بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
چوہدری نثار علی نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے صورتحال کو بدل دیا۔
نواز شریف بروز جمعہ 28 جولائی دوپہر بارہ بج کر آٹھ منٹ پرسابق وزیراعظم ہوگئے۔ جمعہ 21 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پاناما پیپرز کے اثرات پاکستان پر شدید طور پر مرتب ہوئے۔ زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ۔ ایسے حالات میں جہاں ہماری برآمدات گھٹ رہی ہوں اور درآمدات خطرے کی لائن عبور کرچکی ہوں اور آئی ایم ایف کا پاکستانی معیشت کے بارے میں انتباہ بھی سامنے آچکا ہو۔ پاکستانی معیشت کا بہت بڑا انحصار بیرونی زرمبادلہ خاصوصاً مڈل ایسٹ سے بھیجے گئے زرمبادلہ پر ہے۔ ایسی صورتحال میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہنا کہ ملکی معاملات بہت گھمبیر ہیں، مبالغہ آمیزی نہیں۔
چوہدری نثار کئی دنوں سے نواز شریف اور حکومت سے اپنے معاملات کی وضاحت کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی پریس کانفرنس کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوتی رہی۔ آخری مرتبہ پریس کانفرنس کو بھی حکومتی بڑوں اور وزراء نے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے چوہدری نثار علی نے ایک اہم ترین پیغام نواز شریف کو پہنچانا تھا جو انھوں نے کامیابی سے پہنچا دیا۔
چوہدری نثار علی کی پریس کانفرنس کی ٹائمنگ بہت زبردست تھی۔ انھوں نے 27 جولائی کو شام 5 بجے پریس کانفرنس کی اور ان کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی شام 7 بج کر چودہ منٹ پر سپریم کورٹ کی طرف سے یہ اہم ترین خبر آگئی کہ اگلے دن جمعہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ اپنے محفوظ فیصلے کا اعلان کرے گا۔ ایک طرف سپریم کورٹ نے اپنے محفوظ فیصلے کا اعلان کرنا تھا کیونکہ دیری ملکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ دوسری طرف چوہدری نثار کے ذریعے اہم پیغام نواز شریف تک پہنچ گیا تو اگلے ہی دن محفوظ فیصلے کا اعلان بھی ہو گیا۔
یہ اہم پیغام کیا تھا بقول چوہدری نثار علی معاملات بہت گھمبیر ہیں میاں صاحب! سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے آپ مان لیں، چاہے یہ آپ کے حق میں ہو یا آپ کے خلاف۔ اداروں سے محاذ آرائی نہ کریں ورنہ دوسری صورت میں ایک طرف ملک کو نقصان ہو گا تو دوسری طرف آپ کو اور پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اس بین السطور پیغام کو نواز شریف نے نہ صرف اچھی طرح سمجھ لیا بلکہ اس پر من و عن عمل بھی کیا جب کہ ان کے کچھ لوگ اداروں سے ٹکراؤ چاہتے تھے۔
چوہدری نثار علی نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے صورتحال کو بدل دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اداروں سے ٹکراؤ ہمیشہ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ جس کے تباہ کن اثرات سے قوم آج تک نہیں نکل سکی۔ وجہ کچھ بھی ہو، جب زمینی حقائق کو نہیں سمجھا جاتا تو نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا سے ٹکر لی۔ یہ بہت بڑا بہادری کا کام تھا جس کی وجہ سے انھیں ہیرو کے طور پر مانا جاتا تھا لیکن ہم نے دیکھنا ہے کہ اس کا نتیجہ ملک و قوم کے حق میں بہتر نکلا یا تباہ کن ثابت ہوا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھٹو کی مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو پھانسی دے دی گئی۔ ان کے دو بیٹوں کو پراسرار طور پر مار دیا گیا، آخر میں ان کی بیٹی کو کھلی سڑک پر بے دردی سے قتل کردیا گیا اور ان کی پارٹی کا پنجاب سے صفایا کرکے جو پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا قلعہ تھا، اندرون سندھ تک محدود کردیا گیا اور سیاست و اقتدار سے بھٹو کی اولاد محروم ہو گئی۔
خود پاکستان کو اس لڑائی میں ضیاء الحق کی طویل آمریت تحفے میں ملی جو اپنے ذاتی اقتدار کے لیے امریکی سامراج کے اشارے پر گیارہ طویل سال ناچتی رہی۔ آخر میں ضیاء الحق کو خود تسلیم کرنا پڑا کہ افغانستان میں امریکی جہاد میں شامل ہوکر سوائے نقصان کرنے کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔ بھٹو صاحب بے شک بہت ذہین تھے ، عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی لیکن جب انھوں نے اس وقت کے عالمی سیاسی حقائق نظر انداز کیے تو ان کی اولاد سمیت پاکستان خون میں ڈوب گیا۔ کیوں کہ اس وقت سوویت یونین کے خلاف امریکی سرد جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں تھی اور امریکی سامراج کی کامیابی میں ذوالفقار علی بھٹو کے اقدامات، تیل کے ہتھیار اور مسلم دنیا کو متحد کرنے کی شکل میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ چنانچہ رکاوٹ ڈالنے والے کو ہٹا دیا گیا۔
بھٹو صاحب سامراج کے خلاف یہ جنگ لڑے بغیر ہار گئے کیونکہ انھوں نے یہ جنگ اپنی قوم کو تیار کیے بغیر خالی ہاتھوں لڑی۔ اس کا خمیازہ انھیں خود اور ملک کو اس طرح بھگتنا پڑا کہ مذہبی جنونیت، دہشتگردی اور دہشتگرد گروہ پاکستان کی پہچان بن گئے۔ رواداری، برداشت، امن اس ملک سے رخصت اور ہر طرح کی شدت پسندی ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی یا بنادی گئی۔ آج ہم بحیثیت پاکستانی قوم اس شدت پسند سوچ کے غلام بن کر رہ گئے ہیں جو امریکی سامراج اور اس کے تابع حکمران طبقوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ یہ تھا بغیر کسی تیاری کے امریکی سامراج سے ٹکر لینے کا نتیجہ۔
چوہدری نثار علی نے اپنی پریس کانفرس میں کہا کہ ملک شدید خطرات میں ہے۔ پاکستان کے اردگرد گہرے خطرات منڈلا رہے ہیں، ملک شدید خطرات میں ہے۔ صرف دو فوجی، میں اور وزیراعظم جانتے ہیں کہ ملک کو گھیرے میں لیا جارہا ہے۔ پاکستان کے اردگرد گہرے بادل منڈلارہے ہیں۔ اس وقت چرچے ہیں بربادیوں کے آسمانوں میں اور ہم لڑائیوں میں مصروف ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ پوری قوم اور تمام پارٹیوں کو قبول کرنا چاہیے۔ اداروں سے ہم آہنگی رکھنی چاہیے۔ انھوں نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ آپ کے خلاف آئے بھی دل بڑا کرکے قوم کو متحد رکھیں۔ آپ نے صرف اپنا نہیں ملک کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ بنگلہ دیش بننے میں بہت سے عوامل تھے لیکن الزام یحییٰ خان پر آیا۔
جیسے ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا اعلان کیا۔ قارئین کے ٹیلیفون آنا شروع ہوگئے کہ آپ کی دی گئی تاریخ پھر صحیح نکلی۔ پچھلے سال میں نے مقدر کے سکندر کے حوالے سے نواز شریف پر کالم لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ہر عروج کا زوال ہے جس طرح زندگی کے بعد موت ہے۔ میں نے چند ماہ پہلے اس بات کی نشاندہی کردی تھی کہ پاناما کیس کا فیصلہ جولائی کے آخر میں آئے گا۔ کیونکہ اس وقت چاند گرہن اور سورج گرہن کے اثرات بھی آنے شروع ہوجائیں گے۔ستمبر کا پہلا ہفتہ اور دسمبر کا آخر آئینی و قانونی اور سیاسی حوالے سے پھر ایک اہم وقت ہے۔
سیل فون:۔ 0346-4527997۔
چوہدری نثار کئی دنوں سے نواز شریف اور حکومت سے اپنے معاملات کی وضاحت کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی پریس کانفرنس کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوتی رہی۔ آخری مرتبہ پریس کانفرنس کو بھی حکومتی بڑوں اور وزراء نے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے چوہدری نثار علی نے ایک اہم ترین پیغام نواز شریف کو پہنچانا تھا جو انھوں نے کامیابی سے پہنچا دیا۔
چوہدری نثار علی کی پریس کانفرنس کی ٹائمنگ بہت زبردست تھی۔ انھوں نے 27 جولائی کو شام 5 بجے پریس کانفرنس کی اور ان کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی شام 7 بج کر چودہ منٹ پر سپریم کورٹ کی طرف سے یہ اہم ترین خبر آگئی کہ اگلے دن جمعہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ اپنے محفوظ فیصلے کا اعلان کرے گا۔ ایک طرف سپریم کورٹ نے اپنے محفوظ فیصلے کا اعلان کرنا تھا کیونکہ دیری ملکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ دوسری طرف چوہدری نثار کے ذریعے اہم پیغام نواز شریف تک پہنچ گیا تو اگلے ہی دن محفوظ فیصلے کا اعلان بھی ہو گیا۔
یہ اہم پیغام کیا تھا بقول چوہدری نثار علی معاملات بہت گھمبیر ہیں میاں صاحب! سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے آپ مان لیں، چاہے یہ آپ کے حق میں ہو یا آپ کے خلاف۔ اداروں سے محاذ آرائی نہ کریں ورنہ دوسری صورت میں ایک طرف ملک کو نقصان ہو گا تو دوسری طرف آپ کو اور پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اس بین السطور پیغام کو نواز شریف نے نہ صرف اچھی طرح سمجھ لیا بلکہ اس پر من و عن عمل بھی کیا جب کہ ان کے کچھ لوگ اداروں سے ٹکراؤ چاہتے تھے۔
چوہدری نثار علی نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے صورتحال کو بدل دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اداروں سے ٹکراؤ ہمیشہ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ جس کے تباہ کن اثرات سے قوم آج تک نہیں نکل سکی۔ وجہ کچھ بھی ہو، جب زمینی حقائق کو نہیں سمجھا جاتا تو نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا سے ٹکر لی۔ یہ بہت بڑا بہادری کا کام تھا جس کی وجہ سے انھیں ہیرو کے طور پر مانا جاتا تھا لیکن ہم نے دیکھنا ہے کہ اس کا نتیجہ ملک و قوم کے حق میں بہتر نکلا یا تباہ کن ثابت ہوا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھٹو کی مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو پھانسی دے دی گئی۔ ان کے دو بیٹوں کو پراسرار طور پر مار دیا گیا، آخر میں ان کی بیٹی کو کھلی سڑک پر بے دردی سے قتل کردیا گیا اور ان کی پارٹی کا پنجاب سے صفایا کرکے جو پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا قلعہ تھا، اندرون سندھ تک محدود کردیا گیا اور سیاست و اقتدار سے بھٹو کی اولاد محروم ہو گئی۔
خود پاکستان کو اس لڑائی میں ضیاء الحق کی طویل آمریت تحفے میں ملی جو اپنے ذاتی اقتدار کے لیے امریکی سامراج کے اشارے پر گیارہ طویل سال ناچتی رہی۔ آخر میں ضیاء الحق کو خود تسلیم کرنا پڑا کہ افغانستان میں امریکی جہاد میں شامل ہوکر سوائے نقصان کرنے کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔ بھٹو صاحب بے شک بہت ذہین تھے ، عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی لیکن جب انھوں نے اس وقت کے عالمی سیاسی حقائق نظر انداز کیے تو ان کی اولاد سمیت پاکستان خون میں ڈوب گیا۔ کیوں کہ اس وقت سوویت یونین کے خلاف امریکی سرد جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں تھی اور امریکی سامراج کی کامیابی میں ذوالفقار علی بھٹو کے اقدامات، تیل کے ہتھیار اور مسلم دنیا کو متحد کرنے کی شکل میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ چنانچہ رکاوٹ ڈالنے والے کو ہٹا دیا گیا۔
بھٹو صاحب سامراج کے خلاف یہ جنگ لڑے بغیر ہار گئے کیونکہ انھوں نے یہ جنگ اپنی قوم کو تیار کیے بغیر خالی ہاتھوں لڑی۔ اس کا خمیازہ انھیں خود اور ملک کو اس طرح بھگتنا پڑا کہ مذہبی جنونیت، دہشتگردی اور دہشتگرد گروہ پاکستان کی پہچان بن گئے۔ رواداری، برداشت، امن اس ملک سے رخصت اور ہر طرح کی شدت پسندی ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی یا بنادی گئی۔ آج ہم بحیثیت پاکستانی قوم اس شدت پسند سوچ کے غلام بن کر رہ گئے ہیں جو امریکی سامراج اور اس کے تابع حکمران طبقوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ یہ تھا بغیر کسی تیاری کے امریکی سامراج سے ٹکر لینے کا نتیجہ۔
چوہدری نثار علی نے اپنی پریس کانفرس میں کہا کہ ملک شدید خطرات میں ہے۔ پاکستان کے اردگرد گہرے خطرات منڈلا رہے ہیں، ملک شدید خطرات میں ہے۔ صرف دو فوجی، میں اور وزیراعظم جانتے ہیں کہ ملک کو گھیرے میں لیا جارہا ہے۔ پاکستان کے اردگرد گہرے بادل منڈلارہے ہیں۔ اس وقت چرچے ہیں بربادیوں کے آسمانوں میں اور ہم لڑائیوں میں مصروف ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ پوری قوم اور تمام پارٹیوں کو قبول کرنا چاہیے۔ اداروں سے ہم آہنگی رکھنی چاہیے۔ انھوں نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ آپ کے خلاف آئے بھی دل بڑا کرکے قوم کو متحد رکھیں۔ آپ نے صرف اپنا نہیں ملک کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ بنگلہ دیش بننے میں بہت سے عوامل تھے لیکن الزام یحییٰ خان پر آیا۔
جیسے ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا اعلان کیا۔ قارئین کے ٹیلیفون آنا شروع ہوگئے کہ آپ کی دی گئی تاریخ پھر صحیح نکلی۔ پچھلے سال میں نے مقدر کے سکندر کے حوالے سے نواز شریف پر کالم لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ہر عروج کا زوال ہے جس طرح زندگی کے بعد موت ہے۔ میں نے چند ماہ پہلے اس بات کی نشاندہی کردی تھی کہ پاناما کیس کا فیصلہ جولائی کے آخر میں آئے گا۔ کیونکہ اس وقت چاند گرہن اور سورج گرہن کے اثرات بھی آنے شروع ہوجائیں گے۔ستمبر کا پہلا ہفتہ اور دسمبر کا آخر آئینی و قانونی اور سیاسی حوالے سے پھر ایک اہم وقت ہے۔
سیل فون:۔ 0346-4527997۔