پاناما سے اقامہ تک
اس کا فائدہ یہ ہے کہ اقامہ ہولڈر اس ملک میں بغیر مزید ویزے کے آجا سکتا ہے۔
FAISALABAD:
1977 کے عام انتخابات میں پی پی پی کے چیدہ چیدہ بڑے رہنما جن میں ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، حفیظ پیرزادہ اور پنجاب کے بعض رہنماؤں نے انتخابات میں بلامقابلہ جیتنے کی کوشش میں بہت حربے استعمال کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وقت سے پہلے انتخابات کا اس لیے اعلان کردیا تھا کہ انھیں سو فیصد یقین تھا کہ وہ جیت جائیں گے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا، مگر بعض پی پی پی کے رہنماؤں نے بلامقابلہ جیتنے کی جو پالیسی اپنائی، زور بھی لگایا، زبردستی بھی کی اور اس کے نتائج یہ نکلے کہ جب انتخابات کا اعلان ہوا تو کم از کم دس سے زیادہ پی پی پی رہنما بلامقابلہ جیت گئے۔
اس بات پر عوام بھی حیران تھے اور اپوزیشن بھی پریشان، اور نتیجہ یہ نکلا کہ جو اپوزیشن مشترکہ انتخاب کہ ذریعے پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کو شکست نہیں دے سکتی تھی اس نے ان انتخابات کے نتائج کو نہ مان کر ایک تحریک شروع کی، جس نے زور پکڑا اور ذوالفقار علی بھٹو پر عوامی دباؤ بڑھتا گیا۔ انھوں نے مشکوک علاقوں میں دوبارہ انتخابات کا اعلان بھی کردیا، مگر اپوزیشن نے 32 نکات کا مطالبہ رکھ دیا۔ اس میں پہلا مطالبہ ذوالفقار علی بھٹو سے استعفے کا تھا۔ پھر دونوں طرف سے ٹیمیں بنیں، جن میں اس وقت کے مایہ ناز اور مقبول رہنما تھے، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور، مولانا کوثر نیازی، حفیظ پیر زادہ وغیرہ، مگر ایئر مارشل اصغر خان اور خان عبدالولی خان بھٹو کے سخت مخالفین میں تھے۔
اس وقت امریکی صدر جمی کارٹر اور سیکریٹری خارجہ کسنجر جو یہودی تھے، وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جوہری توانائی کی وجہ سے ختم کرنا چاہتے تھے، کیونکہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ اس طرح جوہری قوت میں بدل دیا کہ سی آئی اے بھی اس عمل سے بے خبر رہی۔ اس وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نے زور پکڑا کہ مخالفت اور دباؤ بڑھتا رہا اور اس زمانے میں اتنی بڑی تحریک ڈالروں سے چلتی رہی، اور کامیابی سے دباؤ بڑھتا گیا۔ ایک وقت رہا بھٹو نے 32 میں سے 31 نکات مان لیے اور اپوزیشن نے استعفے کا مطالبہ واپس لے لیا اور نئے انتخابات کا طے ہوا، مگر جن لوگوں کو یہ تکلیف تھی کہ وہ پاکستان کو جوہری ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے.
انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے کا تہیہ کرلیا تھا، کھلم کھلا دھمکی بھی دی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کچھے پاکستان کو بچایا بھی اور اسے جوہری ملک بھی بنایا، شملہ معاہدہ بھی کیا، اس لیے وہ دوبارہ انتخابات میں پھر جیت جاتے، اس بات کا علم حزب اختلاف کو بھی تھا۔ لہٰذا بھٹو کے خلاف ایک سازش یہ کی گئی کہ نواب احمد خان جو قتل ہوئے تھے، ان کی ایف آئی آر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھی۔ انھیں مسعود محمود جو ایف ایس ایف کا سربراہ تھا، وعدہ معاف گواہ کے طور پر مل گیا اور آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بے رحمی سے پھانسی کے گھاٹ تک پہنچا دیا گیا۔ انھوں نے بھی پھانسی گوارا کی، ملک سے بھاگنا پسند نہ کیا، اس لیے وہ سیاست میں امر ہوگئے۔
میرا یہ مضمون لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تاریخ بتلاؤں کہ جس ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد پر ہوا، اس کا انجام ایک گمنام ایف آئی آر پر ہوا۔ ایسے ہی میاں نواز شریف کے خلاف الزام کا آغاز پاناما سے ہوا، بیرون ملک فلیٹس کی منی ٹریل سے ہوا اور آج بات پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ اقامہ سے منسلک نظر آرہے ہیں۔
یہ اقامہ دراصل وہ اجازت نامہ ہے جو عرب ممالک میں ان کو دیا جاتا ہے جو کسی کاروبارسے منسلک ہوں یا وہاں کوئی ملازمت کرتے ہوں۔ اس اقامہ کی مدت سال سے لے کر دو یا تین سال ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اقامہ ہولڈر اس ملک میں بغیر مزید ویزے کے آجا سکتا ہے۔ لیکن یہ سہولت نہ کسی ہمارے وزیر کو، نہ مشیر کو، نہ ہی وزیراعظم کو سوٹ کرتی ہے، کیونکہ اگر اقامہ صرف آنے اور جانے کی سہولت کے لیے لیا گیا تو وہ ان عرب ملکوں کے قوانین کے خلاف ہے، بلکہ جرم ہے۔
یہ معاملہ عدالت میں آگیا اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بڑی سنجیدگی اور شفافیت سے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اگر اقامہ کے معاملے پر توجہ دی گئی تو کم سے کم وہ تمام وزیر، مشیر، سب کے سب صرف اقامہ رکھنے کی پاداش میں 62 اور 63 کی زد میں ضرور آئیں گے، کیونکہ اقامہ ہولڈر نے صادق اور امین نہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
یہ موقع ہے جب عدالت عظمیٰ اقامہ ہولڈر کے لیے کوئی آئینی اور قانونی ایسی وضاحت پیش کردے جس میں اقامہ ہولڈر نااہل ہوجائیں تو اس سے ان سیاستدانوں کو بے نقاب کرنے میں آسانی ہوگی جو اس ملک میں عوامی خدمت جذبہ حب الوطنی سے نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہاں اختیارات سے بے جا فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاست کر رہے ہیں اور جب انھیں موقع ملے گا وہ وطن کی پاک سرزمین کو چھوڑ کر اقامہ یا دہری شہریت کی آڑ میں چلے جائیں گے۔ یہ صاحبانِ عدل و انصاف کی ذمے داری ہے کہ ایسے لوگوں کو بے نقاب بھی کریں اور انھیں ہمیشہ کے لیے نااہل بھی اور بے جا اختیارات سے حاصل کی ہوئی آمدنی کو قومی خزانے میں واپس بھی لائیں۔
1977 کے عام انتخابات میں پی پی پی کے چیدہ چیدہ بڑے رہنما جن میں ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، حفیظ پیرزادہ اور پنجاب کے بعض رہنماؤں نے انتخابات میں بلامقابلہ جیتنے کی کوشش میں بہت حربے استعمال کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وقت سے پہلے انتخابات کا اس لیے اعلان کردیا تھا کہ انھیں سو فیصد یقین تھا کہ وہ جیت جائیں گے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا، مگر بعض پی پی پی کے رہنماؤں نے بلامقابلہ جیتنے کی جو پالیسی اپنائی، زور بھی لگایا، زبردستی بھی کی اور اس کے نتائج یہ نکلے کہ جب انتخابات کا اعلان ہوا تو کم از کم دس سے زیادہ پی پی پی رہنما بلامقابلہ جیت گئے۔
اس بات پر عوام بھی حیران تھے اور اپوزیشن بھی پریشان، اور نتیجہ یہ نکلا کہ جو اپوزیشن مشترکہ انتخاب کہ ذریعے پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کو شکست نہیں دے سکتی تھی اس نے ان انتخابات کے نتائج کو نہ مان کر ایک تحریک شروع کی، جس نے زور پکڑا اور ذوالفقار علی بھٹو پر عوامی دباؤ بڑھتا گیا۔ انھوں نے مشکوک علاقوں میں دوبارہ انتخابات کا اعلان بھی کردیا، مگر اپوزیشن نے 32 نکات کا مطالبہ رکھ دیا۔ اس میں پہلا مطالبہ ذوالفقار علی بھٹو سے استعفے کا تھا۔ پھر دونوں طرف سے ٹیمیں بنیں، جن میں اس وقت کے مایہ ناز اور مقبول رہنما تھے، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور، مولانا کوثر نیازی، حفیظ پیر زادہ وغیرہ، مگر ایئر مارشل اصغر خان اور خان عبدالولی خان بھٹو کے سخت مخالفین میں تھے۔
اس وقت امریکی صدر جمی کارٹر اور سیکریٹری خارجہ کسنجر جو یہودی تھے، وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جوہری توانائی کی وجہ سے ختم کرنا چاہتے تھے، کیونکہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ اس طرح جوہری قوت میں بدل دیا کہ سی آئی اے بھی اس عمل سے بے خبر رہی۔ اس وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نے زور پکڑا کہ مخالفت اور دباؤ بڑھتا رہا اور اس زمانے میں اتنی بڑی تحریک ڈالروں سے چلتی رہی، اور کامیابی سے دباؤ بڑھتا گیا۔ ایک وقت رہا بھٹو نے 32 میں سے 31 نکات مان لیے اور اپوزیشن نے استعفے کا مطالبہ واپس لے لیا اور نئے انتخابات کا طے ہوا، مگر جن لوگوں کو یہ تکلیف تھی کہ وہ پاکستان کو جوہری ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے.
انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے کا تہیہ کرلیا تھا، کھلم کھلا دھمکی بھی دی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کچھے پاکستان کو بچایا بھی اور اسے جوہری ملک بھی بنایا، شملہ معاہدہ بھی کیا، اس لیے وہ دوبارہ انتخابات میں پھر جیت جاتے، اس بات کا علم حزب اختلاف کو بھی تھا۔ لہٰذا بھٹو کے خلاف ایک سازش یہ کی گئی کہ نواب احمد خان جو قتل ہوئے تھے، ان کی ایف آئی آر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھی۔ انھیں مسعود محمود جو ایف ایس ایف کا سربراہ تھا، وعدہ معاف گواہ کے طور پر مل گیا اور آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بے رحمی سے پھانسی کے گھاٹ تک پہنچا دیا گیا۔ انھوں نے بھی پھانسی گوارا کی، ملک سے بھاگنا پسند نہ کیا، اس لیے وہ سیاست میں امر ہوگئے۔
میرا یہ مضمون لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تاریخ بتلاؤں کہ جس ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد پر ہوا، اس کا انجام ایک گمنام ایف آئی آر پر ہوا۔ ایسے ہی میاں نواز شریف کے خلاف الزام کا آغاز پاناما سے ہوا، بیرون ملک فلیٹس کی منی ٹریل سے ہوا اور آج بات پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ اقامہ سے منسلک نظر آرہے ہیں۔
یہ اقامہ دراصل وہ اجازت نامہ ہے جو عرب ممالک میں ان کو دیا جاتا ہے جو کسی کاروبارسے منسلک ہوں یا وہاں کوئی ملازمت کرتے ہوں۔ اس اقامہ کی مدت سال سے لے کر دو یا تین سال ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اقامہ ہولڈر اس ملک میں بغیر مزید ویزے کے آجا سکتا ہے۔ لیکن یہ سہولت نہ کسی ہمارے وزیر کو، نہ مشیر کو، نہ ہی وزیراعظم کو سوٹ کرتی ہے، کیونکہ اگر اقامہ صرف آنے اور جانے کی سہولت کے لیے لیا گیا تو وہ ان عرب ملکوں کے قوانین کے خلاف ہے، بلکہ جرم ہے۔
یہ معاملہ عدالت میں آگیا اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بڑی سنجیدگی اور شفافیت سے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اگر اقامہ کے معاملے پر توجہ دی گئی تو کم سے کم وہ تمام وزیر، مشیر، سب کے سب صرف اقامہ رکھنے کی پاداش میں 62 اور 63 کی زد میں ضرور آئیں گے، کیونکہ اقامہ ہولڈر نے صادق اور امین نہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
یہ موقع ہے جب عدالت عظمیٰ اقامہ ہولڈر کے لیے کوئی آئینی اور قانونی ایسی وضاحت پیش کردے جس میں اقامہ ہولڈر نااہل ہوجائیں تو اس سے ان سیاستدانوں کو بے نقاب کرنے میں آسانی ہوگی جو اس ملک میں عوامی خدمت جذبہ حب الوطنی سے نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہاں اختیارات سے بے جا فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاست کر رہے ہیں اور جب انھیں موقع ملے گا وہ وطن کی پاک سرزمین کو چھوڑ کر اقامہ یا دہری شہریت کی آڑ میں چلے جائیں گے۔ یہ صاحبانِ عدل و انصاف کی ذمے داری ہے کہ ایسے لوگوں کو بے نقاب بھی کریں اور انھیں ہمیشہ کے لیے نااہل بھی اور بے جا اختیارات سے حاصل کی ہوئی آمدنی کو قومی خزانے میں واپس بھی لائیں۔