آدم کی کہانی

انسان، انسان کے کام دو وجوہات کے سبب آتا ہے، ایک کو ہم دینی کہہ سکتے ہیں اور دوسرے کو دنیوی۔

03332257239@hotmail.com

دولت کا حصول ہر دور میں انسان کی خواہش رہی ہے، دولت حاصل کرنے کے بعد بھی انسان کی پانچ خواہشات ہوتی ہیں، آج ہم ایک آدمی کی سچی کہانی بیان کر رہے ہیں، جس نے تقریباً سب کچھ حاصل کرلیا۔ آدم نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا، یہ پاکستان بننے سے قبل کی بات ہے۔ اس نے پہلی نوکری تیس روپے ماہوار پر کی، جب آدم بڑا آدمی بن گیا تو اس کی دلچسپ کہانیاں اخبارات اور رسالوں میں شایع ہونے لگیں، وہ کہتا کہ لوگ مجھے ''اُودیا'' کے نام سے پکارتے۔ ایسا المیہ ہر غریب کے ساتھ ہوتا ہے کہ معاشرہ اس کے نام کو بگاڑتا ہے۔ جوں جوں آدم دولت مند اور مشہور ہوتا گیا، ویسے ویسے اس کے نام کے ساتھ القاب، آداب اور خطابات لگتے گئے۔ آدم کو دولت کی اہمیت کا احساس تھا۔ اس نے نوکری کے بعد بروکری شروع کی، یوں اس کی قدر اور اہمیت میں اضافہ ہوا۔

آدم نے کاروباری دنیا میں قدم رکھا اور کچھ کامیابی حاصل کی تو اسے اس کے اصل نام یعنی آدم سے پکارا جانے لگا۔ آدم نے پٹ سن اور ماچس کا کاروبار شروع کیا۔ جنگ عظیم کی وجہ سے اسے بڑا فائدہ ہوا۔ اب وہ کاروبار کے بعد انڈسٹری کے میدان میںکود پڑا۔ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا اس میں فائدہ ہوتا۔ یوں سمجھیں کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا بن جاتی۔ دولت مل جانے کے بعد آدم کی بھی اور ہر آدمی کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اسے عزت ملے۔ یہ دولت کے بعد آدمی کی پہلی تمنا ہوتی ہے۔ دولت اور عزت کا تعلق چولی دامن کا سا ہے۔ جب دولت مل جاتی ہے تو ساتھ ساتھ عزت بھی آجاتی ہے۔

یقین نہیں آتا تو آپ نے وہ قصہ تو سنا ہوگا کہ ایک صاحب کسی دعوت میں گئے تو نکال دیے گئے کہ وہ لباس سے غریب لگتے تھے۔ جب اچھے کپڑے پہن کر آئے تو دھتکارنے والوں نے آگے بڑھ کر عزت افزائی کی۔ جب کھانا شروع ہوا تو اس شخص نے کھانے کے بجائے اسے اپنے کپڑوں پر گرانا شروع کردیا۔ ہر شخص حیران تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ ماجرا پوچھا تو اس دانشمند نے کہا کہ دعوت ان کپڑوں کی ہی تو ہے۔ جب سادہ لباس میں آیا تو نکال دیا گیا اور اچھے کپڑوں میں آیا تو استقبال ہوا۔ سچ ہے کہ روٹی کے لیے مکان میں اس وقت داخلہ ملتا ہے جب کپڑے اچھے ہوں۔

تینوں کا بڑا گہرا تعلق ہے، اس لیے ہر دور میں انسان روٹی، کپڑا، مکان مانگتا ہے۔ یہ عام آدمی کی بات ہے۔ جب یہ چیزیں آدمی کے پاس آجاتی ہیں تو وہ عام آدمی نہیں رہتا، وہ خاص بن جاتا ہے تو اس کی خواہشیں بھی خاص ہوجاتی ہیں۔ پہلی چیز وہ عزت مانگتا ہے جو خود بخود مل جاتی ہے، سمجھیں ہمارے آج کے کردار یعنی آدم کو بھی عزت مل گئی، اسے غربت کے بگڑے نام کے بجائے اس کے اصلی نام سے پکارا جانے لگا، یعنی دولت کے بعد پہلی چیز عزت ہوتی ہے جو آدم کو مل گئی۔ اب دیکھیں کہ ہمارے آج کے ہیرو کو کیا کچھ حاصل ہوا۔ دولت اور عزت کے بعد شہرت، اقتدار اور کیا کیا؟

شہرت کا حصول دوسری خواہش ہوتی ہے۔ اگر دولت اور عزت کو ایک سمجھا جائے تو شہرت کو ہم دوسرا نمبر دے سکتے ہیں، یہ چیز نیک کام کرکے خودبخود بھی مل سکتی ہے اور برے کام کرکے بھی۔ آدم کا دور میڈیا کی تیز رفتاری کا دور نہ تھا، اس کے باوجود بھی آدم نے خدمت خلق کے کام کیے۔ اس نے تعلیمی ادارے قائم کیے اور خود پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود اپنے ملازمین کے بچوں کی مدد کی۔ جوں جوں وہ بھلائی کے کام کرتا تھا ویسے ویسے اس کا نام ایک اچھے آدمی کے طور پر مشہور ہوتا گیا۔ اب اس نے دوسرا مرحلہ خواتین کی تعلیم کا چنا۔ عورت پڑھی لکھی ہو تو وہ آیندہ کی نسل کو باشعور بناسکتی ہے۔


آدم نے دو کام اور کیے تو اس کے چار کاموں نے اسے ایک بڑے علاقے میں مشہور کردیا۔ اس نے جھوٹے رسم و رواج کو معاشرے کے لیے قاتل سمجھا۔ اس نے کہا کہ چند دنوں کی تقریبات کی خاطر مستقبل کی مفلسی مول لینا کون سی عقلمندی ہے۔ اس نے شادی بیاہ اور موت کے بعد کی رسومات کو سادگی سے منانے کی جانب زور دیا۔ چوتھا کام آدم نے وہ کیا کہ سیکولر لوگ خوش ہوجائیں گے۔ اس نے نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے چنگل سے مسلمانوں کو آزادی دلانے کی بات کی۔ یوں ان چار اچھی باتوں نے آدم کو دولت و عزت کے بعد مشہوری عطا کی۔

کالم نصف سے زیادہ ہوچکا ہے اور ہمارے نصف قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے لوگ تو ہر معاشرے میں مل جائیں گے۔ سیلف میڈ تو ہزاروں لوگ ہوں گے، جھونپڑوں سے نکل کر کروڑوں اربوں چھوڑ جانے والوں کی طویل فہرست بن سکتی ہے۔ تعلیمی و فلاحی کام کرنے والے بھی بہت ہوں گے، پھر آدم نے وہ کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ اس پر ایک کالم لکھا جارہا ہے؟ آدم نے جب دولت و عزت حاصل کی تو انھیں آدم صاحب کہا جانے لگا اور شہرت کے بعد آدم جی۔ پھر آدم نے سیاست کا رخ کیا تو وہ سر آدم جی بن گئے۔ آدم نے دولت، عزت، شہرت پانے کے بعد کون سے کام کیے؟ کیا حاصل کیا جو لوگوں کی خواہش ہوتی ہے؟ ان کے کس صحیح سیاسی فیصلے نے انھیں عزت بخشی؟

میمن بک فاؤنڈیشن کی سر آدم جی کانفرنس کے موقعے پر راقم کی تقریر اس عنوان پر تھی کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے ہزاروں ہوں گے، تعلیم اور سماجی خدمات پر کام کرنے والے پاکستان میں سیکڑوں لوگ مل جائیں گے، پھر سر آدم جی کا وہ کون سا کارنامہ تھا کہ ان کے لیے یہ محفل سجائی جارہی ہے؟ یہ سوال 85 سالہ نوجوان حاجی صدیق پولانی سے پوچھا جاسکتا ہے جو وہیل چیئر پر بیٹھ کر ایسے پروگرام ترتیب دیتے ہیں، مایوس نہ ہونے والے عثمان باٹلی والا سے پوچھا جاسکتا ہے جو آواز سن کر لوگوں کو پہچانتے ہیں، بصارت کی کمی لیکن بصیرت میں ہر دن اضافہ عثمان کے لیے قدرت کا عجیب پیکیج ہے۔

سر آدم جی نے قائد اعظم کی تحریک کو اس وقت سمجھا جب ہندوستان میں گاندھی اور کانگریس کا بول بالا تھا،ڈان اخبار کے لیے سر اصفہانی کے ساتھ مل کر قائد کو ''بلینک چیک'' دے دیا۔ اپنے جمے جمائے کاروبار کو سمیٹ کر ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنا اہم فیصلہ تھا۔ قائد کے ساتھ اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں شرکت اختتامی تقریب ثابت ہوئی، قائد کی بھی اور آدم جی کی بھی۔

سر آدم جی نے دولت، عزت، شہرت اور اقتدار سے قربت کے علاوہ دو کون سی چیزیں حاصل کیں؟ انسان، انسان کے کام دو وجوہات کے سبب آتا ہے، ایک کو ہم دینی کہہ سکتے ہیں اور دوسرے کو ہم دنیوی۔ پہلا سبب جنت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے انسانی خدمت کے بدلے اچھا اجر عطا کرے گا۔ دنیاوی سبب یہ ہوسکتا ہے کہ تاریخ مجھے اچھے نام سے یاد کرے۔ یہ ہے ایک انسان کی کہانی، تیس روپے کی نوکری سے ابتدا کرنے والے نے تمام انسانی خواہشات پوری کرلیں۔ دولت کے ساتھ عزت پھر شہرت اور اقتدار سے قربت، شاید جنت اور اب تاریخ میں اچھا نام۔ یہ سر آدم جی کی نہیں بلکہ دیکھا جائے تو ہر آدم کی خواہش یہی ہوتی ہے اور یہی ہے آدم کی کہانی۔
Load Next Story