انتخابات ملتوی ہونے کا شور کیوں
معلوم ہوتا ہے کہ سیاپا پارٹیاں نگران سیٹ اپ پر ’’مُک مُکا‘‘ ختم ہونے کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی ہیں۔
جب سے غیر جانبدار نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کا مطالبہ سامنے آیا ہے، پیپلزپارٹی کی طرف سے بالعموم اور ن لیگ کی طرف سے بالخصوص، یہ کہا جا رہا ہے کہ جو پارٹیاں یہ مطالبہ کر رہی ہیں، وہ اصلاً انتخابات کا التوا چاہتی ہیں۔ یہ شور بھی مچایا جا رہا ہے کہ انتخابات ملتوی کیے بغیر انتخابی اصلاحات ہو نا ناممکن ہیں، لہٰذا انتخابی اصلاحات کا مطالبہ بالواسطہ طور پر انتخابات کے التوا کا مطالبہ ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ بھی اس چیخ پکار میں شامل ہے۔ اگرچہ زیادہ تر وہی جانے پہچانے چہرے ہیں، جو اس سے پہلے ایک عرصے تک وسط مدتی انتخابات کی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں۔ اس لیے تعجب نہیں کہ اب جب کہ انتخابات کے التوا کا بظاہر امکان نظر نہیں آ رہا، یہ انتخابات کے التوا کی خبریں گھڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ نہ فوج پر انگلی اٹھاتے ہیں اور نہ عدلیہ پر۔ لے دے کے ایک ہی بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ یہ مطالبہ کرنے والے انتخابات سے راہِ فرار چاہتے ہیں۔ لیکن، یہ بالکل بے دلیل بات ہے۔ مثلاً یہ چوہدری پرویز الٰہی ہیں، جنھوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں غیر جانب دارانہ طور پر ادا نہیں کررہا۔
انھوں نے ضمنی انتخابات کے متعدد تجربات کے بعد کہی تھی۔ لیکن، وہ یہ کیوں چاہیں گے کہ انتخابات ملتوی ہوں، چوہدری پرویز الٰہی ان گنے چنے سیاستدانوں میں شامل ہیں، جو 1985سے 2008 تک مسلسل انتخابات لڑتے اور جیتتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف رہے ہیں۔ اب نائب وزیرِ اعظم ہیں۔ آیندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے امیدوار ہیں۔ اُن کی پارٹی، مسلم لیگ ق تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ وہ کیوں انتخابات سے خائف ہوں گے۔ پھر، الطاف حسین کو انتخابات سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے، جب کہ 1988 سے 2008 تک، ان کی زیرِ قیادت کراچی میں ایم کیو ایم متواتر جیت رہی ہے۔
اور، عمران خان انتخابات سے کیوں بھاگیں گے، کہ ان انتخابات سے عمران خان کی ساری امیدیں جڑی ہیں۔ طاہر القادری کو انتخابات کے التوا میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، کہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ، اور اُن کے خاندان کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ اگر واقعی وہ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں، تو یہ خواہش 16 جنوری کو بہ آسانی پوری ہو سکتی تھی۔ مطلب یہ کہ مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک پر یہ جو الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ پارٹیاں انتخابات کا التوا چاہتی ہیں، خلافِ واقعہ ہے۔
اب اس معاملے پر ایک اور زاویہ سے نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ن لیگ ہے، جو یہ باور کرا رہی ہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، اور یہ کہ یہ سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ ن لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آئی آر آئی اور گیلپ سروے کی روشنی میں خود کو مقبول ترین پارٹی سمجھتی ہے۔ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ چونکہ وہ مقبول ترین پارٹی ہے اور نوازشریف مقبول ترین لیڈر، اور انتخابات ملتوی کیے بغیر، ن لیگ کو برسرِاقتدار آنے اور نوازشریف کو تیسری بار وزیر ِاعظم بننے سے روکا نہیں جا سکتا، اس لیے ن لیگ مخالف پارٹیاں انتخابات ملتوی کرانے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ لیکن ن لیگ کی خواہشات اپنی جگہ، زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ چار میں سے تین صوبوں، سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ن لیگ کا انتخابی وجود برائے نام ہے۔ ''جنوبی پنجاب'' صوبہ بے شک بنا تو نہیں، لیکن اس کی انتخابی سیاست، وسطی پنجاب کی انتخابی سیاست سے قریب قریب کٹ چکی ہے۔ یہ صرف چوہدری پرویز الٰہی کا دور ِحکومت ہے، جس کو جنوبی پنجاب کے لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں۔ ن لیگ جنوبی پنجاب میں عملاً صوبہ مخالف پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بعد جنوبی پنجاب میں بھی ن لیگ کی پوزیشن بہتر نظر نہیں آتی۔ اس پر مستزاد، وسطی پنجاب میں عمران خان اور طاہر القادری بھی ن لیگ کا ووٹ بینک توڑ یں گے ۔
اندازہ یہ ہے کہ ن لیگ بھی جان چکی ہے کہ آگے مطلع صاف نہیں۔ لہٰذا، وہ حوصلہ نہیں کر پا رہی کہ نگران حکومت یا الیکشن کمیشن میں ایسے چہرے نظر آئیں، جو ان کے لیے اجنبی ہوں۔ طاہر القادری نے '' نگران سیٹ اپ'' پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ''مک مکا'' کو جس طرح غیر موثر کیا ہے، یہ پیپلز پارٹی سے زیادہ ن لیگ کے لیے دھچکا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ صدر آصف زرداری، نواز شریف کو باضابطہ طور پر یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ نگران سیٹ اپ پر ''مُک مُکا'' اب ممکن نہیں رہا، بہتر یہ ہے کہ اس پر اصرار نہ کریں۔ اس کے بعد ہی ن لیگ اب پورا زور لگا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ لیکن ن لیگ نے پیشگی طور پر یہ کہہ کر کہ نگران سیٹ اپ پر پیپلز پارٹی سے اتفاقِ رائے نہیں ہو گا، اور اب نگران سیٹ اپ پر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرے گا۔صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ن لیگ کے بعد یہ جماعت اسلامی ہے، جو انتخابات کے خلاف سازشیں دیکھ رہی ہے۔
آخر میں یہ بھی دیکھ لیں کہ جو پارٹیاں صبح و شام انتخابات کے التوا کا رونا رو رہی ہیں، انتخابات کے بر وقت انعقاد کے لیے خود کس حد تک سرگرم ہیں۔ انتخابات سر پر ہیں، لیکن نگران سیٹ اپ پر پیپلزپارٹی اپنے اندر مشاورت مکمل کر سکی ہے، اور نہ ن لیگ نے یہ زحمت گوارا کی ہے۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزراے اعلیٰ، نگران سیٹ اپ پر اپنے اپنے اپوزیشن لیڈروں سے با معنی مشاورت کریں گے، لیکن اس ضمن میں نہ ابھی تک اسلام آباد سے راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار علی خان کی ملاقات کی خبر آئی ہے، اور نہ یہاں پنجاب سے شہباز شریف اور راجہ ریاض کی ملاقات کی اطلاع ملی ہے۔ سندھ میں الا ماشااللہ اپوزیشن لیڈر کا وجود ہی نہیں۔ بلوچستان میں گورنر راج نافذ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومت پر کون ، کس سے مشاورت کرے گا، کچھ معلوم نہیں ۔ یہ ہیں انتخابات کے بر وقت انعقاد کی وہ تیاریاں، جو انتخابات کے التوا کا رونا رونے والی پارٹیاں کر رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاپا پارٹیاں نگران سیٹ اپ پر ''مُک مُکا'' ختم ہونے کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی ہیں۔
مزید پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ اُن کے مقرر کردہ الیکشن کمیشن پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، بلکہ اب تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے، اور تاریخی آئینی بحث اور سنسنی خیز انکشافات کی توقع کی جا رہی ہے۔ لہٰذا، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس مرحلہ پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت انتخابات کے التوا کا واویلا ہو رہا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ یا تو انتخابات، اُن کی مرضی کے نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کے تحت ہو ں یا پھر ملتوی ہوں۔ لیکن، آثار یہی ہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اس واویلا کے باوجود انتخابات بھی ہوں گے، اور نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کے معاملہ پر مسلم لیگ ق ، تحریک انصاف، ایم کیوایم اور طاہر القادری کے تحفظات بھی ضرور دور کیے جائیں گے، کیونکہ یہ معاملہ صرف سپریم کورٹ میں نہیں ، کئی اور ''اہم مقامات'' پر زیرِ غور ہے ۔
پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ بھی اس چیخ پکار میں شامل ہے۔ اگرچہ زیادہ تر وہی جانے پہچانے چہرے ہیں، جو اس سے پہلے ایک عرصے تک وسط مدتی انتخابات کی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں۔ اس لیے تعجب نہیں کہ اب جب کہ انتخابات کے التوا کا بظاہر امکان نظر نہیں آ رہا، یہ انتخابات کے التوا کی خبریں گھڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ نہ فوج پر انگلی اٹھاتے ہیں اور نہ عدلیہ پر۔ لے دے کے ایک ہی بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ یہ مطالبہ کرنے والے انتخابات سے راہِ فرار چاہتے ہیں۔ لیکن، یہ بالکل بے دلیل بات ہے۔ مثلاً یہ چوہدری پرویز الٰہی ہیں، جنھوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں غیر جانب دارانہ طور پر ادا نہیں کررہا۔
انھوں نے ضمنی انتخابات کے متعدد تجربات کے بعد کہی تھی۔ لیکن، وہ یہ کیوں چاہیں گے کہ انتخابات ملتوی ہوں، چوہدری پرویز الٰہی ان گنے چنے سیاستدانوں میں شامل ہیں، جو 1985سے 2008 تک مسلسل انتخابات لڑتے اور جیتتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف رہے ہیں۔ اب نائب وزیرِ اعظم ہیں۔ آیندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے امیدوار ہیں۔ اُن کی پارٹی، مسلم لیگ ق تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ وہ کیوں انتخابات سے خائف ہوں گے۔ پھر، الطاف حسین کو انتخابات سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے، جب کہ 1988 سے 2008 تک، ان کی زیرِ قیادت کراچی میں ایم کیو ایم متواتر جیت رہی ہے۔
اور، عمران خان انتخابات سے کیوں بھاگیں گے، کہ ان انتخابات سے عمران خان کی ساری امیدیں جڑی ہیں۔ طاہر القادری کو انتخابات کے التوا میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، کہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ، اور اُن کے خاندان کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ اگر واقعی وہ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں، تو یہ خواہش 16 جنوری کو بہ آسانی پوری ہو سکتی تھی۔ مطلب یہ کہ مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک پر یہ جو الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ پارٹیاں انتخابات کا التوا چاہتی ہیں، خلافِ واقعہ ہے۔
اب اس معاملے پر ایک اور زاویہ سے نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ن لیگ ہے، جو یہ باور کرا رہی ہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، اور یہ کہ یہ سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ ن لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آئی آر آئی اور گیلپ سروے کی روشنی میں خود کو مقبول ترین پارٹی سمجھتی ہے۔ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ چونکہ وہ مقبول ترین پارٹی ہے اور نوازشریف مقبول ترین لیڈر، اور انتخابات ملتوی کیے بغیر، ن لیگ کو برسرِاقتدار آنے اور نوازشریف کو تیسری بار وزیر ِاعظم بننے سے روکا نہیں جا سکتا، اس لیے ن لیگ مخالف پارٹیاں انتخابات ملتوی کرانے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ لیکن ن لیگ کی خواہشات اپنی جگہ، زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ چار میں سے تین صوبوں، سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ن لیگ کا انتخابی وجود برائے نام ہے۔ ''جنوبی پنجاب'' صوبہ بے شک بنا تو نہیں، لیکن اس کی انتخابی سیاست، وسطی پنجاب کی انتخابی سیاست سے قریب قریب کٹ چکی ہے۔ یہ صرف چوہدری پرویز الٰہی کا دور ِحکومت ہے، جس کو جنوبی پنجاب کے لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں۔ ن لیگ جنوبی پنجاب میں عملاً صوبہ مخالف پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بعد جنوبی پنجاب میں بھی ن لیگ کی پوزیشن بہتر نظر نہیں آتی۔ اس پر مستزاد، وسطی پنجاب میں عمران خان اور طاہر القادری بھی ن لیگ کا ووٹ بینک توڑ یں گے ۔
اندازہ یہ ہے کہ ن لیگ بھی جان چکی ہے کہ آگے مطلع صاف نہیں۔ لہٰذا، وہ حوصلہ نہیں کر پا رہی کہ نگران حکومت یا الیکشن کمیشن میں ایسے چہرے نظر آئیں، جو ان کے لیے اجنبی ہوں۔ طاہر القادری نے '' نگران سیٹ اپ'' پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ''مک مکا'' کو جس طرح غیر موثر کیا ہے، یہ پیپلز پارٹی سے زیادہ ن لیگ کے لیے دھچکا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ صدر آصف زرداری، نواز شریف کو باضابطہ طور پر یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ نگران سیٹ اپ پر ''مُک مُکا'' اب ممکن نہیں رہا، بہتر یہ ہے کہ اس پر اصرار نہ کریں۔ اس کے بعد ہی ن لیگ اب پورا زور لگا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ لیکن ن لیگ نے پیشگی طور پر یہ کہہ کر کہ نگران سیٹ اپ پر پیپلز پارٹی سے اتفاقِ رائے نہیں ہو گا، اور اب نگران سیٹ اپ پر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرے گا۔صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ن لیگ کے بعد یہ جماعت اسلامی ہے، جو انتخابات کے خلاف سازشیں دیکھ رہی ہے۔
آخر میں یہ بھی دیکھ لیں کہ جو پارٹیاں صبح و شام انتخابات کے التوا کا رونا رو رہی ہیں، انتخابات کے بر وقت انعقاد کے لیے خود کس حد تک سرگرم ہیں۔ انتخابات سر پر ہیں، لیکن نگران سیٹ اپ پر پیپلزپارٹی اپنے اندر مشاورت مکمل کر سکی ہے، اور نہ ن لیگ نے یہ زحمت گوارا کی ہے۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزراے اعلیٰ، نگران سیٹ اپ پر اپنے اپنے اپوزیشن لیڈروں سے با معنی مشاورت کریں گے، لیکن اس ضمن میں نہ ابھی تک اسلام آباد سے راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار علی خان کی ملاقات کی خبر آئی ہے، اور نہ یہاں پنجاب سے شہباز شریف اور راجہ ریاض کی ملاقات کی اطلاع ملی ہے۔ سندھ میں الا ماشااللہ اپوزیشن لیڈر کا وجود ہی نہیں۔ بلوچستان میں گورنر راج نافذ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومت پر کون ، کس سے مشاورت کرے گا، کچھ معلوم نہیں ۔ یہ ہیں انتخابات کے بر وقت انعقاد کی وہ تیاریاں، جو انتخابات کے التوا کا رونا رونے والی پارٹیاں کر رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاپا پارٹیاں نگران سیٹ اپ پر ''مُک مُکا'' ختم ہونے کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی ہیں۔
مزید پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ اُن کے مقرر کردہ الیکشن کمیشن پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، بلکہ اب تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے، اور تاریخی آئینی بحث اور سنسنی خیز انکشافات کی توقع کی جا رہی ہے۔ لہٰذا، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس مرحلہ پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت انتخابات کے التوا کا واویلا ہو رہا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ یا تو انتخابات، اُن کی مرضی کے نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کے تحت ہو ں یا پھر ملتوی ہوں۔ لیکن، آثار یہی ہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اس واویلا کے باوجود انتخابات بھی ہوں گے، اور نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کے معاملہ پر مسلم لیگ ق ، تحریک انصاف، ایم کیوایم اور طاہر القادری کے تحفظات بھی ضرور دور کیے جائیں گے، کیونکہ یہ معاملہ صرف سپریم کورٹ میں نہیں ، کئی اور ''اہم مقامات'' پر زیرِ غور ہے ۔