محاذ آرائی سے بچنے کی ضرورت
نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے بھی نظرثانی کا آپشن موجود ہے
پاناما کیس کی سماعت کی دوران اور پھرمیاں محمد نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی کے بعد ملک میں جو عارضی طور پر سیاسی خلا پیدا ہوا ہے، وہ پر ہو گیا ہے، حکمران جماعت بدستور موجود ہے اور اگلے سیٹ اپ کا اعلان ہو چکا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو آگے لے کر چلا جائے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکمران جماعت کے بعض افراد سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے پر مختلف انداز میں اعتراض نما نکتے اٹھا رہے ہیں۔
امر واقعہ یہی ہے کہ وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان نے حقائق اور واقعات کی روشنی میں کیا ہے اور اس حوالے سے فریقین کو مکمل صفائی کا موقع دیا گیا ہے۔ اصولی طور پر قانونی اور آئینی معاملات کو آئینی طریقے سے ہی حل کرنا چاہیے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما کیس کو قانونی انداز میں لڑا گیا ہے اور اس میں اگر کوئی خامیاں رہ گئی ہیں تو اس حوالے سے سارے معاملات ٹرائل کورٹ کے پاس چلے گئے ہیں۔
نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے بھی نظرثانی کا آپشن موجود ہے۔ لہٰذا زیادہ بہتر یہی ہے کہ قانونی معاملے کو قانونی طریقے سے طے کیا جائے اور عدالتوں کے سامنے ثبوت رکھ کر خود کو الزامات سے بری کیا جائے۔ قانونی معاملات پر سیاسی انداز میں بیان بازی کرنا اور اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنا درست طرز عمل نہیں اس سے تنازعات زیادہ بڑھیں گے۔
ادھر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے میاں محمد نوازشریف کی بطور وزیراعظم نااہلی پر سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ اس فیصلے سے دیرینہ پاک چین تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ پاکستان کا ''اندرونی معاملہ'' ہے، چین کو امید ہے کہ پاکستان کی تمام جماعتیں اور طبقات اپنے قومی و ملکی مفادات کی درست ترجیحات کے تعین، اندرونی معاملات کو موزوں طور پر سنبھالنے، اتحاد و استحکام برقرار رکھنے اور معاشی و معاشرتی ترقی پر توجہ رکھنے کے قابل ہیں۔
یوں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سی پیک اور ملک میں جاری دیگر ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ترقیاتی منصوبوں اور حکومتی پالیسیوں کے عدم تسلسل ہی نے ملکی ترقیاتی عمل کو ہمیشہ کمزور کیا اور یہی عاقبت نااندیشانہ طرز عمل ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں غیریقینی کا محرک بنا۔ حقیقت یہی ہے کہ دو ممالک کے درمیان طے پانے والے میگا ترقیاتی منصوبے حکومتوں کے آنے جانے سے متاثر نہیں ہوتے۔
سی پیک جو اس خطے کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ جسے گیم چینجر سے موسوم کیا جاتا ہے، کے بارے میں چین نے تمام خدشات کو رد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وزیراعظم کی تبدیلی کا یہ عمل پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور سی پیک کا منصوبہ اس سیاسی تبدیلی سے متاثر نہیں ہو گا۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات کے حوالے سے بھی پاک چین دوستی سدابہار ثابت ہوئی اور ہر دور کی آزمائشوں میں پوری اتری ہے۔ چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے پر کام جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
دوسری جانب سیاسی منظرنامے کا بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی تو ہوئی ہے مگر حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کی برقرار ہے اور اب اسی پارٹی کے رکن شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم نامزد کر دیا گیا ہے اور جلد ہی مستقل وزیراعظم کا انتخاب بھی کر لیا جائے گا۔ اس طرح ایک ہی پارٹی کی حکومت کا تسلسل برقرار رہنے سے ملک میں جاری بالخصوص چین کے ساتھ ترقیاتی منصوبے متاثر ہونے کا خدشہ مسترد کر دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو آیندہ انتخابات میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے توانائی کے منصوبوں کو بھی اپنے وعدوں کے مطابق جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ وزیراعظم کی نااہلی کے بعد ایک ہی پارٹی کی حکومت کا تسلسل برقرار رہنے سے جمہوریت کو لاحق خطرات کا خدشہ بھی ٹل گیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اقتدار کا حصول ہر سیاسی جماعت کا کلیدی حق ہے مگر یہ حق جمہوریت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی حاصل کیا جانا چاہیے نہ کہ سیاسی عداوت اور مخاصمت کی بنا پر ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ جمہوریت پٹڑی سے اترتی ہوئی محسوس ہونے لگے۔
جمہوری عمل کو برقرار رکھنا جہاں حکومتی پارٹی کی ذمے داری ہوتی ہے وہاں اپوزیشن کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپوزیشن کی جانب سے تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کا عمل ہی جمہوری تسلسل برقرار رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اقتدار کے حصول کا بہترین راستہ انتخابات ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے نہ کہ احتجاجی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ترقیاتی عمل کو نقصان پہنچایا جائے۔
حکومت پر الزامات در الزامات اور اسے ہر جائز وناجائز حربے کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش کبھی قابل ستائش قرار نہیں دی جا سکتی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہر جمہوری حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کے عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے کہ اپوزیشن کے جارحانہ اور مخالفانہ رویے کے باعث منتخب حکومتیں کبھی اپنی مدتیں پوری نہیں کر سکیں اور ہر آنے والی حکومت کو مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا پڑی۔
احتساب اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ اگر اپوزیشن سیاسی مخاصمت کا رویہ اپنا کر یونہی منتخب وزیراعظم کو نکالتی رہی تو ملک کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ ادھر حکمران جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ آئینی اور قانونی معاملات کو سیاسی بنانے سے گریز کرے۔ عدلیہ اور ملک کے دیگر اداروں کے حوالے سے متنازعہ گفتگو کرنا ملک وقوم کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سرحدوں پر حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
حکمران جماعت سیاست میں تلخی لانے کے بجائے ملکی استحکام کے لیے کام کرے اور آئینی معاملات کو عدالتوں میں قانونی ذرایع سے حل کرے۔ بعض حلقے یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی فیملی نے پاناما لیکس کیس میں قانونی جنگ لڑنے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر قانونی لڑائی سنجیدگی سے لڑی جاتی اور عدالت کے سامنے واضح اور ناقابل تردید شواہد رکھے جاتے تو اس کیس کے نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔
بہرحال ابھی وقت نہیں گزرا ہے، کیس ٹرائل کورٹ میں چلا گیا ہے، یہاں حقائق کی بنیاد پر قانونی جنگ لڑی جائے تو نواز شریف اور ان کی فیملی الزامات سے بری بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ضرورت قوم کو متحد کرنے کی ہے اور محاذ آرائی سے بچنے کی ہے۔
امر واقعہ یہی ہے کہ وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان نے حقائق اور واقعات کی روشنی میں کیا ہے اور اس حوالے سے فریقین کو مکمل صفائی کا موقع دیا گیا ہے۔ اصولی طور پر قانونی اور آئینی معاملات کو آئینی طریقے سے ہی حل کرنا چاہیے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما کیس کو قانونی انداز میں لڑا گیا ہے اور اس میں اگر کوئی خامیاں رہ گئی ہیں تو اس حوالے سے سارے معاملات ٹرائل کورٹ کے پاس چلے گئے ہیں۔
نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے بھی نظرثانی کا آپشن موجود ہے۔ لہٰذا زیادہ بہتر یہی ہے کہ قانونی معاملے کو قانونی طریقے سے طے کیا جائے اور عدالتوں کے سامنے ثبوت رکھ کر خود کو الزامات سے بری کیا جائے۔ قانونی معاملات پر سیاسی انداز میں بیان بازی کرنا اور اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنا درست طرز عمل نہیں اس سے تنازعات زیادہ بڑھیں گے۔
ادھر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے میاں محمد نوازشریف کی بطور وزیراعظم نااہلی پر سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ اس فیصلے سے دیرینہ پاک چین تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ پاکستان کا ''اندرونی معاملہ'' ہے، چین کو امید ہے کہ پاکستان کی تمام جماعتیں اور طبقات اپنے قومی و ملکی مفادات کی درست ترجیحات کے تعین، اندرونی معاملات کو موزوں طور پر سنبھالنے، اتحاد و استحکام برقرار رکھنے اور معاشی و معاشرتی ترقی پر توجہ رکھنے کے قابل ہیں۔
یوں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سی پیک اور ملک میں جاری دیگر ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ترقیاتی منصوبوں اور حکومتی پالیسیوں کے عدم تسلسل ہی نے ملکی ترقیاتی عمل کو ہمیشہ کمزور کیا اور یہی عاقبت نااندیشانہ طرز عمل ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں غیریقینی کا محرک بنا۔ حقیقت یہی ہے کہ دو ممالک کے درمیان طے پانے والے میگا ترقیاتی منصوبے حکومتوں کے آنے جانے سے متاثر نہیں ہوتے۔
سی پیک جو اس خطے کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ جسے گیم چینجر سے موسوم کیا جاتا ہے، کے بارے میں چین نے تمام خدشات کو رد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وزیراعظم کی تبدیلی کا یہ عمل پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور سی پیک کا منصوبہ اس سیاسی تبدیلی سے متاثر نہیں ہو گا۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات کے حوالے سے بھی پاک چین دوستی سدابہار ثابت ہوئی اور ہر دور کی آزمائشوں میں پوری اتری ہے۔ چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے پر کام جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
دوسری جانب سیاسی منظرنامے کا بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی تو ہوئی ہے مگر حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کی برقرار ہے اور اب اسی پارٹی کے رکن شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم نامزد کر دیا گیا ہے اور جلد ہی مستقل وزیراعظم کا انتخاب بھی کر لیا جائے گا۔ اس طرح ایک ہی پارٹی کی حکومت کا تسلسل برقرار رہنے سے ملک میں جاری بالخصوص چین کے ساتھ ترقیاتی منصوبے متاثر ہونے کا خدشہ مسترد کر دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو آیندہ انتخابات میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے توانائی کے منصوبوں کو بھی اپنے وعدوں کے مطابق جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ وزیراعظم کی نااہلی کے بعد ایک ہی پارٹی کی حکومت کا تسلسل برقرار رہنے سے جمہوریت کو لاحق خطرات کا خدشہ بھی ٹل گیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اقتدار کا حصول ہر سیاسی جماعت کا کلیدی حق ہے مگر یہ حق جمہوریت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی حاصل کیا جانا چاہیے نہ کہ سیاسی عداوت اور مخاصمت کی بنا پر ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ جمہوریت پٹڑی سے اترتی ہوئی محسوس ہونے لگے۔
جمہوری عمل کو برقرار رکھنا جہاں حکومتی پارٹی کی ذمے داری ہوتی ہے وہاں اپوزیشن کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپوزیشن کی جانب سے تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کا عمل ہی جمہوری تسلسل برقرار رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اقتدار کے حصول کا بہترین راستہ انتخابات ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے نہ کہ احتجاجی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ترقیاتی عمل کو نقصان پہنچایا جائے۔
حکومت پر الزامات در الزامات اور اسے ہر جائز وناجائز حربے کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش کبھی قابل ستائش قرار نہیں دی جا سکتی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہر جمہوری حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کے عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے کہ اپوزیشن کے جارحانہ اور مخالفانہ رویے کے باعث منتخب حکومتیں کبھی اپنی مدتیں پوری نہیں کر سکیں اور ہر آنے والی حکومت کو مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا پڑی۔
احتساب اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ اگر اپوزیشن سیاسی مخاصمت کا رویہ اپنا کر یونہی منتخب وزیراعظم کو نکالتی رہی تو ملک کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ ادھر حکمران جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ آئینی اور قانونی معاملات کو سیاسی بنانے سے گریز کرے۔ عدلیہ اور ملک کے دیگر اداروں کے حوالے سے متنازعہ گفتگو کرنا ملک وقوم کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سرحدوں پر حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
حکمران جماعت سیاست میں تلخی لانے کے بجائے ملکی استحکام کے لیے کام کرے اور آئینی معاملات کو عدالتوں میں قانونی ذرایع سے حل کرے۔ بعض حلقے یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی فیملی نے پاناما لیکس کیس میں قانونی جنگ لڑنے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر قانونی لڑائی سنجیدگی سے لڑی جاتی اور عدالت کے سامنے واضح اور ناقابل تردید شواہد رکھے جاتے تو اس کیس کے نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔
بہرحال ابھی وقت نہیں گزرا ہے، کیس ٹرائل کورٹ میں چلا گیا ہے، یہاں حقائق کی بنیاد پر قانونی جنگ لڑی جائے تو نواز شریف اور ان کی فیملی الزامات سے بری بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ضرورت قوم کو متحد کرنے کی ہے اور محاذ آرائی سے بچنے کی ہے۔