حکمران آئین سے بالا کیوں
آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ حکمران آئین سے بالاتر ہوکر من مانیاں کریں میرٹ کی دھجیاں بکھیردیں
RAWALPINDI:
کسی بھی ملک میں آئین بالاتر ہوتا ہے جس کے تحت ہی ملک میں عوام کو اپنے نمایندے منتخب ہوجانے پر انھیں اکثریت حاصل کرنے والوں کو ایوان اقتدار میں بھیجنے کا حق ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسا ہے نہیں اور اگر ہے تو دکھاوے کی حد تک ہے اور حقیقی طور پر ہمارے یہاں کبھی جمہوریت قائم ہوئی ہی نہیں۔ البتہ نام نہاد جمہوریت میں جمہوریت، جمہوریت کا ڈھنڈورا بہت شور سے پیٹا جاتا ہے۔
کہتے ہیں جمہوریت عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کے لیے ہوتی ہے مگر عملی طور پر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں۔ جمہوریت عوام کے ذریعے تو ہوتی ہے کیونکہ وہ ووٹ دیتے ہیں خواہ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی کہتے ہیں کہ حکمران عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہی منتخب ہوتا ہے مگر منتخب ہونے کے بعد ملک کے حکمران کا تو کیا بلکہ ارکان اسمبلی کا بھی عوام سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اور حلف اٹھانے کے بعد وہ عوام کے منتخب نمایندے قرار پاتے ہیں اور اپنے وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کو منتخب کرنے کے بعد ان میں اور ان کے منتخب کیے گئے حکمرانوں میں بھی اسی طرح دوریاں بڑھ جاتی ہیں، جیسے ارکان اسمبلی کی اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹروں سے بڑھتی ہیں۔
عوام کی عام شکایت ہے کہ انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد ان کے ارکان اسمبلی ان سے دورہو جاتے ہیں اور ارکان اسمبلی کو بھی اپنے وزیراعظم اور اپنے وزرائے اعلیٰ سے شکایت رہتی ہے کہ اقتدار میں آکر ہماری پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی منتخب ہونے کے بعد عوام سے اس لیے دور ہوتے ہیں کہ انھیں عوام کے مسائل نہ حل کرنا پڑیں اور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنے ارکان اسمبلی سے اس لیے دور ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنے ارکان کے مطالبات نہ ماننا اور ان کے حلقے کے عوام کے مسائل نہ حل کرانا پڑیں۔
وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ تو ارکان اسمبلی کو اپنے اپنے ایوان میں اجلاسوں میں کبھی مل ہی جاتے ہیں مگر ارکان اسمبلی اپنے ووٹروں کے کہیں ہاتھ نہیں آتے کیونکہ منتخب ہوکر وہ اپنے حلقہ انتخاب میں بہت کم اور اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں زیادہ رہتے ہیں اور ان کی وہاں مصروفیات ذاتی کاموں، ذاتی مفادات کے حصول کے لیے متعلقہ وزیروں اور متعلقہ افسروں سے ملنے کی ہوتی ہیں اور جب کبھی اپنے حلقہ انتخاب میں انھیں ووٹروں کا سامنا کرنا پڑجائے تو کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے ہی تو میں دارالحکومت میں مصروف رہتا ہوں کیونکہ صاحبان اقتدار وہیں ملتے ہیں اور مجھے مجبوراً وہاں رہنا پڑتا ہے اور عوام مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کا منتخب نمایندہ ان کے لیے کتنی جد وجہد کررہاہے جب کہ منتخب ارکان اسمبلی اپنی اسمبلیوں کے اجلاس تک میں نہیں جاتے جہاں کورم پورا کرانے کے لیے مسلسل گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور معمولی تعداد کا کورم بھی پورا نہیں ہوتا کیونکہ ارکان اسمبلی میں آکر حاضری لگاکر اپنی تنخواہ کی مراعات کے حق دار بن جاتے ہیں اور حاضری کے بعد کیفے ٹیریا میں خوش گپیوں میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں یا متعلقہ سیکریٹریٹ میں وزیروں اور افسروں سے اپنے کام نکلوا رہے ہوتے ہیں اور ان کے خالی ایوان انتظار کرتے رہتے ہیں اور کورم پورا نہ ہونے پر اہم اجلاس بھی نہیں ہو پاتے ہیں۔
آئینی طور پر ارکان اسمبلی اپنے حلقہ کے ووٹروں کے ذریعے اور حکمران ارکان اسمبلی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں مگر اکثریت نے اپنے ایوان سے غیر حاضری معمول بنا رکھی ہے۔ آئین حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو کسی سخت دفعہ کے تحت پابند نہیں رکھتا کہ وہ اپنے ایوان کے ہر اجلاس میں شرکت کریں اور نہ ووٹروں کو اختیار ہے کہ وہ نئے انتخاب سے قبل عوام کے کام نہ کرنے نہ ملنے والے اپنے منتخب نمایندے کو ہٹاسکیں یہ سب ہٹ کر ہی عوام میں آتے ہیں اور انھیں اپنی غیر حاضر رہنے کی جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں۔
آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ وزیراعظم ایک سال تک ایوان بالا سینیٹ میں مسلسل نہ آئے اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں مسلسل شریک نہ ہو تو اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہو۔ اگر آئین میں حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کی لازمی شرکت کی کوئی سختی ہو تو ممکن ہے کہ عوام اور ارکان اسمبلی کی شکایات دور ہوجائیں۔
حکمرانی حاصل تو آئینی طور پر سیاسی لوگ کرلیتے ہیں مگر حکمران بن کر سیاسی پارٹی کے سربراہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اور وزرا تک یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ملک اور صوبہ ان کے جاگیر بن گیا ہے جہاں کوئی انھیں من مانیوں سے نہیں روک سکتا اور اقتدار میں آکر وہ خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔ چند سالوں سے آزاد عدلیہ حکمرانوں کی من مانیوں اور غیر قانونی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ضرور ڈال رہی ہے اور ان کے غلط فیصلوں کو منسوخ بھی کرتی آرہی ہے اور یہ عدالتی رکاوٹیں نہ ہوتیں تو حکمرانوں کو ان کے شاہانہ فیصلوں سے کوئی نہ روک سکتا تھا۔
آئین حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر قدغن نہیں لگاتا اسی لیے جب سربراہان مملکت اپنی فیملی کے ساتھ ٹرین میں جاتے ہیں تو ٹرین کے مسافروں کو جانے نہیں دیا جاتا اور اسٹیشن پر مسافروں کا آنا حرام کردیا جاتا ہے اور سربراہ مملکت کے لیے اعلیٰ ریلوے حکام موجود اور اسٹیشن پر صفائی کا بہترین انتظام ہوتا ہے اور جن لوگوں کے ٹیکسوں سے حکمران عیش کرتے ہیں انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ حکمران بننے کے بعد انھیں مقررہ سرکاری پروٹوکول تو ملتا ہی ہے مگر بعد میں اپنا پروٹوکول مزید بڑھالیتے ہیں تاکہ عوام ان کی شکل بھی نہ دیکھ پائیں اور خوشامدی اپنا گھیرا ان کے اطراف تنگ کرتے جاتے ہیں اور حکمران خود بھی عوام سے دور اور جی حضوریوں اور خوشامدیوں کے درمیان ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور اقتدار کو مستقل اور ملک اور صوبے کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر شاہانہ انداز اور اطوار استعمال کرنے لگتے ہیں۔
آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ حکمران آئین سے بالاتر ہوکر من مانیاں کریں میرٹ کی دھجیاں بکھیردیں، قابل اور حق دار لوگوں کو کھڈے لائن لگاکر اپنے عزیزوں، دوستوں، سیاسی وفاداروں اور خوشامدیوں کو اہم عہدے دیں جتنے چاہئیں وزیر، مشیر معاونین خصوصی بنالیں اور اپنوں کو مزید نوازنے کے لیے سرکاری عہدوں پر باہر کے اپنے لوگ لاکر بٹھادیں ٹاسک فورس بناکر خوشامدیوں کو اس کا سربراہ بنادیں۔ خوشامدیوں اور جی حضوریاں کرنے والوں کو اہم عہدے دینے کے علاوہ ترقیاں بھی دیں اور ترقیوں کے حامل لوگوں کو نظر انداز کردیں اور ریٹائرمنٹ سے قبل ان کے حقوق غصب کرلیں۔
آئین میں ملک کے چار صوبے ہیں مگر آئین کے برعکس انتظامی اختیارات کے تحت گلگت بلتستان بھی صوبہ ہے جس کا گورنر اسمبلی اور وزیراعلیٰ ہے مگر سیاسی مفاد کے لیے نئے صوبے نہیں بنائے جاتے سندھ اور کے پی کے میں اقتدار پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے پاس ہے مگر ان پارٹیوں کے سربراہ غیر آئینی طور پر سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں اور صوبے ان کی ذاتی جاگیریں بن کر رہ گئے ہیں۔
اٹھاریویں ترمیم کے بعد وزیروں کی تعداد تو محدود ہوگئی مگر حکمرانوں کو اپنوں کو نوازنے سے آئین نہ روک سکا اور انھوں نے غیر منتخب لوگوں کو مشیر و معاون خصوصی بناکر وزیروں جیسے اختیارات دے دیے جو عدالتوں نے ہٹائے، سندھ کے ناپسندیدہ آئی جی کو حکمران نہ ہٹاسکے تو انھیں اختیارات سے محروم کردیا گیا اور عدالتیں منہ دیکھتی رہ گئی، عدالتیں آزاد نہ ہوتیں تو یہ حکمران نہ جانے کیا کچھ کر دکھاتے کیونکہ اقتدار میں آکر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں شاید پاناما کا فیصلہ حکمرانوں کو آئینی حدود میں رکھ سکے۔
کسی بھی ملک میں آئین بالاتر ہوتا ہے جس کے تحت ہی ملک میں عوام کو اپنے نمایندے منتخب ہوجانے پر انھیں اکثریت حاصل کرنے والوں کو ایوان اقتدار میں بھیجنے کا حق ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسا ہے نہیں اور اگر ہے تو دکھاوے کی حد تک ہے اور حقیقی طور پر ہمارے یہاں کبھی جمہوریت قائم ہوئی ہی نہیں۔ البتہ نام نہاد جمہوریت میں جمہوریت، جمہوریت کا ڈھنڈورا بہت شور سے پیٹا جاتا ہے۔
کہتے ہیں جمہوریت عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کے لیے ہوتی ہے مگر عملی طور پر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں۔ جمہوریت عوام کے ذریعے تو ہوتی ہے کیونکہ وہ ووٹ دیتے ہیں خواہ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی کہتے ہیں کہ حکمران عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہی منتخب ہوتا ہے مگر منتخب ہونے کے بعد ملک کے حکمران کا تو کیا بلکہ ارکان اسمبلی کا بھی عوام سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اور حلف اٹھانے کے بعد وہ عوام کے منتخب نمایندے قرار پاتے ہیں اور اپنے وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کو منتخب کرنے کے بعد ان میں اور ان کے منتخب کیے گئے حکمرانوں میں بھی اسی طرح دوریاں بڑھ جاتی ہیں، جیسے ارکان اسمبلی کی اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹروں سے بڑھتی ہیں۔
عوام کی عام شکایت ہے کہ انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد ان کے ارکان اسمبلی ان سے دورہو جاتے ہیں اور ارکان اسمبلی کو بھی اپنے وزیراعظم اور اپنے وزرائے اعلیٰ سے شکایت رہتی ہے کہ اقتدار میں آکر ہماری پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی منتخب ہونے کے بعد عوام سے اس لیے دور ہوتے ہیں کہ انھیں عوام کے مسائل نہ حل کرنا پڑیں اور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنے ارکان اسمبلی سے اس لیے دور ہوجاتے ہیں کہ انھیں اپنے ارکان کے مطالبات نہ ماننا اور ان کے حلقے کے عوام کے مسائل نہ حل کرانا پڑیں۔
وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ تو ارکان اسمبلی کو اپنے اپنے ایوان میں اجلاسوں میں کبھی مل ہی جاتے ہیں مگر ارکان اسمبلی اپنے ووٹروں کے کہیں ہاتھ نہیں آتے کیونکہ منتخب ہوکر وہ اپنے حلقہ انتخاب میں بہت کم اور اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں زیادہ رہتے ہیں اور ان کی وہاں مصروفیات ذاتی کاموں، ذاتی مفادات کے حصول کے لیے متعلقہ وزیروں اور متعلقہ افسروں سے ملنے کی ہوتی ہیں اور جب کبھی اپنے حلقہ انتخاب میں انھیں ووٹروں کا سامنا کرنا پڑجائے تو کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے ہی تو میں دارالحکومت میں مصروف رہتا ہوں کیونکہ صاحبان اقتدار وہیں ملتے ہیں اور مجھے مجبوراً وہاں رہنا پڑتا ہے اور عوام مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کا منتخب نمایندہ ان کے لیے کتنی جد وجہد کررہاہے جب کہ منتخب ارکان اسمبلی اپنی اسمبلیوں کے اجلاس تک میں نہیں جاتے جہاں کورم پورا کرانے کے لیے مسلسل گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور معمولی تعداد کا کورم بھی پورا نہیں ہوتا کیونکہ ارکان اسمبلی میں آکر حاضری لگاکر اپنی تنخواہ کی مراعات کے حق دار بن جاتے ہیں اور حاضری کے بعد کیفے ٹیریا میں خوش گپیوں میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں یا متعلقہ سیکریٹریٹ میں وزیروں اور افسروں سے اپنے کام نکلوا رہے ہوتے ہیں اور ان کے خالی ایوان انتظار کرتے رہتے ہیں اور کورم پورا نہ ہونے پر اہم اجلاس بھی نہیں ہو پاتے ہیں۔
آئینی طور پر ارکان اسمبلی اپنے حلقہ کے ووٹروں کے ذریعے اور حکمران ارکان اسمبلی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں مگر اکثریت نے اپنے ایوان سے غیر حاضری معمول بنا رکھی ہے۔ آئین حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو کسی سخت دفعہ کے تحت پابند نہیں رکھتا کہ وہ اپنے ایوان کے ہر اجلاس میں شرکت کریں اور نہ ووٹروں کو اختیار ہے کہ وہ نئے انتخاب سے قبل عوام کے کام نہ کرنے نہ ملنے والے اپنے منتخب نمایندے کو ہٹاسکیں یہ سب ہٹ کر ہی عوام میں آتے ہیں اور انھیں اپنی غیر حاضر رہنے کی جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں۔
آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ وزیراعظم ایک سال تک ایوان بالا سینیٹ میں مسلسل نہ آئے اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں مسلسل شریک نہ ہو تو اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہو۔ اگر آئین میں حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کی لازمی شرکت کی کوئی سختی ہو تو ممکن ہے کہ عوام اور ارکان اسمبلی کی شکایات دور ہوجائیں۔
حکمرانی حاصل تو آئینی طور پر سیاسی لوگ کرلیتے ہیں مگر حکمران بن کر سیاسی پارٹی کے سربراہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اور وزرا تک یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ملک اور صوبہ ان کے جاگیر بن گیا ہے جہاں کوئی انھیں من مانیوں سے نہیں روک سکتا اور اقتدار میں آکر وہ خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔ چند سالوں سے آزاد عدلیہ حکمرانوں کی من مانیوں اور غیر قانونی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ضرور ڈال رہی ہے اور ان کے غلط فیصلوں کو منسوخ بھی کرتی آرہی ہے اور یہ عدالتی رکاوٹیں نہ ہوتیں تو حکمرانوں کو ان کے شاہانہ فیصلوں سے کوئی نہ روک سکتا تھا۔
آئین حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر قدغن نہیں لگاتا اسی لیے جب سربراہان مملکت اپنی فیملی کے ساتھ ٹرین میں جاتے ہیں تو ٹرین کے مسافروں کو جانے نہیں دیا جاتا اور اسٹیشن پر مسافروں کا آنا حرام کردیا جاتا ہے اور سربراہ مملکت کے لیے اعلیٰ ریلوے حکام موجود اور اسٹیشن پر صفائی کا بہترین انتظام ہوتا ہے اور جن لوگوں کے ٹیکسوں سے حکمران عیش کرتے ہیں انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ حکمران بننے کے بعد انھیں مقررہ سرکاری پروٹوکول تو ملتا ہی ہے مگر بعد میں اپنا پروٹوکول مزید بڑھالیتے ہیں تاکہ عوام ان کی شکل بھی نہ دیکھ پائیں اور خوشامدی اپنا گھیرا ان کے اطراف تنگ کرتے جاتے ہیں اور حکمران خود بھی عوام سے دور اور جی حضوریوں اور خوشامدیوں کے درمیان ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور اقتدار کو مستقل اور ملک اور صوبے کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر شاہانہ انداز اور اطوار استعمال کرنے لگتے ہیں۔
آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ حکمران آئین سے بالاتر ہوکر من مانیاں کریں میرٹ کی دھجیاں بکھیردیں، قابل اور حق دار لوگوں کو کھڈے لائن لگاکر اپنے عزیزوں، دوستوں، سیاسی وفاداروں اور خوشامدیوں کو اہم عہدے دیں جتنے چاہئیں وزیر، مشیر معاونین خصوصی بنالیں اور اپنوں کو مزید نوازنے کے لیے سرکاری عہدوں پر باہر کے اپنے لوگ لاکر بٹھادیں ٹاسک فورس بناکر خوشامدیوں کو اس کا سربراہ بنادیں۔ خوشامدیوں اور جی حضوریاں کرنے والوں کو اہم عہدے دینے کے علاوہ ترقیاں بھی دیں اور ترقیوں کے حامل لوگوں کو نظر انداز کردیں اور ریٹائرمنٹ سے قبل ان کے حقوق غصب کرلیں۔
آئین میں ملک کے چار صوبے ہیں مگر آئین کے برعکس انتظامی اختیارات کے تحت گلگت بلتستان بھی صوبہ ہے جس کا گورنر اسمبلی اور وزیراعلیٰ ہے مگر سیاسی مفاد کے لیے نئے صوبے نہیں بنائے جاتے سندھ اور کے پی کے میں اقتدار پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے پاس ہے مگر ان پارٹیوں کے سربراہ غیر آئینی طور پر سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں اور صوبے ان کی ذاتی جاگیریں بن کر رہ گئے ہیں۔
اٹھاریویں ترمیم کے بعد وزیروں کی تعداد تو محدود ہوگئی مگر حکمرانوں کو اپنوں کو نوازنے سے آئین نہ روک سکا اور انھوں نے غیر منتخب لوگوں کو مشیر و معاون خصوصی بناکر وزیروں جیسے اختیارات دے دیے جو عدالتوں نے ہٹائے، سندھ کے ناپسندیدہ آئی جی کو حکمران نہ ہٹاسکے تو انھیں اختیارات سے محروم کردیا گیا اور عدالتیں منہ دیکھتی رہ گئی، عدالتیں آزاد نہ ہوتیں تو یہ حکمران نہ جانے کیا کچھ کر دکھاتے کیونکہ اقتدار میں آکر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں شاید پاناما کا فیصلہ حکمرانوں کو آئینی حدود میں رکھ سکے۔