معاشرے کا تھوڑا سا تعاون خصوصی افراد کو کار آمد بنا دیتا ہے ڈاکٹر فرزانہ سلیمان
بہت سے بصارت سے محروم افراد ایسے ہیں جنہیں امتحانات میں رائٹر بھی نہیں ملتا۔
کتنی شکایات ہیں ہمیں ایک دوسرے سے۔۔۔ ہم میں سے ہر فرد اپنے آپ میں بہت بہتر اور اعلا ہے اور اسے اس معاشرے اور دنیا سے بہت کچھ درکار ہے، ہم نے دوسروں کے لیے اپنے تئیں ہمیشہ اچھا کیا مگر اس کے بدلے میں ہمیں تکلیفیں، مشکلات اور محرومیاں ملیں۔
ہم خواہ کتنے ہی آگے چلے جائیں ہماری نگاہ اکثر اپنے سے اگلوں کو دیکھ کر حسرت اور بعض اوقات حسد میں مبتلا ہوتی ہے، جس کی انتہا عدم اطمینانی اور بے سکونی کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ ہمیں در اصل خود کو حاصل ہونے کے بعد بہت سی سہولیات بلکہ تعیشات تک کی قدر نہیں رہتی اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں جس قدر نعمتیں ملی ہوئی ہیں، شاید بہت سے لوگ اس کے بغیر بھی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم یہ سوچنے کی زحمت بہت کم کرتے ہیں اور شکر کے بہ جائے زیادہ وقت شکوے شکایات کی نذر کردیتے ہیںکہ ہمیں ابھی بہت کچھ مل سکتا تھا، لیکن ہمارا حق مارا گیا اور ہمیں آگے نہیں آنے دیا گیا جس کی وجہ سے ہم ناکام رہے یا مزید آگے تک نہیں جا سکے، لیکن ان شکایات اور خیالات کے برخلاف اگر کسی کو اپنے رب کی رضا پر سراپا شکر ہی شکر دیکھنا ہو تو ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کو دیکھ لے، جو بصارت سے محرومی جیسے حادثے کے باوجود خدا کے آگے عاجز ہیں اور ہر لفظ میں اپنے معاشرے کے لیے بھی شکر گزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان پونا والا کا تعلق میمن برادری سے ہے۔ ان کے دادا سیٹھ عبدالرحمن ہندوستان کی ریاست پونا کے میئر بھی رہے، تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا۔ ابھی ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ آٹھویں جماعت میں انہیں شدید بخار چڑھا، جس کے نتیجے میں ان کی بینائی چلی گئی۔ اس حادثے کے باوجود بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری، پہلے کی طرح اگرچہ اسکول جانا نہیں ہوا لیکن اس ہی برس بہ طور پرائیوٹ امیدوار نہم اور پھر دہم جماعت کا امتحان دیا، جس میں ان کے گھر والوں کے ساتھ بڑے بھائی جاوید کا خصوصی تعاون رہا، پھر سینٹ لارنس کالج سے انٹر اور سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد جامعہ کراچی سے 1985ء میں فلسفے میں ماسٹرز کیا تو احساس ہوا کہ شاید یہ مضمون ان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا تو پھر اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کے مدارج طے کیے۔ اس دوران ہم جماعت طالبات اور سہیلیوں نے ان کے بلند حوصلے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی معاونت جاری رکھی۔
تدریس کے شعبے سے وابستگی کا قصہ سناتے ہوئے ڈاکٹر فرزانہ نے بتایا کہ ان کی قطعی خواہش نہ تھی کہ ملازمت کی جائے، کیوں کہ وہ سمجھتی تھیں کہ تعلیم کا مقصد نوکری نہیں بلکہ اچھا انسان بننا ہے۔ 1988ء میں اسلامک اسٹدیز میں ماسٹرز کرنے کے فوراً بعد اساتذہ کی اسامیاں آئیں تو والد کی خواہش پر انہوں نے اس شعبے سے وابستگی اختیار کر لی اور گورنمنٹ پی سی ایچ ایس کالج میں لیکچرر ہوگئیں، جہاں آج بھی اسلامک اسٹڈیز اور بریل پڑھا رہی ہیں۔
ڈاکٹر فرزانہ خود کو معاشرے کے تعاون کے آگے عاجز پاتی ہیں۔ کالج پڑھنے جاتیں تو ان کی سہیلیاں ان سے پہلے پہنچ کر انتظار کرتیں کہ وہ آئیں تو انہیں ساتھ لے جا سکیں۔ آج بہ حیثیت استاد بھی کالج میں اگر کمرے سے باہر نکلیں تو ان کی شاگرد ہی نہیں، دیگر طالبات بھی دوڑی چلی آتی ہیں کہ ''میم آپ کو کہاں جانا ہے؟'' اور وہ آج کی بچیوں کی بھی اخلاقی بلندی کی قایل ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ اسی طرح ان کی ہم پییشہ ساتھی بھی کسی سے پیچھے نہیں، وہ بھی اکثر انہیں گھر تک چھوڑنے آتی ہیں۔
تدریس سے وابستگی کے بعد انہوں نے اپنے والد کی پی ایچ ڈی کرنے کی تحریک کو بھی آگے بڑھایا، جس کے لیے کالج کے مرحلے سے ہی سوچ بچار شروع کر دی تھی، یوں 1992ء میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن ہوئی اور یہ مرحلہ 1999ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بدقسمتی سے جب انہیں ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری تفویض کی گئی اس وقت ان کے والد اس دنیا میں نہیں تھے، بقول ڈاکٹر فرزانہ کے ''ان کی اس خواہش کی شدت ایسی تھی کہ جیسے کوئی پیاسا پانی کے لیے ترستا ہے۔''
پی ایچ ڈی کا مرحلہ آیا تو انہیں کسی ایسی ساتھی کی ضرورت تھی جو انہیں پڑھ کر سنا سکے اور ان کے کہے گئے املے کو قلم بند کر سکے، ساتھ ہی آمدورفت کے لیے بھی کسی کا ساتھ درکار تھا۔ اس ہی دوران ایک تقریب میں ان کی ملاقات سارہ سے ہوئی، جنہوں نے ڈاکٹر فرزانہ سے دوستی کی خواہش ظاہر کی۔ وہ لانڈھی سے ناظم آباد کا ایک طویل سفر کر کے ان کے پاس آتیں اور ان کے لکھنے پڑھنے کے کام میں مدد دیتیں۔ ان کی وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت آنے کا کہتیں عین اس ہی لمحے میں دستک دے رہی ہوتیں اور پھر کئی کئی گھنٹے ساتھ رہتیں اور گھر جانے کے بعد جب تحریر کو حتمی شکل دیتیں، تب بھی فون پہ پوچھتی رہتیں۔ اس ہی طرح جامعہ کراچی آمدورفت کے لیے بھی انہیں پڑوس میں رہنے والی محسنہ کا ساتھ میسر آیا۔
بقول ڈاکٹر فرزانہ کے انہوں نے اپنے نام کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اس کے ساتھ دیر سویر ہونے کے باوجود ان کے والدین کی خندہ پیشانی کو بھی وہ فراموش نہیں کر سکتیں۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ''ابوالاعلیٰ مودودی، بیسویں صدی کے مسلمان مفکر'' تھا۔ مقالے کے تحقیقی مراحل کے نگراں ڈاکٹر امتیاز احمد تھے، ان کے برونائی جانے کے بعد یہ فرائض ڈاکٹر عبدالرشید نے انجام دیے۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد انہیں یہ علم ہوا کہ وہ پاکستان کی پہلی نابینا خاتون ہیں، جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے 2009ء میں حفظ قرآن کی سعادت بھی حاصل کی۔ بریل سیکھنے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب آفس مینجمنٹ ٹریننگ کورس کے لیے ہندوستان گئی اور لوگوں کو تیزی سے بریل سے استفادہ کرتے دیکھا تو اس طرف مائل ہوئی ورنہ مجھے بریل کے ذریعے لگتا ہی نہیں تھا کہ میں کچھ پڑھ یا لکھ رہی ہوں، لہٰذا وطن واپسی کے فوراً بعد بریل سیکھی۔
ڈاکٹر فرزانہ سے جب ان کی بچپن کی خواہش کی بابت پوچھا گیا تو انہوںنے بتایا کہ وہ پائلٹ بننا چاہتی تھیں، لیکن قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کے والدین کی تربیت کے باعث ان کے بہن بھائیوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا اور کوئی کمی نہیں رہنے دی اور لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کا رجحان نہ ہونے کے باوجود کبھی ایسی کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ ذاتی زندگی کے حوالے سے ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کا کہنا ہے ''شام میں بھائی کے بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ گھر میں کوئی ملازمہ نہیں، روزانہ گھر کی صفائی ستھرائی، کپڑے دھونا، استری کرنا، آلو، پیاز کاٹنا اور کھانا پکانے میں بھی ہاتھ بٹالیتی ہوں۔ گھر کے نوے فی صد کام صبح ساڑھے سات بجے کالج روانگی سے قبل نمٹ جاتے ہیں۔ امی کہتی تھیں کہ صرف تمہیں نظر ہی نہیں آرہا باقی تو سب ٹھیک ٹھاک ہو۔''
ڈاکٹر فرزانہ کے کتب کے ذاتی ذخیرے میں زیادہ تر عام کتب ہی ہیں، بصارت سے محروم افراد کے لیے مخصوص کتب (بریل) کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس کی تو نصابی کتب ہی مکمل دست یاب نہیں۔ کسی بھی کتاب سے کوئی اچھی بات مل جائے تو پسند آجاتی ہے۔ کسی ایک کتاب کا نام لینا مشکل ہے، اس لیے قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کو پسندیدہ قرار نہیں دے سکتی، فرصت میں اس ہی کا ترجمہ وتفسیر زیر مطالعہ رہتی ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ کو بیسیوں شیلڈیں، تمغے اور اعزازات حاصل ہوئے، جن میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورمیں ملنے والا فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور گزشتہ سال ملنے والا تمغہ حسن کارکردگی نمایاں ہے۔
درس وتدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ اب تک چار کتابیں تصنیف کر چکی ہیں۔ جن میں ''قرآن قرآن کی روشنی میں'' ''توبہ قرآن کی روشنی میں'' ''تقویٰ قرآن کی روشنی میں''اور ''تذکرہ آدم قرآن کی روشنی میں''شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فرزانہ پی ای سی ایچ ایس کالج کی کو آرڈینیشن اور ایڈوائزری کمیٹی میں بھی سرگرم رہیں۔ ان کے علاوہ ان کے دو بھائی بھی حادثاتی طور پر بصارت سے محروم ہوئے۔ شاہد میمن غلط ادویات کھانے کے باعث جب کہ خالد احمد کرکٹ کھیلتے ہوئے گیند لگنے کے باعث اس حادثے سے دو چار ہوئے۔ شاہد میمن پاکستان ڈس ایبل فائونڈیشن کے صدر ہیں جب کہ خالد احمد ایک کالج میں پڑھا رہے ہیں۔
اپنی کام یابیوں کے حوالے سے ڈاکٹر فرزانہ کا کہنا ہے کہ ''میری کام یابیوں پر مجھ سے زیادہ دوسرے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ جب میں اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور رشتہ داروں کو مبارک باد دیتے دیکھتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید مجھے خوش ہونا نہیں آتا۔ گھر والوں کے بعد معاشرے کی وجہ سے مجھے یہ حوصلہ ہوا، جو میں نے تمام تر تعلیمی مراحل طے کیے۔ پی ایچ ڈی اور کتب لکھنے تک، اگر کسی بھی موڑ پر معاشرہ مجھے اس طرح نہ سنبھالتا تو میں کس طرح آگے بڑھ سکتی تھی۔ کسی کا تھوڑا سا تعاون ہمارے لیے بہت کار آمد ہو جاتا ہے اور پھرایک وقت آتا ہے کہ جب ہم معاشرے کے کام آنے لگتے ہیں۔''
''رویہ بدلنا ہوگا''
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان نے اپنی تمام تر گفتگو میں جہاں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے تعاون اور حوصلہ افزائی کا ذکر کیا وہیں ایک تلخ حقیقت کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ''بہت سے بصارت سے محروم افراد ایسے ہیں جنہیں امتحانات میں رائٹر بھی نہیں ملتا۔ دوسری طرف گھر والوں کا بھی ان سے سلوک ایسا ہوتا ہے کہ کہیں جاتے ہیں تو انہیں ساتھ نہیں لے کر جاتے حتیٰ کہ گھر کی شادی میں بھی انہیں دوسرے کمروں میں بند کر کے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں تفریق برتی جاتی ہے، میرے ساتھ ایسا نہیں رہا، لیکن یہ بھی تصویرکا دوسرا رخ ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کسی کا ایک جملہ لکھ دینا اور ایک جملہ پڑھ کر سنا دینا کسی کے لیے کتنا بڑا انقلاب بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ ''
عام آدمی کا تعاون
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان نے دوران گفتگو متعدد بار لوگوں کے تعاون کا ذکر کیا۔ خصوصی طور پر معاونین کے نام لینے کے علاوہ انہوں نے معاشرے کے ڈرائیور اور لائبریرین تک کو فراموش نہیں کیا۔ اس ہی طرح جب ان کی والدہ جامعہ کراچی کے پوائنٹ تک انہیں چھوڑنے اور لینے جاتیں تو اسٹاپ پر ایک گنے کے رس والا کھڑا ہوتا تھا، جو ان کی امی کو اپنا اسٹول دے دیتا، ساتھ ہی انہیں یہ خبر بھی دیتا کہ پوائنٹ گزرا یا نہیں؟ بعض اوقات وہ یہ بتاتا کہ اب آپ انتظار نہ کریں، پوائنٹ گزر چکا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ان کے پہنچتے لمحے بس نکلنے ہی والی ہوتی تو وہ سیٹی بجا کر اسے روک لیتا۔ ایک عام آدمی کا اس قدر احساس انہیں حیران کر دیتا کہ یہ وہ آدمی ہے جس نے کوئی باقاعدہ ڈگری نہیں لے رکھی، لیکن فطری طور پر اس کے اندر ایک احساس اور آگہی موجود ہے۔ بہ ظاہر اس کا یہ چھوٹا سا تعاون ان کے لیے بے حد سہولت اور اطمینان کا باعث ہوتا۔
دیگر ممالک کی بہ نسبت یہاں سفید چھڑی والے زیادہ پراعتماد ہیں
ڈاکٹر فرزانہ کو بھارت، سری لنکا، ملائیشیا، فلپائن، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ جانے کا بھی موقع ملا۔ دیگر ممالک کے تجربات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومتی سطح پر یہاں سے زیادہ سہولیات کے باوجود وہاں کے نابینا افراد میں امید اور اعتماد کی کمی نظر آتی تھی اور وہاں باہر نکلنے والی لڑکیوں کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے دست دراز کیے ہوئے ہوں، جب کہ یہاں بصارت سے محروم افراد اعتماد سے سفید چھڑی لیے نکل آتے ہیں۔''
''لوگوں کو انکار کرنے کا حق ہے!''
خصوصی افراد کی معاشرے سے شکایات اور عدم تعاون کا ذکر آیا تو ڈاکٹر فرزانہ سلیمان نے کہا کہ ''ضرورت تو ہماری ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کے پاس جائیں اگر کوئی منع کر دے تو ہمیں شکایت کا حق نہیں کیوں کہ وہ انکار کا حق رکھتے ہیں اور اگر ہمارا کام کرتے ہیں تو یہ ان کا احسان ہے، شاید ایسے افراد پہلے ہی آزمایش کا شکار ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اسے زیادہ محسوس کر جاتے ہیں، جب کہ ایک عام حالت میں بھی کوئی آدمی کسی کے کام کو منع کر سکتا ہے، ایسے افراد گھر میں ہی محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا وہ معاشرے میں بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر اہل خانہ اپنا پورا حق ادا کریں اور اس فرد میں اتنی کمی ہی رہنے دیں جتنا کہ قدرت نے اس میں رکھی، تو ابھی بھی لوگوں میں اتنا احساس ہے کہ وہ مایوس نہیں کرتے۔ رہی بات شکایات کی تو تھوڑے بہت مسائل تو عام لوگوں کے ساتھ بھی ہو ہی جاتے ہیں۔''
ہم خواہ کتنے ہی آگے چلے جائیں ہماری نگاہ اکثر اپنے سے اگلوں کو دیکھ کر حسرت اور بعض اوقات حسد میں مبتلا ہوتی ہے، جس کی انتہا عدم اطمینانی اور بے سکونی کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ ہمیں در اصل خود کو حاصل ہونے کے بعد بہت سی سہولیات بلکہ تعیشات تک کی قدر نہیں رہتی اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں جس قدر نعمتیں ملی ہوئی ہیں، شاید بہت سے لوگ اس کے بغیر بھی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم یہ سوچنے کی زحمت بہت کم کرتے ہیں اور شکر کے بہ جائے زیادہ وقت شکوے شکایات کی نذر کردیتے ہیںکہ ہمیں ابھی بہت کچھ مل سکتا تھا، لیکن ہمارا حق مارا گیا اور ہمیں آگے نہیں آنے دیا گیا جس کی وجہ سے ہم ناکام رہے یا مزید آگے تک نہیں جا سکے، لیکن ان شکایات اور خیالات کے برخلاف اگر کسی کو اپنے رب کی رضا پر سراپا شکر ہی شکر دیکھنا ہو تو ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کو دیکھ لے، جو بصارت سے محرومی جیسے حادثے کے باوجود خدا کے آگے عاجز ہیں اور ہر لفظ میں اپنے معاشرے کے لیے بھی شکر گزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان پونا والا کا تعلق میمن برادری سے ہے۔ ان کے دادا سیٹھ عبدالرحمن ہندوستان کی ریاست پونا کے میئر بھی رہے، تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا۔ ابھی ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ آٹھویں جماعت میں انہیں شدید بخار چڑھا، جس کے نتیجے میں ان کی بینائی چلی گئی۔ اس حادثے کے باوجود بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری، پہلے کی طرح اگرچہ اسکول جانا نہیں ہوا لیکن اس ہی برس بہ طور پرائیوٹ امیدوار نہم اور پھر دہم جماعت کا امتحان دیا، جس میں ان کے گھر والوں کے ساتھ بڑے بھائی جاوید کا خصوصی تعاون رہا، پھر سینٹ لارنس کالج سے انٹر اور سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد جامعہ کراچی سے 1985ء میں فلسفے میں ماسٹرز کیا تو احساس ہوا کہ شاید یہ مضمون ان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا تو پھر اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کے مدارج طے کیے۔ اس دوران ہم جماعت طالبات اور سہیلیوں نے ان کے بلند حوصلے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی معاونت جاری رکھی۔
تدریس کے شعبے سے وابستگی کا قصہ سناتے ہوئے ڈاکٹر فرزانہ نے بتایا کہ ان کی قطعی خواہش نہ تھی کہ ملازمت کی جائے، کیوں کہ وہ سمجھتی تھیں کہ تعلیم کا مقصد نوکری نہیں بلکہ اچھا انسان بننا ہے۔ 1988ء میں اسلامک اسٹدیز میں ماسٹرز کرنے کے فوراً بعد اساتذہ کی اسامیاں آئیں تو والد کی خواہش پر انہوں نے اس شعبے سے وابستگی اختیار کر لی اور گورنمنٹ پی سی ایچ ایس کالج میں لیکچرر ہوگئیں، جہاں آج بھی اسلامک اسٹڈیز اور بریل پڑھا رہی ہیں۔
ڈاکٹر فرزانہ خود کو معاشرے کے تعاون کے آگے عاجز پاتی ہیں۔ کالج پڑھنے جاتیں تو ان کی سہیلیاں ان سے پہلے پہنچ کر انتظار کرتیں کہ وہ آئیں تو انہیں ساتھ لے جا سکیں۔ آج بہ حیثیت استاد بھی کالج میں اگر کمرے سے باہر نکلیں تو ان کی شاگرد ہی نہیں، دیگر طالبات بھی دوڑی چلی آتی ہیں کہ ''میم آپ کو کہاں جانا ہے؟'' اور وہ آج کی بچیوں کی بھی اخلاقی بلندی کی قایل ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ اسی طرح ان کی ہم پییشہ ساتھی بھی کسی سے پیچھے نہیں، وہ بھی اکثر انہیں گھر تک چھوڑنے آتی ہیں۔
تدریس سے وابستگی کے بعد انہوں نے اپنے والد کی پی ایچ ڈی کرنے کی تحریک کو بھی آگے بڑھایا، جس کے لیے کالج کے مرحلے سے ہی سوچ بچار شروع کر دی تھی، یوں 1992ء میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن ہوئی اور یہ مرحلہ 1999ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بدقسمتی سے جب انہیں ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری تفویض کی گئی اس وقت ان کے والد اس دنیا میں نہیں تھے، بقول ڈاکٹر فرزانہ کے ''ان کی اس خواہش کی شدت ایسی تھی کہ جیسے کوئی پیاسا پانی کے لیے ترستا ہے۔''
پی ایچ ڈی کا مرحلہ آیا تو انہیں کسی ایسی ساتھی کی ضرورت تھی جو انہیں پڑھ کر سنا سکے اور ان کے کہے گئے املے کو قلم بند کر سکے، ساتھ ہی آمدورفت کے لیے بھی کسی کا ساتھ درکار تھا۔ اس ہی دوران ایک تقریب میں ان کی ملاقات سارہ سے ہوئی، جنہوں نے ڈاکٹر فرزانہ سے دوستی کی خواہش ظاہر کی۔ وہ لانڈھی سے ناظم آباد کا ایک طویل سفر کر کے ان کے پاس آتیں اور ان کے لکھنے پڑھنے کے کام میں مدد دیتیں۔ ان کی وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت آنے کا کہتیں عین اس ہی لمحے میں دستک دے رہی ہوتیں اور پھر کئی کئی گھنٹے ساتھ رہتیں اور گھر جانے کے بعد جب تحریر کو حتمی شکل دیتیں، تب بھی فون پہ پوچھتی رہتیں۔ اس ہی طرح جامعہ کراچی آمدورفت کے لیے بھی انہیں پڑوس میں رہنے والی محسنہ کا ساتھ میسر آیا۔
بقول ڈاکٹر فرزانہ کے انہوں نے اپنے نام کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اس کے ساتھ دیر سویر ہونے کے باوجود ان کے والدین کی خندہ پیشانی کو بھی وہ فراموش نہیں کر سکتیں۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ''ابوالاعلیٰ مودودی، بیسویں صدی کے مسلمان مفکر'' تھا۔ مقالے کے تحقیقی مراحل کے نگراں ڈاکٹر امتیاز احمد تھے، ان کے برونائی جانے کے بعد یہ فرائض ڈاکٹر عبدالرشید نے انجام دیے۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد انہیں یہ علم ہوا کہ وہ پاکستان کی پہلی نابینا خاتون ہیں، جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے 2009ء میں حفظ قرآن کی سعادت بھی حاصل کی۔ بریل سیکھنے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب آفس مینجمنٹ ٹریننگ کورس کے لیے ہندوستان گئی اور لوگوں کو تیزی سے بریل سے استفادہ کرتے دیکھا تو اس طرف مائل ہوئی ورنہ مجھے بریل کے ذریعے لگتا ہی نہیں تھا کہ میں کچھ پڑھ یا لکھ رہی ہوں، لہٰذا وطن واپسی کے فوراً بعد بریل سیکھی۔
ڈاکٹر فرزانہ سے جب ان کی بچپن کی خواہش کی بابت پوچھا گیا تو انہوںنے بتایا کہ وہ پائلٹ بننا چاہتی تھیں، لیکن قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کے والدین کی تربیت کے باعث ان کے بہن بھائیوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا اور کوئی کمی نہیں رہنے دی اور لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کا رجحان نہ ہونے کے باوجود کبھی ایسی کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ ذاتی زندگی کے حوالے سے ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کا کہنا ہے ''شام میں بھائی کے بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ گھر میں کوئی ملازمہ نہیں، روزانہ گھر کی صفائی ستھرائی، کپڑے دھونا، استری کرنا، آلو، پیاز کاٹنا اور کھانا پکانے میں بھی ہاتھ بٹالیتی ہوں۔ گھر کے نوے فی صد کام صبح ساڑھے سات بجے کالج روانگی سے قبل نمٹ جاتے ہیں۔ امی کہتی تھیں کہ صرف تمہیں نظر ہی نہیں آرہا باقی تو سب ٹھیک ٹھاک ہو۔''
ڈاکٹر فرزانہ کے کتب کے ذاتی ذخیرے میں زیادہ تر عام کتب ہی ہیں، بصارت سے محروم افراد کے لیے مخصوص کتب (بریل) کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس کی تو نصابی کتب ہی مکمل دست یاب نہیں۔ کسی بھی کتاب سے کوئی اچھی بات مل جائے تو پسند آجاتی ہے۔ کسی ایک کتاب کا نام لینا مشکل ہے، اس لیے قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کو پسندیدہ قرار نہیں دے سکتی، فرصت میں اس ہی کا ترجمہ وتفسیر زیر مطالعہ رہتی ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ کو بیسیوں شیلڈیں، تمغے اور اعزازات حاصل ہوئے، جن میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورمیں ملنے والا فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور گزشتہ سال ملنے والا تمغہ حسن کارکردگی نمایاں ہے۔
درس وتدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ اب تک چار کتابیں تصنیف کر چکی ہیں۔ جن میں ''قرآن قرآن کی روشنی میں'' ''توبہ قرآن کی روشنی میں'' ''تقویٰ قرآن کی روشنی میں''اور ''تذکرہ آدم قرآن کی روشنی میں''شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فرزانہ پی ای سی ایچ ایس کالج کی کو آرڈینیشن اور ایڈوائزری کمیٹی میں بھی سرگرم رہیں۔ ان کے علاوہ ان کے دو بھائی بھی حادثاتی طور پر بصارت سے محروم ہوئے۔ شاہد میمن غلط ادویات کھانے کے باعث جب کہ خالد احمد کرکٹ کھیلتے ہوئے گیند لگنے کے باعث اس حادثے سے دو چار ہوئے۔ شاہد میمن پاکستان ڈس ایبل فائونڈیشن کے صدر ہیں جب کہ خالد احمد ایک کالج میں پڑھا رہے ہیں۔
اپنی کام یابیوں کے حوالے سے ڈاکٹر فرزانہ کا کہنا ہے کہ ''میری کام یابیوں پر مجھ سے زیادہ دوسرے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ جب میں اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور رشتہ داروں کو مبارک باد دیتے دیکھتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید مجھے خوش ہونا نہیں آتا۔ گھر والوں کے بعد معاشرے کی وجہ سے مجھے یہ حوصلہ ہوا، جو میں نے تمام تر تعلیمی مراحل طے کیے۔ پی ایچ ڈی اور کتب لکھنے تک، اگر کسی بھی موڑ پر معاشرہ مجھے اس طرح نہ سنبھالتا تو میں کس طرح آگے بڑھ سکتی تھی۔ کسی کا تھوڑا سا تعاون ہمارے لیے بہت کار آمد ہو جاتا ہے اور پھرایک وقت آتا ہے کہ جب ہم معاشرے کے کام آنے لگتے ہیں۔''
''رویہ بدلنا ہوگا''
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان نے اپنی تمام تر گفتگو میں جہاں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے تعاون اور حوصلہ افزائی کا ذکر کیا وہیں ایک تلخ حقیقت کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ''بہت سے بصارت سے محروم افراد ایسے ہیں جنہیں امتحانات میں رائٹر بھی نہیں ملتا۔ دوسری طرف گھر والوں کا بھی ان سے سلوک ایسا ہوتا ہے کہ کہیں جاتے ہیں تو انہیں ساتھ نہیں لے کر جاتے حتیٰ کہ گھر کی شادی میں بھی انہیں دوسرے کمروں میں بند کر کے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں تفریق برتی جاتی ہے، میرے ساتھ ایسا نہیں رہا، لیکن یہ بھی تصویرکا دوسرا رخ ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کسی کا ایک جملہ لکھ دینا اور ایک جملہ پڑھ کر سنا دینا کسی کے لیے کتنا بڑا انقلاب بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ ''
عام آدمی کا تعاون
ڈاکٹر فرزانہ سلیمان نے دوران گفتگو متعدد بار لوگوں کے تعاون کا ذکر کیا۔ خصوصی طور پر معاونین کے نام لینے کے علاوہ انہوں نے معاشرے کے ڈرائیور اور لائبریرین تک کو فراموش نہیں کیا۔ اس ہی طرح جب ان کی والدہ جامعہ کراچی کے پوائنٹ تک انہیں چھوڑنے اور لینے جاتیں تو اسٹاپ پر ایک گنے کے رس والا کھڑا ہوتا تھا، جو ان کی امی کو اپنا اسٹول دے دیتا، ساتھ ہی انہیں یہ خبر بھی دیتا کہ پوائنٹ گزرا یا نہیں؟ بعض اوقات وہ یہ بتاتا کہ اب آپ انتظار نہ کریں، پوائنٹ گزر چکا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ان کے پہنچتے لمحے بس نکلنے ہی والی ہوتی تو وہ سیٹی بجا کر اسے روک لیتا۔ ایک عام آدمی کا اس قدر احساس انہیں حیران کر دیتا کہ یہ وہ آدمی ہے جس نے کوئی باقاعدہ ڈگری نہیں لے رکھی، لیکن فطری طور پر اس کے اندر ایک احساس اور آگہی موجود ہے۔ بہ ظاہر اس کا یہ چھوٹا سا تعاون ان کے لیے بے حد سہولت اور اطمینان کا باعث ہوتا۔
دیگر ممالک کی بہ نسبت یہاں سفید چھڑی والے زیادہ پراعتماد ہیں
ڈاکٹر فرزانہ کو بھارت، سری لنکا، ملائیشیا، فلپائن، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ جانے کا بھی موقع ملا۔ دیگر ممالک کے تجربات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومتی سطح پر یہاں سے زیادہ سہولیات کے باوجود وہاں کے نابینا افراد میں امید اور اعتماد کی کمی نظر آتی تھی اور وہاں باہر نکلنے والی لڑکیوں کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے دست دراز کیے ہوئے ہوں، جب کہ یہاں بصارت سے محروم افراد اعتماد سے سفید چھڑی لیے نکل آتے ہیں۔''
''لوگوں کو انکار کرنے کا حق ہے!''
خصوصی افراد کی معاشرے سے شکایات اور عدم تعاون کا ذکر آیا تو ڈاکٹر فرزانہ سلیمان نے کہا کہ ''ضرورت تو ہماری ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کے پاس جائیں اگر کوئی منع کر دے تو ہمیں شکایت کا حق نہیں کیوں کہ وہ انکار کا حق رکھتے ہیں اور اگر ہمارا کام کرتے ہیں تو یہ ان کا احسان ہے، شاید ایسے افراد پہلے ہی آزمایش کا شکار ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اسے زیادہ محسوس کر جاتے ہیں، جب کہ ایک عام حالت میں بھی کوئی آدمی کسی کے کام کو منع کر سکتا ہے، ایسے افراد گھر میں ہی محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا وہ معاشرے میں بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر اہل خانہ اپنا پورا حق ادا کریں اور اس فرد میں اتنی کمی ہی رہنے دیں جتنا کہ قدرت نے اس میں رکھی، تو ابھی بھی لوگوں میں اتنا احساس ہے کہ وہ مایوس نہیں کرتے۔ رہی بات شکایات کی تو تھوڑے بہت مسائل تو عام لوگوں کے ساتھ بھی ہو ہی جاتے ہیں۔''