آج کل کا کاروبار حیات
ریٹائرڈ افسر اپنے پرانے ماتحتوں کی جرات رندانہ اور بے خوفی پر حیران ہی نہیں ششدر رہ جاتے ہیں۔
LONDON:
میں ایک گھنٹے تک صرف مشاہدہ کرنے کے لیے ایک وزیر با تدبیر کے دفتر میں بیٹھ کر انھیں اپنے حلقہ انتخاب سے سفارشوں کی غرض سے آئے سپورٹر سائلوں کے کام نمٹاتے دیکھتا رہا۔ وہ باری باری قطعی بے توجہی سے لیکن سر ہلا کر سائل کی بات سنتے اور اشارے سے اسے اپنے اسٹاف افسر کے سپرد کر دیتے۔
سامنے بیٹھا افسر پرنٹڈ کاغذوں کے بنڈل میں سے ایک کاغذ اٹھاتا، اس پر متعلقہ افسر مجاز اور سائل کا نام اور کام کی ایک سطر لکھتا، جب اس کے پاس پانچ سات سفارشی رقعے تیار ہو جاتے تو وزیر صاحب ان پر اپنے پرنٹڈ نام اور عہدے کے اوپر دو تین لکیریں بطور دستخط کر کے سائل کو تھما دیتے۔ اس دوران وہ ملاقاتیوں سے بات چیت کرتے، ٹیلیفون کالیں لیتے اور بعض سائلوں کو متعلقہ وزیر یا افسر سے ملانے کے لیے وعدہ کرتے۔ جب وزیر صاحب کوئی اہم فون کال لے رہے ہوتے تو اسٹاف افسر اشارہ سمجھ کر With Compliments of کے پرنٹڈ الفاظ کے نیچے خود ہی دستخط کر کے رقعہ سائل کے حوالے کر دیتا۔
اسٹاف سے معلوم ہوا کہ کئی سائل وزیر صاحب کا رات کو لوٹنے کے وقت ان کے مکان کے باہر اور اسی طرح صبح ان کے گھر سے نکلتے وقت استقبال کر کے اپنی گزارشات پیش کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے۔ میں نے سوچا قانون سازی کرنے اور وزارت چلانے کے لیے تو انھیں غور و فکر کے علاوہ مطالعہ و مشاورت اور فیصلے کرنے کی غرض سے آرام اور تخلیے کی ضرورت پڑتی ہو گی تو دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کھانے پینے سونے کا وقت الگ کر کے ملک و قوم کے لیے کہاں سے وقت مختص کرتے ہوں گے۔
سرکاری افسروں کو امور سرکار نمٹانے کے لیے دفتر ملے ہوتے ہیں، بعض کو فیلڈ ڈیوٹی اور میٹنگوں پر بھی جانا ہوتا ہے۔ چند روز قبل ایک صاحب پریشان حال میرے پاس آئے اور بتایا کہ ہفتے کی دو چھٹیاں چھوڑ کر وہ پانچ روز تک مختلف اوقات میں ایک افسر سے ملنے اپنے ذاتی مسئلے کے حل کے لیے جا رہے ہیں لیکن وہ میٹنگ میں کہیں گئے یا اپنے ہی آفس میں میٹنگ کر رہے ہوتے ہیں، انھوں نے مشورہ طلب کیا تو مجھے یاد آیا کہ اکثر اوقات افسروں کی ایسی مستقل مصروفیت کو Meeting for Eating and Cheating کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
مذکورہ پریشان حال صاحب کے مقابلے میں مجھے ایک بے حد پر اعتماد سوشل قبیلے کا ایک شخص یاد آ گیا جو کیسی بھی اہم اور جینون میٹنگ ہی کیوں نہ ہو اس میں جا گھسنے کا فن جانتا تھا، ایسی ہی ایک میٹنگ میں میری موجودگی میں وہ اسٹاف کے منع کرنے کے باوجود آن گھسا اور افسر مجاز سے بولا کہ میں سائیڈ پر بیٹھتا ہوں، میٹنگ ختم ہونے پر کام بتائوں گا۔ میٹنگ ختم ہوئی صاحب نے مجھے رکنے کے لیے کہا اور ان صاحب سے کام پوچھا۔ انھوں نے بتایا تو افسر مجاز نے جواب دیا کہ یہ صریحاً ناجائز کام ہے، مجھ سے نہ ہو گا۔ اس پر وہ صاحب بولے، یہ تو مجھے بھی معلوم ہے اسی لیے تو فلاں صاحب سے آپ کو ٹیلیفون کروا کے آیا ہوں، اگر جائز کام ہوتا تو وہ آپ نے کرنا ہی تھا، یہ چونکہ ناجائز کام ہے اس لیے مجھے بھی آپ کو بہت بڑی سفارش کروانا پڑی۔
وہ کام ہوا یا نہیں مجھے معلوم نہیں لیکن اب حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ جائز کام کے لیے سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے جب کہ ناجائز کام کرنے اور کروانے والوں کو کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ نہایت آسانی سے انجام پا جاتے ہیں۔ صرف کام کو پہئے لگانے پڑتے ہیں۔کام کروانے کے لیے پہئے لگانے کی بات مجھے چودہ سال قبل جکارتہ میں قالینوں کا کاروبار کرنے والے ایک پاکستانی تاجر ملک محبوب نے بتائی تھی، اس نے بتایا کہ انڈونیشیا میں جائز کمائی کے ساتھ کرپشن ایک متوازی معیشت کے طور پر رواج پا چکی ہے لیکن ترقی بھی ہو رہی ہے اور لوگوں کو روز گار بھی مل جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے حالات آج جیسے برے نہیں تھے، پاکستان میں تو ان دنوں صرف کرپشن اور بری گورننس راج کر رہی ہے اور خلق خدا کسی مسیحا کی منتظر ہے۔
ایک تازہ ترین واقعہ مثال کے لیے کافی ہو گا کہ ایک محفل میں بیٹھے اشخاص میں سے ایک صاحب نے باقی ساتھیوں سے پوچھا بلکہ آفر دی کہ اگر کسی کا کوئی ایسا کام کسی بھی سطح پر رکا یا پھنسا ہو جس میں کروڑوں کا فائدہ ہونا ہو لیکن بظاہر اس میں کامیابی کی امید نہ ہو تو مجھے اس کی تفصیل بتا کر ففٹی ففٹی کی شرط پر دو دن دے دیں، کام ہو جائے گا۔ اس قبیل کے مڈل مین ان دنوں اونچی سطح کی محافل کی جان ہیں۔ ایک ہم نشین نے جب اس مڈل مین سے پوچھا کہ ان کا ایک کام جس محکمے سے متعلق فیصلہ طلب پڑا ہے، اس کے ضابطے اور اصول بڑے سخت ہیں، وہ فائل کو چلنے نہیں دیتے تو وہ Highly Connected شخص ہنس کر بولا، پہیوں پر چلنے والی فائل کو کوئی ضابطہ نہیں روک سکتا۔ آپ یہ کام ففٹی ففٹی کی شرط پر میرے سپرد کریں اور دو دن میں رزلٹ لیں۔
فی زمانہ کوئی وزیر، مشیر، وزیراعلیٰ بلکہ وزیراعظم ایسٹا کوڈ نامی پالیسی و ضوابط کی کتاب کو خاطر میں نہیں لاتا۔ سرکاری ملازموں سے ذاتی ملازموں کی طرح اپنے احکامات پر عمل درآمد کروانے کو ترجیح دیتا ہے با اصول سرکاری ملازم کو اپنے محکمے میں پسند اور برداشت نہیں کرتا اور اہم یا منافع رساں پوسٹ پر تو چن چن کر Yes Minister کے تکیہ کلام والے افسر کو تعینات کرواتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ بڑے صاحب کے احکامات اور خواہشات میں رکاوٹ آتی ہے نہ ماتحت افسر یا عملے کو کوئی پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔
غلط یا ناجائز کام کرنے پر مواخذے یا سزا کا خطرہ یا پھر ضمیر کی ملامت کا خوف ہی آڑے آ سکتا ہے لیکن با اختیار طاقتور اور تحفظ دینے والے باس کی موجودگی اور عدلیہ کے گزشتہ کئی سال سے جاری کردہ تادیبی و تعزیری احکامات کا حشر دیکھنے کے بعد سرکاری افسر کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے اور لکھے پڑھے احکامات اور کاموں کی منظوری تو ایک طرف باس کے اشارہ ابرو پر بھی ایسے ایسے کام کر گزرتے ہیں، ان دنوں دس پندرہ سال سے ریٹائرڈ افسر اپنے پرانے ماتحتوں کی جرات رندانہ اور بے خوفی پر حیران ہی نہیں ششدر رہ جاتے ہیں۔
میں ایک گھنٹے تک صرف مشاہدہ کرنے کے لیے ایک وزیر با تدبیر کے دفتر میں بیٹھ کر انھیں اپنے حلقہ انتخاب سے سفارشوں کی غرض سے آئے سپورٹر سائلوں کے کام نمٹاتے دیکھتا رہا۔ وہ باری باری قطعی بے توجہی سے لیکن سر ہلا کر سائل کی بات سنتے اور اشارے سے اسے اپنے اسٹاف افسر کے سپرد کر دیتے۔
سامنے بیٹھا افسر پرنٹڈ کاغذوں کے بنڈل میں سے ایک کاغذ اٹھاتا، اس پر متعلقہ افسر مجاز اور سائل کا نام اور کام کی ایک سطر لکھتا، جب اس کے پاس پانچ سات سفارشی رقعے تیار ہو جاتے تو وزیر صاحب ان پر اپنے پرنٹڈ نام اور عہدے کے اوپر دو تین لکیریں بطور دستخط کر کے سائل کو تھما دیتے۔ اس دوران وہ ملاقاتیوں سے بات چیت کرتے، ٹیلیفون کالیں لیتے اور بعض سائلوں کو متعلقہ وزیر یا افسر سے ملانے کے لیے وعدہ کرتے۔ جب وزیر صاحب کوئی اہم فون کال لے رہے ہوتے تو اسٹاف افسر اشارہ سمجھ کر With Compliments of کے پرنٹڈ الفاظ کے نیچے خود ہی دستخط کر کے رقعہ سائل کے حوالے کر دیتا۔
اسٹاف سے معلوم ہوا کہ کئی سائل وزیر صاحب کا رات کو لوٹنے کے وقت ان کے مکان کے باہر اور اسی طرح صبح ان کے گھر سے نکلتے وقت استقبال کر کے اپنی گزارشات پیش کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے۔ میں نے سوچا قانون سازی کرنے اور وزارت چلانے کے لیے تو انھیں غور و فکر کے علاوہ مطالعہ و مشاورت اور فیصلے کرنے کی غرض سے آرام اور تخلیے کی ضرورت پڑتی ہو گی تو دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کھانے پینے سونے کا وقت الگ کر کے ملک و قوم کے لیے کہاں سے وقت مختص کرتے ہوں گے۔
سرکاری افسروں کو امور سرکار نمٹانے کے لیے دفتر ملے ہوتے ہیں، بعض کو فیلڈ ڈیوٹی اور میٹنگوں پر بھی جانا ہوتا ہے۔ چند روز قبل ایک صاحب پریشان حال میرے پاس آئے اور بتایا کہ ہفتے کی دو چھٹیاں چھوڑ کر وہ پانچ روز تک مختلف اوقات میں ایک افسر سے ملنے اپنے ذاتی مسئلے کے حل کے لیے جا رہے ہیں لیکن وہ میٹنگ میں کہیں گئے یا اپنے ہی آفس میں میٹنگ کر رہے ہوتے ہیں، انھوں نے مشورہ طلب کیا تو مجھے یاد آیا کہ اکثر اوقات افسروں کی ایسی مستقل مصروفیت کو Meeting for Eating and Cheating کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
مذکورہ پریشان حال صاحب کے مقابلے میں مجھے ایک بے حد پر اعتماد سوشل قبیلے کا ایک شخص یاد آ گیا جو کیسی بھی اہم اور جینون میٹنگ ہی کیوں نہ ہو اس میں جا گھسنے کا فن جانتا تھا، ایسی ہی ایک میٹنگ میں میری موجودگی میں وہ اسٹاف کے منع کرنے کے باوجود آن گھسا اور افسر مجاز سے بولا کہ میں سائیڈ پر بیٹھتا ہوں، میٹنگ ختم ہونے پر کام بتائوں گا۔ میٹنگ ختم ہوئی صاحب نے مجھے رکنے کے لیے کہا اور ان صاحب سے کام پوچھا۔ انھوں نے بتایا تو افسر مجاز نے جواب دیا کہ یہ صریحاً ناجائز کام ہے، مجھ سے نہ ہو گا۔ اس پر وہ صاحب بولے، یہ تو مجھے بھی معلوم ہے اسی لیے تو فلاں صاحب سے آپ کو ٹیلیفون کروا کے آیا ہوں، اگر جائز کام ہوتا تو وہ آپ نے کرنا ہی تھا، یہ چونکہ ناجائز کام ہے اس لیے مجھے بھی آپ کو بہت بڑی سفارش کروانا پڑی۔
وہ کام ہوا یا نہیں مجھے معلوم نہیں لیکن اب حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ جائز کام کے لیے سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے جب کہ ناجائز کام کرنے اور کروانے والوں کو کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ نہایت آسانی سے انجام پا جاتے ہیں۔ صرف کام کو پہئے لگانے پڑتے ہیں۔کام کروانے کے لیے پہئے لگانے کی بات مجھے چودہ سال قبل جکارتہ میں قالینوں کا کاروبار کرنے والے ایک پاکستانی تاجر ملک محبوب نے بتائی تھی، اس نے بتایا کہ انڈونیشیا میں جائز کمائی کے ساتھ کرپشن ایک متوازی معیشت کے طور پر رواج پا چکی ہے لیکن ترقی بھی ہو رہی ہے اور لوگوں کو روز گار بھی مل جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے حالات آج جیسے برے نہیں تھے، پاکستان میں تو ان دنوں صرف کرپشن اور بری گورننس راج کر رہی ہے اور خلق خدا کسی مسیحا کی منتظر ہے۔
ایک تازہ ترین واقعہ مثال کے لیے کافی ہو گا کہ ایک محفل میں بیٹھے اشخاص میں سے ایک صاحب نے باقی ساتھیوں سے پوچھا بلکہ آفر دی کہ اگر کسی کا کوئی ایسا کام کسی بھی سطح پر رکا یا پھنسا ہو جس میں کروڑوں کا فائدہ ہونا ہو لیکن بظاہر اس میں کامیابی کی امید نہ ہو تو مجھے اس کی تفصیل بتا کر ففٹی ففٹی کی شرط پر دو دن دے دیں، کام ہو جائے گا۔ اس قبیل کے مڈل مین ان دنوں اونچی سطح کی محافل کی جان ہیں۔ ایک ہم نشین نے جب اس مڈل مین سے پوچھا کہ ان کا ایک کام جس محکمے سے متعلق فیصلہ طلب پڑا ہے، اس کے ضابطے اور اصول بڑے سخت ہیں، وہ فائل کو چلنے نہیں دیتے تو وہ Highly Connected شخص ہنس کر بولا، پہیوں پر چلنے والی فائل کو کوئی ضابطہ نہیں روک سکتا۔ آپ یہ کام ففٹی ففٹی کی شرط پر میرے سپرد کریں اور دو دن میں رزلٹ لیں۔
فی زمانہ کوئی وزیر، مشیر، وزیراعلیٰ بلکہ وزیراعظم ایسٹا کوڈ نامی پالیسی و ضوابط کی کتاب کو خاطر میں نہیں لاتا۔ سرکاری ملازموں سے ذاتی ملازموں کی طرح اپنے احکامات پر عمل درآمد کروانے کو ترجیح دیتا ہے با اصول سرکاری ملازم کو اپنے محکمے میں پسند اور برداشت نہیں کرتا اور اہم یا منافع رساں پوسٹ پر تو چن چن کر Yes Minister کے تکیہ کلام والے افسر کو تعینات کرواتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ بڑے صاحب کے احکامات اور خواہشات میں رکاوٹ آتی ہے نہ ماتحت افسر یا عملے کو کوئی پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔
غلط یا ناجائز کام کرنے پر مواخذے یا سزا کا خطرہ یا پھر ضمیر کی ملامت کا خوف ہی آڑے آ سکتا ہے لیکن با اختیار طاقتور اور تحفظ دینے والے باس کی موجودگی اور عدلیہ کے گزشتہ کئی سال سے جاری کردہ تادیبی و تعزیری احکامات کا حشر دیکھنے کے بعد سرکاری افسر کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے اور لکھے پڑھے احکامات اور کاموں کی منظوری تو ایک طرف باس کے اشارہ ابرو پر بھی ایسے ایسے کام کر گزرتے ہیں، ان دنوں دس پندرہ سال سے ریٹائرڈ افسر اپنے پرانے ماتحتوں کی جرات رندانہ اور بے خوفی پر حیران ہی نہیں ششدر رہ جاتے ہیں۔