتی تھی کہ ابتدا سے ہی عمر قریشی اور جمشید مارکر جیسے لیجنڈز موجود تھے یہاں تک کہ انگریزی سے زیادہ واقفیت نہ رکھنے والے بھی ریڈیو کو ترجیح دیتے پھر افتخار احمد ، طارق رحیم اور شہزاد ہمایوں جیسے گراں قدر کمنٹیٹرز کو دور آیا۔
یہ سبھی میچ کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ ہر کوئی خود کو اسٹیڈیم میں موجود تصور کرتا۔اردو کمنٹری کی مقبولیت میں منیر حسین ا نتھک محنت اور کوششیں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے ضیاِء الحق کو قائل کیا اس کے بعد اردو کمنٹری کو بھی ریڈیو اور ٹی وی پر برابر وقت ملنے لگا۔ ستر اور اسی کی دہائی میں حسن جلیل اور محمد ادریس نے اردو کمنٹری کو چار چاند لگا دیئے جس کے بعد اس روایت کی روشن مشعل حمید اختر ، طارق سعید جیسے براڈ کاسٹرز نے تھام لی۔
ریڈیو پاکستان نے دنیا کے چپے چپے میں اپنی کمنٹری ٹیم بھیج کر کرکٹ کی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ سلسلہ 2011 تک جاری رہا۔ دنیا ترقی کا سفر کرنے لگی لیکن پاکستان میں وہ منحوس لمحات آ گئے جب سامعین کو بے وقوف بنانے کے لئے معاشی مسائل کو جواز بنا کر ریڈیو پاکستان میں ڈبہ کمنٹری کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ پاکستان کے کسی شہر میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ کا حال ایسے بتایا جانے لگا جیسے کمنٹیٹرز میدان میں موجود ہوں۔ڈبہ کمنٹری،کمنٹیٹرز کے انتخاب میں میرٹ سے کھلواڑ اور ٹی وی پر صرف انگریزی کمنٹری شائقین کرکٹ کی کھیل سے محبت کا خوب مذاق اڑا رہی ہے۔
حالیہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے دوران جہاں قومی ٹیم نے غیر متوقع نتائج دے کر قوم کو خوشیوں سے سرشار کیا وہیں ریڈیو پاکستان نے اسلام آباد اسٹوڈیو سے ایسی مایوس کن کمنٹری پیش کی جسے سن کر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کھیل پر مکمل دسترس رکھنے والے کمنٹریٹرز کو سرے سے ہی نظر انداز کیا گیا۔ اس دادا گیری کا مرکزی کردار پی بی سی کے کنٹرولر وحید شیخ تھے۔ یہ بات درست ہے کہ کمنٹیٹرز میں خود غرض حضرات کی کمی نہیں لیکن پہلے ریڈیو پاکستان کے پالیسی ساز آج کی طرح نان پروفیشنل نہ تھے وہ چاپلوسوں اور سفارشیوں کی بجائے میرٹ پر کمنٹیٹرز کا انتخاب کرتے تھے۔
پاکستان کرکٹ کمنٹیٹرز کلب آف پاکستان کو بنے تین سال گزر گئے لیکن غیر فعال تنظیم صرف کاغذی کارروائی ہی ثابت ہوئی۔ چیمپئنز ٹرافی کی کمنٹری کے لئے کنٹرولر ریڈیو پاکستان نے من مانی کرتے ہوئے اسی عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے اپنے ایک دوست کو بذریعہ ہوائی جہاز دوسرے شہر سے کمنٹری کے لئے بلوا لیا۔ ان صاحب کو کرکٹ کی باریکیاں تو درکنار اردو زبان تک بولنا نہ آتی تھی۔ دراصل چیمپئنز ٹرافی کے سترہ میچوں کی کمنٹری بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے لوگوں سے کرائی گئی۔
کمنٹیٹرز غیر ملکی کھلاڑیوں کے درست ناموں تک سے واقف نہ تھے۔ ایک کمنٹیٹر انگلینڈ کے کپتان آئن مورگن کو مسلسل ڈیوڈ مورگن کہتے سنے گئے۔ کمنٹری کی اس بندر بانٹ میں اردو اور انگریزی کے سرکردہ کمنٹیٹرز چشتی مجاہد ، طارق سعید اور طارق رحیم تک کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ریڈیو پاکستان بلکہ ہم سب کے لئے شرمناک بات یہ تھی کہ آل انڈیا ریڈیو نے چیمپئنز ٹرافی کے موقع پر اپنے آٹھ کمنٹیٹرز کی تین ٹیمیں بنا کر انہیں انگلینڈ بھیجا تھا۔
شائقین کرکٹ میڈیم ویوز پر پاکستان کے میچوں کی انگلینڈ سے براہ راست کمنٹری آل انڈیا ریڈیو سے سننے پر مجبور ہوئے۔ ماضی میں ہمیشہ آؤٹ اسٹینڈنگ کیٹگری میں شامل کمنٹیٹرز کو اہمیت دی گئی اور ڈبل اے یا پھر اے کیٹگری۔ انڈین اسپورٹس چینلز نے ہندی میں کمنٹری دینا شروع کر دی لیکن پاکستان میں انگریزوں کے پر وردہ ابھی تک حالات کی نزاکت اور زیادہ تر شائقین کرکٹ کی ذہنی سوجھ بوجھ اور اردو سے محبت کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
پاکستان میں میچ براہ راست دکھانے کے حقوق ایک غیر ملکی چینل ٹین اسپورٹس کے پاس ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک افسر نے غیرملکی چینل کے ایک انڈین ڈائریکٹر سے اردو کمنٹری کرنے کی بات کی تو ان کا جواب تھا پہلے آپ اپنے سرکاری ٹی وی پر تو اردو کمنٹری شروع کرائیں پھر ہم سے بات کیجئے گا۔
Zahid.maqsood@expressnew.tv