نہلے پہ دہلہ

شاہ رخ خان کے خلاف احتجاج غلط تھا، مسلمانوں کا کملا ہاسن کی فلم پر شور مچانا نہلے پہ دہلہ تھا جو ہمیں صحیح لگا۔

wabbasi@yahoo.com

کچھ دن پہلے شاہ رخ خان خبروں میں تھے، وجہ تھی ان کا لکھا ایک آرٹیکل جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انھیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آرٹیکل چھپنے کے بعد ان کے خلاف کئی ہندو جماعتوں نے مورچے بنالیے، ہندوستان چھوڑو کے نعرے لگائے، پاکستانی مذہبی لیڈر نے شاہ رخ خان کو پاکستان آکر سیٹل ہونے کی دعوت اور ہم نے اس پر ایک کالم بھی لکھا۔ شاہ رخ خان نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے کہا کہ میرے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے یہ آرٹیکل نہیں پڑھا۔ اگر وہ سچ مچ اسے پڑھتے تو ایسا کبھی نہیں کرتے۔

شاہ رخ خان نے بالکل صحیح کہا تھا، ہم نے اس آرٹیکل کو بہت غور سے پڑھا اور اس میں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں پائی جو انڈیا یا کسی بھی مذہب کے خلاف ہو، وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی تجربے کی بات کر رہے تھے، جیسے وہ کیا محسوس کرتے ہیں، اپنے نام کی وجہ سے امریکا کے ایئرپورٹس پر روکے جانے پر، کچھ دن گزرے اور شاہ رخ خان کے آرٹیکل کی بات ٹھنڈی ہوگئی۔

شاہ رخ کے ایئرپورٹ پر روکے جانے والا واقعہ کئی بار ہوچکا ہے اور ہر بار ایسا ہونے پر مختلف ایکٹرز ان کی موافقت میں بیان دیتے بھی نظر آتے ہیں جس میں سے ایک کملا ہاسن بھی ہیں، پچھلے سال شاہ رخ کے امریکا کے ایئرپورٹ پر روکے جانے پر انھوں نے باقاعدہ پریس کانفرنس بلائی تھی جس میں کمل ہاسن نے بتایا تھا کہ میں مذہب سے ہندو ہوں مگر میرے والدین نے میرا نام مسلمانوں جیسا رکھا کیوں کہ وہ مسلمانوں کے بہت قریب تھے، اکثر مجھے بھی ایئرپورٹس پر نام کی وجہ سے روکا جاتا ہے اسی لیے میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسی جگہوں پر کیسا برتاؤ ہوتا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے کئی اور واقعات بھی بیان کیے جیسے افغانی طلباء کا انڈیا آنا اور انھیں کرائے کے گھر ملنے میں مشکلات کا سامنا وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کمل ہاسن جوکہ ساؤتھ انڈیا کے بہت بڑے اسٹار ہیں کے دل میں مسلمانوں کے لیے محبت ہے، لیکن کچھ دن پہلے آئی خبریں اس بات کو غلط ثابت کرنے لگیں۔

کمل ہاسن کی نئی فلم ''وشواروپم'' مسلمانوں کے خلاف ہے، ہر جگہ ایسی خبریں جب کہ فلم نارتھ انڈیا کے سنسر بورڈ سے پاس ہوگئی، لیکن فلم کو ساؤتھ انڈیا میں سنسر بورڈ نے روک دیا، انھیں ڈر تھا فلم چلنے سے کہیں ہندو مسلم فساد نہ ہوجائیں، فلم کی نارتھ انڈیا میں نمائش ہوئی اور مسلمانوں نے مظاہرے کرنا شروع کردیے، ان خبروں سے ہمیں لگا کہ یہ پھر وہی ہورہا ہے جو کچھ دن پہلے شاہ رخ خان کے ساتھ ہوا، کملا ہاسن تو ویسے ہی مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں ان کے خلاف یہ مظاہرے مناسب ہیں۔


کملا ہاسن کی فلم کے خلاف مسلمانوں کے یہ مظاہرے شاہ رخ خان کے خلاف مظاہروں کی طرح بے بنیاد ہوں گے، یقینا بات کچھ بھی نہیں ہوگی۔ اس مدعے کو خوامخواہ بڑھایا جارہا ہے۔ نیویارک میں رہنے کی وجہ سے ہم یہ فلم آسانی سے دیکھ پائے۔ فلم میں کمل ہاسن ایک انڈین کلاسیکل ڈانس ماسٹر بنے ہیں جو مذہب سے ہندو ہیں جب کہ وہ شادی شدہ دکھائے گئے ہیں لیکن پھر چال ڈھال اور بات چیت کے انداز سے وہ ہیجڑے نظر آتے ہیں۔ فلم کے شروع میں کئی مذاق بھی ایسے کیے گئے ہیں جس سے ان کے نامرد ہونے کے باوجود باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں۔

فلم میں آگے چل کر کمل ہاسن اور ان کی بیوی کچھ دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، تب معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان جاسوس ہیں، ان کا ماضی دکھاتے ہوئے فلم کی کہانی نیویارک سے افغانستان چلی جاتی ہے جہاں دکھایا جاتا ہے کہ ٹیررسٹ کیسے بنائے جاتے ہیں، حیران کن طور پر اس موضوع پر پہلے بھی کئی فلمیں بن چکی ہیں اور اب یہ سبجیکٹ پرانا بھی ہوچکا ہے اس کے باوجود کمل ہاسن کی یہ فلم پرانے زخموں کو ہرا کرتی نظر آتی ہے۔

فلم میں دکھایا ہے کہ مسلمان کیسے جانوروں سے بھی بدتر ہیں، جب ایک شخص کی بیوی کو دمے کا اٹیک ہورہا ہوتا ہے تو وہ ڈاکٹر کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر گھر سے نکال دیتا ہے اور بیوی کو تڑپتا چھوڑ دیتا ہے۔ ساتھ ہی کئی مناظر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو انجینئر، ڈاکٹر نہیں دہشت گرد بنانا چاہتے ہیں۔ دس سال کے بچے کی آنکھ پر پٹی باندھ کر باپ اس کے ہاتھ میں مختلف بندوقوں کی گولیاں دے دے کر ان کے نام پوچھتا ہے، اسی بچے کو جب کمل ہاسن کھیلنے کو بلاتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں جو کھیلوں گا۔

مسلمانوں کو جاہل اور ظالم دکھانے میں اس فلم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، جب ان سب چیزوں سے دل نہیں بھرا تو اسامہ بن لادن کو بھی دکھادیا جو مختلف حملوں کے آرڈرز دے رہے ہوتے ہیں، نہ صرف مسلمانوں کا امیج خراب کرتے بلکہ یہ فلم مسلمانوں کی بے حرمتی کرتی بھی نظر آتی ہے۔ جب کمل ہاسن اچھل اچھل کر فائٹ کرتے ہیں تو قرآنی آیات پس منظر میں جل رہی ہوتی ہیں۔ کمل ہاسن مسلمانوں کے اس فلم کے خلاف مظاہرے کرنے پر شدید ناراض ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر انھیں اس وجہ سے ہندوستان چھوڑنا پڑا تو وہ چھوڑدیں گے، وہ مسلمان لیڈروں سے ملے اور فلم میں سے سات سین کاٹ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ سات سین کاٹ دینے سے فلم کتنی بدل جائے گی یہ ہم نہیں جانتے، لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہندوستان میں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جو 95 کروڑ کی فلم بناتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا امیج خراب کرسکیں۔

شاہ رخ خان کے خلاف احتجاج غلط تھا، مسلمانوں کا کملا ہاسن کی فلم پر شور مچانا نہلے پہ دہلہ تھا جو ہمیں صحیح لگا۔ کملا ہاسن کی اس فلم کے سات نہیں بلکہ سارے سین کاٹ دینے چاہئیں۔ جہاں 99% مسلمان دنیا میں امن پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں وہیں ہندوستانی فلم انڈسٹری کے کچھ لوگ ایسی فلمیں بناکر ہماری برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔
Load Next Story