’’کاش ایسا نہ ہوتا‘‘
سیاستدانوں کی کرپشن، بھتے، ڈاکے، چوریاں اور منی لانڈرنگ انھیں اُس وقت تک کچھ نہیں کہتی جب تک اُن کا اپنا مفاد نہ ہو۔
پاناما کیس کا فیصلہ ہوگیا، جسے ہر سطح پر سراہا جانا چاہیے مگر کہیں کہیں ایسا محسوس کرایا جارہا ہے کہ شریف خاندان کرپٹ نہیں ہے اور وزیراعظم کو غلط ''نا اہل'' کیا گیا ہے، چند ایک اینکرز کے نزدیک شاید یہ بھی غلط ہوا ہے کہ ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف قومی احتساب بیورو ( نیب ) میں پانچ چھ ریفرنسز بھی دائر ہونے جا رہے ہیںاور ان کے نزدیک یہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہو سکتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے ۔ کیا لندن فلیٹس اور آف شور کمپنیاں ان کی ملکیت نہیں ہیں؟ کیا بیرون ملک بینکوں میںموجود رقم ان کی نہیں ہے ؟ کیا سیاست میں آنے سے پہلے اس خاندان کا شمار ملک کے سو امیر ترین خاندانوں میں بھی ہوتا تھا؟
چلیں ایک لمحے کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ ''کاش ایسا نہ ہوتا'' اور نواز شریف یوں ہی کام کرتے رہتے، لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے اگر اس ملک کے سیاستدان 30، 35سال سے کرپشن کر رہے ہیں تو ملک کے ادارے حرکت میں کیوں نہیں آئے؟ حالانکہ اداروں کے پاس سیکڑوں قسم کے ثبوت بھی موجود ہوں گی مگر پھر بھی کارروائی نہیں کی گئی اور جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنا دی اور اس جے آئی ٹی کو تمام ثبوت فراہم کردیے گئے۔
حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ ادارے پہلے ثبوت اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور جب اُن کا دل چاہتا ہے انھیں استعمال کرلیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کا تو احتساب شروع ہوگیا ہے جو ہونا بھی چاہیے، لیکن اُن کو بھی تو سز ا ملنی چاہیے جنہوں نے کرپشن کو روکا نہیں اور اسے چلنے دیا۔ اور رہی بات اسٹیبلشمنٹ کی تو بادی النظر میں اس سب میںوہ بھی برابر کی قصور وار ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی محض اپنے مفادات ہی عزیز ہیں۔
سیاستدانوں کی کرپشن، بھتے، ڈاکے، چوریاں اور منی لانڈرنگ انھیں اُس وقت تک کچھ نہیں کہتی جب تک اُن کا اپنا مفاد نہ ہو۔ جیسے ہی سیاستدان کی ''حرکات و سکنات'' ان کو بھلی نہ لگیں اُسی وقت بندہ 'فارغ' پھر مینڈیٹ کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ یعنی آج بھی وہی کام ہو رہا ہے جو 160سال پہلے ہندوستان میں بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہوا تھا، اس کے درباری اور متعدد اداروں کو جب تک اُس کی ضرورت تھی تب تک اُسے استعمال کیا جاتا رہا اور بہادر شاہ ظفر بھی جب نواز شریف کی طرح پھنس گیا تو اس کے درباریوں مرزا الٰہی بخش اور حکیم احسن اللہ خان سمیت کئی اداروں کے سربراہ گواہی دینے کے لیے آن پہنچے اور وعدہ معاف گواہ بن گئے۔
برصغیر کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے اسکاٹش مصنف ولیم ڈالریمپل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''The Last Mughal''میں لکھتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ان میں غداری' بغاوت اور سازش سرفہرست تھے۔ شہزادوں پر الزام تھا کہ وہ کرپشن کرتے ہیں ،گھروں پر قبضے کرتے ہیں۔اس مقدمے کے درمیان جب اُس وقت کے جج نے پوچھا کہ اگر یہ کام کئی سالوں سے جاری ہے تو ادارے حرکت میں کیوں نہیں آئے تو ایک فرنگی نے جواب دیا کہ مائی لارڈ یہ ادارے موصوف کے ''گھر'' کے ادارے تھے، جنھیں سب کچھ علم تھا مگر یہ اس لیے نہیں بولتے تھے کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے تو اچھا ہوگا۔
آج بھی کچھ نہیں بدلا ان ''گھریلو'' قسم کے سرکاری اداروں نے کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک تباہ کر دیا ہے۔ سسٹم بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکی مفاد میں اپنا کام کرنا چاہیے، سسٹم ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی کرپشن نہ کر سکے اور ایسا قانون بنا دینا چاہیے کہ جس پر کرپشن کا ایک بھی کیس دائر ہو جائے وہ سرکاری یا عوامی عہدہ نہ رکھ سکے۔ لیکن افسوس مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ اب شاہد خاقان عباسی عبوری وزیر اعظم بن گئے ہیں۔
سنا ہے ان کا کیس بھی نیب کے پاس ہے ۔ عوام یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ن لیگ کے پاس کیا اور کوئی چوائس نہیں بچی؟ اور شہباز شریف کو مستقل وزیر اعظم لا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیشہ بڑی سیٹوں کو خاندان سے باہر نہیں جانے دینایعنی نظام نہیں بدل رہا، وہی خاقان عباسی، پھر وہی شہباز شریف اور پھر وہی اے بی۔سی۔ مجھے یقین ہے کہ میاں شہباز شریف کے اوپر بھی مقدمات کی سماعت کا آغاز ہو جائے گا۔ جن میں نیب کے مقدمات سمیت حدیبیہ پیپر مل سر فہرست ہیں۔
میرے خیال میں اگر ہم نے خود احتسابی کا نظام نہ اپنایا تو اس ملک میں کرپش کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔کرپشن میں ملوث لوگوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے لیکن قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ کرپٹ لوگوں کو اس وقت تک معافی نہیں ملنی چاہیے، جب تک وہ رقم واپس نہ کریں۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کے وفاقی اورصوبائی اداروں خصوصاً نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، صوبائی اینٹی کرپشن کے اداروں کو بااختیار کرنا ہو گا اور وہاں خود احتسابی کا نظام وضع کرنا ہو گا۔ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے، جو تمام ادارے مل کر پورا کر سکتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ احتساب سے جمہوریت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو وزیر اعظم بھی ملکی ترقی کے بارے میں سوچے گا ، پھر یہ کہنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی کہ ''کاش ایسا نہ ہوتا''۔
چلیں ایک لمحے کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ ''کاش ایسا نہ ہوتا'' اور نواز شریف یوں ہی کام کرتے رہتے، لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے اگر اس ملک کے سیاستدان 30، 35سال سے کرپشن کر رہے ہیں تو ملک کے ادارے حرکت میں کیوں نہیں آئے؟ حالانکہ اداروں کے پاس سیکڑوں قسم کے ثبوت بھی موجود ہوں گی مگر پھر بھی کارروائی نہیں کی گئی اور جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنا دی اور اس جے آئی ٹی کو تمام ثبوت فراہم کردیے گئے۔
حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ ادارے پہلے ثبوت اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور جب اُن کا دل چاہتا ہے انھیں استعمال کرلیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کا تو احتساب شروع ہوگیا ہے جو ہونا بھی چاہیے، لیکن اُن کو بھی تو سز ا ملنی چاہیے جنہوں نے کرپشن کو روکا نہیں اور اسے چلنے دیا۔ اور رہی بات اسٹیبلشمنٹ کی تو بادی النظر میں اس سب میںوہ بھی برابر کی قصور وار ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی محض اپنے مفادات ہی عزیز ہیں۔
سیاستدانوں کی کرپشن، بھتے، ڈاکے، چوریاں اور منی لانڈرنگ انھیں اُس وقت تک کچھ نہیں کہتی جب تک اُن کا اپنا مفاد نہ ہو۔ جیسے ہی سیاستدان کی ''حرکات و سکنات'' ان کو بھلی نہ لگیں اُسی وقت بندہ 'فارغ' پھر مینڈیٹ کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ یعنی آج بھی وہی کام ہو رہا ہے جو 160سال پہلے ہندوستان میں بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہوا تھا، اس کے درباری اور متعدد اداروں کو جب تک اُس کی ضرورت تھی تب تک اُسے استعمال کیا جاتا رہا اور بہادر شاہ ظفر بھی جب نواز شریف کی طرح پھنس گیا تو اس کے درباریوں مرزا الٰہی بخش اور حکیم احسن اللہ خان سمیت کئی اداروں کے سربراہ گواہی دینے کے لیے آن پہنچے اور وعدہ معاف گواہ بن گئے۔
برصغیر کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے اسکاٹش مصنف ولیم ڈالریمپل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''The Last Mughal''میں لکھتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ان میں غداری' بغاوت اور سازش سرفہرست تھے۔ شہزادوں پر الزام تھا کہ وہ کرپشن کرتے ہیں ،گھروں پر قبضے کرتے ہیں۔اس مقدمے کے درمیان جب اُس وقت کے جج نے پوچھا کہ اگر یہ کام کئی سالوں سے جاری ہے تو ادارے حرکت میں کیوں نہیں آئے تو ایک فرنگی نے جواب دیا کہ مائی لارڈ یہ ادارے موصوف کے ''گھر'' کے ادارے تھے، جنھیں سب کچھ علم تھا مگر یہ اس لیے نہیں بولتے تھے کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے تو اچھا ہوگا۔
آج بھی کچھ نہیں بدلا ان ''گھریلو'' قسم کے سرکاری اداروں نے کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک تباہ کر دیا ہے۔ سسٹم بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکی مفاد میں اپنا کام کرنا چاہیے، سسٹم ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی کرپشن نہ کر سکے اور ایسا قانون بنا دینا چاہیے کہ جس پر کرپشن کا ایک بھی کیس دائر ہو جائے وہ سرکاری یا عوامی عہدہ نہ رکھ سکے۔ لیکن افسوس مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ اب شاہد خاقان عباسی عبوری وزیر اعظم بن گئے ہیں۔
سنا ہے ان کا کیس بھی نیب کے پاس ہے ۔ عوام یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ن لیگ کے پاس کیا اور کوئی چوائس نہیں بچی؟ اور شہباز شریف کو مستقل وزیر اعظم لا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیشہ بڑی سیٹوں کو خاندان سے باہر نہیں جانے دینایعنی نظام نہیں بدل رہا، وہی خاقان عباسی، پھر وہی شہباز شریف اور پھر وہی اے بی۔سی۔ مجھے یقین ہے کہ میاں شہباز شریف کے اوپر بھی مقدمات کی سماعت کا آغاز ہو جائے گا۔ جن میں نیب کے مقدمات سمیت حدیبیہ پیپر مل سر فہرست ہیں۔
میرے خیال میں اگر ہم نے خود احتسابی کا نظام نہ اپنایا تو اس ملک میں کرپش کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔کرپشن میں ملوث لوگوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے لیکن قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ کرپٹ لوگوں کو اس وقت تک معافی نہیں ملنی چاہیے، جب تک وہ رقم واپس نہ کریں۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کے وفاقی اورصوبائی اداروں خصوصاً نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، صوبائی اینٹی کرپشن کے اداروں کو بااختیار کرنا ہو گا اور وہاں خود احتسابی کا نظام وضع کرنا ہو گا۔ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے، جو تمام ادارے مل کر پورا کر سکتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ احتساب سے جمہوریت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو وزیر اعظم بھی ملکی ترقی کے بارے میں سوچے گا ، پھر یہ کہنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی کہ ''کاش ایسا نہ ہوتا''۔