برساتیں اور سندھ

کئی ایسے روڈ بنے ہوئے ہیں جہاں پر نکاسی کا انتظام ہی نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب وہ انسانوں پر راضی ہوتے ہیں تو بارش برساتے ہیں، جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور ہر طرف ہریالی اور خوشحالی ہوجاتی ہے، کیونکہ پانی کی فراوانی ہوتی ہے، پیاسی زمین تر ہوجاتی ہے، گراؤنڈ واٹر میں اضافہ ہوتا ہے، گندا پانی نچلی سطح پر چلا جاتا ہے، دریا میں پانی کے اضافے سے مچھلی اور دوسری آبی نسلیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں، ہر طرف نئے پودے اگتے ہیں، درخت صاف ہوجاتے ہیں، فضا کی آلودگی ختم ہوتی ہے، زمین میں چارہ اگتا ہے، جہاں سے جانور کھا کر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں، ان کی نسل بڑھتی ہے۔

ہمیں دودھ، مکھن، گھی ملتا ہے، چاول، گندم اور دوسری فصل مقدار سے زیادہ بڑھتی ہے، لوگ نہ صرف اپنا بلکہ باقی علاقوں کو اناج بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں اور خوراک کی کمی دور ہوجاتی ہے، خشک سالی ختم ہوجاتی ہے، آبادگار خوشیاں مناتے ہیں اور خوشحالی سے گھروں میں شادیاں اور دوسرے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ بزنس کرنے والوں کے مزے ہوجاتے ہیں۔ درخت پھلوں سے بھر جاتے ہیں جہاں سے نہ صرف ہم بلکہ پرندے بھی اپنا حصہ اٹھاتے ہیں۔

بارشیں آج سے نہیں بلکہ جب سے زمین وجود میں آئی ہے، ہوتی رہتی ہیں، کسی علاقے میں سیلاب آجاتا ہے اور جہاں نہیں پڑتی وہاں صحراؤں میں قحط پڑتا ہے۔ انسان نقل مکانی کرکے بارانی علاقوں میں آکر بس جاتے ہیں، مگر وہاں پر موجود خدا کی باقی مخلوق کہاں جائے، جس میں پرندے اور چرند بھی شامل ہیں۔ سندھ میں پہلے بہت بارش ہوتی تھی، جس کی وجہ سے سندھ خوشحال تھا کیونکہ پانی زمین کو کئی خزانوں سے بھر دیتا ہے، ویسے بھی پانی کو آب حیات کہا جاتا ہے۔

مون سون کی بارش زیادہ دن چلتی تھی۔ تیز بارش سے ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا۔ جیسے ہی بارشیں ختم ہوتیں پانی گلیوں اور روڈ سے کم ہونا شروع ہوجاتا۔ گھروں میں لالٹین جلتی تھی، جس میں گھاسلیٹ ڈالا جاتا تھا، آگ لکڑی سے جلائی جاتی تھی، اس لیے لکڑیوں کو پانی سے بچا کر رکھا جاتا۔ مکان زیادہ تر کچے ہوتے تھے، اس لیے اس کے گرنے کا خطرہ رہتا تھا۔ صبح سورج نکل آتا اور شام پھر بارش آجاتی۔

سردیوں میں بارش تھوڑی تھوڑی پڑتی تھی مگر وہ مسلسل کئی دن چلتی جس سے پانی زیادہ نہیں جمع ہوتا تھا، مگر سردی میں بڑی شدت ہوتی تھی اور اگر ہوا ہو تو پھر سارے لوگ گھروں میں بند ہوجاتے۔ جیسے ہی سورج نکلتا تو پرندے چہچہانا شروع کرتے اور لوگ گھر کو صاف کرنے اور روزگار پر نکل جاتے۔ بارش کی وجہ سے کچے کا علاقہ سرسبز ہوجاتا تھا جس سے وہاں کے لوگ خوش ہوجاتے تھے۔ تھر اور کاچھو میں پانی سے حسین مناظر پیدا ہوجاتے تھے۔ لوگ بارش کی خوشی کے گیت گاتے اور بیج زمین میں ڈالتے۔

اس بارش میں ہم لوگ گھر سے باہر نکل کر کھیلتے تھے، سردیوں میں بھی ٹھنڈی بوتل پیتے مگر ہمیں یہ ڈر نہیں ہوتا کہ گٹر میں گر جائیں گے یا پھر بجلی چلی جائے گی، کیونکہ اس زمانے میں جب بجلی آتی تو وہ تیز بارش میں چلتی رہتی تھی جس کی وجہ سے گلیوں اور روڈ پر جمع پانی موٹر کے ذریعے باہر غیرآباد میدان میں چلا جاتا تھا۔ یہ عالم اس وقت کراچی میں بھی تھا، میرا آنا کراچی میں ہوا 1968 کو اور میری رہائش تھی کورنگی میں۔

بارش موسلادھار ہوتی تھی، بسیں چلتی رہتی تھیں، کہیں بھی پانی جمع نہیں ہوتا، کوئی بجلی نہیں جاتی، کہیں بھی ٹریفک جام نہیں ہوئی، پینے کے پانی کی کوئی کمی نہیں ہوئی، مارکیٹ کھلی رہتی تھیں اور ہم لوگ سینما جاکر فلمیں دیکھتے تھے۔ ہوٹلوں پر کم ہی لوگ جاتے تھے اور گھروں میں ہی پکوڑے اور دوسری چٹپٹی چیزیں بنتی تھیں۔


دریائے سندھ اور کینالز کے پشتے مضبوط ہوتے تھے، کیونکہ آبپاشی محکمے کے افسر اور باقی کام کرنے والے باقاعدہ ڈیوٹی پر رہتے تھے۔ لاڑکانہ شہر میں بھی میونسپل کمیٹی کا عملہ بارش میں بھی اپنا کام کرتا اور اگر کہیں شہر کے چوراہے پر پانی جمع ہوجاتا تو اسے ایک دو گھنٹے کے اندر نکال دیا جاتا تھا۔

شہر میں ایک رونق نظر آتی تھی اور کسی بھی چیز کی Shortage نہیں ہوتی۔ بھینس کے باڑوں سے دودھ مل جاتا، سبزی موجود ہوا کرتی تھی، ہوٹل کھلے رہتے تھے، لوگوں کے ہاتھوں میں چھتریاں ہوتی تھیں، تانگے روڈ پر چلتے نظر آتے تھے اور کئی لوگ اس پر بیٹھ کر پورے شہر کا چکر لگاتے۔ ریلوے اسٹیشن پر جاکر مسافر ٹرین سے اترتے اور چڑھتے لوگوں کو اگر کوئی پریشانی ہوتی تو ان کی مدد کرتے تھے۔

اب سندھ میں ترقی کا دور آیا، جمہوریت نے اپنے پاؤں جمائے، بھٹو صاحب تک تو معاملہ بڑا اچھا اور احسن رہا، مگر اس کے بعد معاملہ بگڑتا گیا، جسے بے نظیر کا دور بھی نہیں سنبھال سکا۔ اس وقت پورے سندھ میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے، بجلی 12 سے 18 گھنٹے روٹھی رہتی ہے اور اگر بارش ہوجائے تو پھر گھنٹوں سے بڑھ کر دنوں تک نہیں آتی۔

کراچی میں بھی ذرا سی بارش ہوئی تو ٹرانسفارمر سے دھماکا ہوا اور پھر کئی گھنٹے بجلی کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ اب لائن کا پانی نہیں ہے، کیونکہ تین دن کے بعد جب پانی دینے کا وقت آتا ہے تو بجلی نہیں ہے۔ بجلی نہ ہونے سے آپ کے فریج میں پڑی ہوئی ساری چیزیں خراب ہوجاتی ہیں۔ گرمی سے پسینے رکتے نہیں، کاکروچ اور چوہے نکل آتے ہیں، گٹر کا پانی بھر جاتا ہے۔

میں یہ سوچتا ہوں کہ لائن کا پانی نہیں ملتا ہے اور کہتے ہیں کہ اوپر سے پانی نہیں آرہا ہے تو پھر ٹینکر کو پانی کہاں سے ملتا ہے۔ جو ہزاروں کی تعداد میں دن رات پانی دینے میں مصروف ہیں۔ بجلی چلی جائے اور کے ای کو فون پر شکایت لکھواؤ تو دس منٹ اس میں لگ جاتے ہیں کہ ابھی یہ ملاؤ ابھی وہ ملاؤ، پھر کہتے ہیں کہ گاڑی نہیں ہے، جب کہ کے ای کے دفتر کے باہر کئی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں اور ان کا عملہ گپ شپ لگا رہا ہوتا ہے یا پھر ہوٹلوں پر چائے پیتے رہتے ہیں۔

اگر ایک گھنٹہ رہتا ہے تو صبح والے آپ کو کہیں گے کہ دوسری شفٹ والے کریں گے، دوسری والے آنے کے بعد ایک گھنٹہ ادھر سے ادھر پھرتے رہیں گے، ان لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بغیر بجلی کے گھر میں عورتیں اور بچے گرمی سے نڈھال ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں جو تھوڑی سی بارش ہوئی تو میں نے دیکھا کہ گلیوں اور روڈ پر پڑا ہوا کچرا بارش کے پانی میں بہت سے لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں آرہا تھا اور اس سے نکلتی ہوئی سڑاند لوگوں کی سانس بند کردیتی تھی۔ میں جہاں بھی گیا مجھے کہیں بھی عملہ پانی نکالتے ہوئے نظر نہیں آیا، گٹروں سے نکلا ہوا پانی روڈ پر جمع ہوکر ٹریفک کو بند کیا ہوا تھا۔

آفس جاتے ہوئے اور وہاں سے واپس گھر لوٹنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ لوگ بسوں کی چھتوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کرائے بھی ڈبل اور پھر بس کے پائیدان پر لٹکتے آنا، زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ جہاں جہاں نئے روڈ بنائے گئے تھے وہاں پر کئی جگہ روڈ بیٹھ گئے تھے اور کئی جگہ ٹوٹ رہے تھے، نالے بغیر صاف کیے ان کو ڈھانپ دیا گیا تھا، اب پانی وہاں سے کیسے پاس ہو؟

کئی ایسے روڈ بنے ہوئے ہیں جہاں پر نکاسی کا انتظام ہی نہیں ہے۔ کئی دنوں تک پانی نہیں نکالا گیا، روڈ پر گندا پانی، کچرا پڑا ہوا ہے اور لگتا ہے کراچی کا کوئی وارث نہیں ہے اور سندھ کے باقی شہروں کا بھی بارش سے پہلے بھی یہ حال تھا اور بارش کے بعد تو بہت ہی برا ہوگیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل نہیں سکتے اور گھروں میں نہیں جاسکتے۔ کچی بستیوں میں بچے، عورتیں اور بزرگ لوگ اپنے کپڑے خراب کرتے ہوئے گلیوں سے گزرتے ہیں۔ مجھے سندھ میں کہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ حکومت کام کر رہی ہے۔ نواز شریف کے بعد اب پیپلز پارٹی سے بھی حساب لیا جائے اور ایسا ہوگا، کیونکہ ایک سے نمٹ کر دوسرے کے پیچھے لگیں گے۔
Load Next Story