ٹوائلٹ ایک پریم کتھا
کاروباری حضرات بھی ٹوائلٹ کی اس سہولت کو بطور کاروبار شروع کرسکتے ہیں
بھارت میں ٹوائلٹ کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ کٹر ہندو جماعت کا نمایندہ جب بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو اس نے بیان دیا کہ وہ بھارت میں پتھر سے مورتی نہیں بلکہ ٹوائلٹ بنائیں گے۔ بھارت میں کروڑوں لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت نہیں، خواتین گاؤں دیہاتوں میں رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتی ہیں، بھارت میں اس اہم مسئلے پر ایک فلم 'ٹوائلٹ ایک پریم کتھا' بھی بنادی گئی۔ فلم کی اداکارہ کا کہنا ہے کہ اس دور میں بھی لوگ ٹوائلٹ جیسی سہولت سے محروم ہیں، یہ ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔
بھارت میں بلاشبہ ٹوائلٹ کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے متعلق مسائل ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں ٹوائلٹ کی کمی کا مسئلہ بھارت کی طرح اتنا شدید نہیں ہے تاہم گھر سے باہر دوران سفر ٹوائلٹ کی کمی خاص کر صاف ستھرے ٹوائلٹ کی کمی کا مسئلہ موجود ہے، البتہ اس طرف ہماری توجہ بھی کم ہے، حالانکہ یہ مسئلہ مریضوں کے لیے خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گردہ میں پتھری کا مسئلہ ہی لے لیں، اس مرض میں مبتلا افراد کو بار بار پانی پینا پڑتا ہے، چنانچہ انھیں بار بار ٹوائلٹ بھی جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ فرض کریں ایک مریض گھر سے اپنے دفتر جانے کے لیے نکلتا ہے اور ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا فاصلہ طے کرتا ہے یا وہ بازار میں کسی کام سے اتنا وقت گزارتا ہے، ذرا سوچیے کہ اس دوران اگر اس کو ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آئے تو وہ کہاں جائے گا۔
پاکستان میں مساجد کی بڑی تعداد یہ مسئلہ بہت حد تک حل کر رہی ہیں، تاہم اب مساجد کے نظم و ضبط میں کافی تبدیلی آچکی ہے، ماضی میں مساجد میں کچے حاجت خانے (باتھ روم) ہوتے تھے، مساجد بھی قیمتی اشیاء سے آراستہ نہیں ہوتی تھیں، چنانچہ مساجد کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے، کوئی مسافر بھی کسی بھی وقت یہاں آکر نہ صرف حاجت خانے استعمال کر سکتا تھا بلکہ رات، دن قیام بھی کرسکتا تھا، مگر اب دور جدید میں مساجد کی یہ سہولیات پہلی جیسی نہیں رہی ہیں، اب حاجت خانے واش روم یا جدید ٹوائلٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کے ٹھیکے مختلف افراد کو دے دیے گئے ہیں، جو نماز کے اوقات میں تو نمازی حضرات کے لیے مفت ہوتے ہیں لیکن باجماعت نماز کے اوقات کے بعد کمرشل نوعیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور آنے والوں سے رقم وصول کی جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ ان میں صفائی کا ہے، عموماً ان ٹوائلٹ میں صفائی کا فقدان نظر آتا ہے اور کسی صفائی پسند انسان کا طہارت کرنا بھی مشکل ترین مرحلہ بن جاتا ہے۔
اگر مساجد کی انتظامیہ اس طرف توجہ دے اور مساجد کے دروازے ماضی کی طرح چوبیس گھنٹے کھلے رکھے تو مسافروں اور مریضوں کو ایک بہتر سہولت میسر آسکتی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ماضی میں تو یہ مساجد چوبیس گھنٹے لوگوں کے لیے کھلی رہتی تھیں مگر جب سے ان میں قیمتی اشیاء اور اسٹرکچر آیا ہے ان کے کھلنے کا دورانیہ کم اور بند رہنے کا دورانیہ زیادہ ہوگیا ہے، حالانکہ مساجد میں خدمت کرنے والے تنخواہ دار خادموں کی تعداد پہلے سے زیادہ نظر آتی ہے۔
ٹوائلٹ میں صفائی نہ ہونے کا مسئلہ پاکستان میں ہر جگہ نظر آتا ہے، ایک سینما سے لے کر یونیورسٹی تک یہی مسئلہ درپیش ہے۔ جامعہ کراچی پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے مگر یہاں بھی تقریباً تمام ہی شعبہ جات میں ٹوائلٹ میں صفائی کم ہی نظر آتی ہے، جب کہ پورے ملک کی طرح یہاں بھی ٹوائلٹ میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن کہیں نظر نہیں آتا۔ یہاں پیون(peon) ٹوائلٹ کے باہر لگے بیسن کے اندر چائے اور کھانے کی پلیٹیں رکھ کر دھوتے نظر آتے ہیں۔
راقم نے ایک شعبے کے افسر کو دیکھا کہ وہ بڑے صفائی پسند تھے، اپنا دفتر انتہائی صاف رکھتے تھے، پیون سے خوب اچھی طرح برتن دھلواتے تھے، انھوں نے اپنے لیے ٹوائلٹ میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن کا بندوبست بھی کیا ہوا تھا، مگر صابن کی یہ سہولت ان کے پیون کو حاصل نہ تھی، وہ ٹوائلٹ جاتا تو بغیر صابن کے پانی سے ہاتھ دھوتا اور پھر اپنے افسر کو ان ہی گندے ہاتھوں سے چائے کی پیالی اور پلیٹیں دھو کر چائے کھانا پیش کرتا تھا۔
ایک مرتبہ راقم کا کراچی آرٹس کونسل کے ٹوائلٹ میں جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی ٹوائلٹ میں صابن دستیاب نہیں ہے۔ایک مسئلہ ہماری ذہنیت کا ہے کہ ہم مغرب سے بڑے متاثر ہوکر اس کی نقالی کرتے ہیں اور اپنے ٹوائلٹ میں ڈبلیو سی کے بجائے کموڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ تفریح کی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اکثر جگہوں پر یہاں تک کہ جامعات میں جہاں انتہائی پڑھے لکھے افراد ہوتے ہیں، دیکھا کہ لوگوں کو کموڈ استعمال کرنا نہیں آتا، لوگوں کی بھاری اکثریت کموڈ استعمال کرنے کے بعد فلش نہیں کرتی، پھر اس کے استعمال کے لیے ٹشو پیپر کی ضرورت ہوتی ہیں، ہمارے ساتھ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہے، ہمارے ہاں بڑے بڑے اداروں میں بھی کموڈ کے ساتھ ٹشو پیپر کی سہولت نہیں ہوتی، جس کے باعث ایک پاک صاف رہنے والے فرد یا نمازی شخص کے لیے کموڈ استعمال کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
ہمارے ایک دوست اکثر ہم سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ اس بات پر کالم لکھوں کہ جب ہم اپنے آپ کو بڑا اور روشن خیال تصور کرکے اپنے ٹوائلٹ میں کموڈ لگا دیتے ہیں تو پھر ٹشو پیپر کیوں نہیں رکھتے؟ اس میں کتنے پیسے لگ جاتے ہیں؟ اگر اتنے ہی غریب ہیں کہ ٹشو پیپر نہیں رکھ سکتے تو پھر کموڈ لگانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
ٹوائلٹ کے حوالے سے ایک مسئلہ قیمتی ٹائلز اور ان کے رنگ کے استعمال کا بھی ہے۔ ٹوائلٹ ایک ایسی ہے کہ جہاں سب سے زیادہ صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے سمجھ دار لوگ ہمیشہ سفید رنگ کے ٹائلز کا انتخاب کرتے ہیں مگر ہم نے دیکھا کہ ایک بڑے میڈیکل سینٹر میں کالے رنگ کی ڈبلیو سی اور ٹائلز لگے ہوئے ہیں، اسی طرح جامعہ کراچی کی مساجد کے ٹوائلٹ میں گہرے کتھئی (براؤن) رنگ کے ٹائلز اور ڈبلیو سی کا استعمال کیا گیا، شاید اس لیے کہ گند نظر نہ آئے، حالانکہ گند نظر نہیں آئے گا تو کوئی صفائی کیسے کرے گا؟ خاص کر کوئی سرکاری ملازم۔
اسی طرح جن گھروں میں ٹوائلٹ بڑے بڑے ہوتے ہیں وہاں لگے ہوئے ٹائلز سے پھسل کر گرنے کے واقعات کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور ان واقعات میں بزرگ افراد شامل ہوتے ہیں کہ وہ اس عمر میں اور بیماری میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتے اور چکنے ٹائلز پر پھسل جاتے ہیں، جس کے باعث ان کی ہڈیوں میں فریکچر ہوجاتا ہے۔ اگر ہم ایسے ٹوائلٹ میں دیوار کے ساتھ پائپ یا پکڑنے کا اسٹینڈ استعمال کریں اور ٹائلز کا ایسا ڈیزائن استعمال کریں جس پر قدم جم سکیں تو زیادہ بہتر ہوگا، اس میں ٹائلز کی صفائی میں دقت تو ہوگی اور وقت بھی صرف ہوگا مگر بزرگ افراد حادثات سے بچ سکتے ہیں۔
راقم نے اس سے قبل بھی اپنے ایک کالم میں اسی قسم کے مسائل کی طرف توجہ دلائی تھی، ان مسائل کا حل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، حکومت کی طرف دیکھے بغیر ہم خود بھی اپنے طور پر یہ مسائل حل کرسکتے ہیں۔ مساجد کی انتظامیہ بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
کاروباری حضرات بھی ٹوائلٹ کی اس سہولت کو بطور کاروبار شروع کرسکتے ہیں، کیونکہ عوامی مقامات پر مثلاً لاری اڈوں پر ٹوائلٹ کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے اور مسافروں کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہوئی بسوں کے ساتھ پیشاب کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان میں جہاں جہاں بھی اندرون ملک سفر کرنے والی بسوں کا اڈا ہوتا ہے وہاں یہ غلاظت اور بدبو کی فضا ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کاروباری حضرات ایسی جگہوں پر تھوڑی تھوڑی تعداد میں بھی ٹوائلٹ کمرشل بنیاد پر بنا لیں تو ان کا کاروبار بھی خوب چلے گا اور عوام کو ایک اچھی سہولت بھی میسر آسکے گی۔ آئیے غور کریں، مسئلہ تو چھوٹا سا ہے مگر ہے اہم۔
بھارت میں بلاشبہ ٹوائلٹ کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے متعلق مسائل ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں ٹوائلٹ کی کمی کا مسئلہ بھارت کی طرح اتنا شدید نہیں ہے تاہم گھر سے باہر دوران سفر ٹوائلٹ کی کمی خاص کر صاف ستھرے ٹوائلٹ کی کمی کا مسئلہ موجود ہے، البتہ اس طرف ہماری توجہ بھی کم ہے، حالانکہ یہ مسئلہ مریضوں کے لیے خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گردہ میں پتھری کا مسئلہ ہی لے لیں، اس مرض میں مبتلا افراد کو بار بار پانی پینا پڑتا ہے، چنانچہ انھیں بار بار ٹوائلٹ بھی جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ فرض کریں ایک مریض گھر سے اپنے دفتر جانے کے لیے نکلتا ہے اور ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا فاصلہ طے کرتا ہے یا وہ بازار میں کسی کام سے اتنا وقت گزارتا ہے، ذرا سوچیے کہ اس دوران اگر اس کو ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آئے تو وہ کہاں جائے گا۔
پاکستان میں مساجد کی بڑی تعداد یہ مسئلہ بہت حد تک حل کر رہی ہیں، تاہم اب مساجد کے نظم و ضبط میں کافی تبدیلی آچکی ہے، ماضی میں مساجد میں کچے حاجت خانے (باتھ روم) ہوتے تھے، مساجد بھی قیمتی اشیاء سے آراستہ نہیں ہوتی تھیں، چنانچہ مساجد کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے، کوئی مسافر بھی کسی بھی وقت یہاں آکر نہ صرف حاجت خانے استعمال کر سکتا تھا بلکہ رات، دن قیام بھی کرسکتا تھا، مگر اب دور جدید میں مساجد کی یہ سہولیات پہلی جیسی نہیں رہی ہیں، اب حاجت خانے واش روم یا جدید ٹوائلٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کے ٹھیکے مختلف افراد کو دے دیے گئے ہیں، جو نماز کے اوقات میں تو نمازی حضرات کے لیے مفت ہوتے ہیں لیکن باجماعت نماز کے اوقات کے بعد کمرشل نوعیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور آنے والوں سے رقم وصول کی جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ ان میں صفائی کا ہے، عموماً ان ٹوائلٹ میں صفائی کا فقدان نظر آتا ہے اور کسی صفائی پسند انسان کا طہارت کرنا بھی مشکل ترین مرحلہ بن جاتا ہے۔
اگر مساجد کی انتظامیہ اس طرف توجہ دے اور مساجد کے دروازے ماضی کی طرح چوبیس گھنٹے کھلے رکھے تو مسافروں اور مریضوں کو ایک بہتر سہولت میسر آسکتی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ماضی میں تو یہ مساجد چوبیس گھنٹے لوگوں کے لیے کھلی رہتی تھیں مگر جب سے ان میں قیمتی اشیاء اور اسٹرکچر آیا ہے ان کے کھلنے کا دورانیہ کم اور بند رہنے کا دورانیہ زیادہ ہوگیا ہے، حالانکہ مساجد میں خدمت کرنے والے تنخواہ دار خادموں کی تعداد پہلے سے زیادہ نظر آتی ہے۔
ٹوائلٹ میں صفائی نہ ہونے کا مسئلہ پاکستان میں ہر جگہ نظر آتا ہے، ایک سینما سے لے کر یونیورسٹی تک یہی مسئلہ درپیش ہے۔ جامعہ کراچی پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے مگر یہاں بھی تقریباً تمام ہی شعبہ جات میں ٹوائلٹ میں صفائی کم ہی نظر آتی ہے، جب کہ پورے ملک کی طرح یہاں بھی ٹوائلٹ میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن کہیں نظر نہیں آتا۔ یہاں پیون(peon) ٹوائلٹ کے باہر لگے بیسن کے اندر چائے اور کھانے کی پلیٹیں رکھ کر دھوتے نظر آتے ہیں۔
راقم نے ایک شعبے کے افسر کو دیکھا کہ وہ بڑے صفائی پسند تھے، اپنا دفتر انتہائی صاف رکھتے تھے، پیون سے خوب اچھی طرح برتن دھلواتے تھے، انھوں نے اپنے لیے ٹوائلٹ میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن کا بندوبست بھی کیا ہوا تھا، مگر صابن کی یہ سہولت ان کے پیون کو حاصل نہ تھی، وہ ٹوائلٹ جاتا تو بغیر صابن کے پانی سے ہاتھ دھوتا اور پھر اپنے افسر کو ان ہی گندے ہاتھوں سے چائے کی پیالی اور پلیٹیں دھو کر چائے کھانا پیش کرتا تھا۔
ایک مرتبہ راقم کا کراچی آرٹس کونسل کے ٹوائلٹ میں جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی ٹوائلٹ میں صابن دستیاب نہیں ہے۔ایک مسئلہ ہماری ذہنیت کا ہے کہ ہم مغرب سے بڑے متاثر ہوکر اس کی نقالی کرتے ہیں اور اپنے ٹوائلٹ میں ڈبلیو سی کے بجائے کموڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ تفریح کی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اکثر جگہوں پر یہاں تک کہ جامعات میں جہاں انتہائی پڑھے لکھے افراد ہوتے ہیں، دیکھا کہ لوگوں کو کموڈ استعمال کرنا نہیں آتا، لوگوں کی بھاری اکثریت کموڈ استعمال کرنے کے بعد فلش نہیں کرتی، پھر اس کے استعمال کے لیے ٹشو پیپر کی ضرورت ہوتی ہیں، ہمارے ساتھ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہے، ہمارے ہاں بڑے بڑے اداروں میں بھی کموڈ کے ساتھ ٹشو پیپر کی سہولت نہیں ہوتی، جس کے باعث ایک پاک صاف رہنے والے فرد یا نمازی شخص کے لیے کموڈ استعمال کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
ہمارے ایک دوست اکثر ہم سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ اس بات پر کالم لکھوں کہ جب ہم اپنے آپ کو بڑا اور روشن خیال تصور کرکے اپنے ٹوائلٹ میں کموڈ لگا دیتے ہیں تو پھر ٹشو پیپر کیوں نہیں رکھتے؟ اس میں کتنے پیسے لگ جاتے ہیں؟ اگر اتنے ہی غریب ہیں کہ ٹشو پیپر نہیں رکھ سکتے تو پھر کموڈ لگانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
ٹوائلٹ کے حوالے سے ایک مسئلہ قیمتی ٹائلز اور ان کے رنگ کے استعمال کا بھی ہے۔ ٹوائلٹ ایک ایسی ہے کہ جہاں سب سے زیادہ صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے سمجھ دار لوگ ہمیشہ سفید رنگ کے ٹائلز کا انتخاب کرتے ہیں مگر ہم نے دیکھا کہ ایک بڑے میڈیکل سینٹر میں کالے رنگ کی ڈبلیو سی اور ٹائلز لگے ہوئے ہیں، اسی طرح جامعہ کراچی کی مساجد کے ٹوائلٹ میں گہرے کتھئی (براؤن) رنگ کے ٹائلز اور ڈبلیو سی کا استعمال کیا گیا، شاید اس لیے کہ گند نظر نہ آئے، حالانکہ گند نظر نہیں آئے گا تو کوئی صفائی کیسے کرے گا؟ خاص کر کوئی سرکاری ملازم۔
اسی طرح جن گھروں میں ٹوائلٹ بڑے بڑے ہوتے ہیں وہاں لگے ہوئے ٹائلز سے پھسل کر گرنے کے واقعات کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور ان واقعات میں بزرگ افراد شامل ہوتے ہیں کہ وہ اس عمر میں اور بیماری میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتے اور چکنے ٹائلز پر پھسل جاتے ہیں، جس کے باعث ان کی ہڈیوں میں فریکچر ہوجاتا ہے۔ اگر ہم ایسے ٹوائلٹ میں دیوار کے ساتھ پائپ یا پکڑنے کا اسٹینڈ استعمال کریں اور ٹائلز کا ایسا ڈیزائن استعمال کریں جس پر قدم جم سکیں تو زیادہ بہتر ہوگا، اس میں ٹائلز کی صفائی میں دقت تو ہوگی اور وقت بھی صرف ہوگا مگر بزرگ افراد حادثات سے بچ سکتے ہیں۔
راقم نے اس سے قبل بھی اپنے ایک کالم میں اسی قسم کے مسائل کی طرف توجہ دلائی تھی، ان مسائل کا حل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، حکومت کی طرف دیکھے بغیر ہم خود بھی اپنے طور پر یہ مسائل حل کرسکتے ہیں۔ مساجد کی انتظامیہ بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
کاروباری حضرات بھی ٹوائلٹ کی اس سہولت کو بطور کاروبار شروع کرسکتے ہیں، کیونکہ عوامی مقامات پر مثلاً لاری اڈوں پر ٹوائلٹ کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے اور مسافروں کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہوئی بسوں کے ساتھ پیشاب کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان میں جہاں جہاں بھی اندرون ملک سفر کرنے والی بسوں کا اڈا ہوتا ہے وہاں یہ غلاظت اور بدبو کی فضا ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کاروباری حضرات ایسی جگہوں پر تھوڑی تھوڑی تعداد میں بھی ٹوائلٹ کمرشل بنیاد پر بنا لیں تو ان کا کاروبار بھی خوب چلے گا اور عوام کو ایک اچھی سہولت بھی میسر آسکے گی۔ آئیے غور کریں، مسئلہ تو چھوٹا سا ہے مگر ہے اہم۔